پاک انڈیا کشیدگی: ‘عمران خان کو فوری رہا کیا جائے’ پی ٹی آئی کا مطالبہ

خطے میں کشیدگی عروج پر ہے سرحدوں پر گھناؤنی سازشوں کی بو اور اندرونِ ملک قیادت کا خلاء ایسے نازک لمحے میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے بانی و سابق وزیرِاعظم عمران خان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا پُرزور مطالبہ کر دیا ہے۔ جمعرات کے روز پی ٹی آئی کی سیاسی اور کور کمیٹیوں کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں ملکی سلامتی، سیاسی عدم استحکام اور خطے میں بڑھتے ہوئے انڈین خطرات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس کے بعد مرکزی ترجمان شیخ وقاص اکرم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “جب ملک بیرونی خطرات کی لپیٹ میں ہے تب قیادت کی غیر موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسے وقت میں عمران خان کو خاموش رکھنا محض سیاسی انتقام نہیں بلکہ ریاست اور عوام کے ساتھ دشمنی ہے۔” ترجمان نے عمران خان کو قومی وحدت کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ “عمران خان واحد رہنما ہیں جو قوم کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی رہائی پاکستان کے مفاد میں ہے، کیونکہ ان کی قیادت ہی قومی سالمیت کی ضامن ہے۔” انہوں نے یہ بھی کہا کہ انڈیا میں مودی حکومت کی انتہاپسند پالیسیوں اور آر ایس ایس کی سوچ نے خطے میں امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم انڈین توسیع پسند عزائم کی سختی سے مذمت کرتے ہیں جو پورے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔” وقاص اکرم نے مزید کہا کہ جہاں موجودہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اگر وہاں عمران خان، جو بالاکوٹ کے ہیرو کے طور پر جانے جاتے ہیں، جیل کی دیواروں کے پیچھے سے بھی بہادری، حوصلے اور قومی مفاد کی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “تقریباً دو سال سے قید میں ہونے کے باوجود، بغیر وکیل یا اہلِ خانہ سے ملاقات کے، عمران خان آج بھی پاکستان کی خودمختاری کا سب سے توانا اور بے خوف آواز ہیں۔” آخر میں انہوں نے عمران خان کا پیغام دہراتے ہوئے کہاکہ “امن ہماری ترجیح ہے مگر اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔” مزید پڑھیں: دفتر خارجہ کا انڈیا سے پاکستانیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ

دفتر خارجہ کا انڈیا سے پاکستانیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ

زندگی کے خواب آنکھوں میں سجائے، شفایابی کی امید لیے سینکڑوں پاکستانی شہری انڈیا پہنچے مگر ویزا منسوخی نے ان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ انڈیا میں ویزا منسوخی کے باعث متعدد پاکستانی نہ صرف شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں بلکہ ان میں کئی مریض ایسے بھی ہیں جنہیں بغیر علاج کے واپس آنا پڑا۔ دفتر خارجہ کے مطابق 30 اپریل 2025 واہگہ اٹاری بارڈر سے واپسی کی آخری تاریخ تھی لیکن اٹاری کے مقام پر اب بھی پاکستانی شہری پھنسے ہوئے ہیں جن کی موجودگی کا علم میڈیا رپورٹس سے ہوا۔ ان میں بیمار افراد، بزرگ، بچے اور ایسے خاندان شامل ہیں جو ایک دوسرے سے بچھڑ چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق کچھ بچے اپنے والدین سے جدا ہو چکے ہیں اور کئی خاندان اس وقت انڈین شہروں میں بے سہارا بیٹھے واپسی کے منتظر ہیں۔ ترجمان نے انڈیا پر زور دیا کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری اقدامات کرے اور پھنسے پاکستانیوں کو واپسی کی اجازت دے۔ ساتھ ہی یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ واہگہ بارڈر پاکستانی شہریوں کے لیے کھلا رہے گا تاکہ جو واپس آنا چاہیں، انہیں مزید پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ یہ صورتحال ایک واضح پیغام دے رہی ہے کہ سیاست اپنی جگہ لیکن انسانیت کو ہر حال میں مقدم رکھا جانا چاہیے۔ مزید پڑھیں: کراچی: گلشن حدید میں مسافر بس الٹ گئی، 4 افراد جاں بحق، 25 زخمی

