غیر قانونی افغان باشندے: اب تک کُل پانچ لاکھ 20 ہزار لوگ افغانستان جا چکے ہیں

طورخم بارڈر پر افغان شہریوں کی اپنے وطن واپسی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 ہزار 298 افراد کو سرحد پار کرایا گیا۔ ان میں 727 وہ افغان شہری تھے جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ موجود تھے، جبکہ 1 ہزار 571 ایسے افراد تھے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں ملک بدر کیا گیا۔ اس طرح 1 اپریل 2025 سے اب تک طورخم اور دیگر زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان واپس جانے والوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار 244 ہو چکی ہے۔ ستمبر 2023 میں رضاکارانہ اور مرحلہ وار واپسی کی سرکاری مہم شروع ہونے کے بعد سے اب تک دو مرحلوں میں کُل 5 لاکھ 20 ہزار 447 افغان شہری اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: انڈیا کا فیصلہ نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ غیرذمہ دارانہ ہے، شرجیل میمن رپورٹ یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ مہم کے ابتدائی مرحلے میں ایک چینی شہری کو بھی غیر قانونی قیام پر سوست بارڈر سے ڈی پورٹ کیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سرحدی چیک پوسٹوں پر دستاویزات کی جانچ مزید سخت کر دی گئی ہے تاکہ غیر قانونی رہائش اور آمد و رفت کو روکا جا سکے، جبکہ رضاکارانہ واپسی کے خواہش مند افراد کو سہولت فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
ڈی آئی خان میں پولیو ٹیم پر حملہ، پولیس نے دو حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا

ڈی آئی خان کے علاقے شورکوٹ میں پولیو مہم کے دوران ایک المناک واقعہ پیش آیا جب موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ اچانک ہونے والے اس حملے کا مقصد پولیو مہم کو سبوتاژ کرنا تھا مگر پولیس کی بروقت اور دلیرانہ کارروائی نے سازش کو ناکام بنا دیا۔ پولیس اہلکاروں نے نہ صرف خود کو محفوظ رکھا بلکہ فوری طور پر جوابی فائرنگ کرتے ہوئے دونوں حملہ آوروں کو زخمی حالت میں دھر لیا۔ گرفتار ملزمان کو فوری طور پر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ ایک منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ لگتا ہے، تاہم تحقیقات جاری ہیں۔ یہ واقعہ پولیو ورکرز کی قربانیوں اور پولیس کی جرأت کا منہ بولتا ثبوت بن گیا جس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں پولیو جیسے موذی مرض کے خلاف جنگ روکنے کی ہر کوشش ناکام بنائی جائے گی۔ مزید پڑھیں: انڈیا کا فیصلہ نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ غیرذمہ دارانہ ہے، شرجیل میمن
انڈیا کا فیصلہ نہ صرف اشتعال انگیز بلکہ غیرذمہ دارانہ ہے، شرجیل میمن

سندھ کے سینئر وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے اعلان پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے کھلی جارحیت اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ یہ فیصلہ نہ صرف اشتعال انگیز اور غیرذمہ دارانہ ہے بلکہ عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا دانستہ طور پر خطے میں جاری امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔ وزیر اطلاعات نے الزام عائد کیا کہ نئی دہلی ماضی میں بھی عالمی دوروں اور اہم مواقع کے دوران فالس فلیگ کارروائیوں کا سہارا لے کر دنیا کی توجہ اپنے اندرونی مظالم سے ہٹاتا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین اقدامات کا جواب، قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا انہوں نے یاد دلایا کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دورۂ انڈیا کے دوران بھی ایک فالس فلیگ آپریشن میں بے گناہ سکھوں کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اب پہلگام کے واقعے کے ذریعے وہی پرانی چال دہرائی جا رہی ہے۔ شرجیل میمن نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا سب سے مؤثر حصہ رہا ہے اور اس راہ میں ہزاروں شہریوں اور سکیورٹی اہلکاروں نے قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے اے پی ایس سانحہ اور سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو کی شہادت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری قربانیوں کی طویل فہرست اس جدوجہد کی گواہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی محض آبی تنازعہ نہیں بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا طاقت کے نشے میں جنگ کی راہ پر گامزن ہے، لیکن پاکستان اس اشتعال انگیزی کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے بھارتی اقدام کو اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت قرار دیتے ہوئے عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سنگین خلاف ورزی کا فوری نوٹس لیں اور خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
صحافی عبدالمجید ساجد ’اغوا‘ کے بعد بازیاب، گھر پہنچ گئے

