پاکستان سکھر اور مظفر آباد میں دو نئے ‘عالمی’ ائیر پورٹس بنائے گا، کیا سہولیات ملیں گی؟

پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی نے سکھر اور مظفر آباد میں دو نئے عالمی ہوائی اڈے تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے، اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ منصوبے آئندہ پانچ برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔ حکام نے ان منصوبوں کو علاقائی رابطوں کو وسعت دینے اور ہوابازی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان ہوائی اڈوں کے لیے زمین کے حصول کے عمل کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جبکہ ابتدائی تعمیراتی کام PAA کے ورکس اینڈ ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی زیر نگرانی پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ ان منصوبوں پر مجموعی طور پر 2 ارب روپے لاگت آنے کا تخمینہ ہے۔ ڈیزائن اور تعمیر کے مراحل میں تکنیکی مشیر اور غیر ملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔ سکھر کا عالمی ہوائی اڈہ بالائی سندھ کے عوام کی سفری ضروریات پوری کرے گا، جبکہ مظفر آباد کا ہوائی اڈہ آزاد جموں و کشمیر کے لیے فضائی رسائی میں بہتری لائے گا۔ ان منصوبوں کو وفاقی حکومت کی جانب سے معیشت کو تقویت دینے کے لیے ایک اہم سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ پیش رفت وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے میرپور میں ایک اور عالمی ہوائی اڈے کے امکان پر فزیبلٹی اسٹڈی کا حکم دینے کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس حکم کی بنیاد برطانیہ میں منتخب اراکینِ پارلیمنٹ کی جانب سے وزیراعظم کو بھیجے گئے خط پر رکھی گئی ہے، جس میں وہاں مقیم کشمیری کمیونٹی کی سفری مشکلات کا ذکر کیا گیا تھا۔ ان اقدامات کو مجموعی طور پر پاکستان کے ایوی ایشن نیٹ ورک کو وسعت دینے کی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف مقامی ترقی ممکن ہو گی بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی بہتر سفری سہولیات میسر آئیں گی۔
عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال بیت چکا، اب جسمانی ریمانڈ کی کوئی گنجائش نہیں، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے بانی تحریک انصاف عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی اپیلیں کو ختم کردیا۔ عدالت نے دو ٹوک الفاظ میں ریمارکس دیے کہ “ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال بیت چکا، اب جسمانی ریمانڈ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔“ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب پراسیکیوشن نے عدالت کے سامنے مؤقف اپنایا کہ عمران خان کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔ تاہم، جسٹس ہاشم کاکڑ نے واضح کیا کہ اپیل جسمانی ریمانڈ کی تھی نہ کہ ٹیسٹ کرانے کی۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ “کیا قتل اور زنا جیسے سنگین مقدمات میں کبھی ایسے ٹیسٹ کی نوبت آئی؟ توقع ہے حکومت عام شہریوں کے مقدمات میں بھی یہی جوش و خروش دکھائے گی۔“ عدالت نے پنجاب حکومت کو یہ آپشن ضرور دیا کہ وہ چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کرے لیکن واضح کیا کہ عمران خان کے وکلا کو مخالفت کا پورا حق حاصل ہوگا۔ مزید پڑھیں: عمران خان کی بہنیں پھر ملاقات سے محروم: ’یہ نظام جبر کے زور پر کب تک چلے گا؟ ‘
اوپن اے آئی کی گوگل براؤزر کروم کو خریدنے کی پیش کش, کون سے نئے منصوبے آرہے ہیں؟

