پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی پہلی سڑک: کیا سہولیات ہوں گی؟

لاہور میں پاکستان کی پہلی ایسی سڑک تیار کر لی گئی ہے جو بجلی پیدا کرے گی۔ اس سڑک کا نام “روٹ 47” رکھا گیا ہے اور یہ ساڑھے چار کلومیٹر لمبی ہے۔ سڑک کے ساتھ خوبصورت جھیل اور سائیکل ٹریک بھی بنایا گیا ہے جو شہریوں کے لیے ایک دلکش تفریح گاہ بن جائے گا۔ یہ ہائی ٹیک سڑک سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (سی بی ڈی) نے تقریباً 9 ارب روپے کی لاگت سے بنائی ہے۔ یہ سڑک کلمہ چوک، فیروز پور روڈ، گلبرگ، والٹن روڈ اور لاہور رنگ روڈ جیسے اہم علاقوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ روٹ 47 پر ایک بڑا فلائی اوور بھی بنایا گیا ہے، اور پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے الگ لائنز بنائی گئی ہیں۔ بارش کے پانی کے لیے خاص نالیاں (ڈرینج سسٹم) بھی لگائی گئی ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ سڑک کے ساتھ سولر پینلز لگائے گئے ہیں جو 1.5 میگا واٹ تک بجلی پیدا کریں گے اور چلنے والوں کو سایہ بھی دیں گے۔ اتوار کے دن وزیر اعلیٰ پنجاب، مریم نواز اس سڑک کا باقاعدہ افتتاح کریں گی اور روٹ 47 عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

انڈیا کا پاکستان کو ایشیا کپ 2025 کے لیے ویزا دینے سے انکار، کھیل میں سیاست کیا رنگ لائے گی؟

انڈیا نے پاکستان مینز ہاکی ٹیم کو ایشیاکپ 2025 کے لیے ویزا دینے سے انکار کردیا۔ انڈیا کی جانب سے پاکستان مینز ہاکی ٹیم کو ایشیا کپ 2025 کے لیے ویزا دینے سے انکار ایک تشویشناک پیش رفت ہے، جو کھیلکے میدان میں سیاست کی مداخلت کو نمایاں کرتا ہے۔ ایشیا کپ 2025، جو اگست اور ستمبر میں انڈین شہر راجگیر میں شیڈول ہے، نہ صرف برصغیر میں ہاکی کے ایک بڑے مقابلے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ 2026 کے ہاکی ورلڈ کپ کی کوالیفکیشن کا بھی اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان، جس نے تین بار ایشیا کپ جیتا ہے اور جس کی شاندار ہاکی تاریخ ہے، کا اس ایونٹ میں شرکت نہ کر سکنا کھیل کے عالمی اصولوں کے منافی ہوگا۔ یہ بھی پڑھیں: لندن 2029 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کا خواہاں، کیا امکانات ہیں؟ انڈیا کے اس فیصلے کی وجہ حالیہ پہلگام واقعہ اور اس کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی بتائی جا رہی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کھیلوں کو سیاسی تناؤ کا شکار بنایا جا رہا ہے، حالانکہ بین الاقوامی اصولوں کے تحت کھیلوں کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہیے۔ ایشین ہاکی فیڈریشن کی خاموشی بھی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اگر پاکستان بروقت اور مؤثر طریقے سے اپنا مقدمہ پیش کرتا ہے تو امکان ہے کہ ایونٹ کو نیوٹرل مقام پر منتقل کیا جا سکے، جیسا کہ ماضی میں بعض دیگر کھیلوں میں ہوتا رہا ہے۔ فی الحال پاکستان ہاکی فیڈریشن نے کوئی باضابطہ موقف اختیار نہیں کیا، لیکن یہ معاملہ بروقت عالمی اداروں میں اٹھانا ناگزیر ہے تاکہ پاکستان کی ہاکی ٹیم کو ان کا جائز حق دلایا جا سکے اور کھیلوں کو سیاسی تعصبات سے بچایا جا سکے۔

