پاک-انڈیا جنگ شروع ہوگئی تو وہ کسی کے قابو میں نہیں رہے گی، امریکی کانگریس مین کیتھ سیلف

امریکی کانگریس مین کیتھ سیلف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اس لیے ان کے درمیان جنگ کا تصور بھی خطرناک ہے، کیونکہ اگر جنگ کا آغاز ہوگیا تو وہ کسی کے قابو میں نہیں رہے گی۔ نجی نشریاتی ادارے سماء نیوز کے مطابق پاکستانی امریکن ریپبلکن کلب میں پاکستانی کمیونٹی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کانگریس مین کیتھ سیلف کا کہنا تھا کہ امید ہے پاکستان اور انڈیا اپنے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کئی دہائیوں سے چلے آ رہے ہیں اور جب تک ان کا کوئی قابلِ قبول حل نہیں نکلتا، خطے میں استحکام ممکن نہیں۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہوسکتا ہے لیکن فوری ضرورت نہیں، یونان تقریب میں حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے امریکی کانگریس مین جیک برگمین بھی شریک تھے، جنہوں نے پاکستان میں اپنے حالیہ تجربات کا تذکرہ کیا۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہو چکے ہیں، جس پر عالمی برادری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد حملے میں تقریباً 26 افراد ہلاک، جب کہ 20 سے زائد زخمی ہوگئے۔ انڈین حکومت اور میڈیا نے بناکسی واضح ثبوت کے حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتے ہوئے کئی اقدامات اٹھائ، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی اقدامات اٹھائے۔

ہفتے میں صرف دو دن کام، ایسا کہاں ہوگا؟

دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور اگر بل گیٹس کی بات سچ ثابت ہو گئی، تو ہماری زندگی کا روایتی پانچ دن کام کرنے والا معمول صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ رہ جائے گا۔ معروف ٹیکنالوجی ماہر اور مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) اگلے دس سالوں میں انسانوں کا بہت سا کام اپنے ذمہ لے لے گا اور ہم صرف دو دن کام کریں گے۔ بقیہ پانچ دن ہم بس آرام کریں گے۔ لیکن ہر انقلاب اپنے ساتھ کوئی ہنگامہ بھی لاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے بل گیٹس کی پیش گوئی کو مستقبل کی سہولت کے بجائے تباہی کی گھنٹی قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے ان کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے لکھا “کیا ہم روبوٹس کے ہاتھوں بےکار ہو جائیں گے؟ کیا ‘اے آئی، روبوٹ’ جیسی فلمیں حقیقت بننے والی ہیں؟” ایک اور صارف نے لکھا کہ “سب لوگ بل گیٹس کی طرح پروڈکٹیو نہیں ہوتے۔ میرے جیسے ‘ورکاہولک’ لوگ اگر کام سے فارغ ہو گئے، تو کیا کریں گے؟ بےروزگاری، تنہائی اور ذہنی دباؤ تو ہمارا مقدر بن جائے گا۔” اس کے علاوہ ایک شخص نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ “پانچ دن بغیر کام کے؟ انسان یا تو فضول ہو جائے گا یا پھر دنیا کسی بڑی تباہی کی طرف بڑھے گی، جیسے کے کووڈ 19۔” اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا AI انسان کی زندگی آسان بنائے گا، یا ہمیں اس نہج پر لے جائے گا جہاں ہم خود کو غیر ضروری محسوس کریں گے؟ کیا یہ انقلاب ہے یا انتباہ؟ مزید پڑھیں: الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ: حب پاور کمپنی ملک بھر میں چارجنگ پوائنٹس قائم کرے گی