سینئر صحافی اور سابق سیکرٹری لاہور پریس کلب عبدالمجید ساجد کو ان کے گھر سے نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔ یہ واقعہ رات گئے پیش آیا جب تین افراد جو بظاہر نجی سیکیورٹی گارڈز کی وردی میں ملبوس تھے اور ایک “وفاقی ادارے” کے اہلکار بن کر ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ان افراد نے کسی قسم کی قانونی دستاویز یا وارنٹ دکھائے بغیر مجید ساجد کو زبردستی اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا لیا۔ ان کی گاڑی بغیر نمبر پلیٹ کے تھی اور وہ انتہائی منظم انداز میں کارروائی کر کے غائب ہو گئے۔ عبدالمجید ساجد، جو اپنی دیانتداری، اصول پسندی اور نرم لہجے کی وجہ سے صحافتی برادری میں ایک مقام رکھتے ہیں، ان کے اغوا نے پورے میڈیا سیٹ اپ میں تشویش پیدا کردی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ)، لاہور پریس کلب ، پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ و دیگر صحافتی تنظیموں نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ایک گھناؤنا عمل ہے، ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ واقعہ نہ صرف آزادی صحافت بلکہ شہری آزادیوں پر بھی ایک اہم سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈین اقدامات کا جواب، قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس آج ہوگا لاہور پریس کلب کے کونسل ممبر سید امجد بخاری نے پوسٹ شیئر کی ہے کہ ’الحمدللہ ساجد بھائی بخیریت واپس آگئے ہیں، تمام دوستوں کا بے حد شکریہ‘۔ اس سے قبل صحافی تنظیموں اور ملک بھر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ لاہور پریس کلب میں صحافیوں نے اکھٹے ہوکر احتجاج بھی کیا ۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری ودیگرعہدیداروں نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر خوف و ہراس کی فضا کو ختم کیا جائے، عبد المجید ساجد جیسے پروفیشنل صحافی کے ساتھ یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے، ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے فی الفور تحقیقات کی جائیں ۔ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے رہنماؤں نے واقعہ کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے، جاری اعلامیہ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ حکومت فوری طورپر اس واقعہ کی تحقیقات کرے اور اغوا کاروں کو بے نقاب کیا جائے۔ پی یو جے کے صدر میاں شاہد ندیم اور جنرل سیکرٹری قاضی طارق عریز نے بھی عبد المجید ساجد کی پرسرار گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
شرق پوری گلاب جامن: جو روئی کی طرح منہ میں پگھل جاتے ہیں

شیریں دہلیز پر آتے ہی ذرا ذہن میں تصوّر کیجیے: نرم و نرم گلابی رنگ کے چھوٹے چھوٹے لڈو جو خستہ نہیں بلکہ شہد کی روئی جیسے نرم، ایک ہلکی سی دباؤ میں شربت چھوڑتے ہوں اور ہونٹوں پر رکھتے ہی گھل جائیں۔ یہی ہے مشہور زمانہ شرق پُوری گلاب جامن، جس نے محض پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں مٹھاس کی ایک الگ شناخت قائم کر رکھی ہے۔ شرق پور شریف کے قدیم بازاروں میں برسوں سے دیگوں پر چڑھی چاشنی کی ہلکی ہلکی بھاپ اور تِلوں میں تَل کر اُبھرتی سفیدی لیے یہ مٹھائی کسی دعوت، شادی یا میلاد کی تقریب کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے خاص ذائقے کا راز خاندانی ریسیپی، معیاری خالص دودھ اور صدیوں سے اختیار کیے جانے والے خاص تلنے–بھگونے کے طریقے میں پوشیدہ ہے۔ شرق پُوری گلاب جامن اپنی نرمی، خوشبو دار چاشنی اور بے مثال ذائقے کے باعث نہ صرف ذائقہ شناسوں کے دل میں گھر کر چکا ہے بلکہ بیرونِ شہر آنے والے مہمانوں کے لیے بھی تحفۂ خاص سمجھا جاتا ہے۔
فلسطینی صدر کا حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ

فلسطینی صدر محمود عباس نے ایک غیر معمولی خطاب میں حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے ہتھیار ڈال دے بلکہ غزہ کا انتظام بھی فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب خطے میں امن کی نئی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں اور عالمی طاقتیں فلسطینی قیادت کی نئی سمت کے شدت سے منتظر ہیں۔ صدر محمود عباس نے بدھ کے روز فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کی سنٹرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “حماس کو چاہیے کہ وہ غزہ کی ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی کو سونپے، ہتھیار ڈالے اور ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرے۔”یہ پہلا موقع ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے آغاز کے بعد عباس نے اتنے دوٹوک انداز میں حماس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر ایک ہلاکت خیز حملہ کیا تھا جس میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنائے گئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید حملے شروع کیے جن میں اب تک 50,000 سے زائد فلسطینی فلسطینی ہو چکے ہیں اور غزہ کا بڑا حصہ کھنڈر بن چکا ہے۔ عباس کا یہ بیان ایک اہم موقع پر سامنے آیا ہے جب وہ نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ اپنی جانشینی کا اعلان کریں بلکہ مغربی اور عرب طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی ایک قابل اعتماد اور فعال ادارہ بن کر ابھرے۔ ان طاقتوں کا اصرار ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو اور حکمرانی ایک بااختیار، شفاف اور متحرک قیادت کے ذریعے کی جائے۔ اسرائیل اور امریکا سمیت کئی عالمی قوتیں پہلے ہی حماس کو غزہ سے بےدخل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاہم اسرائیل نے اب تک فلسطینی اتھارٹی کو بھی غزہ میں کردار دینے سے انکار کیا ہے۔ ایسے میں عباس کی یہ تقریر نہ صرف ایک سیاسی چال ہے بلکہ ایک صاف پیغام بھی ہے کہ وہ حماس سے الگ اپنی حیثیت منوانے کے لیے تیار ہیں۔ صدر عباس نے اپنی تقریر میں مزید کہا کہ”7 اکتوبر کا حملہ ایک بڑی غلطی تھی جس نے اسرائیل کو غزہ کو مٹانے کا بہانہ دے دیا۔” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘کیا فلسطینی عوام ایک بار پھر متحد ہو سکیں گے؟ اور کیا عالمی طاقتیں صدر عباس کو دوبارہ ایک قابل قبول رہنما مانیں گی؟ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری: بچوں اور خواتین سمیت 45 معصوم فلسطینی شہید
سندھ طاس معاہدے پر انڈین اقدام مسترد: پاکستان اپنی لائف لائن کا ہرممکن تحفظ کرے گا، قومی سلامتی کمیٹی

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ختم ہوگیا ہے۔ بند کمرے کی اس مشاورت میں آرمی چیف، بحریہ اور فضائیہ کے سربراہان، نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار، وزرائے دفاع و داخلہ و اطلاعات، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ساتھ اعلیٰ سفارت کار بھی شریک تھے۔ اجلاس کی توجہ پہلگام واقعے کے بعد نئی دہلی کے یک طرفہ اور جارحانہ فیصلوں پر مرکوز رہی۔ اجلاس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان انڈیا کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: ”انڈین پروپیگنڈہ پر مضبوط اور متحد جواب دیا جائے” پاکستانی سیاست دانوں کا پہلگام واقع پر ردِعمل وزارتِ خارجہ نے تجاویز پیش کیں جن میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد لانا، عالمی عدالتِ انصاف یا ورلڈ بینک کے ذریعے ثالثی کی درخواست، اور شملہ معاہدے سمیت انڈیا سے تمام دوطرفہ سمجھوتوں کا ازسرِنو جائزہ شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق کمیٹی نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے انڈین اعلان اور واہگہ سرحد کی ممکنہ بندش سمیت تمام حالیہ اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ انڈین کمرشل پروازوں کے لیے پاکستانی فضائی حدود بند کرنے کا آپشن بھی زیر غور آیا، جیسا اقدام پاکستان نے 2019 میں اپنایا تھا۔ سفارتی و قانونی ٹیموں نے ارسا قوانین، پانی کے عالمی ضابطوں اور سندھ طاس معاہدے کی عالمی ضمانتوں پر بریفنگ دی۔ دفاعی ذرائع نے بھارتی اقدامات کے ممکنہ عسکری مضمرات اور جوابی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اجلاس سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان ماضی کی طرح اس بار بھی بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے اور انڈیا معاہدہ کسی صورت یک طرفہ طور پر معطل نہیں کر سکتا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ انڈیا کے حالیہ اعلانات کا جامع اور مؤثر جواب دیا جائے گا اور عالمی برادری کو فوری طور پر اعتماد میں لے کر سندھ طاس معاہدہ اور علاقائی امن کو لاحق خطرات کو اجاگر کیا جائے گا۔ واضح رہے انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت کے بعد وہ سخت اقدامات کر رہا ہے۔ نئی دہلی نے پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹے میں انڈیا چھوڑنے کا حکم، سارک ویزے معطل، پاک انڈیا مشترکہ سرحد بند کرنے اور اسلام آباد میں تعینات اپنے عسکری نمائندوں کو واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا ہے کہ انڈیا ایک مرتبہ پھر فالس فلیگ کارروائی کے ذریعے اصل مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کی آج کی بیٹھک انہی خدشات کے جواب میں پاکستان کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے بلائی گئی تھی۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ: وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت آج قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کا اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں قومی سلامتی کی صورتحال اور خطے میں پیش آنے والے حالات کا جائزہ لیا گیا، بالخصوص 22 اپریل 2025 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے تناظر میں۔
غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری: بچوں اور خواتین سمیت 45 معصوم فلسطینی شہید

