پوڈ کاسٹ: ’بیٹی کی تربیت میں کون سی غلطیوں سے بچنا چاہیے؟’

کیا آپ اپنی بیٹی کی شخصیت کو خود غیر محسوس انداز میں کمزور کر رہے ہیں؟ ماہرین نفسیات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انکشاف ہوا ہے کہ چند عام مگر خطرناک غلطیاں جو ماں کی جانب سے کی جاتی ہیں جو کہ بچیوں کی خود اعتمادی، اخلاقی تربیت اور مستقبل پر گہرا اثر ڈالتی ہیں۔ محبت کی آڑ میں حد سے زیادہ نرمی، ہر بات پر تنقید یا دوسروں سے مسلسل موازنہ، یہ سب بیٹی کو ایک “ہائی ویلیو وومن” بننے سے روک سکتے ہیں۔

گوجرانوالہ اور مستونگ میں فائرنگ، 8 افراد جاں بحق

ملک میں قتل و خون ریزی کی نئی لہر نے ایک بار پھر خوف کی فضا پھیلا دی ہے۔ گوجرانوالہ سے لے کر مستونگ تک، گولیوں کی گونج اور ماتم کی صدائیں ہر سو سنائی دے رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کے نواحی علاقے تتلے عالی میں اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب دیرینہ دشمنی نے پانچ جانیں نگل لیں۔ اڑتالی ورکاں میں پیش آنے والے ہولناک واقعے میں ملزم عمران نذیر ورک نے دشمنی کی آگ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے عمر، بلا، عثمان اور دو دیگر افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جبکہ دو زخمی اسپتال میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ پولیس کے مطابق یہ لرزہ خیز قتل پرانی رنجش کا نتیجہ تھا، اس واقعے کے بعد علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بھی موت کا رقص جاری رہا۔ علاقہ کل ہزار خان میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہو گئے۔ لیویز ذرائع کے مطابق حملہ آور موقع سے فرار ہو گئے، جبکہ ان کی تلاش میں سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی جارحیت: ایک دن میں چار ممالک پر حملہ، درجنوں مسلمان شہید

