شہباز، بلاول پریس کانفرنس، سیاسی مصلحت کی شکار سیاست

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ہر مسئلہ صرف اس وقت اہم سمجھا جاتا ہے جب وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے مفاد میں ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کا متنازع نہری منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے کا اعلان اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کھڑے ہو کر “باہمی رضامندی” کی تکرار، دراصل ایک سیاسی مصلحت کو اصول کا لبادہ پہنانے کی کوشش ہے۔ پاکستان ایک وفاق ضرور ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں وفاقی سوچ مصلحتوں کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم جیسا منصوبہ، جو دہائیوں سے اس ملک کی معیشت، زراعت اور توانائی کے بحران کا حل بن سکتا تھا، صرف اس لیے رُکا رہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے اسے ذاتی یا صوبائی انا کا مسئلہ بنا لیا۔ آج جب وزیراعظم خود اس منصوبے کو “پاکستان کے مفاد میں بہترین” قرار دیتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی پارٹی نے گزشتہ تیس برسوں میں اس کے خلاف اپنی خاموشی کا کوئی کفارہ ادا کیا ہے؟ یہ بات کہی گئی کہ سندھ کے اعتراضات کو فوقیت دی گئی ہے لیکن کیا کسی نے کبھی سنجیدگی سے ان اعتراضات کی نوعیت اور حقیقت پر بات کی یا یہ اعتراضات بھی محض سیاسی نعروں کی پیداوار تھے؟ اگرسندھ کو کالا باغ ڈیم سے نقصان پہنچنا تھا، تو آج تک کوئی قابلِ فہم، سائنسی یا قانونی تحقیق کیوں سامنے نہ آ سکی؟ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو ہمیشہ اپنے ووٹ بینک کے تحفظ کے لیے استعمال کیا، اور ن لیگ نے ہمیشہ “سیاسی وقت” کا انتظار کیا۔مشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر کیا یہ کونسل واقعی صوبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے یا صرف سیاسی توازن قائم رکھنے کے لیے؟ مزید پڑھیں: وزیراعظم، بلاول ملاقات: ’حکومت نے پیپلزپارٹی کی تمام شرائط مان لیں‘ جب تک کونسل کی بنیاد خالص نیت اور خلوص پر نہیں، تب تک وہاں سے اٹھنے والے فیصلے صرف “بیانات” کی حد تک ہی رہیں گے۔ آج وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ “باہمی رضامندی تک نہریں نہیں بنیں گی”، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر کبھی یہ رضامندی نہ ہوئی، تو کیا ملک پانی کے بحران میں گھرا رہے گا؟ کیا اگلی نسلیں صرف اس لیے پانی کے قطرے کو ترسیں گی کہ ان کے بڑوں نے سیاسی مصلحتوں کو قومی مفاد پر فوقیت دی؟ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کا زرعی شعبہ تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، زراعت میں پیداوار کم ہو رہی ہے، کسان خودکشیاں کر رہے ہیں، اور شہروں میں پانی کی فراہمی بھی غیر یقینی بنتی جا رہی ہے۔ کیا ان حالات میں ملک کو ایسے فیصلوں کی ضرورت نہیں جو وقت ضائع کیے بغیر عمل میں لائے جائیں؟ بلاول بھٹو کی موجودگی میں وزیراعظم کی گفتگو نے ایک اور پہلو کو اجاگر کیا “دو ایسی جماعتیں جو ہمیشہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں، آج بظاہر ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں لیکن کیا یہ اتحاد بھی صرف اقتدار کے تحفظ کے لیے ہے؟پچھلے دس سالوں میں دونوں جماعتوں نے بار بار قومی مسائل پر سیاسی مفاہمت کا ڈھونگ رچایا، مگر کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں جس پر دونوں نے ملک و قوم کے مفاد میں کوئی دیرپا اور حقیقی فیصلہ کیا ہو۔ نہری منصوبوں کا ذکر ہو یا کالا باغ ڈیم کا،بات وہی ہے،فیصلہ ہو بھی جائے تو عملدرآمد کی ضمانت کہاں ہے؟ماضی میں بھی کئی منصوبے منظوری کے بعد فائلوں میں دفن ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ “وفاق کے مفادات سے متصادم فیصلے سے گریز کیا جائے گا”بظاہر خوش کن ہے مگر کیا کبھی کسی نے وضاحت کی کہ وفاق کا مفاد کس کی نظر میں کیا ہے؟کیا وفاقی حکومتوں نے کبھی عوامی رائے کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں؟یا فیصلے ہمیشہ “اقتدار کے اشتراک” کی میز پر طے پاتے رہے ہیں؟ آج جب ملک معاشی بحران،سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی کمزوری کا شکار ہے تو کیا ایسے مبہم بیانات مسئلوں کا حل ہیں یا ان کی شدت میں اضافہ؟یہ وقت ہے کہ سیاستدان “مشترکہ مفادات کونسل”کو محض ایک رسمی پلیٹ فارم بنانے کی بجائے اسے ایک فیصلہ کن اور بااختیار ادارہ بنائیں،جس کے فیصلے محض قراردادیں نہ ہوں بلکہ عملدرآمد کا عملی خاکہ بھی ساتھ لیے ہو۔ پاکستان کو آج سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے “فیصلہ سازی”۔ یہ قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نہروں، ڈیموں،توانائی منصوبوں اور زراعت جیسے اہم مسائل پر سیاسی بیان بازی سے زیادہ کسی واضح،طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔عوام کو پانی چاہیے، وعدے نہیں۔کسان کو زمین سیراب چاہیے،تقاریر نہیں اور قوم کو ترقی چاہیے،نہ کہ بے مقصد اجلاس۔ حکومت وقت اور پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ اس ملک کی زمین،اس کے دریا،اس کے کسان اور اس کے بچوں سے وفاداری نبھائیں۔یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی انا، مفادات اور وقتی فائدے سے بالاتر ہو کر فیصلے کیے جائیں۔بصورت دیگر،یہ بیانات بھی ماضی کے جھوٹے وعدوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جائیں گے اور قوم صرف ایک اور “کونسل” کا انتظار کرتی رہ جائے گی۔ نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر
یمن میں حوثیوں نے سات امریکی ڈرون مار گرائے، 200 ملین ڈالر کا نقصان

یمن کی سرزمین پر جاری غیر اعلانیہ جنگ میں حوثی باغیوں نے پچھلے چھ ہفتوں کے دوران امریکا کے سات جدید ترین MQ-9 ریپر ڈرونز کو نشانہ بنا کر واشنگٹن کو 200 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔ امریکی دفاعی حکام نے اس حیران کن پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حوثیوں کی دفاعی صلاحیتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ پچھلے ہفتے کے دوران ہی تین ڈرون گرائے گئے جن کی قیمت تقریباً 90 ملین ڈالر بنتی ہے۔ ان ڈرونز کا بنیادی کام حوثی ٹھکانوں پر نظر رکھنا اور فوری حملے کرنا تھا مگر اب وہ خود نشانہ بن کر یا تو یمن کے پہاڑی علاقوں میں گرے یا بحیرہ احمر کی تہہ میں دفن ہو چکے ہیں۔ یہ ڈرونز جو 40,000 فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں، جدید نگرانی اور حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں جنرل ایٹومکس نے تیار کیا تھا۔ لیکن حوثیوں نے جس طرح انہیں ایک ایک کر کے گرایا ہے اس نے پینٹاگون کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ لازمی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فورسز کا حملہ: ایک ہی گھر کے 12 افراد شہید 15 مارچ سے امریکا نے یمن میں روزانہ کی بنیاد پر حملے شروع کیے ہیں۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق اب تک 800 سے زائد حوثی اہداف کو نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں اسلحہ کے ذخائر، کمانڈ سینٹرز اور ڈرون لانچنگ سائیٹس شامل ہیں۔ تاہم، ان حملوں کے باوجود حوثیوں کی مزاحمت اور ڈرون حملے مسلسل جاری ہیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق حوثیوں کے حملوں کا ہدف صرف امریکی افواج نہیں بلکہ تجارتی بحری جہاز بھی ہیں جنہیں وہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگرچہ تاحال کوئی امریکی بحری جنگی جہاز متاثر نہیں ہوا لیکن خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے جس کے نتیجے میں امریکا نے دو طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس ہیری ایس ٹرومین اور یو ایس ایس کارل ونسن کے علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سینیٹرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان فضائی حملوں میں عام شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر راس عیسیٰ فیول ٹرمینل پر ایک حالیہ حملے میں مبینہ طور پر 70 سے زائد معصوم افراد شہد ہوگئے جس پر امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیته کو خط بھی لکھا گیا ہے۔ یمن کا آسمان اب صرف جنگی جہازوں کی گرج اور عالمی سیاست کی ہلچل سے لرز رہا ہے۔ مزید پڑھیں: پہلگام حملہ: ایک واقعہ دو بیانیے، کیا جنوبی ایشیا کا امن پھر سے خطرے میں ہے؟
غلط فہمی میں نہ رہیں، پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے، صدرمملکت