پاکستان نے ابدالی میزاٸل کا کامیاب تجربہ کرلیا، آٸی ایس پی آر

خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران پاکستان نے ہفتے کے روز “ابدالی ویپن سسٹم” کا کامیاب تربیتی تجربہ کر کے دنیا کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ تربیتی تجربہ “ایکس انڈس” مشقوں کا حصہ تھا جس کا مقصد آپریشنل تیاریوں کو جانچنا اور میزائل کے تکنیکی پہلوؤں، بالخصوص اس کے جدید نیویگیشن سسٹم اور بہتر مانورنگ صلاحیتوں کو پرکھنا تھا۔ زمین سے زمین تک مار کرنے والا یہ میزائل 450 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ دشمن کی کسی بھی جارحیت کا فوری اور فیصلہ کن جواب دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس اہم تجربے کے گواہ بنے آرمی اسٹریٹجک فورسز کمانڈ کے کمانڈر، اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے اعلیٰ افسران اور پاکستان کے معروف سائنسی اداروں کے سائنسدان و انجینئرز جنہوں نے برسوں کی محنت سے اس سسٹم کو عملی شکل دی۔ یہ بھی پڑھیں: پاک انڈیا کشیدگی: کیا ہم جنگ کے دہانے پر ہیں؟ صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے تجربے میں شریک تمام افراد کو مبارکباد پیش کی اور اس بات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک فورسز ہر قسم کی جارحیت کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ تجربہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے خون ریز حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔ انڈیا نے حملے کا الزام بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر عائد کیا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ادھر لائن آف کنٹرول پر انڈین افواج کی بلااشتعال گولہ باری کے جواب میں پاکستانی افواج نے بھرپور جوابی کارروائی کی ہے۔ لازمی پڑھیں: ’رسومات کے دوران جذباتی ماحول بن گیا‘، انڈیا میں تہوار کے دوران بھگڈر مچنے سے 6 افراد ہلاک 55 زخمی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز واضح کیا کہ کسی بھی قسم کی “مہم جوئی” کا جواب نہ صرف فوری بلکہ “مزید شدید” ہوگا۔ پاکستانی قیادت نے باور کرایا ہے کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں جبکہ عالمی طاقتیں خصوصاً امریکا اور یورپی یونین دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ ‘عبدالی’ میزائل کا یہ تجربہ نہ صرف پاکستان کی دفاعی تیاریوں کا ثبوت ہے بلکہ یہ ایک واضح انتباہ بھی ہے پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے لیکن اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہوسکتا ہے لیکن فوری ضرورت نہیں، یونان

آسٹریلیا میں انتخابات: ٹرمپ کی غیر یقینی پالیسیاں کیسے اثر انداز ہو رہی ہیں؟

آسٹریلیا میں ہفتہ کے روز عام انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی، جہاں ابتدائی سروے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز کی لیبر پارٹی کے حق میں جاتے دکھائی دیے، جبکہ اپوزیشن جماعت کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر یقینی پالیسیوں کے باعث دباؤ کا سامنا رہا۔ انتخابات میں مہنگائی اور عالمی غیر یقینی صورتحال، خاص طور پر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں، عوام کی توجہ کا مرکز بن گئیں، حالانکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی مہم میں مہنگائی کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر اجاگر کیا۔ وزیرِ اعظم البانیز نے ملبورن سے نشر ہونے والے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی حکومت نے مضبوط بنیادیں رکھی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملازمین کی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے۔ بعد ازاں وہ سڈنی میں اپنے حلقے میں ووٹ ڈالنے روانہ ہوئے۔ البانیز، جنہوں نے پانچ ہفتوں پر محیط انتخابی مہم مکمل کی، نے وعدہ کیا کہ اگر انہیں دوسرا موقع ملا تو وہ ہاؤسنگ کی قیمتوں میں کمی لائیں گے اور آسٹریلیا کے یونیورسل ہیلتھ کیئر نظام کو مزید بہتر بنائیں گے۔ اپوزیشن لیڈر پیٹر ڈٹن نے بھی اپنا دن ملبورن سے شروع کیا، جو انتخابی لحاظ سے ایک اہم میدان جنگ تصور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ لبرل-نیشنل اتحاد کو ووٹ دے کر ملک کو دوبارہ درست راستے پر لائیں۔ انہوں نے برسبین میں اپنے حلقے میں ووٹ ڈالنے کے بعد کہا، مجھے لگتا ہے کہ بہت سے خاموش آسٹریلوی آج اتحاد کی حمایت میں نکلے ہیں۔ یہ انتخابات کینیڈا میں لبرل پارٹی کی حکومت میں واپسی کے کچھ دن بعد ہو رہے ہیں، جہاں عوامی ردعمل نے صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں اور کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ لیبر پارٹی نے اپوزیشن لیڈر ڈٹن، جو سابق پولیس افسر ہیں، کو ٹرمپ جیسے سخت گیر قدامت پسند کے طور پر پیش کیا، اس امید میں کہ امریکی صدر کے خلاف عوامی جذبات ڈٹن کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ ڈٹن نے خود کو ایلون مسک کی طرز پر سرکاری اداروں میں کٹوتی کرنے والی سوچ سے دور رکھنے کی کوشش کی، لیکن امریکا کی جانب سے آسٹریلیا پر محصولات لگانے کے بعد وہ مقبولیت میں پیچھے رہ گئے۔ فروری تک وہ رائے عامہ کے سروے میں لیبر پارٹی سے آگے تھے۔ اگرچہ آسٹریلیا امریکا کا قریبی سیکیورٹی اتحادی ہے اور عموماً تجارتی خسارے کا سامنا کرتا ہے، پھر بھی ٹرمپ نے آسٹریلوی برآمدات پر 10 فیصد ٹیرف عائد کر دیا تھا۔ آسٹریلیا دنیا کے چند ان ممالک میں شامل ہے جہاں ووٹنگ لازمی ہوتی ہے۔ پولنگ صبح 8 بجے شروع ہوئی، جبکہ اندازاً 1.8 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے ریکارڈ 80 لاکھ پہلے ہی ووٹ ڈال چکے تھے۔ پولنگ شام 6 بجے اختتام پذیر ہوئی، جو مقامی وقت کے مطابق 08:00 سے 10:00 جی ایم ٹی کے درمیان ہے۔

