انڈیا کی عسکری مہم جوئی کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا، عاصم منیر

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیرنے کہا ہے کہ کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، انڈیا کی عسکری مہم جوئی کا فوری اور فیصلہ کن جواب دیا جائےگا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ٹلہ فیلڈ فائرنگ رینجز کا دورہ کیا اور فوج سے خطاب کیا،انہوں نے ہیمر اسٹرائیک کی مشق کا مشاہدہ بھی کیا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افسروں اور جوانوں کے بلند حوصلے، پیشہ ورانہ صلاحیت اور جنگی جذبے کو سراہا اور اس سے پاک فوج کی آپریشنل برتری کا عملی عکس قرار دیا۔ اس موقع پر جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہماری تیاری مکمل ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ انڈیا کی کسی بھی قسم کی عسکری مہم جوئی کا فوری، دوٹوک اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقائی امن کا خواہاں ہے مگر قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہماری تیاری اور عزم غیر متزلزل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایکسرسائز “ہیمر اسٹرائیک” پاک فوج کی مسلسل پیشہ ورانہ ترقی، جنگی حکمت عملی میں جدت اور تکنیکی جدیدیت کے سفر کی ایک اہم مثال ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اعلیٰ عسکری قیادت، فارمیشن کمانڈرز اور مختلف سروسز سے تعلق رکھنے والے معززین نے مشق کا مشاہدہ کیا۔

اظہارِ رائے پر قدغن: انڈیا میں پاکستانی نیوز چینلز کے بعد شاہد آفریدی کا یوٹیوب چینل بھی بلاک 

پہلگام حملے میں پاکستان پر الزام تراشی کے بعد بیانات سے بچنے اور پراپوگینڈا پھیلانے کے لیے انڈیانے  پاکستان کے نیوز چینل اور اداکاروں کے سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کے بعد سابق کپتان شاہد آفریدی کا بھی یوٹیوب چینل بلاک کر دیا ہے۔ انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ کی سفارش پر مجموعی طور پر 16 پاکستانی یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس میں 3 سابق پاکستانی کرکٹرز کے یوٹیوب چینلز بھی شامل ہیں۔ تاہم بھارت کو دوٹوک جواب دینے والے سابق کپتان شاہد آفریدی کا سچ ہضم نہ ہوا، نریندر مودی کی انتہاپسند حکومت نے آل راؤنڈر کا یوٹیوب اکاؤنٹ بھی بلاک کردیا تاکہ بھارتی انکے ردعمل کو نہ سُن سکیں۔ قبل ازیں بھارت نے سابق کپتان راشد لطیف، اسپیڈ اسٹار شعیب اختر اور باسط علی کے یوٹیوب چینلز پر پابندی عائد کی تھی۔ گزشتہ دنوں پہلگام واقعہ پر مودی حکومت اور بھارتی فوج کی ناکامی پر شاہد آفریدی نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ “وہاں پر پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو پاکستان پر نام لگادیا جاتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ بھارتی فوج ہونے کے باوجود یہ واقعہ ہوگیا اس کا مطلب تم نالائق اور نکمے ہو جو لوگوں کو سکیورٹی نہیں دے سکے”۔ سابق کپتان کے بیان کے بعد بھارتی کرکٹر شیکھر دھون اور ملک مخالف شہرت کے حامل دانش کنیریا نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی تاہم شاہد آفریدی اپنے موقف پر قائم رہے۔دوسری جانب بھارتی حکومت نے موقف اختیار کیا ہے کہ قومی سلامتی کے باعث شاہد آفریدی کا یوٹیوب چینل ملک میں بلاک کیا گیا ہے۔