صدر مملکت آصف علی زرداری نے دشمن کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا دفاع الحمدللہ ناقابل تسخیر ہے اور پوری قوم اپنی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے یہ بات وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کے دوران کہی، جس میں محسن نقوی نے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی کی حکمت عملی اور فیصلوں سے صدر کو آگاہ کیا۔ صدر مملکت نے قومی سلامتی کمیٹی کے بروقت اور مدبرانہ فیصلوں کو قوم کے دل کی آواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلوں نے پاکستانی عوام کی امنگوں کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے بے بنیاد الزامات اور غیر منطقی اقدامات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ قوم متحد ہے، پرعزم ہے اور کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت ہر پاکستانی کے دل کا معاملہ ہے۔ لازمی پڑھیں: انڈیا اپنے مکروہ عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا، حافظ نعیم الرحمان پہگام میں ہونے والے اس حملے میں تقریبا 26 سیاح جاں بحق ہوئے تھے اور اس کے بعد اب صورتحال سنگین حد تک پہنچ چکی ہے جبکہ انڈیا نے اس واقعہ کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا آغاز بھی کر دیا۔ انڈیا نے اس واقعے کو فالس فلیگ آپریشن قرار دیتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر دیا اور انڈیا کی جانب سے پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا نے واہگہ بارڈر کی بندش، اسلام آباد میں تعینات اپنے ملٹری اتاشی کو واپس بلانے اور پاکستانی سفارتی عملے کی تعداد کم کرنے جیسے انتہائی اقدامات کیے۔ انڈین جارحیت کے ان اقدامات کے ردعمل میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا، جس میں پاکستان کی جانب سے بھی سخت ترین جوابی فیصلے سامنے آئے۔ یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کی دھمکی کو جنگ سمجھا جائے گا، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ تمام دوطرفہ معاہدے، بشمول شملہ معاہدہ معطل کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا کے لیے فضائی اور زمینی راستے بند کر دیے گئے ہیں اور ہر قسم کی دوطرفہ تجارت بھی فوری طور پر روک دی گئی ہے۔ انڈین ہائی کمیشن میں سفارتی عملے کو 30 ارکان تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ انڈیا کے دفاعی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے تمام انڈین شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور انہیں 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے، تاہم سکھ یاتریوں کو اس فیصلے سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کے ذریعے پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کرے گا بلکہ دشمن کو ہر محاذ پر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کا جرات مندانہ بیان، قومی قیادت کا اتحاد اور قوم کا غیر متزلزل عزم ایک پیغام ہے دشمن کے لیے کہ پاکستان نہ دباؤ میں آتا ہے، نہ کسی مصلحت کا شکار ہوتا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا نے میلی آنکھ سے دیکھا تو ماضی کی طرح منہ توڑ جواب ملے گا، پاکستانی فورسز پوری طرح سے تیار ہیں، اسحاق ڈار
سندھ طاس معاہدہ: ’اپنا پانی بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے‘

ڈاکٹر بشیر لاکھانی کے حالیہ بیان نے خطے میں پانی کے بحران اور انڈیا و پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان کا پانی روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوگا بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک بڑے انسانی اور ماحولیاتی بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔ ان کے اس بیان نے ماہرین، پالیسی سازوں اور عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ پانی کی دستیابی پاکستان کی زراعت، صنعت، اور روزمرہ زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال شدت اختیار کر رہا ہے کہ کیا انڈیا واقعی اس حد تک جا سکتا ہے، اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان کے لیے اس کے مضمرات کیا ہوں گے؟
’دونوں فریق تحمل سے کام لیں، ہم معاملے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں‘ اقوامِ متحدہ

مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ حملے اور اس کے بعد انڈیا و پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اقوام متحدہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں، تاہم اب تک ان کا اسلام آباد یا نئی دہلی سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ تمام فریقین سے تحمل، بردباری اور غیر ذمہ دارانہ بیانات و اقدامات سے گریز کی اپیل کرتا ہے، کیونکہ کسی بھی قسم کی غیر ضروری کارروائی خطے کے امن کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسٹیفن دوجارک کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا مؤقف واضح ہے کہ انڈیا اور پاکستان کو تمام مسائل کا حل باہمی بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہیے اور کسی بھی یکطرفہ قدم سے اجتناب برتنا ضروری ہے۔ مزید پڑھیں: پرائویسی کے خدشات: ایپل کا صارفین کو گوگل کروم براؤزر تبدیل کرنے کی درخواست یاد رہے کہ چند روز قبل پہلگام میں ہونے والے حملے میں 27 انڈین سیاح ہلاک ہوئے تھے، جس کا الزام انڈیا نے پاکستان پر لگایا، اور اس کے بعد نہ صرف سندھ طاس معاہدہ معطل کیا بلکہ سفارتی سطح پر بھی سخت اقدامات کیے۔ پاکستان نے انڈیا کے ان الزامات اور اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر پانی کے بہاؤ کو روکا گیا تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، پاکستان ہر ممکن طریقے سے اپنی خودمختاری اور آبی حقوق کا دفاع کرے گا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تناؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور عالمی برادری کی نظریں خطے میں امن و استحکام پر مرکوز ہیں۔
کوئٹہ میں دھماکا: 4 ایف سی اہلکار شہید، تین شدید زخمی

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک بار پھر مارگیٹ کے علاقے میں ہونے والے دھماکے نے سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ اس المناک واقعے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے چار جوان شہید جبکہ تین شدید زخمی ہوگئے۔ نجی ٹی وی چینل “آج نیوز” کی رپورٹ کے مطابق دھماکا اُس وقت ہوا جب سیکیورٹی فورسز کا بم ڈسپوزل سکواڈ علاقے میں موجود تھا۔ شہید ہونے والوں میں صوبیدار شہزاد امین، نائب صوبیدار عباس، سپاہی خلیل اور سپاہی زاہد شامل ہیں جو ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرگئے۔ اس کے علاوہ زخمی اہلکاروں کی شناخت لانس نائیک ظفر، لانس نائیک فاروق اور سپاہی خرم سلیم کے ناموں سے ہوئی ہے جنہیں فوری طور پر طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ دھماکے کے بعد فورسز کی بھاری نفری اور ریسکیو ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق حملہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، جس میں بم ڈسپوزل ٹیم کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز بھی بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے امیری میں آئی ای ڈی دھماکے نے 4 قیمتی جانیں لے لی تھیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ بلوچستان ایک بار پھر دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے اور اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دشمن کب تک ہمارے حوصلے آزمانے کی کوشش کرے گا؟ مزید پڑھیں: انڈیا نے میلی آنکھ سے دیکھا تو ماضی کی طرح منہ توڑ جواب ملے گا، پاکستانی فورسز پوری طرح سے تیار ہیں، اسحاق ڈار
پرائویسی کے خدشات: ایپل کا صارفین کو گوگل کروم براؤزر تبدیل کرنے کی درخواست

ایپل نے اپنے تقریباً دو ارب آئی فون صارفین کو خبردار کیا ہے کہ وہ گوگل کا انٹرنیٹ براؤزر کروم استعمال نہ کریں کیونکہ یہ ان کی ڈیجیٹل پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایپل نے اپنی ایک نئی ویڈیو میں کروم کا نام لیے بغیر صارفین کو واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ سفاری جیسے محفوظ براؤزرز کو ترجیح دیں۔ ایپل کی یہ وارننگ گوگل کی جانب سے تھرڈ پارٹی کوکیز ختم کرنے کے وعدے سے پیچھے ہٹنے کے بعد سامنے آئی ہے۔ یہ کوکیز صارف کی ویب سرگرمیوں کو ٹریک کرتی ہیں تاکہ انہیں مخصوص اشتہارات دکھائے جا سکیں، اور یہی گوگل کے اربوں ڈالر کے اشتہاری کاروبار کی بنیاد بھی ہیں۔ ایپل نے اپنی ویڈیو میں ایک کردار کو نگرانی کیمروں سے بچنے کی کوشش کرتے دکھایا ہے جو آخر میں سفاری کو منتخب کرتا ہے، گویا وہی واحد محفوظ راستہ ہے۔ اس ویڈیو میں فلاک کا ذکر بھی بالواسطہ کیا گیا ہے، جو کہ گوگل کا پرانا ٹریکنگ سسٹم تھا۔ یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم اے پنجاب کا ہیٹ ویو الرٹ جاری، شہریوں کو محفوظ رکھنے کے اقدامات جاری ماہرین کے مطابق، اگرچہ کوکیز نقصان دہ نہیں ہوتیں، لیکن ان کے ذریعے صارف کا ڈیجیٹل پروفائل بنایا جا سکتا ہے جس میں عمر، مقام، دلچسپیاں، اور یہاں تک کہ بینک کی ویب سائٹس کا استعمال بھی شامل ہو سکتا ہے۔ یہ ڈیٹا اشتہاری کمپنیوں اور ڈیٹا بروکرز کو بیچا جاتا ہے، اور اگر کوئی ہیکر ان نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کر لے تو صارفین کا حساس ڈیٹا بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس وقت گوگل کا کروم براؤزر آئی فون پر بھی دستیاب ہے، لیکن ایپل سفاری کے ذریعے بہتر پرائیویسی کنٹرول فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ سفاری کے علاوہ فائر فاکس، ڈَک ڈَک گو، اور آواسٹ جیسے براؤزر بھی بہتر ٹریکنگ تحفظ فراہم کرتے ہیں، جن میں تھرڈ پارٹی کوکیز کو بطور ڈیفالٹ بلاک کیا جاتا ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کو مکمل کنٹرول فراہم کرتا ہے تاکہ وہ خود فیصلہ کر سکیں کہ ان کا ڈیٹا کیسے اور کب استعمال ہو۔ تاہم، ایپل کے مطابق صرف وعدے کافی نہیں، بلکہ عملی تحفظ بھی ضروری ہے۔ ایپل کے اس اقدام کو نہ صرف رازداری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسے مارکیٹ میں سفاری کو مزید فروغ دینے کی کوشش بھی سمجھا جا رہا ہے۔
