میٹا کا فیس بک کی پالیسیوں کو مزید سخت بنانے کا اعلان، ایسا کیا ہونے جارہا ہے؟

میٹا کے فیچرز میں تبدیلی کوئی نئی بات نہیں، کمپنی اپنے صارفین اور حریفوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کرتی رہتی ہے۔ بیان کے مطابق فیس بک فیڈ ہمیشہ ایسی پوسٹس موجود نہیں ہوتیں جن سے آپ مسلسل لطف اندوز ہوسکیں اور ہم اس خامی کو درست کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ میٹا نے بتایا کہ وہ ایسے صارفین کی پوسٹس کی رسائی محدود کر دے گی جو طویل اور دھیان بھٹکا نے والے کیپشنز کو استعمال کرتے ہیں یا ان کی پوسٹس کے کیپشن کا شیئر کیے گئے مواد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ایسے صارفین کے اکاؤنٹس کو فیس بک سے آمدنی کے لیے بھی اہل نہیں سمجھا جائے گا۔ میٹا نے بتایا کہ اس کی جانب سے اسپام نیٹ ورکس کے خلاف زیادہ جارحانہ اقدامات کیے جائیں گے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف کے باوجود آڈی کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں 30 فیصد اضافہ بیان کے مطابق ایسے اکاؤنٹس کی جانب سے کیے جانے والے کمنٹس لوگوں کو زیادہ نظر نہیں آئیں گے جبکہ اس طرح کی پوسٹس سے زیادہ افراد تک رسائی حاصل کرنے والے فیس بک پیجز کو ختم کیا جائے گا۔ کمپنی کی جانب سے ایک فیچر کی آزمائش بھی کی جا رہی ہے جس کے ذریعے صارفین گمنام رہ کر کمنٹس پر ڈاؤن ووٹ کو استعمال کرسکیں گے۔ میٹا کی جانب سے یہ بیان اس وقت جاری کیا گیا ہے جب کمپنی فیس بک کو نوجوانوں کے لیے زیادہ پرکشش بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمپنی کی جانب سے حال ہی میں فرینڈز ٹیب کو واپس فیس بک کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ مارک زکربرگ آئندہ چند ماہ کے دوران اسے پرانے فیس بک جیسا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنانا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے صارفین کا درجہ بڑھائے گی جو ہمیشہ اوریجنل مواد شیئر کرتے ہیں۔

روس صدارتی انتخاب میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے، پولینڈ

پولینڈ کے وفاقی وزیر برائے ڈیجیٹل امور نے خبردار کیا ہے کہ روس کی جانب سے پولینڈ کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی ایک غیر معمولی اور منظم کوشش جاری ہے جو ملک کی سلامتی اور جمہوری عمل کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ منگل کے روز ایک دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر کرزیشٹوف گاوکوسکی نے انکشاف کیا کہ انتخابات کی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور اسی دوران روسی ہائبرڈ حملوں اور گمراہ کن اطلاعات کے ذریعے پولینڈ کے ریاستی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “ہم اس وقت ایک ایسی صورتحال سے گزر رہے ہیں جو ماضی میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملی۔ روس کی جانب سے ہماری اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ریاست کا نظام معمول نا متاثر ہو۔” وزیر نے بتایا کہ روسی سائبر حملے واٹر اینڈ سیوریج کمپنیوں، ہیٹ اور پاور پلانٹس اور حکومتی اداروں پر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق صرف ان کے خطاب کے چند منٹوں کے دوران درجنوں سائبر حملوں کی اطلاع ملی۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں سال ان حملوں کی شرح دوگنی ہو چکی ہے۔ وارسا حکام کے مطابق مارچ میں پولش اسپیس ایجنسی کو بھی سائبر حملے کا نشانہ بنایا گیا جب کہ 2024 میں ریاستی خبر رساں ادارے پر بھی روسی سائبر حملے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ، یوکرین معاملے پر ٹرمپ کا ترک صدر سے رابطہ: ایردوان واشنگٹن آئیں گے‘ حکام نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ صرف پولینڈ ہی نہیں بلکہ یورپ بھر میں تخریب کاری اور آتش زنی کی وارداتوں کے پیچھے بھی ملوث ہے۔ روسی سفارت خانے نے تاحال اس حوالے سے کیے گئے ای میل کے جواب میں کوئی ردِعمل نہیں دیا۔ دوسری جانب ماسکو نے بارہا غیر ملکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ روس نے رومانیہ میں دسمبر میں ملتوی ہونے والے انتخابات کے فیصلے پر بھی تنقید کی تھی جو کہ ممکنہ مداخلت کے خدشات کے تحت منسوخ کیے گئے تھے۔ پولینڈ، جو یوکرین کے لیے مغربی امداد کا بڑا مرکز ہے اب مسلسل روسی سائبر حملوں، تخریبی کارروائیوں اور گمراہ کن اطلاعات کے حملوں کا شکار ہے۔ حکام نے ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی ہے تاکہ انتخابی عمل کو محفوظ بنایا جا سکے۔ صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 18 مئی کو منعقد ہونے جا رہا ہے اور موجودہ صورتحال میں یہ انتخابات پولینڈ کی تاریخ کے سب سے زیادہ سکیورٹی چیلنجز والے انتخابات بن چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: قدامت پسند رہنما فریڈرک مرز، نازک حالات میں بھی جرمنی کے چانسلر بننے کے لیے تیار

