پی ایس ایل 10 شیڈول میں تبدیلی: یکم مئی کو لاہور میں ڈبل ہیڈر، ملتان کا میچ ملتوی

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی ہے، جو نہ صرف ٹیموں بلکہ شائقین کے لیے بھی حیران کن ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے موسم کی شدت اور آپریشنل سہولتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دو اہم میچز کو ری شیڈول کر دیا ہے اور یہ فیصلہ کئی اہم مشاورتوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ ترجمان پی سی بی کے مطابق یکم مئی کو ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں ملتان سلطانز اور کراچی کنگز کے درمیان ہونے والا میچ اب لاہور منتقل کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قذافی اسٹیڈیم لاہور اسی دن دو میچز کی میزبانی کرے گا، یعنی ایک مکمل ڈبل ہیڈر، پہلا میچ سہ پہر 3 بجے شروع ہوگا جس کے بعد شام 8 بجے لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان زور کا جوڑ پڑے گا، جیسا کہ پہلے سے شیڈول تھا۔ یعنی یکم مئی کو لاہور کے کرکٹ فینز کو دو میچز ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملے گا وہ بھی صرف ایک ٹکٹ پر۔ پی سی بی نے اعلان کیا ہے کہ لاہور کے شائقین دونوں میچز کا لطف ایک ہی ٹکٹ سے اٹھا سکیں گے جو ایک نایاب موقع ہے۔ ادھر، ملتان میں 10 مئی کو کھیلا جانے والا میچ بھی ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب یہ میچ 11 مئی کو شام 8 بجے ملتان کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ موسم کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ تبدیلی شائقین اور کھلاڑیوں دونوں کے حق میں کی گئی ہے۔ پی سی بی نے واضح کیا ہے کہ یکم مئی کے ملتان میچ کے آن لائن ٹکٹ خودکار طور پر ریفنڈ کر دیے جائیں گے، جبکہ فزیکل ٹکٹ رکھنے والوں کو ٹکٹ سنٹرز سے رقم واپس لینا ہوگی۔ دوسری جانب 10 مئی کے لیے خریدے گئے ٹکٹ 11 مئی کے لیے بھی قابل استعمال ہوں گے۔ ذرائع نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ ملتان کی شدید گرمی کے پیش نظر دن کے اوقات میں میچز کرانا ممکن نہیں رہا اور یہی وجہ بنی ان تبدیلیوں کی۔ کرکٹ کا جوش برقرار ہے مگر اب کھیل کے میدان بھی موسم کی چال پر بدل رہے ہیں۔ کیا یہ تبدیلیاں ٹیموں کی کارکردگی پر اثر ڈالیں گی؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا کا پاکستان کو ایشیا کپ 2025 کے لیے ویزا دینے سے انکار، کھیل میں سیاست کیا رنگ لائے گی؟
حالیہ پاکستان انڈیا تنازع میں امریکا کیا کردار ادا کر رہا ہے؟

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن کشمیر حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے تناؤ پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے اور دونوں ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ ایک ذمہ دارانہ حل کی جانب بڑھیں۔ اس وقت امریکابھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ مختلف سطحوں پر رابطے میں ہے۔ انڈیا نے 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا جس میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ پاکستان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا “انڈیا کے ساتھ کھڑا ہے اور پہلگام میں دہشت گرد حملے کی سختی سے مذمت کرتا ہے”، جیسا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی اپنے حالیہ بیانات میں کہا تھا۔ مزید پڑھیں: کشمیر تنازع: عالمی سفارتی ایجنڈے پر کیوں پسِ پشت جا رہا ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق، انڈیا اب امریکا کا ایک قریبی شراکت دار بن چکا ہے، خاص طور پر چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے کے تناظر میں، جبکہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد پاکستان کی اہمیت واشنگٹن کے لیے کم ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا کوئی فوجی کارروائی کرتا ہے تو امریکا ممکنہ طور پر انڈیا کے ساتھ ہمدردی کرے گا اور راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔ ