نرس: زندگی کی محافظ، معاشرے کی خاموش سپاہی

ہر سال 12 مئی کو دنیا بھر میں “نرسوں کا عالمی دن” منایا جاتا ہے، جو نہ صرف نرسنگ کے پیشے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ ان افراد کو خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہے، جو دن رات مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ دن جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگل کی یومِ پیدائش کے طور پر بھی یاد رکھا جاتا ہے وہ عظیم خاتون جنہوں نے جنگی میدان میں زخمیوں کی خدمت کو فرض سمجھ کر نرسنگ کو باقاعدہ شعبے کی حیثیت دلوائی۔ نرس صرف ایک تیماردار نہیں، بلکہ مریض کی نفسیات، صحت، جذبات، درد اور امید کا خاموش ساتھی ہوتی ہے۔ اسپتال کی خاموش راہداریوں میں، ایمرجنسی وارڈ کی بھاگ دوڑ میں، آپریشن تھیٹر کی گھمبیر فضا میں ایک نرس ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز کا علاج اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نرس اپنے مشاہدے، مہارت اور ہمدردی سے مریض کی مکمل دیکھ بھال نہ کرے۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ کووڈ-19 جیسی وباؤں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ نرسنگ اسٹاف نے فرنٹ لائن پر کھڑے ہو کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب سفید لباس پہنے ان سپاہیوں نے صرف جسمانی خدمت ہی نہیں کی، بلکہ امید اور حوصلے کا استعارہ بھی بن گئیں۔ پاکستان میں نرسنگ کا سفر بیگم رعنا لیاقت علی خان کی کوششوں سے شروع ہوا، جنہوں نے 1949ء میں ادارہ جاتی بنیاد رکھی۔ آج ملک میں 162 نرسنگ ادارے موجود ہیں، مگر افرادی قوت اور سہولتوں کی شدید کمی اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نرسنگ کو وہ عزت حاصل نہیں جس کی یہ مستحق ہے۔ نائٹ شفٹ کرنے والی نرسوں پر قدامت پسند طبقے کی تنقید، خواتین کے لیے اس پیشے میں داخلے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نرسنگ ایک باوقار، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مالی طور پر مستحکم کیریئر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں نرسنگ کی تعلیم اب بی ایس سی، ایم ایس سی اور ڈاکٹریٹ سطح تک دستیاب ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل کے تحت مختلف تربیتی پروگرامز جاری ہیں، لیکن عملی میدان میں نرسز کی کمی، اسپتالوں میں سہولتوں کی قلت، اور صنفی امتیاز، اس شعبے کو ترقی سے روک رہے ہیں۔ دنیا بھر میں نرسنگ کا شعبہ زوال کا شکار ہے، تاہم فلپائن جیسے ممالک نے نرسنگ کو عالمی سطح پر ایکسپورت ایبل پروفیشن بنا کر اپنے عوام کو باعزت روزگار فراہم کیا۔ پاکستان بھی اس ماڈل کو اپنا کر نہ صرف مقامی کمی پوری کر سکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی اپنی جگہ بنا سکتا ہے۔ نرس نہ صرف ایک پیشہ ور ہے، بلکہ ہمارے معاشرے کی بیٹی، بہن، بیٹا اور بھائی بھی ہے۔ نرسنگ کو محض ضرورت کا پیشہ نہیں بلکہ خدمت، ہمدردی، سچائی اور قربانی کی علامت سمجھا جانا چاہیے۔ معاشرتی تعصبات، ثقافتی رکاوٹیں اور فرسودہ خیالات کو پیچھے چھوڑ کر ہمیں اپنے ہیروز کو پہچاننا ہوگا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری صحت کا نظام مضبوط ہو، تو ہمیں نرسنگ کو دل سے اپنانا ہوگا۔ یہ پیشہ صرف زندگی بچانے کا نہیں بلکہ زندگی سے محبت کرنے کا نام ہے۔یاد رکھیے، نرسنگ محض ایک ڈگری نہیں یہ انسانیت کی عبادت ہے۔
افغانستان: ’جوا کھیلنے کا ذریعہ‘، طالبان حکومت نے شطرنچ پرپابندی لگا دی

