کیا ایلون مسک واقعی ٹیسلا کو خیرباد کہنے والے ہیں؟

کیا ایلون مسک واقعی ٹیسلا کو خیرباد کہنے والے ہیں؟گزشتہ روز وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ نے تہلکہ مچا دیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ٹیسلا کے بورڈ نے ایلون مسک کی جگہ کسی نئے سی ای او کی تلاش شروع کر دی ہے۔ لیکن چند ہی گھنٹوں بعد کمپنی کی چیئرپرسن روبین ڈین ہولم میدان میں آئیں اور ان خبروں کوبالکل غلط قرار دے دیا۔ انہوں نے ایکس پر ٹیسلا کے آفیشل اکاؤنٹ سے واضح کیا کہ بورڈ کو مسک پر مکمل اعتماد ہے اور کمپنی اپنے مستقبل کے منصوبوں پر گامزن ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کا کہنا تھا کہ بورڈ نے مارچ میں ایگزیکٹو ہنٹنگ فرمز سے رابطہ کیا تھا، اور اسی وقت مسک پر دباؤ تھا کہ وہ حکومت کے DOGE منصوبوں  سے وقت نکال کر ٹیسلا کو دیں اس بحث کی وجہ  یہ  ہے کہ اپریل میں ٹیسلا کی آمدنی میں 71 فیصد کمی رپورٹ ہوئی تھی، اور اسٹاک کی قیمت بھی سال کے آغاز سے 45 فیصد تک گر چکی تھی۔ایسے میں مسک نے اعلان کیا کہ وہ مئی سے حکومتی ذمہ داریوں کو محدود کر کے ٹیسلا پر دوبارہ توجہ دیں گے۔ ٹرمپ نے بھی حالیہ اجلاس میں مسک کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ ملک کی اکثریت انہیں پسند کرتی ہے۔لیکن، کمپنی کو چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی، سابقہ حامیوں کی تنقید، اور مارکیٹ میں عدم استحکام جیسے کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔ مسک کا کہنا ہے  کہ میں حکومت کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دن دوں گا میری ترجیح اب ٹیسلا ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ایلون مسک کا مکمل فوکس ٹیسلا کو دوبارہ بلندیوں پر لے جا سکے گا یا نہیں۔

’بزنس کی نئی راہیں کھلی ہیں‘ بائیکاٹ مہم کے بعد پاکستانی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ

گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں صارفین میں شعور بیدار ہوا ہے کہ وہ صرف کسی پراڈکٹ کو خریدنے کے لیے نہیں بلکہ ایک نظریے یا موقف کی حمایت یا مخالفت میں بھی اپنی خریداری کا استعمال کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے بعد دنیا بھر میں اسرائیلی اور اُن کی حمایت کرنے والی امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم زور پکڑ گئی ہے۔ پاکستان میں بھی عوامی سطح پر اس بائیکاٹ کو بھرپور پذیرائی ملی ہے، جس نے صارفین کے رجحانات میں ایک مثبت تبدیلی پیدا کی ہے۔ پاکستانی عوام اب مقامی مصنوعات کو ترجیح دینے لگے ہیں، جس کا براہِ راست فائدہ ملکی معیشت اور صنعت کو ہو رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی کمپنیوں کے لیے ایک نیا موقع بن کر سامنے آئی ہے، جس سے نہ صرف ان کی مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ انہیں عالمی سطح پر بھی متعارف ہونے کا موقع ملا ہے۔ پاکستانی مصنوعات، جو پہلے صرف مقامی مارکیٹ تک محدود تھیں، اب بین الاقوامی منڈیوں میں بھی اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ یہ بائیکاٹ صرف ایک وقتی ردِعمل نہیں بلکہ ایک ایسی تحریک بن چکی ہے جو قومی خود کفالت، مقامی صنعت کے فروغ اور نظریاتی وابستگی کا عملی مظہر ہے۔

