ایرانی بندرگاہ پر دھماکہ: 700 سے زائد افراد زخمی، پانچ جاں بحق

ایران کے جنوبی شہر بندر عباس کی سب سے مصروف بندرگاہ ‘شہید رجائی’ ہفتہ کی شام ایک خوفناک دھماکے سے لرز اُٹھی، جس سے 700 سے زائد افراد زخمی ہو گئے اور پانچ افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ مزید اس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ دھماکے کی شدت نے دور تک عمارتوں کی کھڑکیاں توڑ ڈالیں، یہ بندرگاہ دارالحکومت تہران سے 1,000 کلومیٹر (620 میل) سے زائد فاصلے پر واقع ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق “پہلے ایک زوردار آواز سنائی دی اور پھر آسمان پر ایک دیو ہیکل مشروم کلاؤڈ بن گیا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے اطلاع دی کہ ایران کی کسٹمز ایڈمنسٹریشن نے بندرگاہ کے علاقے میں خطرناک اشیاء اور کیمیائی مواد کے ذخیرےکو دھماکے کا سبب قرار دیا، تاہم مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔ایرانی قومی آئل پروڈکٹس ریفائننگ اینڈ ڈسٹری بیوشن کمپنی نے ایک بیان میں کہا کہ دھماکے کا تیل صاف کرنے والے کارخانوں، ایندھن کے ذخائر، تقسیماتی مراکز اور پائپ لائنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بیان میں کہا گیا کہ شہید رجائی بندرگاہ میں دھماکہ اور آگ ہماری کمپنی سے وابستہ ریفائنریوں یا تیل کی دیگر تنصیبات پر اثر انداز نہیں ہوئی۔ اس سے قبل، ہرمزگان پورٹس اینڈ میری ٹائم ایڈمنسٹریشن کے عہدیدار، اسماعیل ملکی زادہ نے کہا تھا کہ دھماکہ شہید رجائی بندرگاہ کے ڈاک کے قریب پیش آیا۔ شہید رجائی بندرگاہ بنیادی طور پر کنٹینر ٹریفک سنبھالتی ہے اور یہاں تیل کے ٹینک اور دیگر پیٹرو کیمیکل تنصیبات بھی موجود ہیں۔مئی 2020 میں، اسرائیل پر اسی بندرگاہ پر ایک بڑے سائبر حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں بندرگاہ کے کمپیوٹر سسٹم کی بندش سے کئی دنوں تک نقل و حمل میں شدید خلل پیدا ہوا تھا۔ یہ دھماکہ ایک حساس وقت پر ہوا ہے، جب ایرانی حکام اور امریکی عہدیداران کے درمیان ممکنہ نئے جوہری معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں۔ مزید پڑھیں: ایران سے معاہدے میں اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو دوسری راہ بھی کھلی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
پاکستان دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہے، وزیر اعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہے اور ملکی سلامتی کے خلاف کسی بھی اقدام کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انڈیا نے پہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر بے بنیاد اور بلا ثبوت الزامات عائد کیے ہیں، تاہم پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے کسی بھی غیرجانبدار عالمی تحقیقات کے لیے تیار ہے۔ وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اگر انڈیا نے پانی روکا تو پاکستان بھرپور اور فیصلہ کن ردعمل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی دشمن پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھے۔ یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی چیبنی سفیر سے ملاقات، پہلگام واقعے پر مشاورت شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کی ہے اور دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے، جہاں 90 ہزار سے زائد شہری جان کی بازی ہار چکے اور معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن ہونے کے ناطے عالمی امن و سلامتی کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔ انہوں نے افغانستان سے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک کے ساتھ پرامن بقائے باہمی چاہتا ہے، تاہم افغان سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں ناقابل قبول ہیں۔ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کشمیری عوام کی بے مثال قربانیاں عالمی برادری کی توجہ کی منتظر ہیں۔ شہباز شریف نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام عالم سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے مظالم کو روکا جائے۔ پاس آؤٹ کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ آج آپ دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہو رہے ہیں، جن کا نظم و ضبط عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج قائداعظم محمد علی جناح کے رہنما اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اقتصادی بحالی کے بعد پاکستان اب ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور مختلف شعبوں میں غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کی جا رہی ہے، خصوصاً کان کنی، معدنیات اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں۔