اوپن اے آئی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ اگر گوگل کو اپنے مشہور ویب براؤزر کروم کو فروخت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اوپن اے آئی اسے خریدنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہے۔ یہ بیان چیٹ جی پی ٹی کے پروڈکٹ ہیڈ نک ٹرلی نے امریکا میں جاری گوگل کے خلاف عدم اعتماد کے مقدمے کے دوران دیا۔ امریکی محکمہ انصاف اس مقدمے میں گوگل سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنی سرچ اجارہ داری کے باعث مسابقت کو بحال کرنے کے لیے نمایاں اقدامات کرے۔ گزشتہ برس عدالت نے قرار دیا تھا کہ گوگل آن لائن سرچ اور اشتہارات کے شعبے میں اجارہ داری رکھتا ہے۔ گوگل نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے اور تاحال کروم کو فروخت کے لیے پیش نہیں کیا۔ مقدمے کے دوران پیش ہونے والے بیانات اور شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی ٹیک کمپنیاں، جن میں اوپن اے آئی، مائیکروسافٹ، اور میٹا شامل ہیں، تخلیقی مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیزی سے ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ پراسیکیوٹرز نے خدشہ ظاہر کیا کہ گوگل اپنی موجودہ طاقت کو اے آئی میں برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جبکہ گوگل کا کہنا ہے کہ جنریٹیو اے آئی کے شعبے میں پہلے ہی سخت مسابقت موجود ہے۔ ایک داخلی دستاویز کے مطابق، نک ٹرلی نے کہا کہ اوپن اے آئی گوگل کو چیٹ بوٹ مارکیٹ میں براہ راست حریف نہیں سمجھتا، تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ وہ دستاویز صرف ملازمین کی حوصلہ افزائی کے لیے تیار کی گئی تھی۔ مقدمے میں انکشاف ہوا کہ اوپن اے آئی گوگل کے ساتھ شراکت سے اب بھی کچھ فوائد حاصل کر رہا ہے۔ گوگل کے خلاف یہ قانونی کارروائی نہ صرف تلاش کے میدان میں بلکہ اے آئی ٹیکنالوجی کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اگر گوگل کو واقعی کروم جیسے اثاثے فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا تو یہ بڑی ٹیک کمپنیوں کی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہو گا، اور اوپن اے آئی جیسے نئے کھلاڑیوں کو زیادہ مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔
آسٹریلیا نے انڈیا کی 6 ریاستوں کے طلبہ پر ویزا پابندیاں عائد کر دیں

آسٹریلیا کی اعلیٰ جامعات اور حکومتی ادارے کو انڈین طلبہ کی جعلی اور غیر سنجیدہ ویزا درخواستوں میں غیر معمولی اضافے نے حکام کو سخت اقدامات پر مجبور کر دیا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ چھ انڈین ریاستوں کے شہری اب آسٹریلیا کے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے “ریڈ زون” میں آ چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پابندیوں کی زد میں آنے والی ریاستوں میں پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش، راجستھان، گجرات اور جموں و کشمیر شامل ہیں۔ ان ریاستوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد نے تعلیم کی آڑ میں مستقل رہائش کے خواب دیکھے لیکن ویزا انٹرویوز اور جانچ پڑتال کے دوران ان کی نیتیں بے نقاب ہو گئیں۔ جامعات نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ان علاقوں سے موصول ہونے والی نئی ویزا درخواستوں پر یا تو مکمل پابندی عائد کر دی ہے یا پھر اضافی دستاویزات اور سخت جانچ کے مراحل لاگو کر دیے ہیں۔ آسٹریلیا کے محکمہ داخلہ نے تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر اب ویزا اسکروٹنی کا عمل مزید کڑا کر دیا ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ جعلی درخواستیں نہ صرف ملکی امیگریشن نظام کو داغدار کر رہی ہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی عالمی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان بن گئی ہیں۔ حیران کن طور پر یہ پابندیاں تمام یونیورسٹیوں پر یکساں لاگو نہیں کی گئیں مگر جن اداروں نے اقدام کیا ہے وہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ “تعلیم کی آڑ میں کوئی دھوکہ قبول نہیں۔” مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی اسکول پر بمباری: بچوں و خواتین سمیت 10 معصوم فلسطینی شہید
روس پہلے حملے بند کرے پھر بات ہو گی، یوکرینی صدر

