اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث غزہ میں امدادی خوراک ختم ہونے کا خدشہ

غزہ میں اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث امدادی خوراک بھی چند دنوں میں ختم ہونے کا خدشہ ہے ، جس سے خوراک کی قلت مزید بڑھ جائے گی۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں آج کا کھانا کشری تیار کیا گیا ہے ،جو کہ دال، چاول اور تیز ذائقے والے ٹماٹر کے ساس سے تیار کیا گیا ہے — اور یہ امریکی بنیاد پر قائم انسانی ہمدردی کی تنظیم اینیرا کے دو کمیونٹی کچنوں میں سے ایک میں بڑے دیگچوں میں پکایا گیا ہے۔ اینیرا ٹیم کے سربراہ سامی نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ لوگ ہمارے کھانوں پر انحصار کرتے ہیں ان کے پاس مقامی بازاروں میں باقی بچی اشیاء خریدنے کا کوئی ذریعہ نہیں اور کئی قسم کی غذائیں دستیاب نہیں ہیں۔ماضی میں ہم چاول گوشت کے ساتھ پکاتے تھے ،اب، ناکہ بندی کی وجہ سے، کوئی گوشت دستیاب نہیں، نہ ہی تازہ سبزیاں دستیا ب ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں تمام سپلائیز کی ترسیل بند کیے دو ماہ گزر چکے ہیں اور مطر خبردار کر رہے ہیں کہ باقی ماندہ چند درجن فوڈ کچن آئندہ چند دنوں میں بند ہو سکتی ہیں۔ آنے والے دن انتہائی نازک ہوں گے، ہمارے پاس دو ہفتے کا ذخیرہ ہے، شاید اس سے بھی کم ہو جائے۔ 2 مارچ کو اسرائیل نے غزہ کی تمام سرحدی گزرگاہیں بند کر دیں جس کے نتیجے میں خوراک، ایندھن اور ادویات سمیت تمام اشیاء کی ترسیل رک گئی ، دو ہفتے بعد اس نے حماس کے ساتھ دو ماہ کی جنگ بندی ختم کر کے فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے گئے تاکہ وہ باقی مغویوں کو رہا کرے۔ اسرائیل پر ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، کیونکہ خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر قحط آ سکتا ہے، اور شہریوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنا جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم سے متحدہ عرب امارات کے سفیر کی ملاقات، علاقائی امن و سلامتی پر تعاون پر زور

وزیر اعظم شہباز شریف سے متحدہ عرب امارات کے سفیر حمد عبید ابراہیم سالم الزابی نے وزیر اعظم ہاوس میں ملاقات کی، جس دوران سفیر نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم شہباز سریف نے پاکستان کے لیے متحدہ عرب امارات کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا، ملاقات میں پہلگام واقعے کے بعد خطے کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار رہا اور خطے میں دہشت گردی کے ہر واقعے کی مذمت کرتا ہے، انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 90 ہزار جانوں اور 152 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ وزیر اعظم نے بھارتی الزمات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کا مقصد پاکستان کی توجہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے ہٹانا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزابی نے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا، سفیر نے علاقائی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
‘ہم نے احتجاج کیا، پرتشدد ہوئے مگر یہ سب قیادت کے کہنے پر کیا’ پی ٹی ائی کارکن کا عدالت میں بیان