حافظ نعیم الرحمان کی پریس کانفرنس: ’امن کی بات کیجیے مگر جھکنا نہیں چاہیے‘

امیر جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ غزہ میں آج بھی بدترین صورتحال ہے، فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، امن کی بات کیجیے مگر جھکنا نہیں چاہیے، ہمارا کیس مضبوط ہے، ہمیں اپنی قوم اور فوج پر اعتماد ہے۔  منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب امریکا سے امیدیں لگا کر بیٹھے ہیں، حکومت ہویا اپوزیشن کوئی بھی امریکا کی مذمت نہیں کرتا۔ ن لیگ کے سربراہ نوازشریف نے انڈیا کے خلاف بیان تک جاری نہیں کیا۔ 60 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، مگر کسی جماعت نے امریکہ کے خلاف واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم کو مجاہد بننا چاہیے، ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں دوبارہ این سی سی کی تربیت شروع کرنی چاہیے۔ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: انڈیا مخالف متفقہ قرارداد منظور، پہلگام واقعے پر الزامات مسترد ہیلتھ ورکز کے حوالے سے سوال پران کا کہنا تھا کہ ہیلتھ ورکرز کے مطالبات جائز ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں، احتجاج کا ساتھ دیں گے، حکومت مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کو معذرت خواہ رویہ ترک کر کے پوری جرات اوراعتماد کے ساتھ مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ امریکہ سے بار بار التجائیں کرنا پاکستان کے وقار کے خلاف ہے، ہمارا کیس مضبوط اور مؤثر ہے۔ پاکستان کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ایسی ہے کہ ہم دنیا سے برابری کی سطح پر بات کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی مسلح افواج، ٹیکنالوجی اور پوری قوم پر مکمل اعتماد ہے، دشمن کو ہر سطح پر جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔  حکمران طبقہ اگر امریکا کو نجات دہندہ سمجھے گا تو اسے نہ عزت ملے گی اور نہ پائیدار اقتدار۔  امریکا پاکستان کا، مسلمانوں کا اور انسانیت کا دشمن ہے، اس خوش فہمی سے نکلنا ہوگا کہ وہ ہمارا خیرخواہ ہے۔ امریکا قوموں کو نہیں، صرف افراد کو وقتی فائدے دے کر استعمال کرتا ہے، یہ بات حکمرانوں کو سمجھنی چاہیے۔  حکومت ہو یا اپوزیشن، کسی نے بھی اسرائیلی جارحیت پر امریکہ کی کھل کر مذمت نہیں کی، یہ مجرمانہ خاموشی ہے۔  بھارت کی ریاستی دہشت گردی، مسلمانوں، سکھوں، مسیحیوں کے خلاف مظالم پر پاکستانی قیادت کیوں خاموش ہے؟  فلسطین کے مسئلے پر پوری قوم کو ایک پیج پر آ کر کردار ادا کرنا ہوگا، یہ صرف سیاست نہیں، انسانیت کا معاملہ ہے۔ اسرائیل کی دہشت گردی تمام حدیں پار کر چکی ہے، خوراک لے جانے والے قافلے پر حملہ بھی کر دیا گیا۔  بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور معصوم بچوں کی شہادت پر خاموشی ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستان کو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف مؤثر، واضح اور منظم مؤقف اپنانا چاہیے۔ مسلم دنیا کو بائیکاٹ مہم میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے، صرف بیانات کافی نہیں۔  اگر ہم جھک کر بات کریں گے تو دنیا ہمیں غلام سمجھے گی، عزت کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ دنیا طاقت کو مانتی ہے، مؤثر سفارت کاری کے لیے جرات مند مؤقف ضروری ہے۔ چین پاکستان کا سچا اور بااعتماد دوست ہے، خطے میں توازن کے لیے تعلقات مزید مضبوط کرنے ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کو باہمی تعلقات اور دفاعی تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔

غزہ، یوکرین معاملے پر ٹرمپ کا ترک صدر سے رابطہ: ایردوان واشنگٹن آئیں گے‘

دنیا ایک بار پھر کشیدگی کے دہانے پر کھڑی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے درمیان ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو میں غزہ، شام اور یوکرین کی بگڑتی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے اس گفتگو کو “بہت اچھی اور تعمیری” قرار دیتے ہوئے ترکیہ کے صدر کو امریکا کا دورہ کرنے کی دعوت دی، جبکہ خود بھی انقرہ جانے کے لیے پرعزم نظر آئے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اردوان کے ساتھ ہونے والی بات چیت سے بہت سے مسائل کے حل کی امید بندھی ہے۔ ترک صدارتی دفتر سے جاری بیان کے مطابق صدر اردوان نے امریکا کی ایران مذاکرات اور یوکرین میں امن کوششوں کی حمایت کی ہے جبکہ دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ مگر اسی دوران مشرق وسطیٰ کی زمین ایک بار پھر خون سے سرخ ہو چکی ہے۔ اسرائیلی افواج نے ایک ہی دن میں یمن، لبنان، شام اور غزہ پر شدید حملے کیے جس سے عالمی برادری میں تشویش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔  صرف غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 54 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ اسپتالوں میں ادویات، بجلی اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے اور 48 گھنٹوں میں ان کے مکمل بند ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے غزہ کے 20 لاکھ شہریوں کو “منتقل” کرنے کا اعلان اور 65 دن سے جاری محاصرہ، ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دے چکا ہے۔ اسرائیل کی یہ جارحانہ کارروائیاں اب سرحدوں سے باہر نکل چکی ہیں، جہاں یمن، شام اور لبنان میں بھی بمباری جاری ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ حملے امریکی حمایت کے بغیر ممکن نہیں، جبکہ عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت کے زمرے میں آتی ہے۔ مزید پڑھیں: پیرُو کے سنہری پہاڑوں میں 13 کان کن قتل، حکومت نے فوجی کنٹرول اور کرفیو نافذ کر دیا

