LIVE انڈین حملوں کے جواب میں پاکستان کی کاری ضرب، ائیر بیسز تباہ کر دیں

Indian army

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ واشنگٹن، پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجودہ کشیدہ صورتِ حال میں براہِ راست مداخلت سے گریز کرنے کی پالیسی اپنائے گا، لیکن سفارتی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وینس نے صاف الفاظ میں کہا کہ اس جنگ میں امریکا کا کوئی کام نہیں اور وہ ان ممالک کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ تاہم، امریکا دونوں فریقین کو تحمل اور کشیدگی میں کمی کے لیے مسلسل حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی موجودہ ترجیح دنیا بھر میں اپنے دیگر سفارتی محاذوں جیسے یوکرین اور غزہ پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں براہِ راست دباؤ کم ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تصادم شدت اختیار کر چکا ہے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق انڈین فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جمعرات کی رات اور جمعہ کی صبح انڈیا کی مغربی سرحد پر کئی حملے کیے جن میں ڈرونز اور گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ انڈین فوج کا کہنا ہے کہ ان حملوں کو مؤثر طریقے سے روکا گیا اور پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا بھرپور جواب دیا گیا ہے۔ یہ تصادم انڈیا کے ان حملوں کے بعد شروع ہوا جن میں اس نے پاکستان میں موجود ان مقامات کو نشانہ بنایا جنہیں وہ دہشت گردوں کے کیمپ قرار دیتا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ حملے کشمیر میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد واقعے کا بدلہ تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کے تحت لگائے جا رہے ہیں۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید جھڑپیں ہوئیں، اور دونوں نے ایک دوسرے پر فضائی حدود میں ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا الزام لگایا ہے۔ گزشتہ اپڈیٹس: پاکستان انڈیا جنگ، کب کیا ہوا؟ اب تک اس تنازعے میں تقریباً چار درجن افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پاکستان نے پٹھانکوٹ، سری نگر اور جیسلمیر پر حملوں کے الزامات کی بھی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔

انڈیا کی جانب سے پنڈی اسٹیڈیم پر حملے کی سازش، پی ایس ایل سیزن 10 کے باقی میچز یو اے ای منتقل

Mohsin naqvi feature overall

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے انکشاف کیا ہے کہ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کو ممکنہ طور پر انڈین حملے کا نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی، جس کا مقصد ایچ بی ایل پی ایس ایل سیزن 10 کو سبوتاژ کرنا تھا۔ محسن نقوی نے اس اقدام کو انتہائی سنگین اور خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ انڈٰیا بین الاقوامی کرکٹ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کھیل میں سیاست کو گھسیٹ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پی سی بی کا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ کھیل اور سیاست کو الگ رکھا جائے لیکن انڈیا اس اصول کو مسلسل نظرانداز کر رہا ہے۔‘‘ موجودہ حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے پی سی بی نے سیزن کے باقی 8 میچز متحدہ عرب امارات منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ بورڈ پرعزم ہے کہ لیگ کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا جائے گا اور شائقین کو اعلیٰ معیار کی کرکٹ دیکھنے کو ملے گی۔ پی سی بی ذرائع کے مطابق سیکیورٹی ادارے مکمل الرٹ پر ہیں جبکہ مستقبل میں اس نوعیت کے کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی پر کام جاری ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: پی ایس ایل کے بقیہ میچز کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ

جنگ اور بچوں کی نفسیات: ’یہ المیہ نسلوں کو متاثر کرتا ہے‘

جنگ صرف توپوں، بندوقوں اور دھماکوں کی کہانی نہیں ہوتی، یہ ایک ایسا المیہ ہے جو نسلوں کو متاثر کرتا ہے۔ جب سرحدوں پر گولہ باری ہوتی ہے، تو اس کی گونج صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ گھروں، اسکولوں اور معصوم ذہنوں تک پہنچتی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر وہ بچے ہوتے ہیں جن کا نہ کوئی قصور ہوتا ہے، نہ ہی سمجھ بوجھ۔ وہ صرف دیکھتے ہیں، ٹوٹتے گھر، بچھڑتے چہرے، اور ایک ایسی دنیا جو اچانک ان کے لیے غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ جنگ، بچوں کی نفسیات پر ایسے گہرے زخم چھوڑتی ہے جو اکثر جسمانی زخموں سے زیادہ دیر پا اور جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ وہ خوف، عدم تحفظ اور محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان کا بچپن، جس میں رنگ، کھیل اور خواب ہونے چاہییں، دھوئیں، چیخوں اور آنسوؤں سے بھر جاتا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت، 24 گھنٹوں میں 106 فلسطینی شہید