کیا ماں دوست بن کر بیٹی کی بہتر تربیت کر سکتی ہے؟

دنیا میں، مائیں اپنی بیٹیوں کو موقع پرست رویّوں کو پہچاننے اور ان سے بچنے کی تربیت دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں، چاہے وہ تعلقات ہوں، سماجی حلقے ہوں یا پیشہ ورانہ ماحول۔ آج کے دور میں جذباتی ذہانت، خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنے کی صلاحیت اور ڈیجیٹل شعور پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گئے ہیں۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کھلی گفتگو، حدود مقرر کرنا، اور اقدار پر مبنی تربیت، لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے بنیادی اوزار ہیں۔ جیسے جیسے معاشرتی رویّے بدل رہے ہیں، ویسے ویسے ماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیوں میں شعور اور مزاحمت کی صلاحیت کو نئے انداز سے پروان چڑھائیں۔ مزید برآں، ایک باشعور ماں اپنی بیٹی کو نہ صرف ظاہری خطرات سے آگاہ کرتی ہے، بلکہ وہ اسے خود کو پہچاننے، اپنی اہمیت کو سمجھنے اور اپنی آواز بلند کرنے کا حوصلہ بھی دیتی ہے۔ بیٹیوں کو سکھایا جانا چاہیے کہ اختلافِ رائے رکھنا غلط نہیں، اور ہر رشتہ یا تعلق کی بنیاد احترام، مساوات اور ایمانداری پر ہونی چاہیے۔ آج کی دنیا میں جہاں سوشل میڈیا، ورچوئل تعلقات، اور تیز تر بدلتے رجحانات نے نئی چیلنجز پیدا کر دیے ہیں، وہیں ایک سمجھدار ماں کی رہنمائی بیٹی کے لیے ایک مضبوط ڈھال بن سکتی ہے۔ لہٰذا، ماؤں کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کریں، ان کے سوالات کو سنجیدگی سے لیں، اور انہیں اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی حفاظت، اپنی پہچان اور اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک باوقار، بااختیار اور خودمختار عورت کی تعمیر ممکن ہے۔

جنوبی وزیرستان میں خفیہ آپریشن، چار دہشت گرد ہلاک، دو سیکیورٹی اہلکار زخمی

جنوبی وزیرستان کے علاقے برمل میں واقع کلوٹائی گاؤں جمعے کے روز اُس وقت میدانِ جنگ بن گیا جب سیکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع پر ایک حساس آپریشن کا آغاز کیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق ایک رہائشی کمپاؤنڈ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لیا جس کے فوراً بعد دہشت گردوں نے شدید فائرنگ شروع کر دی۔ گولیوں کی تیز بوچھاڑ اور دھماکوں کی گونج نے پورے علاقے کو لرزا کر رکھ دیا۔ دو طرفہ مقابلے کے دوران چار دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا گیا جبکہ دو سیکیورٹی اہلکار معمولی زخمی ہوئے جنہیں موقع پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی۔ آپریشن کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں مکمل سرچ آپریشن کیا جس کے دوران بڑی مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا۔  حکام نے عزم ظاہر کیا ہے کہ علاقے میں امن کے قیام تک دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ دوسری جانب شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں ایک غیر فعال بینک کی عمارت کو دہشت گردوں نے دھماکے سے اُڑا دیا۔ مقامی پولیس کے مطابق، بینک کا عملہ سیکیورٹی خطرات کے باعث پہلے ہی بنوں منتقل ہو چکا تھا۔ عمارت سے چند روز قبل فرنیچر بھی مقامی افراد اٹھا کر لے گئے تھے۔ دھماکے کے بعد مقامی تاجر شدید تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسی اثنا میں، شمالی وزیرستان کی تحصیل رزمک میں سیکیورٹی کیمپ کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں ہر قسم کی تعمیر، رہائش اور نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے سیکیورٹی فورسز کی درخواست پر باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں سیکیورٹی ادارے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ علاقے میں بڑھتی ہوئی بدامنی نے نہ صرف عوام کو عدم تحفظ کا شکار کر رکھا ہے بلکہ روزمرہ زندگی اور کاروباری سرگرمیوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ جلد ہی قبائلی عمائدین کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد ہوگا تاکہ مستقل بنیادوں پر امن و امان کی بحالی کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ مزید پڑھیں: کاغذوں میں کروڑوں اور سڑکوں پر سناٹا، الیکٹرک بسوں کا خواب ادھورا کیوں ہے؟

’رسومات کے دوران جذباتی ماحول بن گیا‘، انڈیا میں تہوار کے دوران بھگڈر مچنے سے 6 افراد ہلاک 55 زخمی