انسان نما روبوٹس: کیا یہ ٹیکنالوجی تعلیم اور صحت کا مستقبل ہے؟

ایک نیا انقلاب دروازے پر دستک دے رہا ہے، انسان نما روبوٹس، جو نہ صرف ہمارے سیکھنے کے طریقے کو بدلنے جا رہے ہیں بلکہ صحت کے شعبے میں بھی حیران کن تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ تصور کریں ایک ایسا استاد جو ہر بچے کے سیکھنے کے انداز کو پہچان کر ویسے ہی پڑھائے یا ایک ڈاکٹر جو سینکڑوں میل دور بیٹھ کر بھی آپ کا چیک اپ کر سکے۔ یہ کوئی سائنس فکشن نہیں، بلکہ آج کی حقیقت ہے۔ تعلیم ہو یا علاج، یہ روبوٹس نہ تھکتے ہیں نہ بھولتے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا موجودہ دور اس انقلاب کے لیے تیار ہے؟

پیرُو کے سنہری پہاڑوں میں 13 کان کن قتل، حکومت نے فوجی کنٹرول اور کرفیو نافذ کر دیا

پیرُو کے شمالی ضلع پاتاز میں سونے کی کانیں اس وقت خون سے سرخ ہو گئیں جب 13 کان کنوں کو اغواء کر کے بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ ان ہلاکتوں کے بعد حکومت نے کان کنی کی تمام سرگرمیاں فوری طور پر 30 دن کے لیے معطل کر دی ہیں اور علاقے میں شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ صدر دینا بولوارٹے نے پیر کے روز اعلان کیا کہ اب پاتاز میں فوجی دستے تعینات کیے جائیں گے جو سیکیورٹی کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم امن قائم کریں گے چاہے اس کے لیے طاقت کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔‘‘ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب کان کنی کی معروف کمپنی “پودروسا” کے ساتھ معاہدہ رکھنے والی ایک مقامی فرم R&R کے 13 کارکنوں کی لاشیں پولیس نے برآمد کیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ ماہ غیر قانونی کان کنوں نے اغواء کر لیا تھا۔ پودروسا کے مطابق پاتاز میں گزشتہ چند سالوں میں تقریباً 40 افراد جن میں ٹھیکے پر کام کرنے والے مزدور اور مقامی کان کن شامل ہیں جو کہ مجرمانہ گروہوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ 2020 کے بعد سے غیر قانونی کان کنوں نے پودروسا کی متعدد کانوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور حکومت کی جانب سے پہلے ہی یہاں ایمرجنسی نافذ کی جا چکی تھی۔ توانائی و معدنیات کے وزیر، خورخے مونٹورو نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حالات قابو میں نہ آئے تو کان کنی پر پابندی میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ پاتاز میں یہ جنگ اب صرف سونے کی نہیں، انسانیت اور ظلم کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ بن چکی ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی جارحیت: ایک دن میں چار ممالک پر حملہ، درجنوں مسلمان شہید

اسرائیلی جارحیت: ایک دن میں چار ممالک پر حملہ، درجنوں مسلمان شہید

اسرائیلی افواج نے ایک ہی دن میں یمن، لبنان، شام اور غزہ پر حملے کیے جس سے عالمی برادری میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 54 افراد شہید ہوئے، جب کہ غزہ کے اسپتالوں میں حالات سنگین ہیں اور وہ 48 گھنٹوں میں مکمل طور پر بند ہونے کا خدشہ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے غزہ کے 20 لاکھ سے زائد باشندوں کو “منتقل” کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ غزہ پر اسرائیل کا مکمل محاصرہ 65 دن سے جاری ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک 61,700 فلسطینی شہید اور 118,610 زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کی حالت کا کچھ پتا نہیں آیا کہ وہ زندہ ہیں یا شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیل کی یہ جارحیت صرف فلسطین کی حدود تک محدود نہیں رہی بلکہ یمن، لبنان اور شام میں بھی حملے کیے گئے ہیں جس سے ان ممالک کے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اسرائیل کی یہ کارروائیاں امریکی حمایت سے کی جا رہی ہیں، جب کہ عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال فلسطینیوں، شامیوں اور لبنانیوں کے لیے ایک سنگین انسانی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے جس میں ہر گزرتا دن مزید تباہی اور انسانی المیے کا سبب بن رہا ہے۔ مزید پڑھیں: اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی انڈیا اور پاکستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل، ثالثی کی پیش کش