قدامت پسند رہنما فریڈرک مرز، نازک حالات میں بھی جرمنی کے چانسلر بننے کے لیے تیار

کنزرویٹو پارٹی کے رہنما فریڈرک مرز جرمنی کے نئے چانسلر کے طور پرحلف اٹھانے والے ہیں۔ جبکہ ملک میں معیشت کی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ جرمنی ایک طرف معشیت مندی کی جنگ لڑرہا ہے تو دوسری جانب اعلیٰ سکیورٹی اتحادی امریکا کے ساتھ تعلقات کی لڑائی لڑنے میں مصروف ہیں۔ قانون سازوں کی طرف امید ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں ووٹنگ میں مرز کی بطور چانسلر بھرپور حمایت کریں گے کیو نکہ فروری کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے ان کے قدامت پسندوں نے سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ اتحادی ڈیل بھی کی تھی۔ قدامت پسند کے رہنما مرز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ نومبر میں سبکدوش ہونے والے ایس پی ڈی کے چانسلر اولاف شولز کے تین طرفہ اتحاد کے خاتمے کے بعد قیادت کا مظاہرہ کریں۔ جس نے یورپ کے قلب میں ایک سیاسی خلا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ اسے اس کے بعد بے شمار بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست متحدہ کے جرمن مارشل فنڈڈیوڈ ولپ نے کہا کہ لوگ ایک طویل عرصے سے جرمنی سے قیادت کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں اور اس کال پر توجہ نہ دینے کے لیے اب کوئی دوسراآپشن نہیں ہے۔ مزید پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ: پاکستان کی سفارتی فتح، اقوام متحدہ میں انڈیا کے الزامات مسترد

پہلگام واقعہ: ’اقوام متحدہ میں انڈیا اپنے الزامات ثابت نہیں کرسکا،

پہلگام واقعہ پر پاکستان نے انڈیا کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی پانچوں بڑی طاقتوں نے پاکستان کے مؤقف کی کھل کر حمایت کی ہے۔ انڈیا کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن جب پاکستان نے اس حملے کو “فالس فلیگ آپریشن” قرار دیتے ہوئے عالمی فورم پر ثبوت مانگے تو انڈٰیا کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ بچا۔ سلامتی کونسل میں پاکستانی نمائندے نے کہا کہ اگر انڈیا کے پاس ثبوت ہیں تو عالمی برادری کے سامنے لائے ورنہ الزام تراشی بند کرے۔ لازمی پڑھیں: پیرُو کے سنہری پہاڑوں میں 13 کان کن قتل، حکومت نے فوجی کنٹرول اور کرفیو نافذ کر دیا انڈین میڈیا اور تجزیہ کاروں نے انڈین حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ آج انڈیا عالمی برادری میں مکمل طور پر تنہا ہو چکا ہے۔ ایک انڈین تجزیہ کار نے کہا کہ “جس فرانس سے رافیل خریدے، جس امریکا کو اربوں ڈالر دیے وہی آج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں،” یہاں تک کہ روس اور چین جیسے دیرینہ دوست بھی پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صرف ایک مؤقف کی جیت نہیں، بلکہ ایک بڑی سازش کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ مزید پڑھیں: غزہ، یوکرین معاملے پر ٹرمپ کا ترک صدر سے رابطہ: ایردوان واشنگٹن آئیں گے‘