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک فیصلہ کن اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین کسی بھی صورت میں بغیر جنگ بندی کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ زیلنسکی کا کہنا تھا کہ “اگر روس سنجیدہ ہے تو پہلے ہتھیار خاموش کرے تب ہی ہم مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔” یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب لندن میں یوکرین کے مسئلے پر ایک اہم یورپی سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جہاں مغربی رہنما اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ اگر صدر ٹرمپ دوبارہ یوکرین کی مالی اور فوجی امداد روک دیں، تو کیا کیا جائے؟ اجلاس میں امریکی وزیر خارجہ کی غیر موجودگی بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے البتہ امریکی نمائندہ کیتھ کیلوگ یوکرین کی حمایت کا موقف لیے اجلاس میں شریک ہوں گے۔ یورپی رہنماؤں کی توجہ اب اس بات پر مرکوز ہے کہ کیا یوکرین کو تنہا چھوڑا جا سکتا ہے؟ یوکرینی وفد کی اولین ترجیح غیر مشروط جنگ بندی ہے تاکہ تباہی کے اس سلسلے کو روکا جا سکے جو مہینوں سے انسانی جانوں کو نگل رہا ہے۔ دوسری جانب روسی صدارتی محل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ “یہ تنازعہ اس قدر پیچیدہ ہو چکا ہے کہ فوری جنگ بندی کا تصور ہی غیر حقیقی لگتا ہے۔” اب سوال یہ ہے کہ کیا زیلنسکی کی شرط روس کو مذاکرات پر مجبور کرے گی یا یورپ ایک اور سرد جنگ کی دہلیز پر جا کھڑا ہو گا؟مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی اسکول پر بمباری: بچوں و خواتین سمیت 10 معصوم فلسطینی شہید
چشمہ جھیل: جہاں مچھلیاں انسانوں کے لیے خزانے سے کم نہیں

چشمہ جھیل، جو دریائے سندھ پر واقع ایک اہم آبی ذخیرہ ہے، نہ صرف اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور ہے بلکہ یہاں کی مچھلیاں بھی معیاری اور ذائقہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ یہ جھیل مقامی ماہی گیروں کے لیے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے، جہاں مچھلیاں پکڑنے کا عمل ایک باقاعدہ نظام کے تحت ہوتا ہے۔ علی الصبح ماہی گیر اپنی کشتیوں میں جھیل کا رخ کرتے ہیں، جال بچھاتے ہیں اور کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد تازہ مچھلیاں پکڑ کر واپس آتے ہیں۔ پکڑی گئی مچھلیوں کو بعد ازاں مقامی مارکیٹوں میں فروخت کیا جاتا ہے، جہاں ان کا وزن کیا جاتا ہے اور معیار کے مطابق قیمت لگائی جاتی ہے۔ یہ سارا عمل نہ صرف مقامی معیشت کو سہارا دیتا ہے بلکہ جھیل سے جڑے ہزاروں افراد کی زندگیوں کا انحصار بھی اسی پر ہے۔ چشمہ جھیل کی مچھلی نہ صرف پنجاب بلکہ دیگر صوبوں میں بھی سپلائی کی جاتی ہے، جو اس کی اہمیت اور معیار کی عکاسی کرتی ہے۔
عمران خان کی بہنیں پھر ملاقات سے محروم: ’یہ نظام جبر کے زور پر کب تک چلے گا؟ ‘

ایک بار پھر جیل حکام کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی بہنیں اپنے بھائی سے ملاقات نہ کر سکیں۔ عمران خان کی دو بہنیں حسبِ معمول ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچیں اور جیل حکام نے پہلے یقین دہانی کروائی کہ ملاقات ہوگی مگر پھر وہی پرانا کھیل دہرایا گیا، دو گھنٹے تک انتظار کروایا پھر یہ کہہ کر واپس لوٹا دیا کہ ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ عمران خان کی بہن نورین خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں دھوکہ دیا گیا ہے، ہر بار کی طرح، ہمیں کہا گیا تھا کہ آج ملاقات ہوگی مگر دو گھنٹے کھڑے رکھنے کے بعد بتایا گیا کہ وقت گزر گیا۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان کو پہلے ہی اطلاع دی گئی تھی کہ وہ ملاقات نہیں کر سکتیں مگر باقی خاندان کو دھوکے میں رکھا گیا۔ اس صورتحال پر پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “یہ عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ہم کل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو باقاعدہ خط لکھ کر اس معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔” سلمان اکرم راجہ نے ان افواہوں کی بھی سختی سے تردید کی کہ عمران خان نے جیل میں کسی امریکی وفد سے ملاقات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم کسی قسم کے خفیہ مذاکرات کا حصہ نہیں، یہ صرف ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔” پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ نظام عدل مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے اور ملکی حالات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “یہ نظام جبر کے زور پر کب تک چلے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے نظام ایک دن خود ہی گر جاتے ہیں۔” سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں مہم چلانے کی اجازت نہ ملی پھر بھی عوام نے دو تہائی اکثریت دے کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ ادھر ملک میں سیکیورٹی کے بگڑتے حالات، افغان مہاجرین کی واپسی کا غیر مؤثر عمل، اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی سب ایک بڑے مسئلے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ جیل کے باہر کھڑی عمران خان کی بہنوں کی نظریں آج بھی جیل کے دروازے پر جمی تھیں، شاید اگلی بار ملاقات ہو جائے۔ مگر اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت کے فیصلے صرف کاغذی حکم نامے بن کر رہ گئے ہیں؟ مزید پڑھیں: چولستان کینال منصوبہ: سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا، وزیر قانون
لندن میں روس یوکرین جنگ بندی کا اجلاس، امریکا سمیت اہم ممالک شرکت کریں گے

لندن میں آج بدھ کے روز یوکرین اور روس کے درمیان تین سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ایک اہم سفارتی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، یوکرین اور امریکا کے اعلیٰ سفارت کار شریک ہوں گے۔ ان مذاکرات کا مقصد جنگ بندی کو ممکن بنانا ہے، جب کہ عالمی سطح پر اس بات کی قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیں کہ روس ممکنہ طور پر کچھ اہم رعایتوں کے بدلے موجودہ فرنٹ لائنز پر اپنے حملے روکنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب سفارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، تاہم ان کے نتائج اور کامیابی کے امکانات ابھی تک غیر واضح ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی سٹیو وٹکوف اور سیکریٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کی شرکت متوقع تھی، لیکن دونوں نے شرکت سے معذرت کرتے ہوئے جنرل کیتھ کیلوگ کو یوکرین کے لیے خصوصی ایلچی کے طور پر اجلاس میں بھیجا۔ منگل کی شب، روبیو نے برطانیہ کے نئے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی سے گفتگو کی اور مذاکرات کو مستقل اور تکنیکی لحاظ سے مضبوط قرار دیا۔ لیمی نے بھی ان ملاقاتوں کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یورو-اٹلانٹک سلامتی کے لیے نازک لمحے پر ہو رہی ہیں۔ ادھر وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ سٹیو وٹکوف رواں ہفتے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے چوتھی بار ملاقات کے لیے ماسکو جائیں گے۔ اس پیش رفت کے دوران، خبر رساں ادارے فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ روس ممکنہ طور پر کرائمیا پر اپنی خودمختاری کو امریکی سطح پر تسلیم کروانے کے بدلے میں اپنے حملوں کو روکنے اور بعض علاقوں میں قبضے سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ کرائمیا پر روسی قبضے کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب، روسی صدر پوتن نے ایسٹر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا، تاہم برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی کے مطابق، زمینی سطح پر ایسی کسی کمی کے شواہد موجود نہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا: “جبکہ پوتن جنگ بندی کی بات کرتے ہیں، وہ اس دوران فوجی دباؤ جاری رکھے ہوئے ہیں۔” جان ہیلی نے مزید کہا کہ روس کی پیش قدمی میں کچھ سستی ضرور آئی ہے، مگر یوکرین پر دباؤ برقرار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس فی الحال مذاکرات کو وقت حاصل کرنے کے حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ 24 فروری 2022 کو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے لاکھوں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، اور اقوام متحدہ کے مطابق 70 لاکھ سے زائد یوکرینی شہری دنیا بھر میں مہاجرین کے طور پر رجسٹر ہو چکے ہیں۔ اس تنازعے کی جڑیں 2014 سے جڑی ہوئی ہیں جب یوکرین کے روس نواز صدر کو معزول کیا گیا تھا، اور اس کے بعد روس نے کرائمیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ مشرقی یوکرین میں بھی مسلح جھڑپیں شروع ہوئیں جہاں روسی حمایت یافتہ باغی سرگرم ہو گئے۔ اب جب کہ سفارتی کوششیں ایک نئی رفتار پکڑ رہی ہیں، دنیا نظریں جمائے ہوئے ہے کہ آیا لندن مذاکرات اس خونی جنگ کے خاتمے کی طرف کوئی عملی پیش رفت لا سکیں گے یا نہیں۔
