ترکی میں 6.2 شدت کا زلزلہ: کتنا نقصان ہوا؟

استنبول کے قریب 6.2 شدت کا ایک طاقتور زلزلہ آیا، جس سے ترکی کے سب سے بڑے شہر میں جھٹکے محسوس کیے گئے اور رہائشیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق زلزلہ کا مرکز سلویری کے قریب بحیرہ مارمارا تھا، جو مقامی وقت کے مطابق دوپہر 12:49 پر آیا اور پورے خطے میں اسے شدت سے محسوس کیا گیا۔ عالمی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ ترکی کی ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ پریذیڈنسی (AFAD) کے مطابق استنبول اور اس کے گرد و نواح میں زلزلوں کے سلسلے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔ پہلا زلزلہ مقامی وقت کے مطابق 12 بج کر 13 منٹ پر (برطانوی وقت کے مطابق 10:13 BST) سلیوری ضلع کے ساحلی علاقے میں محسوس کیا گیا، جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 3.9 ریکارڈ کی گئی۔ اس کے بعد دوپہر 12 بج کر 49 منٹ پر (10:49 BST) ایک شدید زلزلے نے اسی علاقے کو لرزا دیا، جس کی شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔ یہ جھٹکا سب سے طاقتور تھا اور اس کے بعد شہریوں میں شدید خوف و ہراس دیکھا گیا۔ تیسرا زلزلہ صرف دو منٹ بعد، یعنی 12:51 پر (10:51 BST) استنبول کے ضلع بیوک چکمجہ (Buyukcekmece) میں آیا، جس کی شدت 4.4 ریکارڈ کی گئی۔ واضح رہے کہ زلزلوں کے ان پے در پے جھٹکوں کے بعد ایمرجنسی سروسز کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ اس وقت تک کسی بھی قسم کے جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئی ہیں، جب کہ حکام نے دو چھوٹے آفٹر شاکس کی اطلاع دی ہے۔ خیال رہے کہ استنبول 16 ملین افراد کا گھر ہے، جو شمالی اناطولیہ فالٹ کے قریب واقع ہے، جس کی وجہ سے زلزلے کی سرگرمیوں کی تاریخ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ دنیا بھر میں زلزلے ایک قدرتی آفت کے طور پر بے شمار جانوں کے نقصان کا باعث بن چکے ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق زلزلے زمین کی اندرونی پرتوں میں ہونے والی حرکات کے نتیجے میں آتے ہیں، آج میانمارمیں زلزلے کے زور دار جھٹکےمحسوس کئے گئےہیں، ریکٹر اسکیل پر زلزلےکی شدت 7.7 ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں پر مشتمل ہے، جن میں یوریشین، انڈین اور اریبین پلیٹیں شامل ہیں۔ زیر زمین حرارت اور دباؤ کے بڑھنے سے یہ پلیٹس سرکتی ہیں، جس کے نتیجے میں زمین میں لرزش پیدا ہوتی ہے اور یہی لرزش زلزلہ کہلاتی ہے۔ زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں طرف پھیلتی ہیں، جس کی شدت زمین کی ساخت اور فالٹ لائنز کے قریب ہونے پر منحصر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں، وہ زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر کسی علاقے میں ایک مرتبہ شدید زلزلہ آ چکا ہو تو وہاں دوبارہ بڑے زلزلے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی ساخت کو دیکھا جائے تو ملک کا تقریباً دو تہائی حصہ فالٹ لائنز پر واقع ہے، جس کے باعث کسی بھی وقت شدید زلزلے کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی حساس ہیں، درجہ بندی کے مطابق پاکستان زلزلے کے خطرے کے حوالے سے پانچواں حساس ترین ملک ہے۔ ملک کے اہم شہر اور علاقے، جن میں کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور، مکران، ایبٹ آباد، گلگت اور چترال شامل ہیں، زلزلوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان میں سے کشمیر اور گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے، جہاں فالٹ لائنز زیادہ متحرک ہیں۔ پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے، جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لاکھوں سال سے جاری اس جغرافیائی تبدیلی کے باعث انڈین پلیٹ مسلسل یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنس؎ رہی ہے، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے زیرِ زمین فالٹ لائنز متحرک ہیں اور یہاں معمولی یا درمیانے درجے کے زلزلے وقفے وقفے سے محسوس کیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زلزلوں کی پیشگوئی ممکن نہیں، لیکن بہتر انفراسٹرکچر، مضبوط عمارتوں کی تعمیر اور عوامی آگاہی کے ذریعے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ زلزلے کے خطرے والے علاقوں میں مضبوط عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنائے اور عوام کو ایمرجنسی صورتحال میں عمل کرنے کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرے۔