غزہ آج ایک بار پھر خون میں نہا گیا، بدھ کی شب اور صبح سویرے اسرائیلی فضائی حملوں نے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم 45 معصوم فلسطینی شہری شہید اور 100 سے زائد شدید زخمی ہو گئے۔ اس کے علاوہ مقامی طبی ذرائع کے مطابق ملبے تلے دبے درجنوں افراد کی تلاش جاری ہے اور شہادتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب اسرائیل کے انتہا پسند وزیر قومی سلامتی، ایتامار بن گویر نے امریکا کے ریپبلکن ارکان کانگریس کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ “غزہ میں خوراک اور امدادی سامان کے گوداموں پر بمباری ضروری ہے”۔ ان کے اس بیان نے عالمی سطح پر شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق اب تک جنگ میں 61,700 سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جن میں ہزاروں لاپتا افراد بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دبے ہونے کے سبب شہید قرار دیے جا رہے ہیں۔ اکتوبر 7، 2023 کو حماس کے حملے میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔ غزہ کی سرزمین آج بھی سلگ رہی ہے اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب دنیا کا ضمیر جاگے گا؟ مزید پڑھیں: ترکی میں 6.2 شدت کا زلزلہ: کتنا نقصان ہوا؟
قوم سے ہجوم بن گئے: ’پاکستان کا خواب ایسا تو نہ تھا‘