اسرائیلی فورسز کی اسکول پر بمباری: بچوں و خواتین سمیت 10 معصوم فلسطینی شہید

غزہ کی سرزمین پر اسرائیلی فوج نے ظلم کی انتہا کردی، جب انہوں نے ایک اسکول کو نشانہ بنایا جو پناہ گزینوں کے لیے پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس حملے میں کم از کم 10 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا جو آگ میں جھلس کر شہید ہوا۔ یہ واقعہ غزہ سٹی کے ایک مصروف علاقے میں پیش آیا، جہاں اسکول کے اندر پناہ گزینوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس حملے کے نتیجے میں اسکول میں آگ بھڑک اٹھی، جس سے عمارت کا ایک بڑا حصہ جل کر راکھ ہو گیا۔ شہری دفاع کے کارکن اور امدادی ٹیمیں ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوششیں کر رہی ہیں لیکن مسلسل بمباری کی وجہ سے امدادی کارروائیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی افواج نے اس حملے کے بعد بھی غزہ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنانا جاری رکھا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والی بمباری میں کم از کم 32 فلسطینی شہید ہوئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ سٹی کے ایلدورا پیڈیاٹرک اسپتال کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے جس سے بچوں کے علاج میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ غزہ کے حکومت میڈیا آفس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ 18 ماہ سے جاری اس جنگ میں 61,700 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ 116,991 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان کی حالت کے بارے میں کچھ کہنا ممکن نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: نڈیا میں سیاحوں پر حملہ، اطالوی اور اسرائیلی شہریوں سمیت 27 افراد ہلاک دوسری جانب، قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے کہا ہے کہ دوحہ جنگ کے خاتمے کے لیے ثالثوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ دوسری جانب یمن میں بھی جنگ کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی افواج نے مارچ 16 سے یمن کے مختلف علاقوں پر بمباری شروع کی ہے جس میں سینکڑوں یمنی شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ حوثی ملیشیا کے زیر اثر میڈیا چینل المسیرا ٹی وی کے مطابق امریکی بمباری میں حجہ، تعز اور الحدیدہ کے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بمباری یمن میں اسرائیل سے منسلک جہازوں پر حوثیوں کے ممکنہ حملوں کے پیشِ نظر کی گئی ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی آبی راستوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ یمن میں جاری اس جنگ نے بھی انسانی بحران کو جنم دیا ہے جہاں لاکھوں افراد خوراک، پانی اور ادویات کی کمی کا شکار ہیں۔ یمن کے شہریوں کی حالت زار پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ غزہ اور یمن میں جاری یہ جنگیں نہ صرف ان ممالک کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان جنگوں میں شہریوں کی ہلاکتوں اور بنیادی سہولتوں کی کمی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عالمی برادری سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرے اور ان جنگوں کا خاتمہ ممکن بنائے۔ مزید پڑھیں: غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی: ڈومینیکن ریپبلک میں 130 سے زائد حاملہ خواتین اور بچے گرفتار
چولستان کینال منصوبہ: سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا، وزیر قانون