26 نومبر 2024 کو ہونے والے پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہروں نے نیا رُخ اختیار کر لیا ہے، جب انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیے گئے 82 کارکنوں نے کھلے عام اعتراف جرم کر لیا۔ یہ وہی مظاہرے تھے جنہوں نے راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں ہنگامہ برپا کیا پولیس و مظاہرین آمنے سامنے آ گئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔ اب انہی مظاہروں میں ملوث 1609 افراد میں سے 560 کو عدالت میں پیش کیا گیا، جن میں 82 نے بغیر کسی جھجک کے اپنے کیے کا اقرار کر لیا۔ عدالت کے کمرے میں ایک کے بعد ایک ملزم نے بیان حلفی پیش کیا اور کہا کہ “ہم نے احتجاج کیا، پرتشدد ہوئے مگر یہ سب پی ٹی آئی کی قیادت کے کہنے پر کیا۔ ہمیں اکسانے والے وہی لوگ تھے جو آج منظر عام سے غائب ہیں۔ ہم تو محض مزدور تھے۔” ملزمان نے یہ بھی کہا کہ ان سے غلطی ہوئی، وہ آئندہ کسی احتجاج کا حصہ نہیں بنیں گے اور پُرامن شہری بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے اس اعتراف پر اُنہیں چار چار ماہ قید اور پندرہ ہزار روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے کہا کہ “قانون سب کے لیے برابر ہے، مگر جو اپنے گناہوں کا اعتراف کرے، اس کے لیے قانون میں نرمی کی گنجائش بھی موجود ہے۔“ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی قیادت نے کارکنوں کو پرتشدد احتجاج پر اکسایا یا اس کہ پس پردہ معجرہ کچھ اور ہے؟ مزید پڑھیں: کراکرم ہائی وے: مسافر بس کھائی میں جاگری، ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق
کراکرم ہائی وے: مسافر بس کھائی میں جاگری، ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق

کوہستان کی خطرناک اور تنگ سڑکوں پر ایک اور ہولناک سانحہ پیر کے روز کراکرم ہائی وے پر واقع میتا بانڈہ کے قریب ایک مسافر گاڑی گہری کھائی میں جاگری، جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جاں بحق ہو گئے، جن میں تین خواتین اور چار معصوم بچے شامل تھے۔ گاڑی راولپنڈی سے گلگت کی جانب رواں دواں تھی کہ اچانک ڈرائیور سے گاڑی کا توازن بگڑ گیا۔ لمحوں میں قہقہوں سے بھری گاڑی موت کے خاموش سناٹے میں ڈوب گئی۔ ریسکیو ٹیمیں اطلاع ملتے ہی موقع پر پہنچ گئیں لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ مقامی افراد نے بھی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ جاں بحق ہونے والوں کی شناخت کر لی گئی ہے جن میں اسف اقبال اور ان کی اہلیہ میمونا اقبال، چار بچے اور دو قریبی رشتہ دار عائشہ صدیقہ اور بشریٰ وسیم شامل ہیں۔ یہ سب راولپنڈی کے رہائشی تھے اور تفریح کی غرض سے شمال کی طرف نکلے تھے، لیکن موت راستے میں رکاوٹ بن گئی۔ ضلع پولیس افسر تیمور خان نے حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ “یہ مقام کراکرم ہائی وے کا انتہائی خطرناک حصہ ہے جہاں معمولی سی لغزش موت کا پیغام بن جاتی ہے۔” انہوں نے تمام ڈرائیور حضرات سے اپیل کی کہ کوہستان کے ان پرخطر راستوں پر حد درجہ احتیاط برتیں۔ کیونکہ یہاں ایک لمحہ بے احتیاطی، پوری زندگی کو نگل سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ’گاڑی چلاتے ہوئے سو گیا تھا‘ فلپائن میں یکم مئی کو بس حادثے میں 10 مزدور ہلاک
’گاڑی چلاتے ہوئے سو گیا تھا‘ فلپائن میں یکم مئی کو بس حادثے میں 10 مزدور ہلاک