اسرائیلی فورسز کی غزہ میں بمباری، بچوں اور عورتوں سمیت 31 معصوم فلسطینی شہید

غزہ آگ میں جل رہا ہے اور عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ اسرائیلی بمباری میں جمعرات کے روز مزید 31 فلسطینی شہید کر دیے گئے، جب کہ جمعے کی صبح مزید شہادتوں کی اطلاعات ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق مسلسل 60 دنوں سے اسرائیل نے غزہ پر امداد کی فراہمی بند کر رکھی ہے، جسے رپورٹرز نے “شہری آبادی کا دانستہ گلا گھونٹنے” سے تعبیر کیا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ جنگ کا اصل مقصد یرغمالیوں کی بازیابی نہیں، بلکہ “دشمنوں پر فتح” ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 52,418 فلسطینی شہید اور 118,091 زخمی ہو چکے ہیں جب کہ غزہ میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ شہادتوں کی اصل تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے کیونکہ ہزاروں لاشیں ملبے تلے دبی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے امریکی حمایت سے بدترین جنگی جنون کا آغاز کیا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں اور عالمی ادارے، اس انسانیت سوز قتل عام پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور معصوم فلسطینی خصوصاً بچے، بھوک اور بمباری کے بیچ زندگی کی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: یروشلم کے قریب جنگل میں شدید آگ، رہائشی علاقوں کو خالی کرا لیا گیا

یروشلم کے قریب جنگل میں شدید آگ، رہائشی علاقوں کو خالی کرا لیا گیا

یروشلم کے نواحی علاقوں کے قریب جنگل میں ایک شدید آگ بھڑک اٹھی، جس نے آس پاس کی بستیوں کو خطرے میں ڈال دیا اور مرکزی شاہراہ کو بند کرنا پڑا۔ آگ کے باعث لوگ اپنی گاڑیاں سڑک پر چھوڑ کر شعلوں سے بچنے کے لیے دوڑتے نظر آئے، جبکہ علاقے میں گاڑھے دھوئیں کے بادل چھا گئے۔ آگ یروشلم اور تل ابیب کے درمیان مرکزی روٹ 1 کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی دیکھی گئی۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اٹلی اور کروشیا سے فائر فائٹنگ طیارے طلب کیے گئے ہیں، جو جلد اسرائیل پہنچنے کی توقع ہے تاکہ شعلوں پر قابو پانے میں مدد فراہم کی جا سکے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے یونان، قبرص اور بلغاریہ سے بھی عالمی مدد کی درخواست کی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟ اسرائیلی میڈیا کے مطابق تقریباً 120 فائر اینڈ ریسکیو ٹیمیں، درجنوں گاڑیاں، ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے بھی اپنے تلاش اور بچاؤ دستے آگ پر قابو پانے کے لیے روانہ کیے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تین رہائشی کمیونٹیز کو احتیاطی طور پر خالی کرایا گیا ہے جبکہ کم از کم 13 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاحال کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اسرائیل میں شہید فوجیوں کی یاد میں خصوصی دن منایا جا رہا تھا۔ آگ کی شدت کے باعث یومِ آزادی کی کئی تقریبات منسوخ کر دی گئیں، جن میں یروشلم میں ہونے والی ایک مرکزی ریاستی تقریب بھی شامل ہے۔