سیاسی رجحانات اور موجودہ رہنما، کیا جماعت اسلامی بہترین جمہوری جماعت ہے؟

سینیئر صحافی ساجد خان نے کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ملک میں جمہوریت کی حقیقی علمبردار جماعت ہے۔ ان کے مطابق پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوری اقدار کو فروغ دیا اور آمریت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ساجد خان نے مزید کہا کہ بعض حلقوں میں جماعت اسلامی کو ایک سخت گیر مذہبی جماعت سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ایک اعتدال پسند جماعت ہے اور اس کا رویہ سخت گیر مذہبی جماعتوں جیسا نہیں۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے موجودہ رہنما حافظ نعیم الرحمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہ تو کسی انگریزی زبان میں ماہر مقرر سے کم ہیں اور نہ ہی لباس و ظاہری وضع قطع کے اعتبار سے کسی سے پیچھے ہیں۔ ساجد خان کے مطابق حافظ نعیم رحمان بہترین انگریزی بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کا لباس بھی جدید طرز کا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو ان کی ظاہری شناخت یا زبان دانی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی خدمات اور وژن کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ پاکستان میں مثبت سیاسی کلچر کی ترویج اسی سوچ سے ممکن ہے۔

ہندوستان کا جنگی جنون اور پاکستان کا دفاعی نظام، مودی سرکار کس بھول میں ہے؟

بھارت کے پاس ہتھیاروں کے انبار ضرور ہیں مگر جذبہ شہادت نہیں۔ پاکستان کے پاس ایمان،قربانی اور غیرت کی وہ دولت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مودی سرکار اگر یہ سمجھتی ہے کہ عسکری دھونس یا معاشی جکڑ بندیوں سے پاکستان کو جھکایا جا سکتا ہے تو یہ بدترین خوش فہمی ہے۔ تاریخ نے بار بار ثابت کیا ہے کہ پاکستانی قوم جتنی دباو میں آتی ہے،اتنی ہی شدت سے یکجا ہو کر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ نریندر مودی کے دورحکومت میں بھارت نے جس جارحانہ روش کو اپنایا ہوا ہے، اس کا مقصد محض خطے میں اپنی برتری قائم کرنا نہیں بلکہ اندرون ملک انتہا پسند ہندو ووٹرز کو خوش کرنا بھی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں پاکستان دشمنی کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جب جب بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں،جنگی طیارے شور مچانے لگتے ہیں،میزائل تجربات کا اعلان ہوتا ہے اور بھارتی میڈیا پر جنگی نعرے گونجنے لگتے ہیں۔۔۔یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ عوام کی توجہ مہنگائی،بے روزگاری اور غربت جیسے اندرونی مسائل سے ہٹا کر بیرونی دشمن کی طرف مبذول کرائی جا سکے۔اگر عسکری اخراجات پر نظر دوڑائی جائے تو بھارت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ خریدنے والا ملک ہے۔فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری ہو، اسرائیل سے دفاعی نظام کا حصول ہو یا روس اور امریکہ سے میزائل ٹیکنالوجی کے معاہدے، بھارت نے اپنی معیشت پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال کر عسکری قوت میں اضافہ ضرور کیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف ہتھیاروں کے ڈھیر کسی قوم کی حفاظت کا ضامن بن سکتے ہیں؟ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگیں محض ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ عزم،قربانی اور حب الوطنی سے لڑی جاتی ہیں۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو بھارتی جنرل خود یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ پاکستان کے پاس جذبہ شہادت کی وہ قوت تھی جس کے سامنے ان کا ہر منصوبہ ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ مودی سرکار جس زعم میں مبتلا ہے،وہ محض عسکری طاقت کی عارضی چمک دمک ہے۔ بھارت بھول رہا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی تھی۔ یہاں کا بچہ بچہ اپنی جان کا نذرانہ دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے محدود وسائل کے باوجود دنیا کی بہترین دفاعی صلاحیتیں حاصل کیں۔۔۔