’آئندہ سال مزید ٹیکس متعارف ہوں گے‘ وفاقی حکومت کا اگلے مالی سال کے لیے 14.3 کھرب روپے کے ٹیکس کا ہدف

وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے لیے 14.3 کھرب روپے کے نئے ٹیکس ہدف کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ ہدف سے 2 کھرب روپے زیادہ ہے۔ اس نئے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو کم از کم 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وزارت خزانہ اس ہدف کو ممکن بنانے کے لیے درکار اقدامات کو حتمی شکل دینے پر کام شروع کر چکی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بجٹ کی پیشکش عید سے قبل، ممکنہ طور پر 2 یا 3 جون کو متوقع ہے۔ یہ نیا ٹیکس ہدف آئندہ مالی سال کے متوقع جی ڈی پی کے 11 فیصد کے برابر ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، اگرچہ معیشت کے حجم کے مطابق ہدف میں معمولی ردوبدل ہو سکتا ہے، لیکن جی ڈی پی کے 11 فیصد کو بنیاد کے طور پر رکھا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں: رواں سال پاکستانی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، حجم 26.859 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تاہم، یہ ہدف ابھی حتمی نہیں ہے اور اس کا انحصار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منظوری پر ہے، جو 14 مئی سے پاکستان کا دورہ کر کے مالیاتی اہداف کا جائزہ لے گا۔ یہ نیا ہدف رواں مالی سال کے 12.3 کھرب روپے کے ہدف سے 16 فیصد زیادہ ہے، جسے مہنگائی اور معاشی سست روی کے باعث ابتدائی 13 کھرب روپے سے کم کر دیا گیا تھا۔ یہ کم شدہ ہدف بھی جی ڈی پی کے 10.6 فیصد کے برابر تھا۔ آنے والے مالی سال میں 14.3 کھرب روپے کے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو 500 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات متعارف کرانا ہوں گے، جو رواں سال کے دوران پہلے ہی لگائے گئے 1.3 کھرب روپے کے نئے ٹیکسوں کے علاوہ ہوں گے۔ رواں سال کے ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا تاکہ نظرثانی شدہ ہدف پورا کیا جا سکے۔ تاہم، ایف بی آر کو اب تک 830 ارب روپے کا شارٹ فال درپیش ہے، جو معیشت کی کمزور استعداد کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مزید ٹیکس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی جب تک کہ ٹیکس نیٹ میں وسعت نہ دی جائے۔ ایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ بجٹ ٹیکس وصولیوں کے اہداف کے حوالے سے مشکل ہوگا، اور مزید ٹیکس اقدامات متعارف کرائے جائیں گے تاکہ مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھا جا سکے۔