Females crying

غزہ پر اسرائیلی بمباری میں تیزی، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 106 فلسطینی شہید اور 350 سے زائد زخمی ہوگئے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی جنگی طیارے رہائشی علاقوں، پناہ گزین کیمپوں اور بنیادی تنصیبات کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں۔ جنوبی غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج اور حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈ کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ القسام بریگیڈ نے ایک کارروائی میں اسرائیلی فوج پر گھات لگا کر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں متعدد اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسرائیل نے جنوبی لبنان پر بھی فضائی حملہ کیا جس میں ایک شہری شہید اور 8 زخمی ہوئے۔ اسرائیلی حملوں کا دائرہ کار مسلسل پھیل رہا ہے جب کہ عالمی برادری کی خاموشی اس خون ریزی پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت کے باعث غزہ مکمل طور پر انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے، شہید فلسطینیوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ عالمی ادارے اب تک صرف تشویش تک محدود ہیں جب کہ زمینی حقائق ہر لمحہ مزید بھیانک شکل اختیار کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: امریکا پاکستان اور انڈیا کے درمیان مداخلت نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس

نئے منتخب ہونے والے پوپ رابرٹ پریوسٹ کون ہیں؟

New pope

ویٹیکن میں نئے پوپ کے انتخاب سے پہلے ہی لوگ خوشی سے نعرے لگانے لگے۔ 69 سالہ رابرٹ پریوسٹ کو کیتھولک چرچ کا نیا پوپ منتخب کیا گیا ہے اور ان کا نیا نام پوپ لیو چہار دہم رکھا گیا ہے۔ وہ چرچ کے 267ویں پوپ ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی امریکی شہری پوپ بنا ہے، اگرچہ وہ لاطینی امریکہ سے بھی گہرا تعلق رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے کئی سال پیرو میں ایک مشنری کے طور پر گزارے۔ ان کے پاس پیرو کی شہریت بھی ہے اور وہ غریبوں کی خدمت اور مقامی چرچز کے ساتھ تعلق بنانے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ رابرٹ پریوسٹ 1955 میں شکاگو میں پیدا ہوئے۔ انہیں 1982 میں پادری کا خطاب ملا، اور 1985 میں وہ پیرو چلے گئے جہاں انہوں نے ایک دہائی تک پادری اور استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ سے گلے, لیکن وطنِ عزیز کی بات پر اپنے سے آگے پائیں گے، مولانا فضل الرحمان پوپ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے انگریزی اور اطالوی زبان میں ویٹیکن میں موجود ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے سب کو سلامتی اور امن کا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دنیا بھر میں رہنے والے تمام افراد کے لیے دعا گو ہیں۔ انہوں نے سابق پوپ فرانسس کو خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے ایک سال بعد انہیں پیرو کے شہر چیکلائیو کا بشپ مقرر کیا تھا۔ نئے پوپ نے کہا کہ ہم سب کو مل کر، متحد ہو کر، اور خدا کے ساتھ چلنا چاہیے تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تیس برس کی عمر میں پیرو چلے گئے تھے۔ پوپ بننے کے بعد انہوں نے تمام کارڈینلز کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دو دن کے اجلاس میں انہیں منتخب کیا۔ چونکہ زیادہ تر کارڈینلز کی تعیناتی پوپ فرانسس نے کی تھی، اس لیے رابرٹ پریوسٹ کا انتخاب غیر متوقع نہیں تھا۔ اب ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ پوپ فرانسس کی اصلاحات کو جاری رکھیں گے۔ اگرچہ وہ امریکی ہیں، لیکن ان کا لاطینی امریکی پس منظر انہیں سابق پوپ کے مشن سے جوڑتا ہے۔ پیرو میں ان کے وقت کے دوران جنسی زیادتیوں کے کچھ اسکینڈلز سامنے آئے تھے، لیکن چرچ کی جانب سے اس بات کو رد کیا گیا ہے کہ وہ خود کسی بھی ایسے عمل میں شامل تھے۔ ویٹیکن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نئے پوپ کی تلاش ایسے شخص کے لیے کی جا رہی تھی جو نہ صرف چرچ کی قیادت کرے بلکہ باہر کی دنیا میں بھی امید اور روشنی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور رابرٹ پریوسٹ اس مقصد کے لیے موزوں سمجھے گئے۔