انڈیا کی مغربی ریاست گوا میں ایک مندر کے سالانہ تہوار کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 6 افراد جاں بحق اور 55 زخمی ہو گئے۔ واقعہ جمعہ کی رات شیرگاؤ گاؤں میں شری لائرائی زترا تہوار کے دوران پیش آیا، جو آتش بازی اور مذہبی رسومات کے باعث مشہور ہے۔ پولیس افسر وی ایس چاڈونکر نے ہفتے کے روز بتایا کہ سینکڑوں عقیدت مند ایک مذہبی رسم میں شریک تھے جب اچانک ہجوم میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے کہا، “رسومات کے دوران جذباتی ماحول بن گیا جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی۔”یہ بھی پڑھیں: کیا ماں دوست بن کر بیٹی کی بہتر تربیت کر سکتی ہے؟ چاڈونکر نے مزید بتایا کہ چھ افراد موقع پر ہی جان سے گئے جبکہ کم از کم آٹھ کی حالت تشویشناک ہے۔ انڈیا میں مذہبی تہواروں کے دوران بھگدڑ کا پیش آنا کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ اکثر حفاظتی اقدامات کی کمی اور زیادہ ہجوم کی وجہ سے ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔ ریسکیو ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، جبکہ واقعے کی تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