پانی روکنے کی دھمکی کو جنگ سمجھا جائے گا، پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے جنگی اقدام سمجھا جائے گا اور پاکستان اس کا بھرپور جواب دے گا۔ ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں ترجمان نے بتایا کہ کل قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کیا، جو کہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ قدم ہے۔ ایسے اقدامات سے خطے میں امن و استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج مکمل طور پر تیار ہیں اور ملکی دفاع کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ انڈیا کے اس اقدام سے دوقومی نظریے کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا اپنے مکروہ عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا، حافظ نعیم الرحمان ترجمان نے مزید بتایا کہ واہگہ بارڈر پر ہر قسم کی آمدورفت بند کر دی گئی ہے، انڈیا کی کمرشل پروازوں کے لیے پاکستان کی فضائی حدود بھی بند کر دی گئی ہے، اور سارک اسکیم کے تحت جاری تمام بھارتی ویزے معطل کر دیے گئے ہیں، صرف سکھ یاتریوں کو اس سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ شفقت علی خان نے پاکستان کے حالیہ سفارتی روابط کا بھی ذکر کیا، انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کا دورہ کیا اور ترک قیادت سے اہم ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، روانڈا، افغانستان، ازبکستان اور ایران کے ساتھ بھی دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے لیے ملاقاتیں اور رابطے ہوئے۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ انڈیا کے کسی بھی جارحانہ قدم کا فوری اور مؤثر جواب دیا جائے گا اور پاکستان اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔
سینیٹ میں انڈین الزامات کے خلاف قرارداد منظور: ’ملکی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا‘

خطے میں بڑھتی کشیدگی نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینٹ اجلاس کے دوران انڈیا کو ایک واضح اور دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی نے میلی آنکھ سے دیکھا تو ماضی کی طرح بھرپور اور منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی، خودمختاری اور آبی حقوق پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “یہ وہ معاہدہ ہے جس کے بدلے ہم نے اپنے دو دریا چھوڑ دیے اور آج اگر انڈیا اسے بھی روندنے پر تُلا ہے تو اسے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔” صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے لیے اپنی فضائی حدود فوری طور پر بند کر دی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پہلگام حملہ: ایک واقعہ دو بیانیے، کیا جنوبی ایشیا کا امن پھر سے خطرے میں ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ انڈیا کو کسی تیسرے ملک تک تجارت کی سہولت بھی مکمل طور پر معطل کر دی گئی ہے۔ نائب وزیر اعظم کے مطابق واہگہ بارڈر کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ “انڈیا نے اٹاری بند کیا ہم نے واہگہ کی راہ روک دی۔ ہم انڈیا کی ہر ایک حرکت کا بھرپور جواب دینے کے لیے مکمل تیار ہیں۔” سفارتی محاذ پر بھی پاکستان نے بڑا قدم اٹھاتے ہوئے انڈیا کے دفاعی اور ایئر ایڈوائزر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ انڈیا نے اگر پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کو 30 تک محدود کیا تو پاکستان نے بھی اسی تعداد تک لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا سے پاکستان آئے افراد کو 30 اپریل تک واپس جانے کی ہدایت دی گئی ہے اور سارک ویزا سمیت تمام ویزے معطل کر دیے گئے ہیں تاہم سکھ یاتریوں کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔ لازمی پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی فورسز کا حملہ: ایک ہی گھر کے 12 افراد شہید اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ “مذہبی احترام کے تقاضے ہم کبھی نہیں بھولتے مگر قومی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے۔” پاکستان نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مبینہ معطلی کو کھلی جنگ قرار دیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ پانی کا بند ہونا پاکستان کی بقا کے خلاف ہے اور کسی بھی قیمت پر یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ اسحاق ڈار اجلاس میں کہا کہ “پانی ہماری 24 کروڑ عوام کی لائف لائن ہے۔ اب تو دنیا کہتی ہے کہ اگلی جنگیں پانی پر ہوں گی اور ہم یہ جنگ پہلے لمحے سے لڑنے کو تیار ہیں۔” اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ بحرانی صورتحال میں ساری قوم ایک پیج پر ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر نے حکومتی ڈرافٹ کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور سینیٹ نے انڈیا کے الزامات کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ قرارداد میں واضح کیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں اور کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ “ہم نے 26 ممالک کو بریفنگ دے دی ہے، عالمی برادری ہماری پوزیشن کو سمجھ رہی ہےاور ڈپلومیٹک محاذ پر ہم پوری طرح متحرک ہیں۔” پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ وہ شملہ اور دیگر معاہدوں کی معطلی پر بھی غور کر رہا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ “انڈیا وہ غلطی نہ کرے جس سے پورے خطے کا امن برباد ہو جائے۔ ہم نے تحمل کا دامن تھام رکھا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تیار نہیں۔” مزید پڑھیں: ’کوئی مک مکا قبول نہیں ہوگا‘ حافظ نعیم الرحمان کا حکومت سے انڈیا کے خلاف کھل کر سامنے آنے کا مطالبہ
پی ڈی ایم اے پنجاب کا ہیٹ ویو الرٹ، شہریوں کو محفوظ رکھنے کے اقدامات جاری

پنجاب میں شدید گرمی اور ممکنہ ہیٹ ویو کے پیش نظر پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے تمام ضلعی و بلدیاتی اداروں کو فوری حفاظتی اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا کی جانب سے محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ، تمام کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو باقاعدہ مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مراسلے کے مطابق صوبے بھر کے اربن سنٹرز، پبلک پارکس، کمیونٹی ہالز، یونین کونسل دفاتر اور دیگر لوکل گورنمنٹ عمارتوں میں عارضی و مستقل کولنگ شیلٹرز قائم کیے جائیں تاکہ شہری شدید گرمی میں محفوظ مقامات تک رسائی حاصل کر سکیں۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ بھر میں ٹریفک قوانین کے خلاف کریک ڈاؤن، 16 دنوں میں 23,591 موٹر سائکلیں ضبط مراسلے میں بازاروں، بس اسٹاپس اور مذہبی عبادت گاہوں پر ہائیڈریشن پوائنٹس قائم کرنے اور پانی کی بلا تعطل دستیابی کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت دی گئی ہے، جبکہ پبلک ٹوائلٹس اور ہینڈ پمپس کو مکمل طور پر فعال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے واضح کیا ہے کہ تمام میٹروپولیٹن کارپوریشنز، میونسپل کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشنز کو ہیٹ ویو کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر فعال کیا جائے، اور واسا و ریسکیو 1122 سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مربوط کوآرڈینیشن کو یقینی بنایا جائے۔ مراسلے میں شہری سطح پر عوامی آگاہی مہم چلانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں سپیکرز، بینرز اور مساجد میں اعلانات کے ذریعے عوام کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا جائے گا، جب کہ لوکل شخصیات، اساتذہ اور مذہبی رہنماؤں کی مدد سے اس مہم کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔ ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے ہر یونین کونسل اور میونسپل کارپوریشن میں ہیٹ ویو سے متعلق نمائندہ تعینات کرنے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ تمام اقدامات کو بہتر انداز میں مربوط اور مؤثر انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ پی ڈی ایم اے نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر دھوپ میں نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں اور ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں۔