سینیٹ کا ایوان بالا جہاں قانون بنتے ہیں, اب ایک نئی کشیدگی کا میدان بن چکا ہے۔ معاملہ چولستان کینال منصوبے کا ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر یہ پانی کی تقسیم، سیاسی مفادات اور بین الصوبائی اعتماد کی ڈولتی دیواروں کی عکاسی کرتا ہے۔ منگل کو سینیٹ کا اجلاس میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کے درمیان چولستان کینال منصوبے پر نہ صرف سخت جملوں کا تبادلہ ہوا بلکہ الزامات، واک آؤٹ اور نعروں سے ایوان گونج اٹھا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چولستان کی طرف پانی موڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے برہم لہجے میں مطالبہ کیا کہ ان کی جماعت کی قرارداد کو پہلے زیرِ غور لایا جائے۔ جب چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے پوائنٹس آف آرڈر کو نظر انداز کرتے ہوئے وقفہ سوالات کا آغاز کرنے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی کے ارکان چیئرمین کے پوڈیم کے قریب پہنچ کر شدید احتجاج کرنے لگے۔ اس دوران سینیٹر فلک ناز چترالی نے پیپلز پارٹی پر “منافقت” کا الزام لگا دیا جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے عمران خان کو “گھڑی چور” قرار دے کر جواب دیا۔ بات اتنی بڑھی کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے بھی نہر منصوبے کے خلاف واک آؤٹ کیا۔ یوں یہ معاملہ قومی مسئلے سے ذاتی مخاصمت کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ بھی پڑھیں: ”آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں” ترک صدر طیب اردوان اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی مشترکہ کانفرنس اس ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ حکومت معاملے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے اور کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر رانا ثنا اللہ نے سندھ حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سخت الفاظ میں مطالبہ کیا کہ پانی کے بحران پر فوری طور پر مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کا اجلاس بلایا جائے۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ دریائے سندھ پر نئی نہریں قومی اتفاق رائے کے بغیر تعمیر کی گئیں تو یہ بین الصوبائی کشیدگی کو سنگین شکل دے سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جب دریا خشک ہو رہا ہے تو نئی نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا؟ یہ سندھ یا پنجاب کا مسئلہ نہیں یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے۔” لازمی پڑھیں: اسلام آباد: سیکیورٹی گارڈز کو مقررہ کم از کم اجرت نہ دینے پر نجی کمپنی کا منیجر گرفتار شیری رحمٰن نے سندھ کے قحط زدہ علاقوں جیسے بدین، ٹھٹھہ اور سجاول کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور اگر ان کے خدشات دور نہ کیے گئے تو مزاحمت ناگزیر ہو جائے گی۔ قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے بھی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ “ربڑ اسٹیمپ” بن چکی ہے اور اہم آئینی ترامیم پر بھی خاطر خواہ بحث نہیں کی گئی۔ انہوں نے جیل میں قید پی ٹی آئی سینیٹرز کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد میں تاخیر اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر موجودہ صورت حال پر توجہ نہ دی گئی تو خیبر پختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی 2027 تک مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس ہنگامہ خیز اجلاس کے درمیان سینیٹ نے پوپ فرانسس کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی جیسے ایک پل کے لیے شور کے طوفان میں خاموشی کا وقفہ آ گیا ہو۔ چولستان کینال منصوبہ اب صرف ایک نہری اسکیم نہیں رہا۔ یہ آئینی تقاضوں، وفاقی ہم آہنگی اور عوامی مفادات کے درمیان توازن کا نازک امتحان بن چکا ہے۔ اگر حکومت نے بروقت اور شفاف فیصلے نہ کیے تو یہ نہر پانی کے بجائے سیاسی دراڑوں کی ایک گہری خندق میں بدل سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: نکسن سے ٹرمپ تک: امریکا نے پاکستان کو کیسے استعمال کیا؟