جب بھارت نے 1974 میں پہلا ایٹمی تجربہ کر کے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی کوشش کی تو پاکستان نے بے سروسامانی کے عالم میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان جیسے سائنسدانوں کی قیادت میں ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھایا۔ 11مئی 1998 کو جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے خطے کا توازن بدلا تو اس کے 17 دن بعد چاغی کے پہاڑوں پر گونجنے والے دھماکوں نے دنیا کو باور کرا دیا کہ پاکستان کو دبانا آسان نہیں۔ پاکستان نے نہ صرف ایٹمی صلاحیت حاصل کی بلکہ روایتی ہتھیاروں میں بھی خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ جے ایف17 تھنڈر کی کامیاب تیاری،شاہین اور غوری میزائل سسٹمز کی ترقی اور دفاعی صنعت میں مسلسل بہتری نے پاکستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں وہ کسی بھی ممکنہ جارحیت کا فوری اور منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دفاعی ترقی محض ہتھیاروں تک محدود نہیں بلکہ سائبر،دفاع اور انٹیلی جنس نیٹ ورک میں بھی پاکستان نے غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔۔۔دنیا کے بہترین انٹیلی جنس اداروں میں آئی ایس آئی کا نام سرفہرست آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان نہ صرف روایتی میدان میں بلکہ جدید جنگی محاذ پر بھی پوری طرح تیار ہے۔ دوسری طرف بھارت اپنے جنگی جنون میں اخلاقیات اور عالمی قوانین کو بھی روندنے سے باز نہیں آتا۔۔۔چاہے وہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی ہو، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو،پلوامہ اور پہلگام جیسے خود ساختہ ڈرامے ہوں یا سرحد پار دہشت گردی کے الزامات ہوں، بھارت ہمیشہ اشتعال انگیزی میں پہل کرتا ہے۔ بالاکوٹ حملے کی ناکامی بھارتی حکمرانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونی چاہیے تھی،جب بھارتی فضائیہ نے ایک خیالی ہدف کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی اور جواب میں پاکستان نے نہ صرف بھارتی طیارہ مار گرایا بلکہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو گرفتار کر کے دنیا کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا عملی مظاہرہ دکھایا۔۔۔یہ تمام واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پاکستان اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور دشمن کی کسی بھی مہم جوئی کا فوری اور فیصلہ کن جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔مودی سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں تاریخ، غیرت اور ایمان نے ایسی نسلیں پیدا کی ہیں جو ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کر سکتی ہیں۔۔۔بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا،فلموں میں پاکستان کو کمزور دکھانے کی کوششیں یا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی ناکام سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں کیونکہ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ پر ہے اور یہی بنیاد اسے ہر طوفان میں سربلند رکھتی ہے۔۔۔جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں جنگی جنون کی آگ بھڑکانا نہایت خطرناک کھیل ہے۔۔۔یہاں ذرا سی غلط فہمی خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل سکتی ہے جس کے اثرات محض پاکستان یا بھارت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیں گے۔۔۔اس حقیقت کو بین الاقوامی برادری بھی اچھی طرح سمجھتی ہے،اسی لئے وہ ہر بار پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لئے ثالثی کی کوشش کرتی ہے مگر مودی سرکار کو شاید اس عالمی ذمہ داری کا احساس نہیں یا پھر سیاسی مفادات کی خاطر وہ جان بوجھ کر خطے کے امن کو داو پر لگا رہی ہے۔۔۔بھارت کا جنگی جنون اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے کبھی لداخ میں چین سے الجھ پڑتے ہیں،کبھی نیپال کے ساتھ سرحدی تنازعات چھیڑتے ہیں اور کبھی پاکستان کو بے بنیاد الزامات کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کب تک بھارت اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر

لندن 2029 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کا خواہاں، کیا امکانات ہیں؟