انڈیا خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے، بیرون ملک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے، پاکستان 

اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پاکستان کے مستقبل مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے اپنے مقاصد بڑی حد تک حاصل کر لیے ہیں۔ پاکستان کی درخواست پرنیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اجلاس میں 15 رکن ممالک نے شرکت کی۔ پاکستانی خبررساں ادارہ اے پی پی کے مطابق سفارت کاروں نے بتایا کہ سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے آغاز پر، اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے مشرق وسطیٰ، ایشیا اور پیسفک خالد خیاری نے رکن ممالک کو بریفنگ دی۔  بریفنگ میں عاصم افتخار نے کہا کہ انڈیا کے ساتھ کشیدگی اور مقبوضہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد جنوبی ایشیا کی موجودہ صورت حال پر سکیورٹی کونسل کا جو اجلاس پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا، اس کے ذریعے ملک کے مقاصد بڑی حد تک حاصل ہو گئے ہیں۔  انہوں نے بتایا کہ اجلاس کے تین اہم مقاصد تھے۔  سکیورٹی کونسل کے رکن ممالک کو اس بات کا موقع دینا کہ وہ انڈیا کے یکطرفہ اقدامات اور پاکستان کو نشانہ بنانے والے جارحانہ پر تبادلہ خیال کر سکیں، جو اس وقت علاقائی اور عالمی امن و سکیورٹی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔   موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے بہترین طریقے پر تبادلہ خیال کرنا، جس میں ایک ایسے ٹکراؤ سے بچنے کی ضرورت شامل ہے جو سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے، اور کشیدگی میں کمی کی فوری ضرورت پر زور دینا ہے ۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آئی کہ خطے میں استحکام یکطرفہ اقدامات سے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کے لیے اصولی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری ضروری ہے۔۔ ہم نے 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے میں پاکستان کو ملوث کرنے کی انڈیا کی کوشش کو دو ٹوک طور پر مسترد کر دیا، جس کی نہ صرف پاکستان بلکہ سکیورٹی کونسل کے تمام رکن ممالک نے مذمت کی ہے۔ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: انڈیا مخالف متفقہ قرارداد منظور، پہلگام واقعے پر الزامات مسترد ان کا مزید کہناتھا کہ انڈیا جو دعویٰ کر رہا ہے وہ محض پرانے الزامات کا اعادہ ہیں اور بے بنیاد، غیر مصدقہ اور سیاسی مفادات اور سٹریٹیجک مقاصد کو پورا کرنے کے لیے گھڑے گئے ہیں، جن میں جموں و کشمیر میں اپنی جبر و زیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانا اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو کمزور کرنا اور اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی پر شدید تشویش کا اظہار کیا جو کہ ایک قانونی طور پر لازم معاہدہ ہے جسے عالمی بینک نے طے کرایا تاور جو جنگوں کے دوران بھی برقرار رہا۔ عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ پانی زندگی ہے، ہتھیار نہیں۔ یہ دریا 24 کروڑ سے زائد پاکستانیوں کی زندگی کا منبع ہیں۔ ان کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی بھی کوشش جارحیت کے مترادف ہے۔ ایسے کسی نظیر کو قبول کرنا ہر نچلی سطح پر واقع ریاست کے لیے خطرہ بن جائے گا۔  انڈیا کے حالیہ یکطرفہ اقدامات، خاص طور پر 23 اپریل کی غیر قانونی کارروائیوں، فوجی نقل و حرکت اور اشتعال انگیز بیانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سکیورٹی کونسل میں امن کا پیغام لے کر آیا نہ کہ اشتعال انگیزی کا۔۔ کونسل کو یاد دہانی کرائی گئی کہ خطے میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ جموں و کشمیر کا حل طلب تنازع ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ کشمیری عوام آج بھی سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل، بلا جواز گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، تشدد، گھروں کی مسماری، اظہارِ رائے اور میڈیا پر پابندیاں، اور ان کے حقِ خودارادیت سے منظم انکارشامل ہیں ۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ کونسل اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد کرے، جن میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کا انعقاد بھی شامل ہے تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انڈیا کی جانب سے غلط معلومات کو ہتھیار بنانے کی کوششوں کو بے نقاب کیا ۔ پاکستان کونسل کو یاد دلایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف اول کا ملک رہا ہے، جس نے 90 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور بھاری معاشی نقصان برداشت کیا۔۔ انڈیا کی جانب سے اس حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ وہ خود خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات اور بیرون ملک دہشت گردی میں ملوث ہے، جیسا کہ کلبھوشن یادیو کا معاملہ اور سرحد پار ٹارگٹ کلنگ۔ ان سب باتوں کا سامنا سچائی، شفافیت اور جوابدہی سے ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سلامتی کونسل اور سکریٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ امن قائم کرنے اور تنازعات سے بچنے کے لیے فعال طور پر کردار ادا کریں۔ کونسل کا کردار صرف دور بیٹھ کر تنازع دیکھنا نہیں، بلکہ بروقت اور اصولی اقدام کے ذریعے اسے روکنا بھی ہے۔امن کی ذمے داری سب کو اٹھانی ہوگی۔ پاکستان ٹکراؤ نہیں چاہتا، لیکن ہم اپنی خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق مکمل طور پر تیار ہیں۔