انڈین جارحیت کے جواب میں پاکستان کے مغربی سرحد پر ڈرون حملے، رائٹرز

Pak attacked

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ تصادم شدت اختیار کر چکا ہے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق انڈین فوج کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جمعرات کی رات اور جمعہ کی صبح انڈیا کی مغربی سرحد پر کئی حملے کیے جن میں ڈرونز اور گولہ بارود استعمال کیا گیا۔ انڈین فوج کا کہنا ہے کہ ان حملوں کو مؤثر طریقے سے روکا گیا اور پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا بھرپور جواب دیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ سے گلے, لیکن وطنِ عزیز کی بات پر اپنے سے آگے پائیں گے، مولانا فضل الرحمان یہ تصادم انڈیا کے ان حملوں کے بعد شروع ہوا جن میں اس نے پاکستان میں موجود ان مقامات کو نشانہ بنایا جنہیں وہ دہشت گردوں کے کیمپ قرار دیتا ہے۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ حملے کشمیر میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد واقعے کا بدلہ تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بے بنیاد اور سیاسی مقاصد کے تحت لگائے جا رہے ہیں۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید جھڑپیں ہوئیں، اور دونوں نے ایک دوسرے پر فضائی حدود میں ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا الزام لگایا ہے۔ اب تک اس تنازعے میں تقریباً چار درجن افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ پاکستان نے پٹھانکوٹ، سری نگر اور جیسلمیر پر حملوں کے الزامات کی بھی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، اور دونوں ممالک کی قیادت پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کریں تاکہ خطہ ایک وسیع جنگ سے محفوظ رہ سکے۔

امریکا پاکستان اور انڈیا کے درمیان مداخلت نہیں کرے گا، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس

Jd vance

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ واشنگٹن، پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجودہ کشیدہ صورتِ حال میں براہِ راست مداخلت سے گریز کرنے کی پالیسی اپنائے گا، لیکن سفارتی سطح پر کشیدگی کم کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ فاکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وینس نے صاف الفاظ میں کہا کہ اس جنگ میں امریکا کا کوئی کام نہیں اور وہ ان ممالک کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ تاہم، امریکا دونوں فریقین کو تحمل اور کشیدگی میں کمی کے لیے مسلسل حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی موجودہ ترجیح دنیا بھر میں اپنے دیگر سفارتی محاذوں جیسے یوکرین اور غزہ پر مرکوز ہے، جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں براہِ راست دباؤ کم ہے۔ یہ بھی پڑھیں: نئے منتخب ہونے والے پوپ رابرٹ پریوسٹ کون ہیں؟ اس پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا پاکستان اور انڈیا کے رہنماؤں سے رابطہ اور دونوں کو براہ راست بات چیت کی تلقین، اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ یہ تنازع سفارتی سطح پر ہی حل ہو۔ خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ “ٹٹ فار ٹیٹ” کا سلسلہ رک جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکا اس وقت انڈیا کو چین کے خلاف ایک اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے، جب کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات افغان جنگ کے بعد محدود ہو چکے ہیں۔ اس لیے واشنگٹن کے بیانات میں انڈیا کے حوالے سے ایک خاص نرمی اور پاکستان کے لیے سفارتی دلاسہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر، امریکا کی پوزیشن یہ ہے کہ وہ جنگی مداخلت سے دور رہے گا لیکن سفارتی کوششوں سے خطے میں امن قائم کرنے کی کوشش کرے گا، خاص طور پر اس خدشے کے پیشِ نظر کہ یہ تنازع کسی بھی لمحے ایک بڑے، حتیٰ کہ ایٹمی تصادم میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔

سیاست، توڑ پھوڑ اور پروپیگنڈا، 9 مئی واقعات نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو کیسے بگاڑا؟