فلپائن میں یوم مزدور کے موقع پر پیش آنے والے ایک افسوسناک ٹریفک حادثے میں 10 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے۔ یہ حادثہ شمالی فلپائن کی ایک مصروف ترین شاہراہ، سبک-کلارک-ٹارلاک ایکسپریس وے پر اُس وقت پیش آیا جب ایک مسافر بس ٹول گیٹ پر تیز رفتاری سے متعدد گاڑیوں سے جا ٹکرائی۔ پولیس کے مطابق بس ڈرائیور، جسے حادثے کے فوراً بعد حراست میں لیا گیا، نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ وہ گاڑی چلاتے ہوئے سو گیا تھا۔ مرنے والوں میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ بس میں سوار زیادہ تر مسافر یوم مزدور کے سلسلے میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: جمیکا میں ٹک ٹاک پر لائیو ویڈیو کے دوران فائرنگ سے مشہور شخصیت قتل حکام کے مطابق حادثے میں تین اسپورٹس یوٹیلیٹی گاڑیاں اور ایک کنٹینر ٹرک بھی متاثر ہوئے۔ فلپائنی ریڈ کراس نے فوری طور پر جائے وقوعہ پر امدادی کارروائیاں شروع کیں اور زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا، جہاں ان کو خوراک اور دیگر بنیادی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ محکمہ نقل و حمل نے حادثے کے بعد سالڈ نارتھ بس کمپنی اور متاثرہ گاڑی کی مالک کمپنی کو معطل کر دیا ہے، اور بس ڈرائیور کے خلاف لاپرواہی کی بنیاد پر متعدد افراد کے قتل کا مقدمہ درج کیے جانے کا امکان ہے۔ بس کنڈکٹر کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ وزیرِ ٹرانسپورٹ ونس ڈیزون نے حادثے کے بعد اعلان کیا ہے کہ وہ تقریباً 30 مختلف بس کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے تاکہ ایسے حادثات کی وجوہات کا جائزہ لیا جا سکے اور مؤثر حفاظتی اقدامات کیے جا سکیں۔ انہوں نے ایک مقامی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، “اگر ڈرائیور کو نیند آ رہی تھی تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کتنے گھنٹے سے مسلسل ڈرائیونگ کر رہا تھا؟ کیا کمپنی اس سے زیادہ دیر کام لے رہی تھی؟ ہمیں مسئلے کا مکمل تجزیہ کرنا ہوگا، نہ کہ وقتی حل تلاش کرنا۔” فلپائن میں اس طرح کے مہلک حادثات کوئی نئی بات نہیں۔ 2023 میں بھی ایک حادثے میں 17 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب ایک بس کی بریک فیل ہو گئی اور وہ ایک خطرناک موڑ پر قابو کھو کر گھاٹی میں جا گری، جسے مقامی طور پر قاتل موڑ کہا جاتا ہے۔ اس حالیہ حادثے نے ایک بار پھر فلپائن میں ٹریفک کے نظام، مسافروں کی حفاظت اور ڈرائیوروں کے کام کے اوقات پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں، جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
لائیو ویڈیو کے دوران ٹک ٹاکر قتل

جمیکا میں مشہور ٹک ٹاک شخصیت جباری جانسن، جو ’بابا سکینگ‘ کے نام سے جانے جاتے تھے، کو لائیو اسٹریم کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا، جانسن اپنے ایک دوست کے ساتھ سوشل میڈیا پر لائیو تھے اور ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اچانک ایک نقاب پوش شخص، جو سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھا، پیچھے سے آیا اور اسے سر اور سینے پر قریب سے گولیاں مار دیں۔ جانسن موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ یہ افسوسناک واقعہ پیر کی شام جمیکا کے علاقے ریڈ ہلز روڈ پر پیش آیا۔ پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: امید ہے انڈیا خطے میں وسیع پیمانے پر تنازعہ پیدا نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس جانسن معروف ریگے سنگر جاہ میسن کے بیٹے تھے۔ ان کے والد نے تصدیق کی کہ بیٹے کی موت ہو چکی ہے، مگر صدمے کے باعث مزید کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔ یہ جمیکا میں ایسا پہلا واقعہ نہیں۔ پچھلے سال بھی تین دیگر مشہور ٹک ٹاکرز مارلن سیموئلز، زیویئر فوگہ اور کیونو واٹسن کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ ایسے واقعات صرف جمیکا تک محدود نہیں۔ دسمبر 2024 میں، میکسیکو میں بھی ایک مشہور ٹک ٹاکر گورڈو پرکوئی اور ان کی اہلیہ کو ایک گینگ حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
کراچی میں کبوتروں سے پھیلنے والی بیماری میں اضافہ، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