سپر ٹیکس کیس: پورے ملک سے پیسہ اکٹھا ہو رہا ہے، حق بھی پورے ملک کا ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت سپر ٹیکس کیس نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا، جب عدالت عظمیٰ کے معزز ججز نے وفاقی حکومت سے براہ راست سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ سماعت کے دوران ایک بات واضح ہو گئی کہ اگر ٹیکس پورے ملک سے اکٹھا ہو رہا ہے تو اس پر صرف وفاق نہیں، بلکہ تمام صوبوں کا بھی مساوی حق ہے۔ پانچ رکنی آئینی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے تھے، اور انہوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے وکیل سینیٹر رضا ربانی کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ کیس کا بنیادی نکتہ سپر ٹیکس سے حاصل شدہ 80 ارب روپے کی تقسیم تھا جو بظاہر دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں، بالخصوص خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا کے لیے مختص ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے دو ٹوک انداز میں ریمارکس دیے کہ “یہ پیسے پورے ملک سے اکٹھے ہو رہے ہیں، تو کیا باقی صوبے صرف تماشائی بنیں گے؟ این ایف سی ایوارڈ کا مقصد ہی مساوی تقسیم ہے۔ اگر میں آپ کے نام پر پیسہ لوں اور واپس نہ کروں تو؟” لازمی پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: غیر ملکی ایئرلائنز نے پاکستانی فضائی حدود سے منہ موڑ لیا جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوالات کرتے ہوئے کہا کہ “80 ارب میں سے 42.5 فیصد تو وفاق لے جائے گا، باقی رقم کہاں خرچ ہوگی؟” جس پر رضا ربانی نے وضاحت دی کہ “یہ رقم وفاقی حکومت کے ذریعے خرچ کی جائے گی اور صوبوں کو ان کا حصہ این ایف سی کے تحت مل رہا ہے۔” تاہم، عدالت اس وضاحت سے مطمئن نظر نہ آئی۔ دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب جسٹس مندوخیل نے یاد دلایا کہ رضا ربانی خود اٹھارویں آئینی ترمیم کے معمار ہیں۔ انہوں نے سخت لہجے میں کہا کہ “ایسے تو آپ این ایف سی ایوارڈ کا ستیاناس کردیں گے،” یہ جملہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہونے لگا۔ دورانِ سماعت کمپنیز کے وکیل مخدوم علی خان بھی روسٹرم پر آئے اور عدالت سے استدعا کی کہ آڈیٹر جنرل اور سیکریٹری فنانس کو طلب کیا جائے تاکہ رقوم کے استعمال کی شفافیت واضح ہو سکے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ “پہلے اٹارنی جنرل کا مؤقف سن لیتے ہیں پھر فیصلہ کریں گے کہ کن افراد کو طلب کرنا ہے۔” کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ ایف بی آر کے وکیل رضا ربانی مزید وضاحتوں کے ساتھ عدالت کے کڑے سوالات کا سامنا کریں گے۔ یہ کیس صرف ایک مالیاتی تنازعہ نہیں بلکہ یہ اس بنیادی اصول پر سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا واقعی ہمارا مالیاتی نظام وفاق اور صوبوں کے درمیان انصاف پر مبنی ہے یا پھر کچھ اور کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ مزید پڑھیں: حافظ نعیم الرحمان کی پریس کانفرنس: ’امن کی بات کیجئے مگر جھکنا نہیں چاہیے‘