زمین اور فوج انڈیا کی، الزام پاکستان پر، کیا پہلگام واقعہ نئی عالمی سازش ہے؟

زمین انڈیا کی ، فوج بھی انڈیا کی ، کنٹرول بھی انڈیا کا مگر حملہ پاکستان نے کردیا، یہ ہے وہ منطق جس کا واویلا مودی سرکار اور انڈین میڈیا کررہا ہے، کیا واقعی پاکستان نے حملہ کروایا؟ کیا حملہ آوار پاکستانی تھے؟مودی سرکار ایک بار پھر الزامات ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی مگر کیسے؟ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق انڈیا نے اپنی بریفنگز میں براہ راست پاکستان کا نام تو نہیں لیا، لیکن پرانا الزام ایک بار پھر دہرایا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ انڈین سکیورٹی فورسز نے مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے، سیکڑوں گرفتاریاں ہو چکی ہیں اور کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم ہے۔پاکستان نے انڈیا کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کئی دوطرفہ معاہدے معطل کر دیے ہیں، جن میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی بھی شامل ہے۔امریکا، ایران اور یورپی یونین نے فریقین سے تحمل کی اپیل کی ہے، جب کہ ایران نے ثالثی کی پیشکش بھی کر دی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکا نے دہشت گردی کے خلاف انڈیا کی حمایت کا اعادہ تو کیا، مگر جنوبی ایشیا اس کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ تین ماہ گزر چکے ہیں، مگر انڈیا میں ابھی تک کوئی امریکی سفیر تعینات نہیں کیا گیا۔تجزیہ کار ڈینیئل مارکی نے کہا ہے کہ صورتحال 2019 کے پلوامہ حملے سے مشابہ ہے، جب امریکا نے انڈیا پر دباؤ ڈال کر تحمل کی اپیل کی تھی۔ابتدا میں حملے کی مبینہ ذمہ داری لینے والا گروپ ’ریزسٹنس فرنٹ‘ بھی پیچھے ہٹ گیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ ہیک ہوا تھا اور اس حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔جس سے انڈیا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی سوالات کیے جارہے ہیں ۔ کیا پہلگام ایک اور فالس فلیگ آپریشن تھایا پھر کوئی عالمی سازش؟کیا مودی سرکار مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانہ چاہ رہی یا پھر انتخابات سے قبل ایک نیا بیانیہ گھڑ رہی ہے؟اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا عالمی برادری اس بار بھی صرف تماشائی بنے گی؟

کراچی: گلشن حدید میں مسافر بس الٹ گئی، 4 افراد جاں بحق، 25 زخمی

شہر قائد ایک بار پھر خوفناک حادثے کی زد میں آگیا، جب گلشن حدید کے قریب سمندری بابا مزار کے مقام پر ایک تیز رفتار مسافر بس بے قابو ہو کر الٹ گئی اور نتیجے میں 4 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں جبکہ 25 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ حادثے کے وقت بس میں درجنوں مسافر سوار تھے جو ایک تفریحی دورے پر جا رہے تھے۔ اچانک تیز رفتاری اور ڈرائیور کی غفلت نے خوشیوں کا یہ سفر غم میں بدل دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق، بس ایک موڑ کاٹتے ہوئے بے قابو ہوئی اور چند ہی لمحوں میں الٹ گئی۔ چیخ و پکار، خون آلود لاشیں اور زخمیوں کی کراہیں فضا میں قیامت کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ریسکیو ادارے فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچے اور امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ جاں بحق افراد کی شناخت 60 سالہ پنا بی بی زوجہ محمد علی، 35 سالہ کوثر زوجہ سعید، 59 سالہ عبدالغفور، اور 25 سالہ غلام فرید کے طور پر ہوئی۔ لاشوں اور متعدد زخمیوں کو فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ حادثے کے بعد مقامی افراد نے سڑک پر احتجاج کیا اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ گلشن حدید لنک روڈ پر فوری حفاظتی اقدامات کیے جائیں، جن میں سپیڈ بریکرز، وارننگ سائنز اور سی سی ٹی وی کیمرے شامل ہوں۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، کراچی کی سڑکیں طویل عرصے سے انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق ناقص سڑکیں، تربیت سے محروم ڈرائیورز، اور فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر چلتی گاڑیاں ان حادثات کی بڑی وجوہات ہیں۔ مزید پڑھیں: پاکستان میں بجلی کا نیا 10 سالہ منصوبہ: حکومت کا 4743 ارب روپے بچانے کا دعویٰ