9 may

9 مئی 2023 کو پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن شمار کیا جا رہا ہے جس نے نہ صرف سیاسی فضاء کو دھندلا دیا بلکہ ریاست، عوام اور اداروں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جو ردعمل سامنے آیا، اس میں احتجاج، توڑ پھوڑ، فوجی تنصیبات پر حملے، اور سوشل میڈیا پر شدید پروپیگنڈا شامل تھا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان پہلے ہی معاشی بحران، مہنگائی، اور سیاسی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا۔ 9 مئی کے واقعات نے سیاسی مباحثے کو متشدد رخ دیا، اور ریاستی ادارے پہلی بار عوامی غصے کا براہ راست نشانہ بنے۔ ان واقعات کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ روایتی احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا کا غیر معمولی اور منظم استعمال دیکھنے میں آیا۔ فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر ریاست مخالف بیانیے نہ صرف پھیلائے گئے بلکہ ان کی پروڈکشن میں AI ٹولز، Deepfake ویڈیوز، اور Bots کا استعمال بھی رپورٹ ہوا۔ کئی جعلی ویڈیوز، جن میں حساس مقامات پر حملے، مظلومیت کی جھوٹی کہانیاں یا ریاستی اداروں کی تضحیک شامل تھی، وائرل ہوئیں اور ان کے اثرات گلیوں تک محسوس کیے گئے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر فریحہ نورین کہتی ہیں، ’’9 مئی کے واقعات ایک turning point تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ روایتی سیاسی احتجاج کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل محاذ بھی کھل چکا تھا۔ اس میں سب سے خطرناک بات یہ تھی کہ معلومات اور جذبات کا غلط استعمال کیا گیا۔ AI سے بنائی گئی جعلی آڈیوز، ویڈیوز اور تصویریں لوگوں کے غصے کو مزید بھڑکاتی رہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ عوام میں میڈیا لٹریسی کی کمی نے اس پروپیگنڈا کو اور بھی مؤثر بنا دیا۔ یہ سب کچھ صرف احتجاج تک محدود نہیں رہا۔ ان واقعات کے بعد ریاست کی جانب سے کریک ڈاؤن شروع ہوا، گرفتاریاں ہوئیں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو کچھ وقت کے لیے بند بھی کیا گیا۔ اس ردعمل نے ایک اور بحث کو جنم دیا — کہ کیا ریاستی سنسرشپ کا جواز بنتا ہے یا نہیں؟ ایک جانب حکومت نے اسے قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا، تو دوسری طرف سیاسی کارکنوں نے اسے آزادیٔ اظہار پر حملہ کہا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ عدنان جاوید، جو سوشل میڈیا کے ماہر بھی ہیں، پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’پاکستان میں اب سوشل میڈیا صرف ایک تفریحی پلیٹ فارم نہیں رہا بلکہ یہ سیاسی میدان بن چکا ہے۔ 9 مئی کو جو مواد وائرل ہوا، اس میں سے 60 فیصد سے زائد یا تو گمراہ کن تھا یا مکمل طور پر جھوٹا۔ Deepfake آڈیوز نے لوگوں کو اس قدر کنفیوز کیا کہ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ کون سچ بول رہا ہے۔‘‘ عدنان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں حکومت کو چاہیئے کہ وہ اظہار رائے پر قدغن لگانے کے بجائے، عوام میں آگاہی بڑھائے تاکہ وہ جعلی مواد کی پہچان کر سکیں۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا۔ دنیا بھر میں AI اور پروپیگنڈا کے باہمی تعلق پر بحث جاری ہے۔ امریکہ، بھارت، روس، اور چین جیسے ممالک میں انتخابات سے قبل جعلی مواد کا سیلاب آنا معمول بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں سیاسی تقسیم گہری ہے، وہاں ایسی ٹیکنالوجیز زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ 9 مئی کے بعد مختلف اداروں نے رپورٹ کیا کہ کئی سوشل میڈیا پوسٹس، جو بظاہر پاکستان سے تھیں، درحقیقت بیرون ملک سے چلائی جا رہی تھیں اور ان کا مقصد ریاستی عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ اسلام آباد سے نوجوان وکیل اور سیاسی تجزیہ کار صائمہ خلیل پاکستان میٹرز کو بتاتی ہیں، ’’یہ سچ ہے کہ 9 مئی کے ردعمل میں حکومت کی کچھ کارروائیاں ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، لیکن یہ بھی ماننا ہو گا کہ ریاستی اداروں پر حملہ کوئی جمہوری طریقہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت نے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر جذباتی طور پر یرغمال بنا لیا ہے۔ AI کے ذریعے تیار کردہ جذباتی ویڈیوز، ترانے، اور جعلی مظلومیت کی کہانیاں ایک مخصوص بیانیے کو تقویت دیتی ہیں، جو پھر ریاست اور عوام کو آمنے سامنے لا کھڑا کرتی ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہو؟ کیا پاکستان کی سیاست اس جذباتی اور تکنیکی جنگ سے نکل سکے گی؟ کیا کوئی ایسی پالیسی بن سکتی ہے جو سوشل میڈیا کو ایک مثبت پلیٹ فارم کے طور پر فروغ دے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: پہلی، سوشل میڈیا صارفین کی ڈیجیٹل تعلیم؛ دوسری، قانون سازی جو اظہار رائے اور قومی سلامتی کے درمیان توازن رکھے؛ اور تیسری، سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری کہ وہ سچ اور جھوٹ کے فرق کو اپنے کارکنوں کو سکھائیں۔ 9 مئی کے واقعات نے ایک سبق ضرور دیا ہے کہ ٹیکنالوجی اگر درست استعمال نہ ہو تو وہ صرف آسانی نہیں بلکہ خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ پروپیگنڈا، جعلی خبریں اور AI کے ذریعے جذبات کو بھڑکانا سیاست کو اصلاح کا ذریعہ بنانے کے بجائے اسے انتقام کی جنگ میں بدل دیتا ہے۔ ریاست، عوام، اور سیاسی رہنماؤں کو اب یہ سمجھنا ہو گا کہ اس جنگ میں کوئی بھی مستقل فاتح نہیں ہو سکتا۔ اصل جیت تب ہو گی جب ہم سچ، شعور، اور برداشت کو اپنی سیاست کا حصہ بنا لیں۔