یو کے اسپورٹ، لندن کے میئر صادق خان اور ایتھلیٹک وینچرز نے اتوار کو لندن میراتھن کی 45ویں دوڑ سے قبل اعلان کیا کہ لندن 2029 میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کا خواہاں ہے۔ بولی کے منتظمین نے ستمبر میں عالمی ایتھلیٹکس میں دلچسپی کا باقاعدہ اظہار کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جس کے لیے حکومتی حمایت میں 45 ملین پاؤنڈز ($59.91 ملین) کی فراہمی کی کوشش کی جائے گی۔ ایک حالیہ فزیبلٹی اسٹڈی نے اس ایونٹ کے ممکنہ معاشی اور سماجی اثرات کو 400 ملین پاؤنڈز سے زیادہ قرار دیا ہے۔ ایتھلیٹک وینچرز، جو یو کے ایتھلیٹکس، گریٹ رن کمپنی اور لندن میراتھن ایونٹس کا مشترکہ منصوبہ ہے، اس مہم میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: افریقی ملک نائجر میں دہشتگردوں کا حملہ، 12 فوجی ہلاک ہوگئے لندن نے اس سے قبل 2017 میں عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی کامیاب میزبانی کی تھی، جہاں اولمپک اسٹیڈیم ہر شام مکمل طور پر بھر گیا تھا۔ یو کے ایتھلیٹکس کے صدر اور 2017 کی بولی ٹیم کے رکن ڈینس لیوس نے کہا، “لندن 2017 نے دنیا کو دکھایا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ہم 2029 میں دوبارہ ایسا کر سکتے ہیں۔” اتوار کی لندن میراتھن، جس میں 56,000 رنرز کی شرکت متوقع تھی، اس بڑے اعلان کے لیے ایک اہم موقع ثابت ہوئی۔ لیوس، جو 2000 سڈنی اولمپکس میں ہیپٹاتھلون طلائی تمغہ جیت چکی ہیں، نے کہا کہ یہ بولی برطانیہ میں بین الاقوامی کھیلوں کے بڑے مقابلوں کی میزبانی کے وسیع وژن کا حصہ ہے۔ یاد رہے کہ انگلینڈ کے شہر برمنگھم کو پہلے ہی 2026 یورپی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ کی میزبانی کے لیے منتخب کیا جا چکا ہے۔

افریقی ملک نائجر میں دہشتگردوں کا حملہ، 12 فوجی ہلاک ہوگئے

نائجر کی فوج نے ہفتے کے روز تصدیق کی ہے کہ مغربی ساحلی علاقے میں ایک حملے کے نتیجے میں 12 نائجیرین فوجی ہلاک جبکہ دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فوج کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ حملہ جمعہ کے روز نائجر، برکینا فاسو اور مالی کے سہ فریقی سرحدی علاقے کے قریب ساکوئیرا گاؤں کے شمال میں تقریباً 10 کلومیٹر دور ایک مشن پر کیا گیا۔ فوج نے حملہ آوروں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایک فوجی یونٹ پر اچانک حملہ کیا۔ اگرچہ حملہ آوروں کی شناخت واضح نہیں کی گئی، تاہم گزشتہ ماہ نائجر نے اسی سرحدی علاقے میں ایک مسجد پر حملے کے لیے اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ گروپ کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا جس میں کم از کم 44 شہری جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: ایران کی سب سے بڑی بندرگاہ پر دھماکہ، 18 افراد جاں بحق 700 سے زائد زخمی ساحل کے خطے میں جہادی شورش کا آغاز 2012 میں مالی میں تواریگ بغاوت سے ہوا تھا، جو بعد میں برکینا فاسو، نائجر اور اب مغربی افریقی ممالک جیسے بینن تک پھیل گئی۔ عسکریت پسند گروہوں نے دیہات، فوجی اور پولیس چوکیوں اور قافلوں پر حملے کر کے زمین حاصل کی ہے جس سے خطے میں لاکھوں افراد ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال نے مالی میں دو مرتبہ، برکینا فاسو میں دو مرتبہ اور نائجر میں ایک بار فوجی بغاوت کو جنم دیا۔ اگرچہ بین الاقوامی دباؤ کے باوجود یہ ممالک اب بھی فوجی حکومتوں کے تحت چل رہے ہیں۔ ان فوجی حکومتوں نے بغاوت کے بعد فرانس اور امریکہ جیسے روایتی اتحادیوں سے تعلقات منقطع کر لیے اور روس کے ساتھ نئے سیکیورٹی معاہدے کیے تاکہ خطے میں جہادی گروہوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