فیک نیوز کا تدارک کیسے ممکن؟

سوشل میڈیا نے اکیسویں صدی میں انسان کی زندگی کو جس قدر متاثر کیا ہے، اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ معلومات تک فوری رسائی، دنیا کے ہر کونے میں رابطہ، اظہارِ رائے کی آزادی اور خبروں کی ترسیل نے عوام کو طاقتور بنایا ہے لیکن اسی سوشل میڈیا نے فیک نیوز یا جھوٹی خبروں کے ذریعے معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی ڈھانچوں کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے، وہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ آج ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں خبر کی صداقت سے زیادہ اس کی رفتار اہم ہو چکی ہے۔ ہر شخص رپورٹر ہے، ہر موبائل چینل ہے اور ہر پلیٹ فارم عدالت بن چکا ہے۔ ایسے ماحول میں فیک نیوز کی روک تھام محض ایک خواہش نہیں بلکہ ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ فیک نیوز کی اصطلاح بظاہر سادہ معلوم ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات نہایت پیچیدہ اور سنگین ہیں۔ یہ جھوٹی خبریں محض افواہوں کی شکل میں نہیں ہوتیں بلکہ ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی، سیاسی مفادات، نفرت انگیزی، پروپیگنڈہ اور بعض اوقات غیر ملکی ایجنڈے کارفرما ہوتے ہیں۔ فیک نیوز نہ صرف کسی شخص کی ساکھ برباد کر سکتی ہے بلکہ یہ معاشرے میں انتشار، مذہبی منافرت، فرقہ واریت اور یہاں تک کہ فسادات کو جنم دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں شرحِ خواندگی محدود اور تنقیدی سوچ کا فقدان ہے، وہاں فیک نیوز کا پھیلاؤ ایک بڑے المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی روک تھام کے لیے سب سے پہلا قدم عوامی شعور بیدار کرنا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قانون سازی، ٹیکنالوجی اور ریاستی اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن جب تک عوام خود اپنے ہاتھ میں موبائل اٹھا کر ایک خبر کو پرکھنے، جانچنے اور سمجھنے کی عادت نہیں اپناتے، تب تک کوئی بھی قانون یا ٹیکنالوجی اس وبا کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں میڈیا لٹریسی شامل کرنی ہوگی تاکہ بچے ابتدا سے ہی یہ سیکھیں کہ سوشل میڈیا پر موجود ہر چیز سچ نہیں ہوتی۔ انہیں یہ سکھانا ہوگا کہ کوئی بھی ویڈیو، تصویر یا تحریر شیئر کرنے سے قبل اس کے ماخذ، سیاق و سباق اور ممکنہ نتائج کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسرا اہم قدم ریاستی سطح پر ایسی پالیسیوں کا نفاذ ہے جو فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ہوں لیکن ان پالیسیوں کو آزادیِ اظہار پر قدغن کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ پاکستان میں کئی بار فیک نیوز کی آڑ میں صحافیوں کی زبان بندی کی گئی ہے، جس سے اصل مسئلہ دب گیا اور نئی الجھنیں جنم لینے لگیں۔ہمیں ایک متوازن اور شفاف نظام درکار ہے، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانون کے دائرے میں لا کر ان پر لازم کیا جائے کہ وہ جھوٹی خبروں کی شناخت، تردید اور روک تھام کے لیے الگورتھمز، فیکٹ چیکنگ ٹیمیں اور ریئل ٹائم رپورٹنگ میکانزم متعارف کرائیں۔ یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر(ایکس) اور انسٹاگرام جیسے بڑے پلیٹ فارمز پر موجود مواد کی نگرانی کا کوئی بین الاقوامی ضابطہ ہونا چاہیے، جو صرف حکومتوں کی ہی نہیں بلکہ صارفین کی بھی نمائندگی کرتا ہو۔ تیسرا اہم محاذ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ جس طرح فیک نیوز کی تخلیق میں مصنوعی ذہانت ،ایڈیٹنگ ٹولز، ڈیپ فیک اور بوٹس کا استعمال بڑھ رہا ہے، ویسے ہی ان کے تدارک کے لیے بھی جدید سافٹ ویئر اور الگورتھمز تیار کیے جا سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں کئی ادارے اور تنظیمیں ایسی ایپلیکیشنز پر کام کر رہے ہیں جو تصویر یا ویڈیو کی اصلیت کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان ٹولز کو نہ صرف صحافتی اداروں بلکہ عام عوام تک بھی پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے ڈیجیٹل لیبز قائم کیے جانے چاہئیں جہاں کسی خبر کی صداقت کو جانچنے کی سہولت دستیاب ہو تاکہ ایک عام شہری بھی اپنی تسلی کے بعد خبر کو آگے پھیلائے۔ صحافت کا کردار اس ضمن میں نہایت اہم ہے۔ آج کا صحافی محض خبر رساں نہیں بلکہ رہنمائی کرنے والا بھی ہونا چاہیے۔ اگر میڈیا ہاؤسز، چینلز اور اخبارات فیک نیوز کی شناخت اور اس کی تردید کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، تو نہ صرف ان کی ساکھ بڑھے گی بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض صحافتی ادارے خود فیک نیوز کے پھیلاؤ میں شریک ہو چکے ہیں، جو یا تو ریٹنگ کی دوڑ میں اندھے ہو چکے ہیں یا مخصوص سیاسی ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں غیر جانبدار، تحقیقی اور ذمہ دار صحافت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ فیک نیوز کا ایک اہم پہلو وہ ذہنی رجحانات ہیں جو انسان کو صرف اپنی مرضی کی بات سننے اور پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔سوشل میڈیا کے الگورتھمز اکثر صارفین کو انہی خیالات اور نظریات پر مبنی مواد دکھاتے ہیں جن سے وہ متفق ہوتے ہیں، جسے “فِلٹر ببل” کہا جاتا ہے۔ اس رجحان سے انسان ایک محدود دائرے میں قید ہو جاتا ہے، جہاں اختلافِ رائے، تنقید اور تجزیہ ناپید ہوتا ہے۔ یہ رجحان فیک نیوز کو مزید طاقت دیتا ہے، کیونکہ ہر جھوٹی خبر کسی نہ کسی “ایکو چیمبر”میں سچ سمجھی جاتی ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم خود کو مختلف آراء سننے، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے تیار کریں۔ تحقیق، دلیل اور کھلے ذہن سے گفتگو کا کلچر فروغ پائے گا تو فیک نیوز کی جڑیں خود بخود کمزور پڑیں گی۔ ایک اور قابلِ غور پہلو ان اثرانداز افراد کا ہے جو لاکھوں فالوورز رکھتے ہیں اور ان کی بات کو بغیر تحقیق سچ مانا جاتا ہے۔ جب کوئی مشہور شخصیت کسی جھوٹی خبر کو پھیلاتی ہے تو اس کے اثرات بہت وسیع ہوتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے افراد کو اخلاقی اور قانونی دونوں حوالوں سے جوابدہ بنایا جائے انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ ان کے الفاظ صرف رائے نہیں بلکہ ایک بڑی ذمہ داری ہیں۔ کچھ ممالک میں ایسے انفلوئنسرز کے لیے ضابطہ اخلاق متعارف کروایا گیا ہے، جس پر عملدرآمد سے فیک نیوز کے پھیلاؤ میں کمی آئی ہے۔ فیک نیوز