سال 2025: کیا عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ہو سکے گی؟

 سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی جانب سے 190 ملین پاؤنڈز کیس میں دائر اپیلوں کے حوالے سے  اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے کہا ہے کہ ان کی اپیلوں پر رواں سال سماعت کا امکان نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس کے ایک سرکاری بیان کے مطابق، تمام اپیلیں صرف ان کی باری اور عدالت کی طے شدہ پالیسی کے مطابق ترجیح کی بنیاد پر سماعت کے لیے مقرر کی جائیں گی، جو قومی عدالتی پالیسی سازی کمیٹی کے فیصلوں سے ہم آہنگ ہے۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی گئی تحریری رپورٹ میں بتایا گیا کہ عمران خان کی 31 جنوری 2025 کو دائر کی گئی اپیل ابھی بھی زیر سماعت ہے اور اسے فہرست میں شامل ہونے سے پہلے کاغذی کتابیں تیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پالیسی کے مطابق، کیس کو مقررہ وقت پر طے کیا جائے گا، جس کی 2025 میں سماعت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ رجسٹرار آفس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس وقت سزا یافتہ مجرموں کی 279 اپیلیں زیر التوا ہیں، سزائے موت کیخلاف 63 اور عمر قید کی سزا کے خلاف 73 اپیلیں زیر التوا ہیں، سات سال سے زائد قید کی 88 جبکہ سات سال سے کم قید کی 55 اپیلیں زیر التوا ہیں، سزائے موت کے خلاف سب سے پرانی زیر التوا اپیل 2017 کی ہے، اپیلیں دائر ہونے کے بعد اپنی اپنی باری پر مقرر ہوتی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 14 سال قید کی سزا کے خلاف اپیل 31 جنوری 2025 کو دائر ہوئی، بانی پی ٹی آئی کی اپیل ابھی موشن اسٹیج پر ہے، اس اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گا اس کے بعد اپنے نمبر پر لگے گا۔ رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کی ڈائریکشنز کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اپیل 2025 میں مقرر ہونے کا امکان نہیں ہے۔

سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟

میں اور میرے شوہر پانی پوری کھا رہے تھے کہ اچانک فوجی وردی میں ملبوس ایک آدمی آیا اور میرے شوہر کو کہنے لگا شاید تم مسلمان نہیں ہو اور ہندو ہونے کی بنا پر گولی  ماردی۔ یہ کہنا تھا ایک سیاح لڑکی کا جو اپنے شوہر کے ساتھ چھٹیاں منانے کشمیر میں آئی ہوئی تھی۔ ایسے میں سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا پہلگام واقعہ ایک دہشتگردانہ حملہ تھا یا پھر ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ کیا اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ تھا یا پھر مودی سرکار کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی؟ دنیا کی سب سے بڑی جیل کہلانے والی مقبوضہ وادیِ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجی اہلکاروں کے ہوتے ہوئے آخر یہ حملہ کیسے ہو گیا؟ میڈیا رپورٹ کے مطابق رواں ماہ 22 اپریل کو بھارتی شہری کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام کے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک فوجی وردیوں میں ملبوس چند مشتعل افراد نے انہیں گھیر لیا۔ ہندو سیاحوں کو شناخت کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس افسوسناک واقع میں کم از کم 26 افراد ہلاک جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے۔ ابتدائی طور پر حملے کی ذمہ داری “دی ریزسٹنس فرنٹ” نے قبول کی لیکن بعد ازاں انہوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری سے انکار کر دیا۔ ایسے میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ ایک گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے کے محض 20 منٹ بعد پاکستان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی گئی لیکن حملے کے متاثرین تک کوئی امداد نہیں پہنچی۔ حملے کے بعد انڈین حکومت نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 3 میں سے 2 حملہ آوروں کا تعلق پاکستانی سے تھا۔ دوسری جانب پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ مودی سرکاری کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایسے میں عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کشمیر میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کا سندھ طاس معاہدے سے کیا تعلق ہے؟ پاکستان میں تو آئے روز ایسے حملے ہوتے رہتے ہیں جن میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت میں ملتے ہیں لیکن اس کے باوجود کیا پاکستان نے انڈیا کے ساتھ کیا ہوا کوئی بھی معاہدہ معطل کیا؟ اب بات کرتے ہیں سندھ طاس معاہدے کی کہ آخر یہ معاہدہ ہے کیا اور کیوں انڈیا حیلے بہانے کر کے اس کو معطل کرنا چاہتا ہے؟ تو ناظریں سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 میں طے پایا۔ انڈیا کی جانب سے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو جبکہ پاکستان کی جانب سے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان کے درمیان کراچی میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت 3 دریا راوی، بیاس اور ستلج انڈیا انڈیا کے حصے میں آئے جبکہ جموں کشمیر سے نکلنے والے 3 دریا سندھ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس معاہدے کے تحت ہر سال دونوں ممالک کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ کی غرض سے کمشنز کی سطح پر اجلاس بھی ہونا طے پایا تھا جو انڈین حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث گزشتہ 3 برسوں سے ہو رہا۔ اب واپس چلتے ہیں پہلگام واقع کی جانب جس کو جواز بنا کر انڈیا کی جانب سے معاہدہ معطل کرنے کی ایک بار پھر کوشش کی گئی ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ انڈیا کی جانب سے اس معاہدے کو معطل کرنے کی کوشش کی ہو۔ اس سے پہلے پلوامہ حملے کو جواز بنا کر بھی انڈیا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی ناکام کوشش کر چکا ہے۔ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کے منصوبے مستقبل میں پاکستان کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا کا مؤقف ہے کہ وہ پانی ذخیرہ نہیں کر رہے صرف بہتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں جو کہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ انڈیا کی جانب سے بار بار سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا انڈیا یک طرفہ طور پر اس معاہدے پر عملدرآمد روک سکتا ہے؟ ماہر بین الاقوامی قوانین احمر بلال صوفی نے بی بی سی کو اس بارے بتایا کہ انڈیا کو یکطرفہ اس معاہدے کو منسوخ یا معطل کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ اس معاہدے میں ایسی کوئی شق ہی نہیں ہے کہ اسے معطل کیا جا سکے۔ تاہم اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک باہمی رضامندی سے اس معاہدے میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ احمر بلال کے مطابق پاکستان اس اقدام کو اقوام متحدہ میں چیلنج کر سکتا ہے اور انڈیا کے خلاف اسی نوعیت کے اقدامات بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس سارے معاملے بعد اب یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کیا انڈیا کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان پاکستان کے لیے کسی قسم کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے؟ سابق ایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر شیراز میمن نے اس بارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قلیل مدتی لحاظ سے اس کا پاکستان پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ انڈیا پاکستان کے حصے کا پانی روک نہیں سکتا کیونکہ اس کے پاس فی الوقت کوئی ایسا ذخیرہ یا وسائل نہیں جہاں وہ ان دریاؤں کے پانی کو جمع کر سکے۔ لیکن اگر یہ تعطل جاری رہتا ہے تو طویل مدت میں اس کا نقصان پاکستان کو اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ انڈیا جو ڈیمز، بیراج یا پانی ذخیرہ کرنے کے انفراسٹرکچر بنا رہا ہے وہ پاکستان کو مطلع کیے بغیر ان کا ڈیزائن تبدیل کر سکتا ہے۔ سابق وفاقی سیکریٹری واٹر اینڈ پاور محمد یونس ڈھاگا کا کہنا ہے کہ “یہ ایک عالمی معاہدہ ہے جس کے ثالت عالمی ادارے ہیں اور اس کی معطلی انڈیا کے لیے ممکن نہیں۔ یہ محض ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔” تاہم شیراز میمن

عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھنا محض ناانصافی نہیں، ملک و قوم سے دشمنی ہے، پی ٹی آئی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی اور کور کمیٹی نے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھنے کو محض ناانصافی نہیں بلکہ ملک و قوم سے دشمنی قرار دیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں بھارتی دھمکیوں کے پیش نظر ہائی الرٹ کا اعلان کیا جا چکا ہے، اور اس موقع پر ایک متحد قیادت کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کے مطابق، جب علاقائی امن کو مودی سرکار اور آر ایس ایس کے خطرناک عزائم سے شدید خطرات لاحق ہیں، اس وقت ایک کمزور اور غافل حکومت اقتدار میں ہے، جب کہ قوم کا سب سے قابل اعتماد رہنما عمران خان پابند سلاسل ہے۔ یہ بھی پڑھیں: محنت کشوں کے تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے اہم قانون سازی اور اصلاحات کی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف اعلامیہ میں کہا گیا کہ عمران خان، جنہیں بالاکوٹ کا ہیرو قرار دیا گیا، جیل کی دیواروں کے پیچھے سے بھی قومی خودمختاری اور اتحاد کی بات کر رہے ہیں۔ پارٹی نے ان کا پیغام دہراتے ہوئے کہا، “امن ہماری ترجیح ہے، لیکن اسے بزدلی نہ سمجھا جائے۔” اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ عمران خان کی دو سالہ غیرمنصفانہ قید، قانونی اور خاندانی رسائی سے محرومی کے باوجود، ان کا قومی سلامتی کے حوالے سے مؤقف واضح اور پختہ ہے۔ پی ٹی آئی نے اس موقع پر ان کی قیادت کو قومی ضرورت قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا، تاکہ قوم اپنی سرحدوں کے دفاع کے لیے متحد ہو سکے۔ پی ٹی آئی نے حکومت کی بے عملی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب خطہ کشیدگی کی طرف بڑھ رہا ہے، ایسے میں عمران خان جیسی قیادت کو خاموش رکھنا سنگین غلطی ہے۔ پارٹی نے عمران خان کی رہائی کو نہ صرف انصاف بلکہ قومی مفاد کے لیے بھی لازمی قرار دیا۔

محنت کشوں کے تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے اہم قانون سازی اور اصلاحات کی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف

یومِ مزدور کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت نے محنت کشوں کے تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے اہم قانون سازی اور اصلاحات کی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پہلی بار قومی پیشہ ورانہ حفاظت و صحت سے مزدور مستفید ہو رہے ہیں، جس کا مقصد روزگار کی جگہوں کو محفوظ اور صحت مند بنانا ہے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی یومِ مزدور پر پیغام دیتے ہوئے محنت کشوں کو ملکی ترقی میں ان کے کردار پر خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بدلتی ہوئی عالمی جاب مارکیٹ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوانوں اور مزدوروں کو جدید مہارتوں سے آراستہ کیا جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے منصفانہ لیبر ماحول تشکیل دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ یہ بھی پڑھیں: پوری قوم کے آئینی حقوق کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، جسٹس جمال مندوخیل امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ آج پوری دنیا میں یکم مئی کی مناسبت سے تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ وہ حکومتیں جو مزدوروں کا حق کھا رہی ہوتی ہیں وہ بھی میڈیا میں ظاہر کرنے کے لیے کچھ بیانات دے دیتی ہیں اور پیغام دیتی ہیں کہ ہم نے یوم مزدور منا لیا۔ اور اسی طرح این جی اوز، مختلف انجمنیں مختلف نوعیت کی سرگرمیاں کر کے بات کو ختم کر دیتی ہیں۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مزدوروں کے جو حالات ہیں اکثر لوگوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے مزدوروں کو ان کی مزدوری کا حق ملنا چاہیے۔ ان کو مقرر کردہ اجرت دی جانی چاہیے۔ ان کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار ہوں تو ان کو بہتر سے بہتر علاج ملے۔ ان کو مختلف قسم کے سوشل سیکیورٹی کے اداروں کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا وہ مزدور جو یومیہ کام کرتے ہیں اور بیمار ہو جاتے ہیں تو کام پر نہیں جا سکتے تو ان کے پیچھے کوئی کمانے والا نہیں ہوتا جب کہ کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے مزدوروں کے لیے بھی اداروں کو کام کرنا چاہیے۔ سرکار کے ہسپتالوں میں سہولیتیں حاصل نہیں ہیں۔ گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے بھی محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی کو آسان بنانے والے ہاتھ قابلِ فخر ہیں۔ دوسری طرف چیئرمین نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن، شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے این آئی آر سی پُرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ صنعت کے پہیے کو رواں رکھنا مزدور کے چولہے کو جلانے کے مترادف ہے، اور اسی مقصد کے لیے مالکان اور محنت کشوں کو ایک میز پر لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

انڈیا نے اگر دریائے سندھ کی طرف دیکھا تو اس بار پانی نہیں، خون بہے گا، بلاول بھٹو