14 سال بعد شام اور آئی ایم ایف کے درمیان معاشی تعاون بحال

واشنگٹن ڈی سی میں دنیا بھر کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینک کے سربراہان سالانہ آئی ایم ایف-ورلڈ بینک اسپرنگ میٹنگز کے لیے جمع ہوئے۔ اس میٹنگ میں شام کے وزیر خزانہ محمد یسر برنیہ نے لنکڈ اِن پر ایک تصویر شیئر کی، جس میں وہ آئی ایم ایف کے نئے شام مشن چیف، رون فان رودن سے گرمجوشی سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ یہ تصویر صرف رسمی ملاقات نہیں تھی بلکہ 14 سال کے تعطل کے بعد ایک نئے باب کا اعلان تھا۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب شام کی نئی قیادت جو بشارالاسد کی طویل آمریت کے خاتمے کے بعد برسراقتدار آئی ہے اسے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے، معاشی روابط استوار کرنے اور سخت امریکی پابندیوں میں نرمی لانے کے لیے کوشاں ہے۔ 2009 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب آئی ایم ایف کا کوئی مشن شام سے براہ راست جڑا ہے۔ اس کے بعد آنے والی خانہ جنگی نے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا مگر اب حالات بدلنے لگے ہیں۔ نئی حکومت عالمی فورمز پر اپنے قدم جما رہی ہے۔ برنیہ اور شام کے مرکزی بینک کے گورنر عبدالقادر حصریہ نے اس سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ شام دوبارہ اٹھنے کو تیار ہے۔ اس کے علاوہ سعودی وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک نے شام پر ایک خصوصی راؤنڈ ٹیبل کی میزبانی کی، جسے برنیہ نے “غیر معمولی کامیابی” قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگلے تین سالوں میں شام کو 1.3 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی جائے گی۔ یہ سب اشارے ہیں کہ شام عالمی برادری کے نقشے پر دوبارہ ابھرنے جا رہا ہے۔ رون فان رودن کی تعیناتی صرف ایک علامتی قدم نہیں بلکہ شام کی معیشت کو نئی زندگی دینے کی سمت ایک عملی آغاز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “کیا یہ نیا مشن شام کو معاشی تاریکی سے نکال کر ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کر سکے گا؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا، مگر فی الحال، امید کی ایک کرن ضرور روشن ہوئی ہے۔ مزید پڑھیں: “بدنام کرنا بند کرو، کشمیری ایسا نہیں کرتے،” پہلگام واقعے پر کشمیری کا مودی سرکار سے سوال
“بدنام کرنا بند کرو، کشمیری ایسا نہیں کرتے،” پہلگام واقعے پر کشمیری کا مودی سرکار سے سوال

پہلگام میں پیش آنے والے حالیہ واقعے نے وادی کشمیر میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ مقامی کشمیری شہریوں نے اس واقعے کو ’’فالس فلیگ‘‘ قرار دیتے ہوئے انڈین حکومت کے پراپیگنڈے پر اہم سوالات اٹھا دیے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سات لاکھ فوج کی موجودگی میں حملہ کیسے ممکن ہوا؟ اتنی بھاری سیکیورٹی اور جدید انٹیلیجنس سسٹم کے باوجود حملہ آوروں کا داخل ہونا کسی بھی طور قابلِ قبول جواز نہیں۔ ایک مقامی نوجوان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “یہ حملہ نہیں، ایک منصوبہ بند سازش ہے اور کشمیر کے نام پر صرف مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ 1990 کی دہائی میں جب وادی میں سیکیورٹی کا نام و نشان تک نہ تھا، تب بھی کشمیری عوام نے سیاحوں کو نقصان نہیں پہنچایا۔ تو آج، جب ہر قدم پر چیک پوسٹ ہے، ہر گلی نگرانی میں ہے تو یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ اہل کشمیر مطالبہ کر رہے ہیں کہ امیت شاہ اور انڈین حکومت کشمیریوں پر الزامات لگانے کے بجائے اپنی ناکامیوں کا اعتراف کریں۔ مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملہ: انڈین میڈیا کا ہمیشہ کی طرح پاکستان پر الزام