پوڈ کاسٹ: ’بیٹی کی تربیت میں کون سی غلطیوں سے بچنا چاہیے؟’

کیا آپ اپنی بیٹی کی شخصیت کو خود غیر محسوس انداز میں کمزور کر رہے ہیں؟ ماہرین نفسیات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انکشاف ہوا ہے کہ چند عام مگر خطرناک غلطیاں جو ماں کی جانب سے کی جاتی ہیں جو کہ بچیوں کی خود اعتمادی، اخلاقی تربیت اور مستقبل پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ محبت کی آڑ میں حد سے زیادہ نرمی، ہر بات پر تنقید یا دوسروں سے مسلسل موازنہ، یہ سب بیٹی کو ایک “ہائی ویلیو وومن” بننے سے روک سکتے ہیں۔

گوجرانوالہ اور مستونگ میں فائرنگ، 8 افراد جاں بحق

ملک میں قتل و خون ریزی کی نئی لہر نے ایک بار پھر خوف کی فضا پھیلا دی ہے۔ گوجرانوالہ سے لے کر مستونگ تک، گولیوں کی گونج اور ماتم کی صدائیں ہر سو سنائی دے رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کے نواحی علاقے تتلے عالی میں اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب دیرینہ دشمنی نے پانچ جانیں نگل لیں۔ اڑتالی ورکاں میں پیش آنے والے ہولناک واقعے میں ملزم عمران نذیر ورک نے دشمنی کی آگ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے عمر، بلا، عثمان اور دو دیگر افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ دو زخمی اسپتال میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پولیس کے مطابق یہ لرزہ خیز قتل پرانی رنجش کا نتیجہ تھا، اس واقعے کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بھی موت کا رقص جاری رہا۔ علاقہ کل ہزار خان میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ لیویز ذرائع کے مطابق حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے، جبکہ ان کی تلاش میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی جارحیت: ایک دن میں چار ممالک پر حملہ، درجنوں مسلمان شہید