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کی حالیہ دھمکیوں اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انڈیا نے دریائے سندھ پر حملہ کیا تو اس بار صرف پانی نہیں، خون بہے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے انڈین عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فضائی، بحری اور بری افواج مکمل طور پر تیار ہیں اور اگر انڈٰیا نے کسی قسم کی جارحیت کی کوشش کی تو اسے منہ توڑ جواب ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر اگر جنگ مسلط کی گئی تو یہ محدود نہیں رہے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان تصادم پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے اور عالمی برادری کو چاہیے کہ فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پہلگام واقعے کی آزادانہ اور غیر جانبدار تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ سچ دنیا کے سامنے آ سکے۔ بلاول بھٹو نے سکھر کے عوامی جلسے میں خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا صرف ایک معاہدے کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پاکستان کے آبی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ’’دریائے سندھ ہمارا ہے اور یہ ہمارا ہی رہے گا۔‘‘ انہوں نے وزیرِاعظم مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے واقعے کا الزام پاکستان پر دھر کر اپنی ناکام پالیسیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’ایسا نہیں ہے سکتا کہ آپ جب چاہیں اس باتکا فیصلہ کر لیں کہ سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، نہ یہ دنیا مانے گی، نہ پاکستان کے عوام۔‘‘ بلاول نے خبردار کیا کہ اگر انڈیا نے دوبارہ ایسی کسی مہم جوئی کی کوشش کی تو اس کے نتائج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ خطے کے امن کو نگل سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: پاکستان نے افغان ٹرکوں کو واہگہ کے راستے انڈیا جانے کی اجازت دے دی

جج انصاف نہیں کرتے، انصاف کرنا اللہ کا کام ہے، جسٹس جمال مندوخیل

اسلام آباد میں یوم مزدور کی مناسبت سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انہوں نے پوری قوم کے آئینی حقوق کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انصاف دینا صرف اللہ کا کام ہے، ہم صرف شواہد اور دستاویزات کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ججز بولتے نہیں بلکہ فیصلے لکھتے ہیں، لیکن آج وہ دل اور آئین کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں اور کسی سے زبردستی مزدوری لینا آئینی خلاف ورزی ہے۔ ہم سب کو اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دینا چاہیے، چاہے ہم جج ہوں یا مزدور۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ان کا تعلق ایک ایسے صوبے سے ہے جہاں کان کنی کی جاتی ہے اور مزدور جان کی بازی لگا کر کام کرتے ہیں۔ حکومت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے مزدوروں کے لیے مؤثر قوانین بنانے چاہئیں تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی مزدور کسی کا غلام نہیں، ہر انسان کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ یہ بھی پڑھیں: موٹر وے پر مسافر کوچ اور ٹرالر میں تصادم، بنوعاقل میں ٹریفک حادثے میں تین افراد جاں بحق انہوں نے کہا کہ جب ہم فیصلے کرتے ہیں تو دباؤ، خوف یا لالچ سے آزاد ہو کر کرتے ہیں، اور وہ قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ عدلیہ آئینی ذمہ داریوں کو نبھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فریق کہے کہ یہ اس کا حق ہے تو وہ فیصلہ صرف اس کی بنیاد پر کریں گے جو دستاویزات میں درج ہو گا۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ انہیں اور ان کے ساتھی ججز کو اپنے حلف کی پابندی کرنے کی توفیق دے۔ کانفرنس سے چیئرمین این آئی آر سی شوکت عزیز صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دسمبر 2024 میں انہیں یہ ذمے داری سونپی گئی، اور قانون کے مطابق ان کا بنیادی کام مزدور اور صنعت کار کے درمیان پل بننا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد یہی تھا کہ مزدور اور مالک ایک میز پر بیٹھ کر بات کریں اور خوشی ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب صنعت کا پہیہ چلے گا تو مزدور کا چولہا بھی جلے گا، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔

پاکستان نے افغان ٹرکوں کو واہگہ کے راستے انڈیا جانے کی اجازت دے دی

پاکستان نے 150 افغان ٹرکوں کو واہگہ بارڈر کے راستے انڈیا جانے کی اجازت دے دی۔ یہ فیصلہ نہ صرف انسانی ہمدردی کا مظہر ہے بلکہ خطے میں بدلتے ہوئے تعلقات کی نئی سمت کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ وزارتِ خارجہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے سفارت خانے کو جاری کردہ مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ 25 اپریل 2025 سے قبل ملک میں داخل ہونے والے وہ تمام افغان ٹرک، جو انڈیا کے لیے تجارتی سامان لے کر آئے تھے اور مختلف ٹرانزٹ پوائنٹس پر رُکے ہوئے تھے وہ سب اب اپنے سفر کو مکمل کر سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ افغان سفارت خانے کی 28 اپریل کو بھیجی گئی درخواست کے جواب میں سامنے آیا، جس میں پھنسے ہوئے ٹرکوں کی فہرست پاکستان کو فراہم کی گئی تھی۔ پاکستانی حکام نے نہ صرف ان 150 ٹرکوں کو کلیئر کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ اگر مزید ٹرک اس فہرست سے باہر رہ گئے ہیں تو اُن کی تفصیلات فوری فراہم کی جائیں۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے مابین اعتماد کی فضا کو فروغ دے گا اور خطے میں تجارت کے بند دروازے شاید اب آہستہ آہستہ کھلنے لگیں۔ مزید پڑھیں: شہباز شریف کا امریکی وزیرخارجہ کو ٹیلی فون: ’ انڈیا کا سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنانا افسوس ناک ہے‘

جیلوں میں “سمارٹ لائبریری” کا آغاز، ہر قیدی کے لیے ایک کتاب پڑھنا لازمی قرار

پنجاب حکومت نے جیلوں کو صرف سزا کا مقام نہیں بلکہ اصلاح و فلاح کا مرکز بنانے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کی تمام 44 جیلوں میں “سمارٹ لائبریری” منصوبے کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، اور یہ صرف لائبریریاں نہیں بلکہ قیدیوں کی نئی زندگی کی امید ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں افتتاحی تقریب کا انعقاد ہوا جہاں سیکرٹری داخلہ نور الامین مینگل نے سمارٹ لائبریری کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ عاصم رضا، آئی جی جیل میاں فاروق نذیر، ڈی آئی جی جیل لاہور ریجن نوید رؤف، اور سپرنٹنڈنٹ جیل ظہیر احمد ورک بھی موجود تھے۔ پراجیکٹ کے تحت قیدیوں کو اب ان کی بیرکس کے اندر ہی کتابوں سے مزین شیلف مہیا کیے گئے ہیں۔ پنجاب بھر کی جیلوں میں ایک لاکھ سے زائد کتابیں پہنچا دی گئی ہیں جبکہ ہر ماہ 500 نئی کتب کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ علم کا سلسلہ نہ رُکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر پڑھی جانے والی کتاب صرف مطالعہ تک محدود نہیں ہوگی۔ قیدیوں کو اس کتاب کا خلاصہ دیگر ساتھی قیدیوں کو سنانا ہوگا۔ تعلیم یافتہ قیدی دس دیگر قیدیوں کی رہنمائی کریں گے اور ہر قیدی کیلئے کم از کم ایک کتاب پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مزید برآں، ہر ماہ سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے قیدی کو انعام دیا جائے گا۔ بیرک انچارج نہ صرف کتابوں کی حفاظت بلکہ لائبریری کے ضوابط پر بھی عملدرآمد کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ منصوبہ صرف قیدیوں کی ذہنی اصلاح کا ذریعہ نہیں بلکہ انہیں معاشرے کا مثبت فرد بنانے کی جانب ایک سنجیدہ، مربوط اور دیرپا قدم ہے۔ بلاشبہ پنجاب حکومت کا یہ تعلیم دوست اقدام معاشرتی اصلاحات کی تاریخ میں ایک قابلِ فخر باب بن کر ابھر رہا ہے۔ مزید پڑھیں: یکم مئی اور وہ محنت کش جو آزادی سے پہلے روٹی مانگتے ہیں