ایران سے معاہدے میں اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو دوسری راہ بھی کھلی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ

ایران اور امریکا کے اعلیٰ سطحی نمائندے عمان کے دارالحکومت مسقط میں نہایت اہم مشن پر دوبارہ آمنے سامنے آ چکے ہیں اور اس بار بات صرف الفاظ کی نہیں، بلکہ ممکنہ جنگ اور امن کے بیچ کی ہے۔ ہفتے کے روز شروع ہونے والے ان بالواسطہ مذاکرات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان عمانی ثالثوں کے ذریعے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس سے قبل روم میں ہونے والے دوسرے دور کو دونوں جانب سے ’تعمیراتی‘ قرار دیا گیا تھا لیکن اب مسقط میں ماحول کہیں زیادہ سنجیدہ اور حساس ہو چکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ جو اپنے دوسرے دور صدارت میں عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے سرگرم ہیں، اب ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ نئے ایٹمی معاہدے کے لیے پُر امید ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹائم میگزین کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں کہنا تھا کہ “مجھے لگتا ہے ہم ایران سے معاہدہ کرنے جا رہے ہیں لیکن اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو دوسری راہ بھی کھلی ہے۔“ یہ “دوسری راہ” بلا شبہ عسکری کارروائی ہے اور یہی وہ جملہ ہے جو مسقط میں ہونے والی بات چیت کو صرف مذاکرات نہیں بلکہ ممکنہ تصادم سے پہلے کی آخری کوشش بنا دیتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ایک جانب قحط تو دوسری طرف اسرائیل کی بمباری، 45 فلسطینی شہید اس وقت ایران کی اقتصادی حالت خستہ ہے۔ پابندیوں کی ماری معیشت، اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں ہونے والی مسلسل عسکری ناکامیاں اور عوامی دباؤ، یہ سب مل کر ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کر چکے ہیں۔ دوسری جانب ایران کی اپنی سرخ لکیریں بھی واضح ہیں، یورینیم کی افزودگی ختم نہیں ہوگی، موجودہ یورینیم ذخائر پر کوئی سودا نہیں ہوگا اور دفاعی میزائل پروگرام ہرگز قابل گفت و شنید نہیں۔ ایسے میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا یہ کہنا کہ “ایران کو اپنے جوہری پاور پلانٹ کے لیے افزودہ یورینیم درآمد کرنا ہوگا۔” تہران کے قریبی ذرائع کے مطابق ایران کسی حد تک ایٹمی سرگرمیوں پر پابندیاں قبول کرنے پر آمادہ ہے مگر اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا ہرگز نہیں کرے گا۔ دوسری طرف یورپی طاقتیں خاص طور پر فرانس اور جرمنی بھی پس پردہ امریکا پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ نیا معاہدہ صرف افزودگی تک محدود نہ ہو بلکہ ایران کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو بھی روکنے کے لیے سخت شرائط عائد کی جائیں۔ تاہم تہران کی قیادت کا کہنا ہے کہ اس کا میزائل پروگرام دفاعی نوعیت کا ہے اور خطے میں کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برس ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں درجنوں بیلسٹک میزائل فائر کیے تھے جو اس خطے کی کشیدگی میں آگ بھڑکانے کے مترادف تھے۔ مزید پڑھیں: ایک جانب قحط تو دوسری طرف اسرائیل کی بمباری، 45 فلسطینی شہید
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی چیبنی سفیر سے ملاقات، پہلگام واقعے پر مشاورت

پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کی جانب سے الزامات اور اشتعال انگیزی کے تناظر میں دفتر خارجہ اسلام آباد عالمی سفارتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔ انڈین بیانات کے بعد چینی سفیر جیانگ ژی ڈونگ ہنگامی مشاورت کے لیے دفتر خارجہ پہنچے، جہاں ان کی نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے اہم ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں خطے کی ابھرتی ہوئی صورتحال، انڈیا کی حالیہ جارحانہ پالیسیوں اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے حساس معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ یہ بھی پڑھیں: چین کا ’ڈریم سٹی‘، جہاں 10 جی ٹیکنالوجی دستیاب ہے ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے چینی سفیر کو انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں پاکستان کا مؤقف واضح طور پر پیش کیا۔ انہوں نے انڈیا کی دھمکیوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان اعلان جنگ تصور کرے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان خطے میں امن و استحکام کا خواہاں ہے لیکن انڈیا کی مسلسل اشتعال انگیزیوں نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ ملاقات کے دوران چینی سفیر نے پاکستان کے مؤقف کو بغور سنا اور خطے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے چین کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ ذرائع کے مطابق چین نے انڈیا کی جانب سے پیدا کی گئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارتی محاذ پر پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ موجودہ صورتحال میں دفتر خارجہ کی سفارتی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے اور پاکستان عالمی برادری کو انڈین اقدامات کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے متحرک ہو چکا ہے۔
چین کا ’ڈریم سٹی‘، جہاں 10 جی ٹیکنالوجی دستیاب ہے

فرض کریں ایک ایسا شہر جہاں دنیا کی ہر ضرورت صرف 15 منٹس کی مسافت پر دستیاب ہو۔ تصور کیجیے، ہزاروں میل دور بیٹھا ڈاکٹر ایک روبوٹ کو اشارے کرے اور روبوٹ مریضوں کی سرجری کرے۔ ایک ایسی دنیا جہاں 20 جی بیز کی فلم چند سیکنڈز میں ڈاؤن لوڈ ہوجائے۔ اور آٹومیٹک گاڑیاں ایک ملی سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر درست سمت میں چلیں۔ دنیا ابھی 5 جی اور 6 جی کی رفتار پر حیران ہو رہی تھی اور اسی دوران چین نے سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 10 جی ٹیکنالوجی کا باضابطہ آغاز کر دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا آغاز چین کے دارلحکومت سے بیجنگ سے 100 کلومیٹر دور ایک ایسی جگہ کیا گیا ہے جس کو ڈریم سٹی کا نام دیا گیا ہے۔ اس ہائی ٹیک شہر کو صدر شی جن پنگ کی نگرانی میں 2017 میں تعمیر کیا گیا تھا جہاں خواب تھا کہ ہر ضرورت صرف 15 منٹ کی پیدل مسافت پر میسر ہو۔ لیکن اب یہاں ایک اور خواب حقیقت بن چکا ہے اور وہ ہے دنیا کی تیز ترین انٹرنیٹ اسپیڈ۔ ہواوے اور چائنا یونیکوم کے اشتراک سے بننے والا یہ نیٹ ورک جدید ترین ٹیکنالوجی پر مبنی ہے، جس کی ڈاؤن لوڈنگ اسپیڈ 9,834 Mbps، اپلوڈ نگ اسپیڈ 1,008 Mbps اور لیٹنسی صرف 3 ملی سیکنڈ ہے۔ مطلب ایک 20GB فلم صرف 20 سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ اور 8K ویڈیو بلاتعطل دیکھ سکیں گے۔ یہ تیزرفتار نیٹ ورک صرف انٹرٹینمنٹ یا کمیونیکیشن تک محدود نہیں۔ اس کے ذریعے اسمارٹ ہومز، ریئل ٹائم کلاؤڈ گیمنگ، آٹو میٹک گاڑیاں اور اے آئی سسٹمز کی نئی دنیا آباد ہو رہی ہے۔
کیا عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو ایک جیسے لیڈر ہیں؟

پاکستان میں عمران خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا موازنہ کرنے پر جاری بحث سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید مباحثے کو جنم دے رہی ہے۔ اگرچہ دونوں رہنماؤں نے عوامی حمایت حاصل کی اور سیاسی بیانیے کو نئے انداز میں تشکیل دیا، لیکن ان کی نظریاتی سوچ، قیادت کے انداز اور تاریخی حالات میں نمایاں فرق ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بھٹو کی میراث سوشلسٹ اصلاحات اور ادارہ جاتی ڈھانچے کی تشکیل پر مبنی تھی، جبکہ عمران خان کی حکمرانی بدعنوانی کے خلاف مہم اور عوامی مقبولیت کے بیانیے پر مرکوز رہی۔ یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ ان دونوں رہنماؤں کے درمیان موازنہ کرنا ان کے مخصوص سیاسی حالات کو حد سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔
ایک جانب قحط تو دوسری طرف اسرائیل کی بمباری، مزید 45 فلسطینی شہید

غزہ کے مظلوم عوام پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی ایجنسی UNRWA کے سربراہ نے اسرائیلی مظالم کو “انسانی ساختہ” اور “سیاسی مقاصد پر مبنی قحط” قرار دیا ہے، جب کہ عالمی ادارہ خوراک (WFP) نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں امدادی ذخائر مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے خوراک سے متعلق خصوصی نمائندے مائیکل فخری نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل پچھلے 50 دن سے غزہ کو مکمل محاصرے میں لے کر قحط کے ذریعے فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے اور دنیا کی مجرمانہ خاموشی اس ظلم میں برابر کی شریک ہے۔ جمعہ کی صبح سے اب تک اسرائیلی حملوں میں مزید 45 مظلوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اسپتالوں سے موصول اطلاعات کے مطابق زخمیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور بیشتر زخمی ادویات اور خوراک کی قلت کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 51,439 فلسطینی شہید اور 117,416 زخمی ہو چکے ہیں جبکہ غزہ کے سرکاری میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61,700 سے زائد بتائی ہے جن میں وہ ہزاروں لاشیں بھی شامل ہیں جو اب تک ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مغربی دنیا، خصوصاً امریکا، اسرائیل کو کھلی سپورٹ دے رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی، بچوں کی لاشیں، تباہ حال اسپتال اور بھوکے پیاسے معصوم چہرے، مگر پھر بھی دنیا کی آنکھیں بند ہیں۔ غزہ میں بھوک، بمباری اور بے بسی کی ایک ایسی داستان رقم ہو رہی ہے اور یہ سب ہونے کہ بعد اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسانیت مر چکی ہے؟ مزید پڑھیں: امریکی سرپرستی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت: کیا پاکستان میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے؟
امریکی سرپرستی میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کراچی سے پشاور تک شٹر ڈاؤن ہڑتال، کاروباری مراکز بند، سڑکوں سے ٹریفک غائب

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی کال پر ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں شٹرڈاؤن ہڑتال جاری ہے، ملک کے بیشتر شہروں میں کاروباری مراکز بند ہیں۔ یہ ہڑتال امریکی سرپرستی میں غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور انڈیا کے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کے خلاف کی جارہی ہے۔ لاہور میں تمام مارکیٹیں بند ہیں، کہیں کہیں دکانیں کھلی بھی نظر آئیں۔ لاہورکی ٹاؤن شپ مارکیٹ، مولانا شوکت علی روڈ، وحدت روڈ، اچھرہ ، کریم مارکیٹ، برکت مارکیٹ، لبرٹی مارکیٹ، گلبرگ، شاہ عالم مارکیٹ اور انارکلی بازار مکمل طور پر بند ہیں۔ یکجہتی غزہ، اسرائیل و انڈیا کی جارحیت کے خلاف جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر پاکستان بھر میں ہڑتال کی جا رہی ہے۔اس دوران دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے تمام حصوں میں بڑی مارکیٹیں بند ہیں۔ تجارتی مراکز کے سوا دیگر مقامات پر بھی ہڑتال کا اثر نمایاں ہے۔پاکستان میٹرز کے نمائندوں نے اسلام آباد، لاہور، کراچی، دیر، ملتان، گوادر، ژوب، وہاڑی، راولپنڈی، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور سے جو اپ ڈیٹس شیئر کی ہیں ان میں ہڑتال کی تازہ ترین صورتحال بتائی گئی ہے۔مزید جانیں پاکستان میٹرز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں۔ راولپنڈی کے راجہ بازار، مری روڈ، صدر اور کمرشل مارکیٹ میں دکانیں بند ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ڈرگسٹ اینڈ کیمسٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ہڑتال کی جا رہی ہے جس کے باعث بیشتر بازاروں میں میڈیکل اسٹور بند ہیں۔ پاکپتن اور گردونواح میں تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز بند ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکی سرپرستی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت: کیا پاکستان میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے؟ ملکہ کوہسار مری میں اہل غزہ سے یکجہتی کے لیے مکمل شٹر ڈاون ہڑتال ہے، جماعت اسلامی کی شٹر ڈاون ہڑتال کی کال پر تمام کاروباری مراکز بند ہیں، مال روڈ، کینٹ مارکیٹ، بھوربن مارکیٹ، علیوٹ اور پھگواڑی سمیت تمام بازار اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی کم ہے۔ پشاور میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے شٹرڈاون ہڑتال کے باعث قصہ خوانی بازار، چوک یادگار، اشرف روڈ، چوک ناصر خان اور خیبر بازار میں دکانیں بند ہیں، اہم شاہراؤں پر چھوٹی بڑی مارکیٹیں اور شاپنگ مالز بھی بند ہیں۔ کوئٹہ میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی ہڑتال کی جا رہی ہے، شہر میں تمام اہم بازار اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ مستونگ، قلات، خضدار اور پشین سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے، تمام چھوٹے بڑے کاروباری مراکز اور دکانیں بند جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔ کراچی کے کورنگی كراسنگ روڈ پر سیاسی جماعت کی جانب سے فلسطین کے حق میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کے باعث روڈ ٹریفک کے لیے بند ہے، مظاہرین کی جانب سے سڑکوں کو ٹائر جلا کر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ دھرنے کے باعث روڈ بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک کو گودام چورنگی اور ناصر جمپ سے چمڑا چورنگی بھیجا جا رہا ہے۔ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے شہروں میں بھی مکمل ہڑتال کی گئی ہے، وہاڑی میں ہڑتال کے ساتھ ساتھ تاجروں نے مظاہرہ بھی کیا ۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم فلسطینیوں کی نسل کشی برداشت نہیں کر سکتی، قوم فلسطینیوں سے اظہار محبت اور اسرائیل امریکا کی مذمت کرے۔
امریکی سرپرستی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت: کیا پاکستان میں فلسطین کی حمایت بڑھ رہی ہے؟

غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، شہروں کی تباہی، اسپتالوں کی بربادی اور بچوں کی لاشیں، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں تو شاید ناکام رہی ہیں، مگر پاکستان میں یہ منظر نامہ عوامی سطح پر شدید ردِعمل اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا سبب بن چکا ہے۔ امریکہ کی کھلی سرپرستی میں اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف حالیہ کارروائیوں نے پاکستان بھر میں احتجاج، ہڑتالیں اور ریلیوں کی لہر کو جنم دیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ وقتی ردعمل ہے یا پاکستان میں فلسطین کی حمایت ایک نئی تحریک کی صورت اختیار کر رہی ہے؟ اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد سے اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعدادبچوں اور خواتین کی ہے۔ اس ظلم و ستم کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں فلسطین کے حق میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد روز کا معمول بن چکا ہے۔ کراچی، لاہور، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت تمام بڑے شہروں میں جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین اور دیگر مذہبی و سماجی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ تعلیمی اداروں، مزدور یونینز اور صحافتی حلقوں نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ حالیہ دنوں میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے جماعت اسلامی کی اپیل پر 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا گیا، جسے تاجروں، وکلا اور مختلف تنظیموں کی جانب سے غیر معمولی حمایت ملی۔ کراچی کی بڑی مارکیٹیں جیسے اردو بازار، ریگل چوک، کمپیوٹر مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، تین تلوار، کلف مارکیٹ اور گلف سینٹر مکمل طور پر بند رہیں۔ اسی طرح، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پشاور میں بھی تاجروں نے کاروباری سرگرمیاں معطل رکھ کر فلسطینیوں سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ ریلیوں کے دوران “غزہ جل رہا ہے، اُمت سو رہی ہے”، “اسرائیل مردہ باد” اور “فلسطین کے بچوں کا خون ہم پر قرض ہے” جیسے بینرز دیکھنے میں آئے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر پاکستانی صارفین نے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹس، ویڈیوز اور گرافکس کے ذریعے بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ ہیش ٹیگزاور ،#GazaUnderAttack ،#FreePalestine#BoycottIsraelمسلسل ٹرینڈ کرتے رہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی، جس میں معروف برانڈز کے خلاف باقاعدہ فہرستیں جاری کی گئیں اور متبادل مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی ہے اور اقوامِ متحدہ سمیت دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا، تاہم عوامی حلقوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ صرف مذمت کافی نہیں۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد یہ چاہتی ہے کہ حکومت عملی اقدامات کرے، مثلًا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر مؤثر سفارتی کوششیں، اسرائیلی مصنوعات پر پابندی اور فلسطینی مہاجرین کے لیے امدادی پیکج۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے تقاریر، سیمینارز اور خصوصی دعائیہ اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی طلبہ کی جانب سے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیا گیا، جن میں غزہ میں ہونے والی تباہی پر افسوس اور امریکہ و اسرائیل کے خلاف نعرے بازی شامل تھی۔ مذہبی جماعتوں نے فلسطین کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا ہے۔ جمعہ کے اجتماعات میں خطبوں کے دوران فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر اور اُمت مسلمہ کی بے حسی پر تنقید کی جا رہی ہے۔ علما کا کہنا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیںبلکہ پوری امت کا ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس معاملے میں آواز بلند کرے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی زمین، ان کا وطن اور ایک خودمختار ریاست حاصل ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوبین کی تقاریر میں بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے دوران اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں بھی فلسطینی عوام کی حمایت میں زور دار تقریر کی، جسے عرب اور غیر عرب مسلم ممالک نے سراہا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام کا یہ جذبہ وقتی ہے یا یہ ایک ایسی مستقل تحریک بننے جا رہی ہے جو فلسطین کے لیے عملی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدامات کی طرف بڑھے گی؟ ماضی میں کئی بار فلسطین کے حق میں آوازیں اٹھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ مدھم ہو گئیں۔ تاہم موجودہ صورتحال میں عوامی شعور،سوشل میڈیا کی طاقت اور نئی نسل کی فعال شرکت نے اس تحریک کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ اگر یہ جذبہ مستقل مزاجی سے برقرار رہا، تو یہ محض احتجاج یا ہڑتال تک محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستانی معاشرے کے اندر فلسطینی کاز کے لیے سنجیدہ اور دیرپا حمایت کا باعث بنے گا۔پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ نعمان چیمہ نے کہا کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا فلسطین کے مسئلے پر اتحاد ایک مثبت سیاسی اشارہ ہے، جو داخلی طور پر ہم آہنگی پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ اتحاد فرقہ وارانہ اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ انسانی مقصد کے لیے آواز بلند کر رہا ہے، جو عوام میں بیداری اور یکجہتی کو فروغ دیتا ہے۔ اگر یہ اتحاد مخلصی سے جاری رہا تو اس کے پاکستان کی سیاسی فضا پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور دفترِ خارجہ نے عالمی فورمز پر فلسطینیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرکے ایک واضح مؤقف اپنایا ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں صرف بیانات کافی نہیں۔ عوامی جذبات اور زمینی حقائق کے پیش نظر پاکستان کو مزید مؤثر اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جیسے OIC میں فعال کردار، اسرائیلی مصنوعات پر پابندی، اور فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی فراہمی۔ اس سے پاکستان کا مؤقف بین الاقوامی سطح پر مزید مضبوط ہوگا۔