جمعیت اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر انتقال کر گئے

مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ، ممتاز عالم دین اور بزرگ سینیٹر پروفیسر ساجد میر طویل علالت کے بعد 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق پروفیسر ساجد میر کچھ عرصے سے صحت کے مختلف مسائل کا شکار تھے جن میں مہروں کے آپریشن کے بعد لاحق پیچیدگیاں اور دل کی تکلیف شامل ہیں۔ اور ان کا دل کا بائی پاس بھی ہو چکا تھا، جس کے بعد ان کی طبیعت مسلسل ناساز رہنے لگی تھی۔ مرحوم نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دینِ اسلام کی خدمت، علم کی ترویج اور مسالک کے مابین ہم آہنگی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔  1963 میں پہلی مرتبہ تراویح میں قرآن سنانے سے اپنے علمی سفر کا آغاز کیا۔ والدہ، جنہیں دیکھنے کا شرف نہ حاصل ہو سکا، ان کی خواہش پر رسمی تعلیم کو خیرباد کہہ کر قرآن حفظ کیا۔ نائیجیریا میں کئی برس درس و تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد وہ 1985 میں وطن واپس آئے۔ 1994 میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے اور متعدد بار ایوان بالا کی نمائندگی کی۔ بین المسالک ضابطہ اخلاق کی تشکیل ہو یا سعودی عرب سے تعلقات کی مضبوطی، ہر جگہ ان کا کردار کلیدی رہا۔ ان کے انتقال سے پاکستان ایک مفکر اور عالمِ باعمل سے محروم ہو گیا ہے۔ مزید پڑھیں: عدالت نے 26 نومبر کے احتجاج کیس میں پی ٹی آئی کے 82 کارکنوں کو سزا سنادی

پاکستان، انڈیا کشیدگی: کیا ہم جنگ کے دہانے پر ہیں؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی ایک نئی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 22 اپریل کو انڈیا زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ آیا ہے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے جب کہ اسلام آباد نے اس کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ جواباً، انڈیا نے پاکستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کم کر دیے ہیں، سرحدی تجارت معطل کر دی ہے اور “سندھ طاس” معاہدہ کو معطل کر دیا ہے۔ پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں کمی کی ہے اور “شملہ معاہدہ” سے دستبرداری کی دھمکی دی ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفارتکاروں کو ملک بدر کیا ہے اور سرحدی علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے جاری ہیں۔ یہ کشیدگی 2019 کے بحران کی یاد دلاتی ہے جب انڈین فوج نے پلوامہ حملے کے بعد پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملہ کیا تھا۔ پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے انڈین طیارے مار گرائے تھے اور ایک انڈین پائلٹ کو گرفتار کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے لیکن عالمی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے باعث جنگ ٹل گئی تھی۔ پاکستان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے اس موجودہ بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہم انڈیا کے ساتھ بڑی جنگ نہیں دیکھتے لیکن ہمیں تیار رہنا ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “بحرانی طریقہ کار کی کمی دونوں ممالک کے درمیان تصادم کا سبب بن سکتی ہے۔” اس بحران میں عالمی برادری بھی مداخلت کر رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دونوں ممالک کے رہنماؤں سے بات کی ہے اور کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں سے ملاقات کی ہے اور ان سے انڈیا پر دباؤ ڈالنے کی درخواست کی ہے تاکہ کشیدگی کم ہو سکے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا امکان کم ہے لیکن موجودہ کشیدگی نے خطے میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ عالمی برادری کی مداخلت اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست بات چیت اس بحران کے حل کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان اور انڈیا کو اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں امن قائم رکھا جا سکے۔ مزید پڑھیں: جنوبی وزیرستان میں خفیہ آپریشن، چار دہشت گرد ہلاک، دو سیکیورٹی اہلکار زخمی

رواں سال پاکستانی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، حجم 26.859 ارب ڈالر تک پہنچ گیا

پاکستان کی برآمدات میں رواں مالی سال 2024-25 کے ابتدائی دس ماہ کے دوران 6.25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں برآمدات کا حجم 26.859 ارب ڈالر رہا، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 25.278 ارب ڈالر تھا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے جاری کردہ تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، ملک کا تجارتی خسارہ بھی 8.81 فیصد بڑھ کر 21.351 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 19.622 ارب ڈالر تھا۔ درآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جو 7.37 فیصد اضافے کے ساتھ 48.210 ارب ڈالر ہو گئیں، جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ 44.9 ارب ڈالر تھیں۔ یہ بھی پڑھیں: الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ: حب پاور کمپنی ملک بھر میں چارجنگ پوائنٹس قائم کرے گی اپریل 2025 میں مہینہ وار بنیادوں پر پاکستان کا تجارتی خسارہ 55.20 فیصد کے اضافے سے 3.388 ارب ڈالر ہو گیا، جو مارچ 2025 میں 2.183 ارب ڈالر تھا۔ اپریل میں برآمدات میں 19.05 فیصد کمی ہوئی اور یہ 2.141 ارب ڈالر رہیں، جبکہ مارچ میں یہ 2.645 ارب ڈالر تھیں۔ دوسری جانب، درآمدات میں اپریل کے دوران 14.52 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 5.529 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ مارچ میں یہ 4.828 ارب ڈالر تھیں۔ سال بہ سال بنیاد پر بھی اپریل 2025 میں تجارتی خسارے میں 35.79 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو اپریل 2024 میں 2.495 ارب ڈالر تھا۔ اپریل 2025 میں برآمدات میں 8.93 فیصد کمی ہوئی، جو اپریل 2024 میں 2.351 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.141 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ درآمدات میں سالانہ بنیاد پر 14.09 فیصد اضافہ ہوا، جو اپریل 2024 میں 4.846 ارب ڈالر کے مقابلے میں اپریل 2025 میں 5.529 ارب ڈالر رہی۔