پاکستان، انڈیا کشیدگی: غیرملکی ائیر لائنز کا پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز

ایئر فرانس، لفتھانزا اور دیگر عالمی ایئرلائنز نے اچانک پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز شروع کر دیا، جس سے مسافروں اور ماہرین ہوابازی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ہوائی راستوں کو بھی متاثر کر دیا۔ انڈیا نے پاکستانی ایئرلائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تو پاکستان نے بھی فوری ردعمل میں انڈین ملکیت یا آپریٹ کی گئی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ البتہ، پاکستان نے بین الاقوامی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھلی رکھی ہیں مگر دنیا کی بڑی ایئرلائنز نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ ایئر فرانس نے اپنے بیان میں کہا کہ “حالیہ کشیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود کے اوور فلائٹ کو معطل کر دیا گیا ہے۔” لفتھانزا گروپ نے بھی اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی تمام ایئرلائنز اس وقت پاکستانی فضائی راستے سے گریز کر رہی ہیں۔ فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا نے بھی اس تبدیلی کی تصدیق کی، جہاں برٹش ایئرویز، سوئس انٹرنیشنل ایئر لائنز اور ایمریٹس کی پروازیں پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے بجائے عرب سمندر سے ہو کر دہلی کی جانب مڑتے دیکھی گئیں۔ خطے میں بڑھتے خطرات کے باعث فضاؤں میں بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں عالمی پروازیں کس نئے چیلنج کا سامنا کریں گی؟ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس: انڈیا مخالف متفقہ قرارداد منظور، پہلگام واقعے پر الزامات مسترد

پاکستان سے برین ڈرین: ’تعلیمی ادارے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں‘