شامی دارالحکومت میں حملے، ’دروز کمیونٹی کے تحفظ کے لیے کیے‘ اسرائیل

اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق میں صدارتی محل کے قریب ایک ہدف پر حملہ کیا ہے۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کارروائی کو شامی حکومت کے لیے انتباہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل دروز کمیونٹی کو کسی بھی خطرے میں نہیں ڈالے گا اور جنوبی دمشق میں شامی افواج کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا۔ انہوں نے وزیر دفاع یوآف گالانت کے ساتھ مشترکہ بیان میں کہا کہ اسرائیل نے یہ حملہ دروز اقلیت کے تحفظ کے لیے کیا جو حالیہ دنوں میں سنی عسکریت پسندوں سے جھڑپوں کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ شام پر اسرائیل کا چند دنوں میں دوسرا حملہ ہے۔ حملے کی وجہ دروز اقلیت اور سنی بندوق برداروں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد ہے جو دمشق کے نواحی علاقے جرامنا میں شروع ہوا۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟ اس جھڑپ کی بنیاد ایک آڈیو ریکارڈنگ بنی جس میں حضور اکرم (ص) کی توہین کی گئی اور جس کا الزام سنی گروہوں نے دروز افراد پر لگایا۔ منگل کے روز ان جھڑپوں میں کم از کم بارہ افراد ہلاک ہوئے، جب کہ بدھ کو تشدد شہر سہنایا تک پھیل گیا۔ دروز ایک مذہبی اقلیت ہے جو شام، لبنان اور اسرائیل میں آباد ہے۔ یہ اسلام سے ماخوذ ایک منفرد عقیدہ رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے اس برادری کے تحفظ کا وعدہ کیا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب انہیں سنی عسکریت پسندوں سے خطرہ ہو۔ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی کہ اس نے دمشق میں صدارتی محل سے ملحقہ ایک ہدف کو نشانہ بنایا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ہدف کیا تھا۔ شامی حکام کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اسد حکومت کے زوال کے بعد شام کی قیادت عبوری صدر احمد الشارع کے پاس ہے جو ماضی میں القاعدہ کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے شام پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن فرقہ وارانہ کشیدگی ان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ علوی اقلیت کے سینکڑوں افراد کے حالیہ قتل کے بعد شام کی اقلیتوں میں اسلام پسندوں کے خلاف خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل نے دسمبر سے شامی فوج کے کئی ہتھیاروں کو نشانہ بنایا ہے، زمین پر قبضے کیے ہیں، واشنگٹن سے لابنگ کی ہے اور مسلسل یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ خطے میں ڈروز اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان حملوں سے شام میں عدم استحکام بڑھے گا اور اسرائیل، ایران، اور سنی عسکریت پسندوں کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

’ایران سے تیل خریدنے والے ممالک پر پابندیاں لگائیں گے‘ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ جو بھی ملک یا فرد ایران سے تیل یا پیٹرو کیمیکل مصنوعات خریدے گا، اسے امریکا کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور انہیں ثانوی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری کیا، جس میں انہوں نے عالمی برادری کو واضح پیغام دیا کہ ایران کے ساتھ تیل کی کسی بھی قسم کی تجارت ناقابل قبول ہے اور اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے چوتھے مرحلے کے مذاکرات، جو 3 مئی کو روم میں ہونا تھے، تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: سندھ طاس معاہدہ: پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کا محور آخر ہے کیا؟ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی نئی تاریخ امریکا کے رویے پر منحصر ہوگی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکراتی عمل تناؤ کا شکار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی ایران پر متعدد پابندیاں لگا چکی ہے، جن میں چین میں قائم ایک خام تیل کے ذخیرہ کرنے والے ٹرمینل اور ایک آزاد ریفائنری شامل ہے۔ امریکا نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے ایرانی تیل اور پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی تجارت میں ملوث ہیں۔ یہ پالیسی عالمی سطح پر ان ممالک کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے جو توانائی کے لیے ایرانی تیل پر انحصار کرتے ہیں، اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی رکھنا چاہتے ہیں۔