افغانستان میں طالبان حکومت نے شطرنج کھیلنے پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شطرنج کو جوا کھیلنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اور اس پر اسلامی شریعت کے مطابق تحفظات ہیں۔ طالبان حکام کے مطابق جب تک یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ یہ کھیل اسلامی اصولوں کے مطابق ہے یا نہیں، تب تک اس پر پابندی برقرار رہے گی۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ شطرنج پر پابندی طالبان کے ان سلسلہ وار اقدامات کا حصہ ہے جو انہوں نے اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد نافذ کیے۔ ان اقدامات میں خواتین کی کھیلوں میں شرکت پر مکمل پابندی، کچھ کھیلوں جیسے مکسڈ مارشل آرٹس پر پابندی اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کی محدودیاں شامل ہیں۔ طالبان کا مؤقف ہے کہ یہ تمام فیصلے اسلامی قوانین اور ان کی تشریح کے مطابق کیے جا رہے ہیں۔ کابل میں کیفے چلانے والے افراد جیسے عزیز اللہ گلزادہ، جنہوں نے شطرنج کے غیر رسمی مقابلوں کا انعقاد کیا، کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ حکومت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، لیکن اس سے ان کے کاروبار کو نقصان پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے ویسے ہی سرگرمیاں کم ہیں، اور شطرنج ان کے لیے ایک تفریحی، سستی اور غیر مضر مصروفیت تھی۔ شطرنج کو بہت سے مسلم ممالک میں نہ صرف کھیلا جاتا ہے بلکہ اس کے عالمی مقابلوں میں بھی شرکت کی جاتی ہے۔ اس کھیل کی تاریخ اسلام کے ابتدائی ادوار تک جاتی ہے، اور مختلف فقہی آراء میں اسے بعض شرائط کے تحت جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم طالبان کا مؤقف ہے کہ جب تک ان مذہبی پہلوؤں پر مکمل وضاحت اور اتفاق رائے نہ ہو جائے، تب تک اس پر پابندی جاری رہے گی۔
امریکا اور چین کے درمیان 115 فیصد ٹیرف میں کمی پر اتفاق

عالمی معیشت کے دو بڑے ستون امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی کے خاتمے کی جانب ایک بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ نے جنیوا میں چینی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بعد اعلان کیا ہے کہ دونوں ممالک نے باہمی تجارتی ٹیرف میں 115 فیصد کمی پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ کے مطابق یہ پیش رفت ایک طویل اور پیچیدہ مذاکراتی عمل کے بعد ممکن ہوئی ہے جس کے تحت امریکا اور چین نے 90 دن کے لیے نئے تجارتی اقدامات کو مؤخر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد باہمی اعتماد کو فروغ دینا اور مزید مذاکرات کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ چینی وزارت کامرس نے بھی اس پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔ وزارت نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی نہ صرف چین اور امریکا بلکہ پوری دنیا کے مشترکہ مفاد میں ہے۔ چینی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا مستقبل میں بھی تجارت کے معاملے پر چین کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ اس سے قبل عالمی منڈی غیر یقینی صورتحال کا شکار ے تھی، جبکہ اس فیصلے سے دنیا بھر کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا میں بیکری کا نام ’کراچی‘ ہونے پر بی جے پی کے حامیوں کا حملہ
پاک افغان سرحدی علاقے نوشکی میں زلزلے کے جھٹکے، لوگوں میں خوف و ہراس