پاکستان میں بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان نا امیدی کا شکار ہیں، ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام نے تعلیم یافتہ طبقے کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں پر نہ ملازمت کے مواقع ہیں اور نہ ہی کوئی اور راستہ ہے۔ ادارہ شماریات کی 2023ء کی آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری کے مطابق ملک میں بےروزگاری کی شرح 22 فیصد سے بھی زیادہ بنتی ہے، جو انتہائی تشویشناک بھی ہے، اگر نوجوان اسی طرح ناامیدی کا شکار ہوں گے اور ان پر مایوسی چھائی ہو گی تو ملک کس طرح ترقی کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے روزگاری نوجوانوں میں خود اعتمادی کی کمی، اضطراب اور ڈپریشن جیسی علامات کو بڑھا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان جب چھوٹی موٹی ملازمت بھی حاصل نہ کر سکیں تو وہ خود کو ناکام سمجھنے لگتے ہیں،یہ اساس نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے،اس سے کسی بھی طرح سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں روزگاری کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان اضطراب کا شکار ہے اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم اور مارکیٹ کے درمیان ربط کا فقدان، انٹرن شپ اور ٹریننگ کے مواقع کی کمی، اور نجی و سرکاری شعبوں میں محدود نوکریاں اس وقت بے روزگاری کی بنیادی وجوہات ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر مواقع سست روی کا شکار ہیں۔ پہلے پہل تو پاکستان میں نظام تعلیم کی پالیسیز اس طرح سے ترتیب دی جاتی ہیں جس سے عملی مہارتیں نوجوانوں میں پیدا نہیں ہوتی ، جس سے روزگار کے تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ممکن ہےاس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا نظامِ تعلیم نظریاتی معلومات پر مبنی ہے اور عملی مہارتوں پر کم توجہ دیتا ہے۔ انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق کورسز کی کمی اور اپڈیٹ نہ ہونے والے نصابِ تعلیم نے گریجویٹس کو غیر موزوں بنا دیا ہے۔ اب نوجوان ڈگریاں لینے کے بعد بھی دربدر بھٹکنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ نوجوانوں کے روزگار کے لیے حکومت کی طرف سے موثر پالیسیز نہیں بنائی جاتی جس سےمواقع نہ ملنے کی وجہ سے نوجوانوں میں نا امیدی پیدا ہو جاتی ہے، اس حوالے سماجی ماہر ڈاکٹر معید حسن نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ کئی پروگرامز جیسے کامیاب جوان اور ہنر مند پاکستان اچھے اقدامات تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کا دائرہ محدود اور عملدرآمد غیر مؤثر رہا۔ شفافیت، تسلسل اور نجی شعبے کی شراکت کے بغیر یہ پالیسیاں دیرپا فائدہ نہیں دیتی۔ برطانیہ نے گزشتہ روز ایک رپورٹ پبلش کی تھی جس کے مطابق ایک لاکھ آٹھ ہزار دیگر ممالک کے شہریوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کے لیے درخواستیں جمع کرائیں ، جس میں سب سے زیادہ پاکستانیوں نے دراخواستیں جمع کرائیں تھی۔ موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہر دوسرا نوجوان پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک سکونت اختیار کرنا چاہتا ہے تاکہ بیرون ملک جا کر اپنا مستقبل بہتر بنایا جا سکے ، اس حوالے سے سماجی ماہر ڈاکر حسن معید نے کہا کہ بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے نوجوانوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ کامیابی صرف ملک سے باہر جا کر ہی ممکن ہے۔ بیرونِ ملک مواقع، بہتر معیارِ زندگی اور محفوظ مستقبل ان کی سوچ کو متاثر کر رہے ہیں۔ نصاب اس طرح ترتیب دینا چاہیے جو جدید دور سے ہم آہنگی رکھتا ہو اور نوجوانوں کے لیے مواقع فراہم کرتا ہو اس حوالے سے سماجی ماہر داکٹر معید حسن نے کہا کہ تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں، تاکہ طلبہ صرف کتابی علم نہیں بلکہ عملی مہارتیں بھی حاصل کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ  ٹیکنیکل اور ووکیشنل تربیت کو لازمی حصہ بنایا جائے، خاص طور پر آئی ٹی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اور دیگر ہنر جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نجی شعبے سے مل کر انٹرن شپس، اپرینٹس شپ پروگرامز اور صنعت و تعلیم کے درمیان پل بنانے جیسے اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ، کیریئر کونسلنگ، اسٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز، اور ہنر مند نوجوانوں کے لیے بلا سود قرضوں کی سہولت بھی لازمی ہے۔ اگر نئی نوکریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں تو نوجوانوں میں نا امیدی ختم ہو سکتی ہے اس حوالے سماجی ماہر نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ پیداواری شعبوں جیسے زراعت، صنعت اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کو فروغ دے تاکہ نئی نوکریاں پیدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارکو آسان قرضے دیے جائیں تاکہ وہ روزگار کے مواقع پیدا کر سکیں۔ نوجوانوں کو کاروباری تربیت دے کر خود کفالت کی طرف مائل کیا جائے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کرپشن، ذخیرہ اندوزی اور مڈل مین کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ معاشی پالیسیوں میں تسلسل اور استحکام بھی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ای کامرس کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں تو فری لانسنگ آج کے دور میں ایک مؤثر ذریعہ روزگار بن چکی ہے، اس حوالے سماجی ماہر ڈاکٹر حسن معید نے کہا کہ فری لانسنگ آج کے دور میں ایک مؤثر ذریعہ روزگار بن چکی ہے، خاص طور پر ڈیجیٹل سکلز رکھنے والے نوجوانوں کے لیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، کانٹینٹ رائٹنگ، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ جیسے شعبے لاکھوں نوجوانوں کو عالمی مارکیٹ سے جوڑ سکتے ہیں۔ حکومت اگر فری لانسنگ کے فروغ کے لیے تربیتی پروگرامز، انٹرنیٹ سہولیات، اور آن لائن ادائیگیوں کے نظام کو آسان بنائے تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں نوجوان خود روزگار اختیار کر سکتے ہیں