غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی: ڈومینیکن ریپبلک میں 130 سے زائد حاملہ خواتین اور بچے گرفتار

ڈومینیکن ریپبلک میں غیر دستاویزی تارکین وطن کے خلاف شروع کیے گئے سخت کریک ڈاؤن کے پہلے ہی دن سینٹو ڈومنگو کے مختلف ہسپتالوں سے ہیٹی کی 130 سے زائد خواتین اور بچوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ پیر کو گرفتار کی گئی ان خواتین میں سے کئی حاملہ تھیں جبکہ بعض نے حال ہی میں بچوں کو جنم دیا تھا۔ یہ کارروائی اس حکومتی منصوبے کا حصہ ہے جس کا اعلان گزشتہ سال کیا گیا تھا، جس کے تحت ہمسایہ ملک ہیٹی سے ہجرت کو روکنے کے لیے ہر ہفتے 10,000 افراد کو ملک بدر کیا جانا ہے۔ تاہم صدر لوئس ابیناڈر کی قیادت میں حکومت کو ہیٹی کے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک پر شدید تنقید کا سامنا ہے، بالخصوص ایسے حالات میں جب بہت سے ہیٹی باشندے دارالحکومت پورٹ-او-پرنس میں گینگ تشدد اور غربت سے فرار ہو کر جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، گرفتار خواتین کو حراستی مراکز میں منتقل کیا گیا جہاں ان سے “باوقار سلوک” کیا گیا، ان کا بائیو میٹرک ڈیٹا اور فنگر پرنٹس حاصل کیے گئے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں اور متاثرہ افراد نے ان اقدامات کو غیر انسانی اور غیر یقینی قرار دیا ہے۔ ایک ہیٹی خاتون نے، جو اپنی حاملہ دوست کے ساتھ ہسپتال گئی تھیں، کہا کہ حکومت کا یہ کریک ڈاؤن حاملہ خواتین کے لیے شدید خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ “اگر آج کسی عورت نے بچہ پیدا کیا ہے، تو وہ اسے آج نہیں لے جا سکتے، کیونکہ معلوم نہیں کیا ہوگا۔ اور اگر سی سیکشن ہوا ہو تو بھی، باہر سڑک پر یا واپسی کے دوران کوئی طبی سہولت نہیں ہوتی۔” حکام کا کہنا ہے کہ خواتین کا طبی علاج مکمل ہونے کے بعد غیر دستاویزی ماؤں کو وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔ دریں اثناء، ہیٹی سے روزانہ کئی درجن افراد ٹرکوں کے ذریعے سرحد عبور کرکے ڈومینیکن ریپبلک میں داخل ہو رہے ہیں تاکہ تشدد، بھوک اور سیاسی انتشار سے بچ سکیں۔ اے ایف پی کے مطابق، 2025 کے ابتدائی تین مہینوں میں ہی، ڈومینیکن ریپبلک نے 80,000 سے زائد افراد کو ہیٹی واپس بھیج دیا ہے۔ صدر ابیناڈر نے بارہا بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ہیٹی میں استحکام بحال کرنے میں مؤثر کردار ادا کرے۔ تاہم انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ مہاجرین، خصوصاً خواتین اور بچوں، کے ساتھ اس نوعیت کا سلوک عالمی اصولوں اور انسانی ہمدردی کے منافی ہے۔
نکسن سے ٹرمپ تک: امریکا نے پاکستان کو کیسے استعمال کیا؟

ڈھاکہ کی گلیاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں مگر واشنگٹن میں رچرڈ نکسن اور ہنری کسنجر کی محفل گرم تھی۔ ان کی نظر صرف ایک “خفیہ پل” پر تھی، اور وہ جنرل یحییٰ خان تھے۔ یہ 1971 کا سال تھا، جب امریکا کو چین تک رسائی چاہیے تھی اور پاکستان اس کا “استعمال ہونے والا راستہ” بنا۔ امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق، نکسن نے صاف کہا تھا کہ “یحییٰ ہمارا آدمی ہے، بنگالیوں کو نظرانداز کرو، ہمیں چین چاہیے۔” اور پھر وہ ہوا جس نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ امریکی ہتھیاروں سے لیس انڈیا نے مکتی باہنی کو تربیت دے کر پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس دن کسنجر نے نکسن کو فون پر مبارکباد دی اور کہا کہ “جناب صدر، آپ نے مغربی پاکستان بچا لیا۔” لیکن کیا واقعی بچایا؟ یا صرف “استعمال کر کے پھینک دیا”؟ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی تو امریکا نے پاکستان کو ایک بار پھر اپنا “اتحادی” بنایا۔ سی آئی اے نے پاکستانی آئی ایس آئی کے ذریعے مجاہدین کو فنڈز اور ہتھیار دیے۔ مگر جب سوویت یونین ٹوٹا تو امریکا نے پاکستان کو “ٹھوکر مار کر” چھوڑ دیا۔ اور پاکستان کو اس جنگ کا خمیازہ ہیروئن، کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی سے بھگتنا پڑا۔ اس کے بعد 2001 میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو صدر بش نے پاکستان سے کہا “یا ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے خیمے میں۔” اس کے بعد جنرل مشرف نے امریکا کا ساتھ دیا مگر بدلے میں کیا ملا؟ ڈرون حملے، عزت کی پامالی اور الزامات۔ منہاج یونیورسٹی سے بین القوامی امور کے ماہر کے پروفیسر ڈاکٹر حسن فروق مشوانی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” 9/11 کے بعد ڈرون حملوں سے ہماری خودمختاری کو کچل دیا۔ ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم بار بار ان کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔” پاکستان کے 70,000 سے زائد افراد دہشت گردی کی جنگ میں مارے گئے مگر امریکا کی زبان پر ہمیشہ یہی رہا “ڈو مور۔” ڈاکٹر مشوانی نے مزید کہا کہ ” جب تک امریکا کو افغانستان میں ہماری ضرورت تھی، ہم ‘اہم اتحادی’ تھے۔ جب کام ختم ہوا، ہمیں دہشت گردوں کا حامی قرار دے دیا گیا۔ کیا کبھی امریکا نے ہمارے شہیدوں کا بدلہ لیا؟” 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو “دہشت گردوں کی پناہ گاہ” کہا۔ 2020 میں انہوں نے طالبان کے ساتھ ڈیل کی، افغانستان چھوڑا اور پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ جب کشمیر میں انڈیا نے آرٹیکل 370 ختم کیا، تو امریکا نے آنکھیں بند کر لیں۔ ٹرمپ اور مودی کے گلے ملنے والے مناظر دیکھے گئے، جبکہ کشمیریوں کے خون سے زمین سرخ ہوتی رہی۔ پنجاب یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی طلبہ عائشہ ملک نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” جب انڈیا نے کشمیر کی حیثیت ختم کی تب تو امریکا خاموش رہا لیکن جب ہم نے چین کے ساتھ CPEC بنایا تو ہمیں ‘قرضوں کا شکار’ کہا گیا، کیا یہ دوغلی پالیسی نہیں؟” اب 2025 میں ٹرمپ دوبارہ صدر بن چکے ہیں۔ کیا پاکستان ایک بار پھر “امریکی شطرنج کی بساط پر مہرہ” بنے گا؟ عائشہ ملک نے مزید کہا کہ ” امریکا کا فارمولا سادہ سا ہے، جب تک ہمیں فوجی اڈوں اور انٹیلی جنس کی ضرورت ہوگی تب تک ہم ‘دوست’ ہیں۔ جب نہیں تو ہم ‘دھوکے باز’۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم چین، روس اور ترکی جیسے حقیقی دوستوں پر توجہ دیں”۔ 1971 میں امریکا نے پاکستان کو چین تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا اور 1980 میں افغان جنگ میں “ہیرو” بنا کر پھر تنہا چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ 2001 سے 2021 تک دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا، مگر معاوضہ نہیں ملا۔ عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ ” امریکا کبھی پاکستان کا حقیقی دوست نہیں تھا اور اب ہمیں اپنی خارجہ پالیسی بھی خود بنانی ہوگی نا کہ امرکا طے کرے گا”۔ پاکستان نے امریکا کی ہر جنگ لڑی، ہر قیمت چکائی مگر بدلے میں ملا “پابندیاں، تنقید، اور تنہائی”۔ کیا اب وقت نہیں آیا کہ پاکستان اپنی پالیسی “امریکا سے آزاد” کرے؟