معدنی وسائل یا سیاسی میدان؟ مائنز اینڈ منرلز بل پر تنازع کیوں ہے؟

خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں حالیہ پیش کیا گیا “مائنز اینڈ منرلز بل 2025” ایک ایسا قانون ہے جو بظاہر معدنی وسائل کی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کے مضمرات نے صوبے کی سیاسی، معاشی اور سماجی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ بل  4 اپریل 2025 کو اسمبلی میں پیش کیا گیا،جو نہ صرف حکومتی جماعت کے اندر اختلافات کا باعث بنا بلکہ اسے اپوزیشن، صنعتکاروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔  اپوزیشن جماعتوں کے مطابق یہ قانون صوبائی خودمختاری پر وفاقی مداخلت کی کوشش ہے، جو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی روح کے منافی ہے۔​ اس قانون کا مسودہ  139 صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ اس  کے تحت مجوزہ “مائنز اینڈ منرل فورس” اور “منرل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن اتھارٹی” جیسے ادارے قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو معدنی وسائل کی نگرانی اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔  اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات مقامی صنعتکاروں اور چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے کان کنوں کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہیں، اور بڑے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے جا تے ہیں۔یہاں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ اس بل میں تکینکی بنیادوں پر کونسی کمی ہے جس کو پورا ہونا ضروری ہے۔ سیما ناز صدیقی ماہر ارضیات اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ جیالوجی کی سابقہ چیئرپرسن ہیں۔  پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منرل اینڈ مائنربل میں جزوی طور پر تذکرہ کی شکل میں تو  خیبر پختونخواہ کے معدنی تنوع کا خیال مختلف معدنیات پر ٹیکس لگانے کی حد تک یعنی ،میکانائزڈ مائننگ،ای بڈنگ،منرل ڈیولپمنٹ کمپنی اور ریسرچ  فنڈ  کی حد تک تو نظر آرہا ہے مگر اس بل میں نایاب اور قیمتی معدنیات کے حوالے سے کوئ الگ سے خاص پالیسی،ریسرچ یا ایکسپورٹ کرنے کا فریم ورک نظر نہیں آرہا۔ مثلاً اس میں ریسرچ سینٹرز،مائننگ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ،اور ویلیو ایڈیشن یونٹس کے قیام کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔  اس میں بل میں انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے حوالے سے کوئی لاذمی شرط موجود نہیں ہےجس کے نتیجے میں واضع منصوبہ بندی نہ ہونے سےماحول کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے دھواں شور اور زہریلے کیمیکلز ماحول میں فضائی ،آبی اور زمینی آلودگی بڑھا سکتے ہیں، کان کنی میں پانی کا بہت زیادہ استعمال خاص طور پر زیر زمین موجود پانی کوہستان چترال میں  کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ جنگلات کے کٹنے سے اور کھدائیوں سے مقامی ایکو سسٹم متاثر ہوگا،خاص طور پر قراقرم اور ہندوکش کی حیاتیات کو بہت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوگا،زمینی کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے ،ماحول میں خوردبینی ہیوی میٹلز اور سلیکا کے ذرات کا اضافہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوگا اور اوپر سے مناسب انداز میں ریہیبیلیٹیشن کا نہ ہونا نقصانات کو دو چند کر دے گاکے پی کے