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی کہا کہ اس وقت امریکا کی کشمیر تنازع کو ٹھنڈا کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔ ان کے مطابق، انڈیا اور پاکستان کی تاریخی شکایات اور خدشات انہیں وقتاً فوقتاً تصادم کی طرف لے جاتے ہیں اور اس بار امریکا مداخلت کرنے کے بجائے حالات کو خود ان کے حال پر چھوڑ سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت سامنے آئی ہے جب واشنگٹن پہلے ہی یوکرین میں روس کی جنگ اور غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں کے باعث عالمی سطح پر کئی محاذوں پر مصروف ہے۔ مزید پیشرفت پر امریکی ردعمل آنے والے دنوں میں مزید واضح ہو سکتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فورسز کی بمباری، مزید 17 معصوم فلسطینی شہید

آج اسرائیلی فورسز کی غزہ پر فضائی بمباری میں کم از کم 17 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ یہ حملے غزہ کے مختلف علاقوں میں کیے گئے جن میں خان یونس، رفح، اور بیٹ لہیہ شامل ہیں، اور شہید ہونے والوں میں عبدالہادی خاندان کے 17 افراد بھی شامل ہیں، جو وسطی غزہ کے البریج پناہ گزین کیمپ میں اپنے گھر میں سو رہے تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملے حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تھے لیکن مقامی رہائشیوں اور امدادی کارکنوں کے مطابق یہ عام شہریوں پر حملے تھے۔ اسرائیل کی جاری عسکری کارروائیوں میں اب تک 52,243 فلسطینی شہید اور 117,639 زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق شہید ہونے والوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے جو کہ اسرائیلی بمباری کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسری جانب، امریکا نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں تین گھروں پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 8 افراد شہید ہو گئے۔ یہ حملے امریکی فوج کی “آپریشن روف رائیڈر” مہم کے تحت کیے گئے ہیں جس کا مقصد حوثی باغیوں کی میزائل اور ڈرون صلاحیتوں کو محدود کرنا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اس مہم میں اب تک 800 سے زائد فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔ ان دونوں واقعات میں عام شہریوں کی ہلاکتیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ عالمی برادری اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہے جبکہ ان سے مطالبہ کیا جاریا ہے کہ وہ ان جنگی جرائم کا نوٹس لے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں انڈین فوج کی بربریت جاری، مزید پانچ کشمیریوں کے گھر تباہ
’ہماری مرضی ہماری قسمت‘ کشمیری 77 سال بعد بھی آزادی کیوں نہ حاصل کر سکے؟

26 اکتوبر 1947 ایک دستخط نے کشمیر کی تقدیر بدل دی، جب مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرلیا لیکن کشمیری عوام کی اکثریت نے اسے “غیر قانونی” قرار دیا۔ اس دن سے آج تک، کشمیر وادی کے ہر گلی کوچے میں ایک ہی نعرہ گونجتا ہے “ہماری مرضی ہماری قسمت”۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوامِ متحدہ کی 18 قراردادیں، لاکھوں شہدا کا لہو اور دہائیوں کی جدوجہد کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے بجائے “بین الاقوامی بہرے پن” کا شکار کیوں ہے؟ آج امریکا اور چین کی تجارتی جنگ نے کشمیر کو ایک جیو اسٹریٹجک چیلنج بنا دیا ہے۔ امریکا انڈیا کو “ایشیائی نیٹو” کا حصہ بنانا چاہتا ہے، جب کہ چین لداخ اور اکسائی چن پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنے میں مصروف ہے۔ اس وقت دونوں طاقتیں کشمیر کو انسانی المیہ کے بجائے صرف ایک اسٹریٹجک مسئلہ سمجھتی ہیں۔ جب کہ یورپ کی دوغلی پالیسی بھی اس کھیل کا حصہ ہے۔ برطانیہ، جس نے 1948 میں کشمیر کو اقوامِ متحدہ لے جانے میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن آج آرٹیکل 370 کے خاتمے پر محض “تشویش” کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اس کے انڈیا کے ساتھ اربوں یورو سالانہ کے تجارتی تعلقات ہیں۔ دوسری جانب مسلم ممالک کی خاموشی بھی افسوسناک ہے۔ سعودی عرب اور UAE جیسے ممالک نے تیل کی فروخت اور انڈین سرمایہ کاری کی خاطر کشمیر کو انڈیا کا “اندرونی معاملہ” تسلیم کر لیا ہے۔ منہاج یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز کی طالبہ زینب علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے کہا کہ “ہر کشمیری کی چیخ عالمی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیر کو فلسطین کی طرح ایک طویل جدوجہد کی طرف بڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ دنیا ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر کشمیر کے حق میں آواز بلند کرے۔ ورنہ ظلم کے یہ زخم نسل در نسل ناسور بن جائیں گے۔” 5 اگست 2019 کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ انٹرنیٹ بند، صحافیوں کی گرفتاریاں اور “فیک نیوز” کا طوفان جاری ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی میں ۹ لاکھ فوجیوں کی موجودگی کے باوجود “آزاد میڈیا” کا وجود ممکن نہیں۔ آرٹیکل 370 کا خاتمہ انڈیا کی جانب سے ایک ترقیاتی اقدام قرار دیا جا رہا ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ کشمیری عوام کو اب “غیر قانونی آبادکاروں” کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کی عالمی فورمز پر کشمیر کے لیے آواز اٹھانے کی کوششیں کمزور رہی ہیں۔ او آئی سی اور اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی قراردادیں “مذمتی بیانات” تک محدود رہیں جس کی بڑی وجہ پاکستان کا اقتصادی بحران اور امریکا پر انحصار ہے۔ منہاج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم کشمیری طالب علم سفیر انجم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے کہا کہ ” پاکستان کی کمزور سفارت کاری نے بھی مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں ناکامی دکھائی ہے۔ جب تک ایک مضبوط بین الاقوامی لابنگ اور متحدہ مسلم دنیا کی سفارتی حکمت عملی نہ اپنائی جائے تب تک کشمیر کو انصاف نہیں ملے گا۔ جب کہ وقت تیزی سے نکل رہا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ” ہم کشمیری کبھی ہار نہیں مانیں والے، لیکن ہماری جدوجہد کو اس وقت نئی حکمت عملی، نئے اتحادی اور عالمی سطح پر زیادہ متحرک نمائندگی کی ضرورت ہے۔” چین بھی اگرچہ پاکستان کا اتحادی ہے لیکن اس کی حمایت “مشروط” ہے۔ چین کشمیر پر صرف اسی حد تک ساتھ دیتا ہے جہاں تک اس کے اپنے مفادات خاص طور پر CPEC کا تحفظ، متاثر نہ ہو۔ بیجنگ کبھی بھی انڈیا کے خلاف مکمل جنگ کی حمایت نہیں کرے گا۔ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کا خواب تاحال ادھورا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو رائے شماری کا حق حاصل تو ہے لیکن انڈیا اس حق سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔ آج ہر کشمیری گھر ایک قبرستان بن چکا ہے۔ نوجوان نسل نے اس جدوجہد کو نئی شکل دی ہے۔ 2019 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔ #KashmirSolidarityDay اور #LetKashmirDecide جیسے ہیش ٹیگز نے وقتی طور پر عالمی توجہ حاصل کی لیکن بڑی طاقتوں کی خاموشی نے اس تحریک کو بے اثر کر دیا۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کے لیے پاکستان کو چین، روس اور ترکیہ کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ میں “کشمیر ٹریبونل” قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ساتھ ہی، کشمیری ڈایاسپورا کو یورپ اور امریکا میں لابنگ کو مزید مضبوط کرنا ہوگا تاکہ عالمی رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔ انڈیا کے “نریٹو” کو چیلنج کرنے کے لیے آزاد صحافیوں کو متحرک ہونا پڑے گا تاکہ دنیا کو کشمیر کی اصل کہانی پہنچائی جا سکے۔ کشمیر کا مسئلہ صرف ایک خطے کا نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔ جب تک عالمی طاقتیں اپنے مفادات کو انسانی حقوق پر ترجیح دیتی رہیں گی کشمیر کی آواز دبائی جاتی رہے گی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ “ظلم کی دیواریں ہمیشہ ٹوٹتی ہیں“۔