48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کے لیے ’نقصان دہ‘ قرار دے دیا

عام طور پر سوشل میڈیا کو نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک حالیہ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ خود نوجوان اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر کی اس تحقیق میں 13 سے 17 سال کے لگ بھگ 1400 نوجوان شامل کیے گئے، اور ان سے سوشل میڈیا کے اثرات سے متعلق رائے لی گئی۔ تحقیق میں پتا چلا کہ ہر پانچ میں سے ایک نوجوان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا نے اس کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالا ہے۔ 14 فیصد نوجوانوں نے براہِ راست کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ان کی دماغی کیفیت متاثر ہوئی، جبکہ 48 فیصد نے مجموعی طور پر اسے اپنی عمر کے افراد کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ مزید پڑھیں: صحرا کی ریت پر سیاہ گوش کی چاپ، چولستان میں کیراکیل کی موجودگی دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑکیوں کی جانب سے یہ اثرات زیادہ رپورٹ ہوئے۔ 25 فیصد لڑکیوں نے کہا کہ سوشل میڈیا سے ان کا اعتماد اور نیند متاثر ہوئی، جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 14 فیصد تھی۔ یہ تحقیق ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکا کے سرجن جنرل پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ سوشل میڈیا نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان اب پہلے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزار رہے ہیں، 45 فیصد نے کہا کہ وہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ مگر اس تمام کے باوجود نوجوان صرف منفی پہلوؤں پر ہی نہیں دیکھتے۔ تحقیق میں 74 فیصد نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا سے انہیں اپنے دوستوں سے زیادہ جڑنے کا موقع ملا۔ یعنی سوشل میڈیا نے تعلقات کو مضبوط بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف والدین کی تشویش نوجوانوں سے زیادہ شدید ہے۔ 55 فیصد والدین نے کہا کہ انہیں نوجوانوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے سخت خدشات لاحق ہیں۔ تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوان اب سوشل میڈیا کو ذہنی صحت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں، جو ایک مثبت رجحان ہو سکتا ہے اگر ان معلومات کے ذرائع معتبر ہوں۔ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے اثرات پیچیدہ اور دو رُخی ہیں؛ جہاں اس کے کچھ پہلو ذہنی دباؤ، بےاعتمادی اور نیند میں خلل پیدا کرتے ہیں، وہیں کچھ نوجوان اسے رابطے، معلومات اور جذباتی سہارا حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
صحرا کی ریت پر سیاہ گوش کی چاپ، چولستان میں موجود ’کیراکیل‘ کیا ہے؟

پاکستان کے جنوب مشرقی صحرا چولستان میں ایک نایاب اور خوبصورت جنگلی جانور کیراکیل (Caracal) کی دوبارہ موجودگی نے ماحولیاتی ماہرین، وائلڈ لائف حکام اور مقامی افراد کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ صحرائے چولستان میں یہ نایاب بلی پہلی بار دیکھی گئی ، حالیہ مشاہدہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ علاقہ اب بھی جنگلی حیات کے لیے سازگار ہے بشرطیکہ اسے تحفظ دیا جائے۔ کیراکیل کون ہے؟کیراکیل ایک درمیانے سائز کا گوشت خور جنگلی جانور ہے، جو اپنے نوکیلے کانوں، تیز دھار آنکھوں اور سبک رفتار جسم کے باعث پہچانا جاتا ہے۔ اس کا رنگ عام طور پر زرد مائل بھورا ہوتا ہے، اور اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کے کانوں پر سیاہ بال ہوتے ہیں جو اسے دوسرے جنگلی بلیوں سے ممتاز بناتے ہیں۔ یہ جانور نہ صرف زمین پر بلکہ درختوں پر بھی مہارت سے شکار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہےیہ جانور نہایت تیز رفتار اور پھرتیلا ہے۔ اس کی چھلانگ کی صلاحیت 3 میٹر تک ہوتی ہے، اور یہ 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ کیراکیل عام طور پر رات کے وقت متحرک ہوتا ہے، اور اپنے شکار جیسے کہ چوہے، خرگوش، چھوٹے ہرن اور پرندے کو خاموشی سے قابو میں لاتا ہے۔ اس کی یہ خوبیاں اسے قدرتی ماحولیاتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں اس سال پولیو کا دوسرا کیس، 11 سالہ بچے میں علامات ظاہرکیراکیل بنیادی طور پر افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے خشک اور نیم بنجر علاقوں میں پایا جاتا ہے، اور پاکستان میں اس کی موجودگی کبھی بھی کثیر تعداد میں نہیں رہی۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں یہ جانور تقریباً ناپید ہو چکا تھا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں غیر قانونی شکار، خوراک اور مسکن کی قلت، انسانی آبادکاری کا پھیلاؤ اور ماحولیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ مقامی لوگ اکثر اسے اپنے مویشیوں کے لیے خطرہ سمجھ کر مار دیتے ہیں، جبکہ کچھ اسے غیر قانونی طور پر پالتو بنانے یا کھال کی تجارت کے لیے شکار کرتے ہیں۔ حالیہ مشاہدہ کیسے ممکن ہوا؟حال ہی میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو نے جنگلی حیات کے ماہرین کو متوجہ کیا، جس میں ایک کیراکیل چولستان کے علاقے میں ایک ویران ٹیلے پر دھوپ سینکتے دیکھا گیا۔ اس ویڈیو کی تصدیق وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے کی، اور مقامی رضاکاروں کی مدد سے علاقے میں سروے کا آغاز بھی کیا گیا ہے تاکہ مزید مشاہدات کو ریکارڈ کیا جا سکے ماہرین کے مطابق، کیراکیل کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ چولستان کا ماحولیاتی نظام ابھی مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔ یہ جانور اپنے ماحول میں چوہے، خرگوش، چھوٹے ہرن اور پرندوں کا شکار کرتا ہے، اور یوں قدرتی توازن قائم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو میں اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رینجر آفیسر مجاہد کلیم نے بتایا کہ صحرائے چولستان میں چوکی ایریا کے قریب caracal نامی سیاہ گؤش بلی شکار کی غرض سے نایاب چنکارا ہرنوں کے جھنڈ کے قریب دیکھی گئی۔ وائلڈ لائف آفیسر کا کہنا ہے صحرائے چولستان میں پنجاب کے علاقے میں نایاب بلی پہلی بار دیکھی گئی جس پر انہوں نے اسکی ویڈیو ریکارڈ کی آفیسر کے مطابق نایاب سیاہ گؤش بلی اپنے قدرتی مسکن میں تھی لمبے کانوں اور درمیانے قد والی اس سیاہ گؤش بلی کا شمار دنیا بھر میں خوبصورت اور نایاب بلیوں میں ہوتا ہے۔ یہ نایاب بلی پرندوں چوہوں اور خرگوش سمیت ہرنوں کا شکار کرتی ہے جو 9 سے 10 فٹ تک اڑ کر شکار کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ یہ نایاب بلی ایک وقت میں 1 سے 6 بچے دیتی ہے نایاب سیاہ گؤش عمومی طور پر میڈل ایسٹ، افریقہ اور مختلف ایشیائی ممالک میں پائی جاتی ہے، وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ جنگی حیات ہمارا قومی اثاثہ ہے جنکو بچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ محکمہ وائلڈ لائف کی کوششیں:پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے کیراکیل کے تحفظ کے لیے آگاہی مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، جبکہ چولستان کے کچھ حصوں کو “کنزرویشن زونز” قرار دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔چولستان کے چرواہوں اور مقامی رہائشیوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ اگر وہ اس جانور کو دیکھیں تو فوراً اطلاع دیں، اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم اس نایاب خزانے کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھ سکیں یا اسے بھی دیگر معدوم جانوروں کی فہرست میں شامل کر بیٹھیں چولستان میں کیراکیل کی واپسی نہ صرف ایک ماحولیاتی خبر ہے بلکہ ایک امید بھی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر قدرت کو موقع دیا جائے تو وہ دوبارہ سانس لے سکتی ہے۔ محکمہ جنگلی حیات اور غیر سرکاری اداروں نے اس نایاب جانور کے تحفظ کے لیے آگاہی مہم کا آغاز کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ مقامی افراد سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس کی اطلاع فوری دیں اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچائیں۔ چولستان کا صحرا اگرچہ ویران دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے خاموش منظرنامے میں قدرت کی خوبصورت گواہیاں چھپی ہوئی ہیں, جن میں کیراکیل بھی ایک نایاب خزانہ ہے، جسے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
میٹا نے انسٹاگرام صارفین کے لیے مفت ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ لانچ کردی

جنوری 2025 میں کیے گئے اعلان کے بعد بالآخر میٹا نے اپنی نئی ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ “ایڈیٹس” کو باقاعدہ طور پر لانچ کر دیا ہے۔ انسٹاگرام کے لیے متعارف کی گئی یہ جدید ایپ بظاہر ٹک ٹاک کی مقبول ایڈیٹنگ ایپ “کیپ کٹ” کے لیے براہ راست چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ ‘ایڈیٹس’ ایک مفت ویڈیو ایڈیٹنگ ایپ ہے جو اپنی نوعیت کے منفرد اور ایڈوانسڈ ٹولز سے لیس ہے۔ اس کا سب سے بڑا فیچر اس کا 10 منٹ کا ان ایپ کیمرا ہے جس کی مدد سے صارفین بہترین کوالٹی کی ویڈیوز ریکارڈ کر کے فوراً انسٹاگرام پر شیئر کر سکتے ہیں۔ ایپ میں شامل گرین اسکرین ایفیکٹ، انسٹاگرام کا وسیع میوزک کیٹلاگ اور تخلیقی ویژول ایفیکٹس صارفین کے لیے ایک نیا تخلیق ظاہر ہوتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: گوگل سرچ مارکیٹ پر قبضے کے لیے AI کا استعمال کر سکتا ہے، امریکی محکمہ انصاف لیکن اصل فیچر تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) سے لیس دو فیچرز نے کیا ہے “animate” اور “cutouts”۔ “animate” کے ذریعے صارفین صرف ایک تصویر سے ویڈیو بنا سکتے ہیں جبکہ “cutouts” کی مدد سے کسی بھی ویڈیو سے مخصوص فرد یا شے کو آسانی سے نکالنا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ وہ فیچرز ہیں جو صرف ایک کلک کی دوری پر ہیں لیکن ویڈیو پروڈکشن کو ایک نئے معیار تک پہنچا دیتے ہیں۔ انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے جنوری میں بتایا تھا کہ ‘ایڈیٹس’ ایک ایسی ایپ ہے جو نہ صرف ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے بلکہ تخلیقی ذہنوں کے لیے ایک طاقتور پلیٹ فارم بھی ہے۔ ایپ میں “انسپائریشن” نامی ایک الگ ٹیب بھی شامل ہے جہاں نئے خیالات کے لیے مواد دستیاب ہوتا ہے جبکہ دوسری ٹیب ابتدائی آئیڈیاز کو منظم طریقے سے ٹریک کرتی ہے۔ میٹا نے اعلان کیا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے۔ ایڈیٹس کا موجودہ ورژن پہلا قدم ہے اور مستقبل میں مزید تخلیقی افراد کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے اس میں مزید جدید فیچرز شامل کیے جائیں گے۔ ‘ایڈیٹس’ اس وقت ایپل ایپ اسٹور اور گوگل پلے اسٹور دونوں پر دستیاب ہے۔ مزید پڑھیں: اوپن اے آئی کی گوگل براؤزر کروم کو خریدنے کی پیش کش, کون سے نئے منصوبے آرہے ہیں؟
خیبر پختونخوا میں اس سال پولیو کا دوسرا کیس، 11 سالہ بچے میں علامات ظاہر