پاکستان انڈیا کشیدگی پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہوسکتا ہے لیکن فوری ضرورت نہیں، یونان

United Nations

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی موجودہ صدر یونان نے کہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اجلاس جلد ہو سکتا ہے، لیکن فوری طور پر نہیں۔ یونان کے سفیر ایوانجیلو سیکیرس نے بتایا کہ وہ حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو کونسل کا اجلاس بلایا جا سکتا ہے، حالانکہ ابھی تک اس کے لیے کوئی باضابطہ درخواست نہیں آئی۔ ادھر اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان اس معاملے پر ہر آپشن کھلا رکھے ہوئے ہے، جن میں سلامتی کونسل سے رجوع کرنا بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم وقت آنے پر فیصلہ کریں گے کہ کون سا قدم اٹھانا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ: حب پاور کمپنی ملک بھر میں چارجنگ پوائنٹس قائم کرے گی پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ انڈیا کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی وجہ سے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف کسی بڑی کارروائی کا خطرہ موجود ہے، اور اس بارے میں پاکستان نے اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر عالمی اداروں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا ہے۔ عاصم افتخار نے پہلگام حملے کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر شکل کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم پہلگام حملے پر افسوس کرتے ہیں اور مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں۔” انہوں نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ اقدام یکطرفہ اور غیر قانونی ہے، جو خطے کے امن کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یونانی سفیر نے بھی کہا کہ انہیں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ تمام فریقین سے بات چیت اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر رہا ہے تاکہ حالات قابو سے باہر نہ ہوں۔ انہوں نے کہا، “ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت سے مسئلہ حل کریں۔”

لاہور کی پبلک ٹرانسپورٹ میں ’ماحول دوست‘ اضافہ، الیکٹرک بسس فضائی آلودگی کا حل یا حکومتی خزانے پر بوجھ؟