کہانی پانچ روپے والے نوٹ کی

14 اپریل سال 1848 گورے انجینئیر نے پہاڑوں کی کھدائی کا کام شروع کروایا۔ یہ دنیا کا واحد انجنئیر تھا جو پہاڑی کی چوٹی پہ چڑھ کر کام کے سال، دن اور ٹائم کا دعویٰ کرتا تھا اور اس کا ہر دعویٰ سچ ثابت ہو جاتا تھا۔ ایسا ہی دعویٰ اس نے شیلا باغ کی پہاڑیوں پر چڑھ کیا۔ گورے انجنئیر نے بھی کیا تھا کہ 3 سال 4 ماہ 21 روز میں شیلا باغ ریلوے ٹنل مکمل ہو جائے گا۔ انہوں نے کھدائی کا کام دونوں طرف سے شروع کروایا ۔ انجینئیر نے اس وقت کے گورے سربراہان سے دعویٰ کیا تھا کہ مزدور ایک دوسرے سے آ کر گلے ملیں گے اور ریلوے ٹنل مکمل ہو جائے گا۔ کوئٹہ چمن ریلوے لائن پر بہت سی داستانیں مشہور معروف ہیں جن میں سے ایک داستان خوبصورت ریلوے اسٹیشن شیلا باغ کے متعلق بھی سنائی جاتی ہے۔ یہ اسٹیشن تو عام اور تنہا سا ہے لیکن اس کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے کیونکہ یہاں سے بہت ساری کہانیاں منسوب ہوگئی ہیں۔ ہر روز صبح و شام گورا انجنئیر  پہاڑوں پر چڑھنے کے بعد ریلوے ٹنل کا معائنہ کرتا تھا۔ 5 کلومیٹر دنیا کی لمبی ریلوے ٹنل تعمیر کرنا بڑا مشکل سفر تھا۔ رات کے وقت مزدور تھکے ہارے کام سے واپس آتے تھے تو ان کو لالٹینوں کی روشنی میں خوش کرنے کے لیے انڈیا سے رقاصہ شیلا منگوائی گئی تھی جو رات کو تھکے ہارے مزدوروں کی اپنے رقص سے تھکن اتار دیتی تھی۔ یوں مزدور رات بھر سکون سے سوتے تھے اور اگلی صبح دل لگا کر کام کا آغاز کرتے تھے۔ اس وقت مزدوروں سے پہاڑوں کا سینہ چیر کر سرنگ بنانا بہت ہی مشکل کام تھا مگر مزدوروں نے آسان کر دیاتھا۔ مزدور سارا دن جان توڑ مشقت کرتے اور شام کو جب تھک ہار کر اپنے ٹھکانوں پر واپس آتے تو ان کی تفریح، طبع اور کھیل تماشے کے لئے ہندوستان سے کچھ نامی گرامی مسخرے، بازیگر اور فنکار لائے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ جب شیلا باغ سرنگ تعمیر ہو رہا تھا تو اس وقت صرف ہندوستان نہیں بلکہ کئی اور ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں کاریگر اور مزدور لائے گئے تھے۔ جن کی رہائش کا انتظام یہیں ایک بڑے سے میدان میں کیا گیا تھا، جہاں اب یہ اسٹیشن ہے۔ پہاڑوں کا سینہ چِیر کرسرنگ بنانا بہت مشکل کام تھا۔ پانچ ستمبر 1851ء کی رات کو گورا انجنئیر بہت مایوس تھا ایسے میں وہ پہاڑوں پر چڑھ گیا۔ مزدور کھدائی میں مصروف تھے کہ اچانک دو چیزوں کے گرنے کی آواز آئی۔ ایک انسان اور دوسری ٹنل کی۔ مزدوروں نے نعرہ بلند کیا “شیلا باغ بن گیا۔” دوسرے لمحے انجنئیر کی خودکشی کی خبر نے سب کو مایوس کر دیا۔ صرف 30 منٹ انجنئیر صبر کرتا تو تین سال چار ماہ اور اکیسویں دن کی محنت اور دنیا کی سب سے لمبی ریلوے ٹنل شیلا باغ کا منظر دیکھ سکتا تھا۔ مگر یہ منظر پاکستان کے پانچ روپے کے نوٹ پر کئی سالوں تک راج کرتا رہا ہے۔