شہرِ قائد کراچی میں کبوتروں سے پھیلنے والی پھیپھڑوں کی ایک خطرناک بیماری برڈ فینسرز لنگز کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے زیادہ تر خواتین متاثر ہو رہی ہیں۔ ماہر امراض تنفس ڈاکٹر محمد عرفان کے مطابق نجی اسپتالوں میں ہر ہفتے اس بیماری کے 15 سے 20 نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ یہ بیماری کبوتر کے پروں اور فضلے کے ذرات سے پیدا ہوتی ہے جو سانس کی نالی میں جمع ہو کر پھیپھڑوں کی سوجن اور الرجی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امید ہے انڈیا خطے میں وسیع پیمانے پر تنازعہ پیدا نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس یہ ذرات گھروں میں کھڑکیوں اور ایئر کنڈیشنرز کے ذریعے داخل ہوتے ہیں، جس سے بیماری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پیچیدگی کی صورت میں مریضوں کو اسٹیرائڈز، آکسیجن یا حتیٰ کہ پھیپھڑوں کی پیوند کاری کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر عرفان نے تجویز دی کہ بیماری سے بچاؤ کے لیے پرندوں خصوصاً کبوتروں سے دوری اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہایت ضروری ہے، اور جو افراد متاثر ہوں، وہ فوری طور پر کبوتروں سے دوری اختیار کریں۔ دوسری طرف سول اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ سانس کی مختلف بیماریوں کے کئی کیس روزانہ رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن ان کی کوئی مخصوص درجہ بندی نہیں کی جاتی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال خواتین مریضوں میں بغیر کسی معروف مرض کے سانس لینے میں دشواری کے کیسز سامنے نہیں آئے۔
اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان لے جانے والا جہاز تباہ کردیا