لاہور کی پُرہجوم سڑکوں پر آج بھی دھویں اگلتی بسیں چل رہی ہیں، فضا میں آلودگی کی تہہ بدستور موجود ہے اور شہری سوال پوچھ رہے ہیں كہ “کہاں گئیں وہ 1500 الیکٹرک بسیں جن کا وعدہ کیا گیا تھا؟” پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل ایک انقلابی قدم اٹھایا تھا، جسے صوبے کی ٹرانسپورٹ کی تقدیر بدلنے کا منصوبہ قرار دیا گیا۔ یہ اعلان تھا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں جدید، ماحول دوست 1500 الیکٹرک بسیں متعارف کروائی جائیں گی۔ اس منصوبے كا آغاز لاہور اور گوجرانوالہ سے ہونا تھا اور فیز ون میں 380 بسیں سڑکوں پر چلنے کو تیار تھیں۔ لیکن ان شہروں كی عوام كو دور دور تک كہیں بھی ان بسوں كو نام و نشان نہیں مل نظر آرہا۔ ابتدائی طور پر لاہور میں 27 الیکٹرک بسوں پر مشتمل پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز ہوا تھا جو گرین ٹاؤن سے ریلوے اسٹیشن تک محدود ہے۔ اس کے بعد باقی شہروں میں منصوبے کا پھیلاؤ ہونا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ پائلٹ ہی میں گم ہو گیا؟ یا پھر اس کے پہیے کسی بیوروکریٹک دلدل میں پھنس چكے ہیں؟ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے پاكستان میٹرز سے خصوصی گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ ”میں روزانہ یونیورسٹی بس سے آتا ہوں، جب سنا ہے کہ لاہور میں الیکٹرک بسیں آ رہی ہیں تو بہت خوشی ہوئی کیونکہ لاہور کی آلودگی روز بروز بڑھ رہی ہے اور موٹر سائیکل سواروں كے لیے بہت مشكل ہوتی ہے۔ لیکن آج تک یہ اچھی خبر بس خبروں میں سنی ہے ابھی تک دیکھا کچھ نہیں۔” پنجاب كی وزیراعلیٰ مریم نواز نے حال ہی میں حکم دیا کہ لاہور میں ’ییلو لائن‘ الیکٹرک بس ٹریک کی منصوبہ بندی صرف 15 دن میں مکمل کی جائے۔ ساتھ ہی ایک جدید ٹرانسپورٹ کمانڈ اینڈ کنٹرول ٹاور قائم کرنے کی بھی منظوری دی گئی جو پورے نظام کی نگرانی کرے گا۔ اس كے علاوہ فیصل آباد میں “ریڈ” اور “اورنج” بس سروسز شروع کرنے کے بھی احکامات دیے گئے، لیکن جب تک بسیں سڑک پر نہ آئیں گی، یہ سب باتیں صرف الفاظ كی حد تك محدود رہ جاتی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ سے ایڈوکیٹ احمد ادریس ڈوگر نے پاکستان میٹرز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” بسیں خریدنے اور چارجنگ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے، اور اس میں کرپشن کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان میں بڑے منصوبوں پر کرپشن کا ریکارڈ موجود ہے تو اس منصوبے کی شفافیت کی کوئی گارنٹی نہیں ہے “ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکٹرک بسوں کا اجرا مرحلہ وار ہوگا تاکہ نظام کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ لیکن مرحلہ وار طریقہ کار اکثر بیوروکریسی کی سست روی اور فنڈز کے غلط استعمال کی نذر ہونے خطرہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ٹائم لائن واضح نہ ہو تو یہ منصوبہ بھی دوسرے ’میگا پراجیکٹس‘ کی طرح فائلوں میں دفن ہو سکتا ہے۔ الیکٹرک بسیں چلانے کے لیے صرف بسیں ہی نہیں، بلکہ مؤثر چارجنگ اسٹیشنز بھی درکار ہیں۔ لاہور میں کچھ مقامات پر چارجنگ پوائنٹس کا منصوبہ ضرور بنایا گیا ہے لیکن دیگر شہروں میں انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اس منصوبے کے آگے ایک بڑی دیوار بن چکی ہے۔ الیکٹرک بسیں فیول کی بچت اور کم مینٹیننس کی بدولت طویل مدتی لحاظ سے سستی ہیں لیکن ان کی ابتدائی لاگت ہوشربا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ کیا حکومت اتنا بوجھ برداشت کر سکے گی؟ یا پھر جلد ہی یہ منصوبہ نجی سرمایہ کاری کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائے گا؟ بلاشبہ، الیکٹرک بسیں زیرو ایمیشن ٹیکنالوجی رکھتی ہیں اور فضا کو آلودگی سے پاک کر سکتی ہیں، لیکن ان کے بیٹری سسٹم، پیداوار اور ری سائیکلنگ کے ماحولیاتی اثرات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ منصوبہ ماحول دوست ہے مگر اس کے مکمل فائدے تب ہی سامنے آئیں گے جب مکمل سسٹم لاہور اور گوجرانوالہ كی سر زمین پر رواں نظر آے گا، نہ کہ صرف کا بیانات میں یا كاغزوں كی حد تك محدود رہے گا۔ عوامی سطح پر اس منصوبے کی پذیرائی ہوئی، لوگوں نے وزیراعلی مریم نواز كے اس اقدام كو بڑھ چڑھ كر سراہا مگر اب جب منصوبہ وقت پر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا تو عوام کی اُمیدیں مایوسی میں بدلنے لگی ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر سوالات اٹھنے لگے ہیں كہ کیا یہ منصوبہ بھی محض الیکشن اسٹنٹ تھا؟ یا واقعی اس کے پیچھے کوئی سنجیدہ سوچ تھی جس سے ملك كی عوام كا كچھ بھلا ہوسكے۔ الیکٹرک بسوں کا منصوبہ پاكستان میں ایک روشن مستقبل کی جھلک ضرور دیتا ہے مگر جب بجٹ تو منظور ہو جائے تو پچھلی حكومتوں كی طرح  منصوبہ غائب ہو جاتا ہے، تو یہی وہ بات ہے جو عوام كے زہنوں میں شکوک و شبہات پیدا كرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف اس منصوبے کی رفتار بڑھائے بلکہ عوام کو شفافیت کے ساتھ باخبر رکھے۔ کیونکہ جب وعدے بار بار ادھورے رہیں تو اعتماد کا سفر بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ بلآخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ بجٹ منظور ہو گیا، منصوبہ لاپتہ ہے تو کیا واقعی الیکٹرک بسیں کہیں چھپ گئیں؟ یا ہمیں جلد ہی سڑکوں پر ان کی گونج سنائی دے گی؟