حکومتی دعوے اور بڑھتے اخراجات، کیا مہنگائی پاکستانیوں کی جان نہیں چھوڑے گی؟

ایک طرف حکومت ترقی کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف پاکستانی عوام روزمرہ کےاخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ملک ترقی کر رہا ہے تو اس سے عام پاکستانی کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ گزشتہ ہفتےوفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 60 سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے، زرمبادلہ ذخائر دگنا اور روپے کی قدر میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح صرف 0.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے کم ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ  جی ڈی پی گروتھ، ایکسپورٹس اور ریمیٹنسز میں بہتری آئی ہے،مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی کے اس دور میں  پٹرول، بجلی، آٹا، چینی جیسی بنیادی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور جاچکی ہیں، جب کہ اشرافیہ کو پیٹرول اور دیگر اشیاء کے مہنگے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معاشیات کے پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا تھا کہ موجودہ ترقی کے ثمرات زیادہ تر اشرافیہ اور بڑے کاروباری طبقے تک محدود ہیں اور  عام  آدمی ان سے محروم نظر آتا ہے۔ ہم پچھلے دو بجٹس سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان میں اشرافیہ کو تو فائدہ ہو رہا ہے مگر عام آدمی کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔ حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبے جیسے میٹروبس اورنج ٹرین یا پھر سڑکوں کی تعمیر کامیابی کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں مگر اصل ترقی تو وہ ہوتی ہے جو ہر گھر تک پہنچے۔میاں ارسلان کا کہنا ہے کہ حکومتی ترقی کے زیادہ تر اقدامات میکرو لیول پر ہوتے ہیں جیسے سڑکیں بنانا وغیرہ،جو کہ غریب عوام کے لیے بہترین سہولیات تو ضرور ہیں مگر جب تک روزگار، صحت، تعلیم اور بنیادی اشیائے ضروریہ سستے اور دستیاب نہیں ہوتے اور غریبی گھر گھر سے ختم نہیں ہوتی، تب تک ترقی کے یہ دعوے محض بیانات ہی رہیں گے۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ  ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور مہنگائی پر قابوپالیا ہے۔ اگر مہنگائی کو کنٹرول کر لیا گیا ہے تو عام آدمی بنیادی ضروریات سے کیوں محروم ہے؟ پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا تھاکہ مہنگائی کی شرح میں کمی کا مطلب ہوتا ہے کہ اشیاء کی قیمتیں پہلے جتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہیں، لیکن پاکستان میں یہ قیمتیں پہلے سے ہی بہت بلند سطح پر موجود ہیں۔ تنخواہیں اور آمدن اس رفتار سے نہیں بڑھ رہیں۔ اس لیے مہنگائی کا کنٹرول بھی عام آدمی کی مشکلات کو کم نہیں کر پا رہا۔ بے روزگاری نےنوجوانوں میں نا امیدی پیدا کر دی ہے، مڈل کلاس لوگ مزیدغربت کا شکار ہوں رہے ہیں۔ اس حوالے سے معاشیات کے پروفیسر نے کہا ہے کہ افراطِ زر اور بے روزگاری نے مڈل کلاس طبقےکو نچلے طبقے کی طرف دھکیل دیا ہےاور غریب طبقہ غربت کی لکیر سے پہلے ہی نیچے جا چکا ہے۔ مڈل کلاس کسی بھی ملک کی معیشت کا ستون ہوتی ہے اور اس کا کمزور ہونا ایک خطرناک معاشی اشارہ ہے۔ حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں اضافہ ہو ا ہے اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔کیا واقعی ایسا ہے؟ اس حوالے سے پروفیسر میاں ارسلان کا کہنا ہے کہ ترقی کا مطلب صرف جی ڈی پی میں اضافہ ہونانہیں بلکہ ایک ایسے نظام کا ہونا ہے جس میں ہر شہری کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف تک مساوی رسائی حاصل ہو۔ ایک ایسی معیشت جہاں عام آدمی کی حالت بہتر ہو، مہنگائی قابو میں ہو اور سماجی انصاف میسر ہو، وہی حکومت ترقی یافتہ کہلانے کی حقدار ہے۔ پاکستان میں پالیسیاں اس طرح تشکیل دی جاتی ہیں جس سے عام آدمی کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ وسائل چند ہاتھوں میں مرکوز رہتے ہیں ۔ میاں ارسلان نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ ہماری معیشت  ایک ایسے ماڈل پر چل رہی ہے جس میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اوپر ترقی ہو گی تو اس کا کچھ حصہ نیچے بھی پہنچے گا۔ مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ وسائل اور فائدے صرف چند ہاتھوں میں مرکوز ہیں، جب کہ عام شہری محرومی کا شکار ہے۔ حکومت بیرونی قرضے کی وجہ سے آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق بجٹ بناتی ہےاور آئی ایم ایف کی پالیسی کے مطابق ٹیکس بھی لگاتی ہے۔ پروفیسرمیاں ارسلان کا کہنا ہےکہ قرضوں کا بوجھ سب سے زیادہ عام آدمی پر پڑتا ہے۔ حکومت ان قرضوں کی واپسی کے لیے ٹیکس بڑھاتی ہے، سبسڈی کم کرتی ہے اور عوامی سہولیات مہنگی کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بجلی، گیس، آٹا، چینی، حتیٰ کہ دوائیں بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس  ان قرضوں کا فائدہ کسی اور کو ہورہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ  اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی جائے تاکہ آٹا، چینی، دالیں، بجلی ، گیس سستی ہو اور نوجوانوں کے لیے چھوٹے کاروبار اور ہنر مندپروگرامز کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں ۔مزید یہ کہ بالواسطہ ٹیکس کم کیے جائیں اور اشرافیہ سے براہِ راست ٹیکس لیا جائے تاکہ بوجھ مساوی طور پر تقسیم ہو۔