پاکستان کا قیام ایک نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ یہ نظریہ انصاف، مساوات اور انسانی وقار کے اصولوں پر مبنی تھا، جہاں ہر شہری کو مساوی مواقع، مذہبی آزادی، تعلیم اور روزگار میسر ہونا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح اور دیگر بانیانِ پاکستان نے جس ریاست کا خواب دیکھا تھا، وہ ایک ترقی یافتہ، خود مختار اور باوقار ریاست کا تصور تھا۔مگر آج جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اس خواب سے بہت دور نکل آئے ہیں۔ ہم ایک قوم بننے کی بجائے رفتہ رفتہ ہجوم میں بدل گئے ہیں، جہاں ذاتی مفاد اجتماعی مفاد پر غالب آ چکا ہے۔ ہر شخص میں کے چکر میں گم ہے، بھائی بھائی کا نہیں رہا۔ ہر جگہ افراتفری کا بازار گرم ہے ، جس کو موقع ملتا ہے وہ دوسرے کو لوٹ لیتا ہے۔ بانیانِ پاکستان نے ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا تھا جہاں قانون کی بالا دستی ہو، ہر فرد کو اس کی قابلیت کے مطابق ترقی کے مواقع ملیں اور عدل و انصاف ہر طبقے کے لیے یکساں ہو۔ بدقسمتی سے آج کا پاکستان ان مقاصد سے میل نہیں کھاتا۔ آج عام شہری بے یقینی، خوف اور مایوسی کا شکار ہے۔ جو ریاست مساوات اور عدل کی بنیاد پر قائم کی گئی تھی، وہ اب معاشرتی ناانصافی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری کشمکش، بار بار حکومتوں کی تبدیلی اور ادارہ جاتی تضادات نے ملک کو ایسی صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے جہاں عوام کے لیے کوئی واضح سمت نظر نہیں آتی۔ تمام سیاسی جماعتیں انتشار کو ہوا دینے پر تلی ہیں اور ان پارٹیوں کے پیروکار بینائی کا چشمہ جیبوں میں ڈالے پارٹی کی پیروی پر تلے ہیں۔ پارلیمان سے لے کر سڑکوں تک، ہر طرف بے یقینی کا راج ہے۔ سیاسی قیادت کے بیانات اور اقدامات میں تضاد عوام کے اعتماد کو مجروح کر رہا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوان صحافی میاں محمد معیز کا کہنا تھا کہ قائد اعظم کا یوں پراسرار طریقے سے انتقال ہو جانا اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ الیکشنز میں جو کچھ ہوا یہ سب آج تک ایک سوالیہ نشان ہے اور قائد اعظم تو کہتے تھے کہ ہمارے پاس اسلامی دستور اور اسلامی نظام موجود ہے ہم نے صرف اس کو عمل درآمد میں لے کر آنا ہے لیکن اس کے بعد بھی وہی برطانوی قانون پاکستان میں نافذ ہے۔ یہ مکمل طور پر تو اسلامی قوانین پر مشتمل نہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان جس مقصد کے لیے بنا تھا اس کی بنیاد ہی درست طور پر نافذ نہیں تو یہ سب بذات خود سب سے بڑا انحراف ہے۔ عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی بڑی وجہ سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔ نوجوان صحافی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام یہ بنیادی طور پر نظام یا سسٹم کا مسئلہ ہے اس کے لیے سیاسی قیادت کو ذمہ دار قرار دینا یا سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے پر تنقید کرنا ایک ادھوری بات ہے کیونکہ سیاستدان بھی اسی نظام کی پیداوار ہیں اور اسی نظام کے اندر رہ کر یا اسی نظام کے تحت کام کرتے ہوئے اپنے معاملات کو لے کے چلتے ہیں،لیکن اصل مسئلہ اس سسٹم کی خرابی ہے۔ معیز احمد نے کہا ہے کہ اصل میں جب تک ہمارا سیاسی و سماجی نظام درست نہیں ہوگا تو ہم کبھی بھی پاکستان میں سیاسی استحقام تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہم لوگ اکثر سیاست دانوں کو یا اداروں کو اس صورتحال کا ذمہ دار کہتے ہیں لیکن جب تک ملک کے چلنے کا دائرہ کار درست نہیں ہوگا تب تک کسی طور ببی تبدیلی نہیں آسکتی. اس کی مثال ایسی ہے ایک انجن جو کہ خراب ہے بند پڑا ہوا ہے یا ناکارہ ہے آپ ایک ماہر ترین ڈرائیور بھی بلا لیں تو کسی طرح بھی وہ اس انجن کو نہیں چلا پائے گا اب اس میں ہم ڈرائیور کو سو فیصد ذمہ دار نہیں کہہ سکتے جب انجن ہی خراب ہے ڈرائیور کیا ہی کر سکتا ہے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ مہنگائی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے، بے روزگاری عام ہو چکی ہے اور بنیادی سہولیات جیسے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی تک محدود ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی حالیہ بیان میں اس بات کا اعتراف کیا کہ قوم کو جھوٹے خواب دکھانا بند کرنا ہوگا اور معیشت کے لیے سخت مگر ضروری فیصلے کرنے ہوں گے۔ گزشتہ ایک عرصے میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد کم ہوگیا ہے۔ کچھ جھوٹے پروپیگنڈے وجہ بنے تو کچھ سیاسی عدم استحکام نے اس میں کمی کی۔ نوجوان صحافی نے بتایا ہے کہ ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہےاور اگر یہی صورتحال رہی تو ملک سول نافرمانی کی طرف جا سکتا ہے۔ لوگ قانون سے مایوس ہو کر غیر قانونی راستے اختیار کر رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ عوامی مسائل حل نہیں کر پاتے۔ اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ادارے محض وعدوں پر نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر شفاف اور عملی اقدامات کریں تاکہ عوام کا بھروسہ بحال ہو سکے، ورنہ وقتی اقدامات کسی دیرپا بہتری کا باعث نہیں بن سکتے۔ پاکستان میٹرز کے اس سوال پر کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالا جائے پر نوجوان صحافی کہنا تھا کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سودی نظام کا خاتمہ ناگزیر ہے، جب کہ آئی پی پیز کے مہنگے معاہدات کو بھی پاکستان کی معیشت پر ا یک بھاری بوجھ قرار دیا جا رہا ہے۔ صنعت کاری کا فروغ، چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی اور طلبہ کو اسکول کی سطح سے ہی نوکری کے بجائے کاروباری ذہنیت کی طرف لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی کا ستون ہوتی ہے اور پاکستان میں اس ستون کو کمزور