یورپی یونین کا ٹک ٹاک پر 600 ملین ڈالر جرمانہ عائد، صارفین کا ڈیٹا چین کیوں بھیجا؟

یورپی یونین نے چین کے مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارم TikTok پر 530 ملین یورو، تقریباً 600 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کردیا، یہ جرمانہ یورپی صارفین کے ذاتی ڈیٹا کو چین منتقل کرنے اور اسے چینی حکام کی ممکنہ دسترس سے محفوظ نہ رکھنے کے الزام میں عائد کیا گیا۔ یہ اقدام یورپی تاریخ میں دوسرا سب سے بڑا ڈیٹا پرائیویسی جرمانہ ہے جو اس وقت سامنے آیا جب آئرلینڈ کے ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن (DPC) نے ایک تفصیلی تحقیقات کے بعد ٹک ٹاک کو جی ڈی پی آر (GDPR) کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا۔ تحقیقات کے مطابق ٹک ٹاک نے ماضی میں دعویٰ کیا تھا کہ یورپی صارفین کا ڈیٹا چین میں اسٹور نہیں ہوتا مگر اپریل میں کمپنی نے خود DPC کو آگاہ کیا کہ کچھ یورپی ڈیٹا واقعی چین میں محفوظ کیا گیا تھا اور بعد میں حذف کر دیا گیا۔ یہ اعتراف ایک ایسے وقت میں آیا جب ٹک ٹاک پہلے ہی مغربی دنیا کی نظروں میں مشکوک بنا ہوا ہے۔ ٹک ٹاک یورپ کی نمائندہ کرسٹین گراہن کا کہنا تھا کہ “ہم نے کبھی چینی حکام کو یورپی صارفین کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔“ ٹک ٹاک “یورپی صارفین کے ڈیٹا کو چینی ملازمین کی رسائی سے محفوظ رکھنے میں ناکام رہا اور اس تحفظ کی ضمانت بھی نہیں دے سکا جس کا یورپی قانون تقاضا کرتا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: ’جاسوسی ہو رہی ہے‘، برطانیہ کی صارفین کو چینی الیکٹرک گاڑیوں میں موبائل فون چارج نہ کرنے کی ہدایت تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ 2020 سے 2022 کے درمیان پلیٹ فارم نے یہ واضح نہیں کیا کہ صارفین کا ڈیٹا کن ممالک میں منتقل ہو رہا ہے اور اسے چین سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس غیر شفافیت پر ٹک ٹاک پر اضافی 45 ملین یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ یہ صرف یورپ کی جنگ نہیں، بلکہ امریکا بھی اسی میدان میں سرگرم ہے۔ امریکی کانگریس نے 2024 میں قانون منظور کیا جس کے تحت ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ByteDance کو امریکا میں TikTok سے دستبردار ہونا ہوگا ورنہ پابندی کا سامنا کرے گی۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس فیصلے پر دو بار عملدرآمد ملتوی کیا مگر اب 19 جون حتمی ڈیڈلائن ہے۔ ٹک ٹاک کی مشکلات صرف ڈیٹا کی منتقلی تک محدود نہیں۔ کمپنی پر الزام ہے کہ اس کا خفیہ الگورتھم صارفین کو مخصوص نظریات اور مواد کی دنیا میں قید کر دیتا ہے جہاں جعلی خبریں، پرتشدد مواد اور اخلاقی انحطاط کو فروغ ملتا ہے۔ کئی ممالک نے TikTok پر وقتی پابندیاں بھی عائد کیں، جیسے پاکستان، نیپال، اور فرانس (نیوکالیڈونیا کے علاقے میں) نے پلیٹ فارم کو بعض اوقات بند بھی کیا تھا۔ لازمی پڑھیں: آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسی: کیا پاکستان میں ای ویز کے مسائل حل ہو پائیں گے؟ اس تنقید کے جواب میں ٹک ٹاک نے پراجیکٹ کلوور متعارف کروایا اور ایک 12 ارب یورو کا منصوبہ جو اگلے دس سالوں میں یورپی ڈیٹا سیکیورٹی پر خرچ کیا جائے گا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ یورپی ڈیٹا اب ناروے، آئرلینڈ اور امریکا میں اسٹور کیا جاتا ہے اور چینی ملازمین کو حساس ڈیٹا (جیسے فون نمبر، IP ایڈریس) تک رسائی نہیں دی جاتی)۔ مگر ڈی پی سی کا کہنا ہے کہ پراجیکٹ کلوور کے تحت ہونے والی تکنیکی جانچ نے خود انکشاف کیا کہ ماضی میں ڈیٹا واقعی چین میں محفوظ رہا اور TikTok نے یہ معلومات چھپانے کے بجائے “بر وقت” رپورٹ کیں۔ کمپنی کا اصرار ہے کہ “کوئی بھی ڈیٹا نہ تو باہر منتقل کیا گیا، نہ ہی کسی چینی اتھارٹی نے اس تک رسائی حاصل کی۔” اب ٹک ٹاک کے پاس صرف چھ ماہ ہیں کہ وہ اپنے ڈیٹا پروسیسنگ سسٹمز کو یورپی قوانین کے مطابق بنائے، ورنہ چین کو ڈیٹا کی منتقلی ہمیشہ کے لیے معطل کی جا سکتی ہے۔ ایک جانب TikTok اپنی صفائی پیش کر رہا ہے تو دوسری طرف یورپی ریگولیٹرز ڈیجیٹل خودمختاری کے نئے باب رقم کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: کراچی میں کبوتروں سے پھیلنے والی بیماری میں اضافہ، احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ: حب پاور کمپنی ملک بھر میں چارجنگ پوائنٹس قائم کرے گی