حافظ نعیم الرحمان کی پریس کانفرنس: ’امن کی بات کیجیے مگر جھکنا نہیں چاہیے‘

امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ غزہ میں آج بھی بدترین صورتحال ہے، فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، امن کی بات کیجیے مگر جھکنا نہیں چاہیے، ہمارا کیس مضبوط ہے، ہمیں اپنی قوم اور فوج پر اعتماد ہے۔  منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب امریکا سے امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں، حکومت ہویا اپوزیشن کوئی بھی امریکا کی مذمت نہیں کرتا۔ ن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے انڈیا کے خلاف بیان تک جاری نہیں کیا۔ 60 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، مگر کسی جماعت نے امریکہ کے خلاف واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم کو مجاہد بننا چاہیے، ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں دوبارہ این سی سی کی تربیت شروع کرنی چاہیے۔ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: انڈیا مخالف متفقہ قرارداد منظور، پہلگام واقعے پر الزامات مسترد ہیلتھ ورکز کے حوالے سے سوال پران کا کہنا تھا کہ ہیلتھ ورکرز کے مطالبات جائز ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں، احتجاج کا ساتھ دیں گے، حکومت مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو معذرت خواہ رویہ ترک کر کے پوری جرات اوراعتماد کے ساتھ مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ امریکہ سے بار بار التجائیں کرنا پاکستان کے وقار کے خلاف ہے، ہمارا کیس مضبوط اور مؤثر ہے۔ پاکستان کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ایسی ہے کہ ہم دنیا سے برابری کی سطح پر بات کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی مسلح افواج، ٹیکنالوجی اور پوری قوم پر مکمل اعتماد ہے، دشمن کو ہر سطح پر جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  حکمران طبقہ اگر امریکا کو نجات دہندہ سمجھے گا تو اسے نہ عزت ملے گی اور نہ پائیدار اقتدار۔  امریکا پاکستان کا، مسلمانوں کا اور انسانیت کا دشمن ہے، اس خوش فہمی سے نکلنا ہوگا کہ وہ ہمارا خیرخواہ ہے۔ امریکا قوموں کو نہیں، صرف افراد کو وقتی فائدے دے کر استعمال کرتا ہے، یہ بات حکمرانوں کو سمجھنی چاہیے۔  حکومت ہو یا اپوزیشن، کسی نے بھی اسرائیلی جارحیت پر امریکہ کی کھل کر مذمت نہیں کی، یہ مجرمانہ خاموشی ہے۔  بھارت کی ریاستی دہشت گردی، مسلمانوں، سکھوں، مسیحیوں کے خلاف مظالم پر پاکستانی قیادت کیوں خاموش ہے؟  فلسطین کے مسئلے پر پوری قوم کو ایک پیج پر آ کر کردار ادا کرنا ہوگا، یہ صرف سیاست نہیں، انسانیت کا معاملہ ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی تمام حدیں پار کر چکی ہے، خوراک لے جانے والے قافلے پر حملہ بھی کر دیا گیا۔  بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور معصوم بچوں کی شہادت پر خاموشی ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستان کو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مؤثر، واضح اور منظم مؤقف اپنانا چاہیے۔ مسلم دنیا کو بائیکاٹ مہم میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے، صرف بیانات کافی نہیں۔  اگر ہم جھک کر بات کریں گے تو دنیا ہمیں غلام سمجھے گی، عزت کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ دنیا طاقت کو مانتی ہے، مؤثر سفارت کاری کے لیے جرات مند مؤقف ضروری ہے۔ چین پاکستان کا سچا اور بااعتماد دوست ہے، خطے میں توازن کے لیے تعلقات مزید مضبوط کرنے ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو باہمی تعلقات اور دفاعی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔

غزہ، یوکرین معاملے پر ٹرمپ کا ترک صدر سے رابطہ: ایردوان واشنگٹن آئیں گے‘

دنیا ایک بار پھر کشیدگی کے دہانے پر کھڑی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو میں غزہ، شام اور یوکرین کی بگڑتی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اس گفتگو کو “بہت اچھی اور تعمیری” قرار دیتے ہوئے ترکیہ کے صدر کو امریکا کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جبکہ خود بھی انقرہ جانے کے لیے پرعزم نظر آئے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اردوان کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے بہت سے مسائل کے حل کی امید بندھی ہے۔ ترک صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق صدر اردوان نے امریکا کی ایران مذاکرات اور یوکرین میں امن کوششوں کی حمایت کی ہے جبکہ دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ مگر اسی دوران مشرق وسطیٰ کی زمین ایک بار پھر خون سے سرخ ہو چکی ہے۔ اسرائیلی افواج نے ایک ہی دن میں یمن، لبنان، شام اور غزہ پر شدید حملے کیے جس سے عالمی برادری میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔  صرف غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 54 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ اسپتالوں میں ادویات، بجلی اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے اور 48 گھنٹوں میں ان کے مکمل بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو “منتقل” کرنے کا اعلان اور 65 دن سے جاری محاصرہ، ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے چکا ہے۔ اسرائیل کی یہ جارحانہ کارروائیاں اب سرحدوں سے باہر نکل چکی ہیں، جہاں یمن، شام اور لبنان میں بھی بمباری جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے امریکی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، جبکہ عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے۔ مزید پڑھیں: پیرُو کے سنہری پہاڑوں میں 13 کان کن قتل، حکومت نے فوجی کنٹرول اور کرفیو نافذ کر دیا