بین الاقوامی پانیوں میں مالٹا سے 17 ناٹیکل میل مشرق کی سمت، انسانی ہمدردی کی خاطر بھیجا جانے والا جہاز، ڈرون حملے کی زد میں آ گیا۔ یہ جہاز “فریڈم فلوٹیلا کولیشن” کا تھا جو دنیا بھر سے آئے 30 بہادر انسانی حقوق کے کارکنوں کو غزہ کی مظلوم اور محصور عوام کے لیے امداد لے جا رہا تھا۔ این جی او کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو میں واضح طور پر جہاز پر لگی آگ دیکھی جا سکتی ہے جو حملے کے فوراً بعد بھڑک اٹھی۔ اس تنظیم کے مطابق، حملے کا نشانہ خاص طور پر جہاز کا جنریٹر تھا جس کے بعد جہاز ڈوبنے کے قریب ہے۔ ابھی تک کسی زخمی یا ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن جہاز پر موجود کارکنان کی زندگی خطرے میں ہے۔ یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو جہنم بنا رکھا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل نے امریکی حمایت سے جو جنگ شروع کیا، اس میں اب تک 52,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ دوسری جانب عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی اس ظلم کی پشت پناہی بن چکی ہے۔ فریڈم فلوٹیلا کی یہ جدوجہد نئی نہیں۔ 2010 میں بھی ایک ایسا ہی قافلہ اسرائیلی فوج کے ظلم کا نشانہ بنا تھا جس میں 9 کارکن شہید ہوئے تھے۔ لیکن اس بار حملہ بین الاقوامی پانیوں میں کیا گیا اور یہ محض ظلم نہیں، بلکہ عالمی قانون کی کھلی توہین ہے۔ اب سال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دنیا کب جاگے گی؟ کیا انسانیت کا خون اتنا سستا ہو گیا ہے؟ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بمباری، بچوں اور عورتوں سمیت 31 معصوم فلسطینی شہید
امید ہے انڈیا خطے میں وسیع پیمانے پر تنازعہ پیدا نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ امریکا کو امید ہے کہ انڈیا، مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالیہ دہشتگرد حملے پر ایسا ردعمل نہیں دے گا جس سے خطے میں وسیع پیمانے پر تنازعہ پیدا ہو۔ نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ انڈیا کا ردعمل محتاط ہو تاکہ جنوبی ایشیا میں مزید کشیدگی نہ بڑھے۔ وینس نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو بھی، اگر وہ کسی بھی طرح سے ذمہ دار پایا جاتا ہے، عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تعاون کرنا چاہیے۔ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر سیاح شامل تھے۔ انڈیا نے اس حملے کے پیچھے سرحد پار سے دہشتگردی کا الزام لگایا ہے، جب کہ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’600 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے حکومت سبسڈی دے‘ پاکستانی فضائی حدود بند ہونے پر ائیر انڈیا کا مطالبہ اگرچہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام نے حملے کی مذمت کی ہے اور انڈیا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، لیکن انہوں نے براہ راست پاکستان پر الزام لگانے سے گریز کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس ہفتے انڈیا اور پاکستان کے اعلیٰ حکام سے الگ الگ ملاقاتوں میں کشیدگی کم کرنے اور سفارتی حل پر زور دیا ہے۔ حملے کے بعد انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے، پاکستانی فضائی کمپنیوں کے لیے فضائی حدود بند کی گئی ہے، اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی گئی ہے۔ پاکستان نے ان اقدامات کے جواب میں انڈین سفارتی عملے کی نقل و حرکت محدود کر دی ہے اور الزامات کی تردید کی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس سے ملاقات کی ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کو دہرایا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کے مطابق، گوٹیرس نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے بات چیت کی ہے اور ثالثی کی پیشکش کی ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک کوئی کردار ادا نہیں کریں گے جب تک انڈیا اور پاکستان دونوں اس پر آمادہ نہ ہوں۔
’600 ملین ڈالر کا نقصان، حکومت سبسڈی دے‘ پاکستانی فضائی حدود بند ہونے پر ائیر انڈیا کا مطالبہ

ایئر انڈیا نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر پاکستان کی فضائی حدود پر عائد پابندی ایک سال تک برقرار رہی تو اسے تقریباً 600 ملین ڈالر (50 بلین انڈین روپے) کے اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایئر لائن نے انڈین حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کے لیے سبسڈی فراہم کرے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ فضائی حدود کی بندش سے اس کی عالمی پروازیں شدید متاثر ہو رہی ہیں، جن میں ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات، طویل فلائٹ دورانیہ، اور اضافی عملے کی ضرورت شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟ یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں حملے کے بعد پاکستان نے انڈین طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے۔ ایئر انڈیا نے 27 اپریل کو سول ایویشن منسٹری کی وزارت کو ایک خط میں سبسڈی ماڈل کی تجویز دی، جس میں کہا گیا کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آتے، حکومت کو متاثرہ پروازوں کے لیے مالی معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ فی الحال ایئر انڈیا نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جبکہ شہری سول ایویشن منسٹری کی وزارت نے بھی فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ ذرائع کے مطابق، حکومت اب ایئر لائن انڈسٹری کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے، جن میں متبادل راستے، ٹیکس میں چھوٹ، اور چینی حکام سے اوور فلائٹ کلیئرنس لینے کی کوشش شامل ہیں۔ یاد رہے کہ ایئر انڈیا، جس کا انڈیا میں 26.5 فیصد مارکیٹ شیئر ہے، یورپ، امریکا اور کینیڈا کے لیے بڑی تعداد میں پروازیں چلاتی ہے اور اکثر پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی ہے۔ کمپنی پہلے ہی بوئنگ اور ایئربس کی جانب سے طیاروں کی تاخیر کا سامنا کر رہی ہے اور مالی سال 2023-2024 میں اسے $520 ملین کا خالص نقصان ہوا۔