خیبر پختونخوا کے ضلع طورغر سے پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے۔ یہ اس سال صوبے سے رپورٹ ہونے والا دوسرا کیس ہے، جبکہ ملک بھر میں اب تک مجموعی طور پر سات کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ حکام کے مطابق پولیو سے متاثرہ بچے کی عمر 11 سال ہے اور اس کے چہرے پر جزوی طور پر فالج کی علامات ظاہر ہوئی ہیں۔ متاثرہ بچہ ضلع طورغر کے ایک دور دراز علاقے سے تعلق رکھتا ہے، جہاں ویکسینیشن ٹیموں کی رسائی میں اکثر مشکلات پیش آتی ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ بچے کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے مکمل طور پر نہیں پلائے گئے تھے، جس کے باعث وہ وائرس کا شکار ہوا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچے کے چہرے کی حرکت متاثر ہوئی ہے اور وہ نارمل انداز میں چہرہ نہیں ہلا پا رہا۔ پولیو پروگرام کے ترجمان نے اس واقعے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ گیارہ سال کی عمر میں ایسے کیس کا سامنے آنا ظاہر کرتا ہے کہ ویکسینیشن کے عمل میں کہیں نہ کہیں خلا موجود ہے۔ کا کہنا تھا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ پولیو مہم کے دوران بچوں کو لازمی قطرے پلوائیں، کیونکہ ہر بچہ وائرس کے خطرے میں ہے۔ یہ بھی پڑھیں: دلہن کو ملنے والے جہیز اور تحائف پر شوہر کا کوئی حق نہیں، سپریم کورٹ رواں سال پاکستان میں مجموعی طور پر سات پولیو کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں سے دو خیبر پختونخوا سے ہیں۔ دیگر کیسز ملک کے مختلف حصوں سے سامنے آئے ہیں۔ حکومت نے ان کیسز کے بعد پولیو کے خلاف ہنگامی اقدامات کا اعلان کیا ہے اور طورغر سمیت دیگر حساس علاقوں میں دوبارہ سے انسداد پولیو مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پولیو ایک قابلِ علاج بیماری ہے، لیکن اس کے لیے مسلسل ویکسینیشن، والدین کا تعاون اور پولیو ٹیموں کی حفاظت انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہر بچے کو بروقت قطرے نہیں پلائے جائیں گے، پولیو کے خطرات باقی رہیں گے۔ یہ کیس ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پولیو کا مکمل خاتمہ ابھی باقی ہے اور اس مقصد کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
دلہن کو ملنے والے جہیز اور تحائف پر شوہر کا کوئی حق نہیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو دی جانے والی تمام اشیاء، چاہے وہ جہیز کی صورت میں ہوں یا برائیڈل گفٹس کے طور پر، وہ دلہن کی مکمل اور غیر مشروط ملکیت تصور ہوں گی۔ ان اشیاء پر شوہر یا اُس کے اہلخانہ کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔ یہ فیصلہ جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل بینچ نے سنایا، جو شمسہ اصغر نامی خاتون کے سابق شوہر محمد ساجد کے خلاف دائر کیے گئے جہیز اور نان نفقہ کے مقدمے سے متعلق تھا۔ عدالت کے مطابق دلہن کو دی گئی ہر شے, خواہ وہ والدین کی جانب سے ہو یا دولہا یا اس کے خاندان کی طرف سے, دلہن کی ملکیت شمار ہوگی۔ البتہ اگر کوئی تحفہ دولہا یا اُس کے خاندان کو دیا گیا ہو، تو وہ نہ جہیز تصور ہوگا اور نہ ہی دلہن کو واپس دیا جا سکتا ہے۔ شمسہ اصغر نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے والدین نے نکاح کے وقت مکمل جہیز فراہم کیا، جس میں قیمتی اشیاء شامل تھیں، مگر طلاق کے بعد وہ اشیاء واپس نہیں دی گئیں۔ عدالت نے اس حوالے سے 1976 کے ڈاؤری اینڈ برائیڈل گفٹس (ریسٹرکشن) ایکٹ کا حوالہ دیا، جس کے مطابق جہیز، برائیڈل گفٹس اور عام تحائف میں واضح فرق موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری کا چولستان کینالز منصوبے پر سندھ کو جواب، “سیاست نہ کریں، منصوبہ صدر سے منظور شدہ ہے” فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف وہ اشیاء جو دلہن کو دی گئی ہوں، ان کی بازیابی فیملی کورٹس ایکٹ کے تحت ممکن ہے۔ اس موقع پر عدالت نے آئین پاکستان کی اُن دفعات کا بھی حوالہ دیا جو خواتین کے جائیدادی حقوق، مساوات اور تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس فیصلے کا مقصد جہیز کی روایت کو فروغ دینا نہیں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ دلہن کو دی گئی اشیاء پر اُس کا مکمل حق برقرار رہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صرف حق مہر لازم ہے، جبکہ جہیز اکثر معاشرتی دباؤ اور ناانصافی کی علامت بن چکا ہے۔ فیصلے کے مطابق محمد ساجد کو دی گئی اشیاء چونکہ دلہن کے لیے مخصوص نہیں تھیں، لہٰذا ان کی بازیابی ممکن نہیں۔ عدالت نے ابتدائی عدالتوں کے فیصلے کو جزوی طور پر برقرار رکھتے ہوئے شمسہ اصغر کے کچھ مطالبات تسلیم کیے اور باقی اشیاء کو مقدمے سے خارج کر دیا۔