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے حب پاور کمپنی کی ذیلی کمپنی ایچ جی ایل اور بی وائے ڈی پاکستان نے ملک بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے چارجنگ نیٹ ورک قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے تحت آئندہ تین برسوں میں پورے ملک میں تقریباً 128 ڈی سی فاسٹ چارجنگ اسٹیشنز لگائے جائیں گے، جن میں سے 50 اسٹیشنز دسمبر 2025 تک مکمل کیے جائیں گے۔ نیٹ ورک کو تین اہم علاقوں میں اسٹریٹجک انداز میں پھیلایا جائے گا۔ شہری علاقوں میں یہ سہولت پی ایس او، پارکو گنور اور اٹک پیٹرولیم جیسے بڑے آئل مارکیٹنگ اداروں کے اشتراک سے فراہم کی جائے گی۔ شہر سے شہر کے درمیان ہائی ویز اور موٹرویز پر ہر 150 سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر چارجنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں گے تاکہ طویل سفر کے دوران گاڑیوں کو آسانی سے چارج کیا جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: کیا ایلون مسک واقعی ٹیسلا کو خیرباد کہنے والے ہیں؟ اس کے علاوہ، مالز، ہوٹلز، اسپتالوں اور دیگر تجارتی مقامات پر “ڈیسٹینیشن چارجنگ” پوائنٹس بنائے جائیں گے تاکہ صارفین کو سہولت فراہم کی جا سکے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں متعدد اہم چارجنگ اسٹیشنز پہلے ہی فعال ہیں، جن میں پی ایس او اسٹیشنز اور بی وائے ڈی پاکستان کی ڈیلرشپس شامل ہیں۔ بی وائے ڈی پاکستان کے نائب صدر سیلز اینڈ اسٹریٹجی، دانش خالق کے مطابق، پاکستانی صارفین میں نیو انرجی وہیکلز کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ رینج اینگزائٹی ہے۔ حب پاور کمپنی کے نائب صدر پراجیکٹس، مسعود ظفر نے کہا کہ ایک سبز ٹرانسپورٹ انقلاب کی بنیاد وسیع اور باآسانی دستیاب انفراسٹرکچر پر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی وائے ڈی پاکستان کے ساتھ یہ منصوبہ نہ صرف ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہے بلکہ پاکستان کی پائیدار ترقی اور قومی سطح پر مثبت تبدیلی کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ منصوبہ حکومت پاکستان کے موسمیاتی اہداف سے ہم آہنگ ہے اور ملک کے کاربن اخراج کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ بی وائے ڈی پاکستان ان ابتدائی آٹو مینوفیکچررز میں شامل ہو گیا ہے جنہوں نے بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان میں پائیدار ترقی کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا ہے۔