فیکٹ چیک: پاکستانی آرمی چیف کی تبدیلی، کراچی میں بندرگاہ کی تباہی، حقیقت کیا؟

Fect check

گزشتہ دو دنوں کی طرح آج بھی انڈین میڈیا نے متعدد ایسے دعوے کیے ہیں، جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان دعوؤں میں پاکستان میں فوجی سربراہ کی تبدیلی، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بندرگاہ کی تباہی اوراسلام آباد میں وزیرِاعظم ہاؤس کے قریب دھماکے کی افواہ بھی شامل ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ نے ان تینوں مقامات پر حقائق جاننے کے لیے متعلقہ اتھارٹیز اور ذرائع کو چیک کیا، جس کے بعد یہ ثابت ہوا کہ یہ اطلاعات غلط ہیں۔ کراچی کے بندرگاہ کی تباہی کو متعدد دیگر لوگوں نے بھی جعلی قرار دیا۔ خود انڈین صحافی محمد زبیر نے مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکی ریاست فلاڈیلفیا کی ایک پرانی ویڈیو کو کراچی کی بندرگاہ کی تباہی سے منسوب کیا جارہا ہے، جو کہ غلط ہے۔ Old video of Philadelphia after a plane crash. An audio is added to this video later. Nothing to do with Karachi. https://t.co/XBgkgSnqZI pic.twitter.com/rwWCPYyLwg — Mohammed Zubair (@zoo_bear) May 8, 2025 اسلام آباد میں پاکستان میٹرز کے نامہ نگار نے موقع کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کی تردید کی ہے کہ یہ مکمل جھوٹی خبر ہے۔ وزیرِاعظم ہاؤس اور اس کے اطراف میں حالات اور صورتحال مکمل طور پر معمول پر ہیں، قریبی مارکیٹس اوردیگر سرگرمیاں معمول کے مطابق گزاری ہیں۔ BREAKING NEWS: ⚡️🚨🇮🇳🇵🇰 Huge blast reported near Pakistan PM'S Residence. Pakistan denies this news. 🇵🇰📰🚫#IndiaPakistanWar #IndianArmy #PakistanArmy pic.twitter.com/8QeTfl1jv6 — Indo-Pak War Updates (@IndoPak_Updates) May 8, 2025 انڈین خبررساں ادارے’انڈیا ڈاٹ کام’ نے پاکستان آرمی چیف کے خلاف فیک پروپیگنڈہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیسبک پر پوسٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے اور ان کی جگہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کو تعینات کیا جائے گا۔” پاکستانی میڈیا کی جانب سے اسے جھوٹا قرار دیا جارہا ہے اور سرکاری طور پر اس پر ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ ‘پاکستان میٹرز’ کے مطابق یہ سراسر جھوٹی خبر ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ ہے۔ واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر نومبر 2022 میں پاکستان آرمی کے سپہ سالار بنے تھے، جب کہ جنرل ساحر شمشاد مرزا فی الحال جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