کا تقریباً پورا ہی صوبہ شدید زلزلائ خطرات کی زد میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں انڈین اور یوریشین پلیٹس آپسمیں ٹکرا کر اپنے رنگ دکھاتی رہتی ہیں ایسے علاقوں میں کانکنی سے لینڈ سلائیڈنگ ،زیرزمین دوران کان کنی بنائ جانے والی گیلریاں گر جاتی ہیں کیمیکلز وغیرہ کو اسٹور رکھنے والے ٹینکس پھٹ کر قریبی ابادی کو اور صاف پانی کے ذخائر کو متاثر کرسکتے ہیں زیر زمین موجود پانی کی گذرگاہیں اور نالیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہےکہ ہر مائینگ پروجیکٹ سے پہلے سیزمک ہزارڈس اسسمنٹ لازمی قرار دی جائے، ایمرجنسی ایوالوشن پلان اور مطلوبہ ٹرینگس لازمی ہوں۔   مائنگ بل کے حوالے سے سیما ناز نے مزید بتایا کہ موجودہ مائننگ پالیسی میں مائننگ کے حوالے سے ماضی میں پیش آنے والے واقعات و خطرات کو مد نظر رکھ کر کوئی باقاعدہ لازمی شق نہیں رکھی گئی، البتہ اسے جزوی طور پر شامل ضرور کیا گیا ہے جو ایک الارمنگ امر ہے ورنہ اس حوالے سے ای آئی اے ہی کے اصول و ضوابط کو کم از کم لازمی قرار دیا جایے۔ نیز مائن بند ہونے پر متعلقین کو فنڈز اور ان کی ریہیبیلیٹیشن کا فنڈ ضرور قائم ہو۔ بطور ایک جیالوجسٹ وہ سمجھتی ہیں کہ مائننگ پاکستان کے کسی بھی حصے میں ہو، وہاں مائننگ پروجیکٹس دینے سے قبل انوائرمنٹل اپمیکٹ اسسمنٹ لازمی قرار دیا جائے تاکہ ماحول متاثر نہ ہو۔ سیما ناز صدیقی نے بل کے حوالےسے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ جنگی بنیادوں پر Mining suitability zoning کو لازمی قرار دینا چاہیے۔ تمام مائنگ کمپنیز کو Water resource management plan بنانے کاپابند کیا جائے تاکہ Post mining rehabilitation کو قانونی اور لازمی بنایا جائے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلسل نگرانی کی جائے کمیونٹی کو شامل کرکے مقامی مائننگ کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ غیر ملکیوں سے زیادہ اپنے ماہرین اور لیبر پر بھروسہ کرنا اور مطلوبہ ٹرینگس مہیا کرنا لازمی قرار دیاجانا اچھا عمل ہوگا۔ پاکستان کے معدانی وسائل کے حوالے سے سیما ناز کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے علاقوں ریکوڈک چاغی میں سونا اور تانبہ سیندک میں تانبہ سونا چاندی، خاران میں لیتھیم،کی موجودگی کے ابتدائی شواہد موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں اسکردو اور شگر کے مقامات پر ایمرالڈ، ایکوامیرین، ٹورمالین اور روبی جیسے قیمتی نایاب جواہر موجود ہیں، جب کہ گوری کوہ، ہنزہ میں ٹوپاز،گارنیٹ اور اوبسیڈین پائے جاتے ہیں۔ پنجاب میں سلسلہ کوہ نمک کھیوڑہ میں نمک کا دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ چنیوٹ میں لوہے تانبہ اور ممکنہ طور سونے کے ذخائر بھی تصدیق شدہ ہیں۔ صوبہ سندھ میں ٹھٹہ اور تھر پارکر میں کوئلہ کے بڑے ذخائر، جامشورو میں فلورائیڈ اور جپسم نمایاں ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں  شانگلہ کوہستان دیر ایمرالڈ ،ن یلم، روبی، سفائر،اور بیریل، جب کہ مہمند باجوڑ میں ماربل ،کرومائیٹ،چترال میں اینٹی منی،اور جیم اسٹونز،اور کرک کوہاٹ میں گیس فاسفیٹ اور جپسم نمایاں ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے بھی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے اس بل کو صوبائی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے اور اسے جعلی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اسے واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