سیلاب کے پانی کو ضائع کرنے کے بجائے استعمال کیا جانا چاہیے، عظمیٰ بخاری

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ کینالز منصوبے میں صرف سیلاب کا پانی استعمال کیا جائے گا اور اس پر سندھ ہمیں ہدایات نہیں دے سکتا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو سندھ کے کسانوں کی فکر کیوں نہیں ہوتی؟ وہ خود سندھ میں 16 سال سے اقتدار میں ہے، پہلے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ اگر پیپلزپارٹی غلط بیانی کرے گی تو ہم جواب ضرور دیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ابھی تک کوئی نہر بننا شروع نہیں ہوئی، تاہم یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو نہریں نہیں بنیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات دھمکیوں سے نہیں ہوتے، بیٹھ کر بات چیت کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: عظمیٰ بخاری کا چولستان کینالز منصوبے پر سندھ کو جواب، “سیاست نہ کریں، منصوبہ صدر سے منظور شدہ ہے” عظمیٰ بخاری نے کہا کہ سیلاب کے پانی کو ضائع کرنے کے بجائے مفید منصوبوں میں استعمال کیا جانا چاہیے، سندھ کو یہ حق نہیں کہ وہ ہمیں بتائے ہم اس پانی کا کیا کریں۔ دریں اثنا، دریائے سندھ سے 6 کینالز نکالنے کے خلاف سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے، وکلا کی جانب سے سکھر ببرلو بائی پاس پر دھرنا بھی دیا گیا ہے، جس کے باعث سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹریفک معطل ہو گئی ہے۔ دوسری جانب، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ اور سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے درمیان اس مسئلے پر مذاکرات کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی: سرکاری ادارہ یا سفارش کا گڑھ؟

تحقیقی صحافی لحاظ علی کی ایک رپورٹ نے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (PDA) کے اصل چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ وہ ادارہ جو پشاور کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے قائم ہوا تھا، اب خود سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق PDA میں کل ملازمین کی تعداد 3,132 ہے، مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے 2,060 ملازمین درجہ چہارم کے ہیں یعنی ہر تین میں سے دو ملازم صرف چپڑاسی، مالی یا نائب قاصد ہیں۔ جب کہ افسران کی کل تعداد صرف 118 ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہوا کہ ہر افسر کے لیے اوسطاً 26 ماتحت ملازمین تعینات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ افسران آخر کرتے کیا ہیں؟ اس کے علاوہ وال مینوں کی تعداد پانچ، جو صرف پانی کے نلکے کھولنے اور بند کرنے پر مامور ہیں۔ مگر مالی؟ ان کی تعداد بھی حیران کن طور پر 1,100 سے زائد ہے۔ مسجد کے لیے چار آئمہ، 460 ہیلپرز، 150 سے زائد چوکیدار اور نائب قاصد 700 سے بھی زیادہ۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ان درجہ چہارم ملازمین میں بیشتر کا تعلق افسروں کے رشتہ داروں، جاننے والوں یا سیاسی سفارش سے ہے۔ جبکہ دو اعلیٰ افسران نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے جو کہ صورتحال کی سنگینی کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کا پیسہ واقعی عوامی خدمت میں استعمال ہو رہا ہے یا یہ صرف چند ہاتھوں میں کھیل بن چکا ہے؟ مزید پڑھیں: عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال بیت چکا، اب جسمانی ریمانڈ کی کوئی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