پاک افغان سرحدی علاقے نوشکی میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ہیں۔ زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کا مرکزضلع نوشکی سےملحقہ افغان سرحدی علاقہ تھا۔ زلزلے کی شدت 4.5 ریکارڈ کی گئی، زلزلے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ چترال، اپردیر، مردان، خیبر، مالاکنڈ میں زمین لرز اٹھی، سوات، مہمند اور دیگر شہروں میں بھی زلزے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ زلزلے کے جھٹکوں کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ زلزلہ کی شدت ریکٹر اسکیل پر 5 اعشاریہ 3 ریکارڈ کی گئی،زلزلہ کی گہرائی 230 کلومیٹر اور مرکز ہندوکش ریجن تھا۔ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ دنیا بھر میں زلزلے ایک قدرتی آفت کے طور پر بے شمار جانوں کے نقصان کا باعث بن چکے ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق، زلزلے زمین کی اندرونی پرتوں میں ہونے والی حرکات کے نتیجے میں آتے ہیں، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں 5.5 شدت کا زلزلہ آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں پر مشتمل ہے، جن میں یوریشین، انڈین اور اریبین پلیٹیں شامل ہیں۔ زیر زمین حرارت اور دباؤ کے بڑھنے سے یہ پلیٹس سرکتی ہیں، جس کے نتیجے میں زمین میں لرزش پیدا ہوتی ہے، اور یہی لرزش زلزلہ کہلاتی ہے۔ زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں طرف پھیلتی ہیں، جس کی شدت زمین کی ساخت اور فالٹ لائنز کے قریب ہونے پر منحصر ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ علاقے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں، وہ زلزلوں اور آتش فشانی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ خطرناک ہیں۔ اگر کسی علاقے میں ایک مرتبہ شدید زلزلہ آ چکا ہو تو وہاں دوبارہ بڑے زلزلے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی جغرافیائی ساخت کو دیکھا جائے تو ملک کا تقریباً دو تہائی حصہ فالٹ لائنز پر واقع ہے، جس کے باعث کسی بھی وقت شدید زلزلے کا خطرہ رہتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جو زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی حساس ہیں، درجہ بندی کے مطابق، پاکستان زلزلے کے خطرے کے حوالے سے پانچواں حساس ترین ملک ہے۔ ملک کے اہم شہر اور علاقے، جن میں کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، پشاور، مکران، ایبٹ آباد، گلگت اور چترال شامل ہیں، زلزلوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان میں سے کشمیر اور گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا جاتا ہے، جہاں فالٹ لائنز زیادہ متحرک ہیں۔ پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے، جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، لاکھوں سال سے جاری اس جغرافیائی تبدیلی کے باعث انڈین پلیٹ مسلسل یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنس رہی ہے، جس کی وجہ سے وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے زیرِ زمین فالٹ لائنز متحرک ہیں اور یہاں معمولی یا درمیانے درجے کے زلزلے وقفے وقفے سے محسوس کیے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے زلزلوں کی پیشگوئی ممکن نہیں، لیکن بہتر انفراسٹرکچر، مضبوط عمارتوں کی تعمیر اور عوامی آگاہی کے ذریعے نقصانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ زلزلے کے خطرے والے علاقوں میں مضبوط عمارتوں کی تعمیر کو یقینی بنائے اور عوام کو ایمرجنسی صورتحال میں عمل کرنے کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کرے۔
سانحہ 12 مئی: 18 سال بعد بھی زخم تازہ، اس دن کیا ہوا تھا؟

12 مئی 2007 کو کراچی شہر میں پیش آنے والا ہولناک سانحہ آج بھی پاکستان کے عدالتی، سیاسی اور سماجی نظام پر کئی سوالیہ نشان ہے۔ اس دن کی ہولناکی، جب پورا شہر فائرنگ، لاشوں اور دھوئیں میں لپٹا ہوا تھا، آج بھی متاثرہ خاندانوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ لیکن جو چیز تبدیل نہیں ہوئی، وہ ہے انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور ریاستی خاموشی۔ 12 مئی 2007 کو اُس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد متوقع تھی۔ مختلف سیاسی جماعتیں اور وکلاء برادری اُن کے استقبال کے لیے نکلیں، تو وہیں اُس وقت کی سندھ حکومت اور متحدہ قومی موومنٹ (MQM) نے مخالفت میں جلسے کا اعلان کیا۔ یہ بھی پڑھیں:،’مسئلہ کشمیر کا مستقل حل‘، پاکستان امریکی صدر کی کوششوں کو خوش آئند قرار دیتا ہے، دفتر خارجہ دن کے آغاز کے ساتھ ہی شہر کے اہم مقامات پر پرتشدد جھڑپیں شروع ہوئیں، جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان، وکلاء، صحافی اور عام شہری نشانہ بنے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 سے زائد افراد اس دن جاں بحق ہوئے، جبکہ متعدد گاڑیاں، دفاتر اور املاک نذر آتش کی گئیں۔ سانحے کے بعد 7 مقدمات درج کیے گئے، جن میں سے اب تک صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس کیس میں بھی تمام ملزمان کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ چھ مقدمات تاحال انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، جن میں کوئی واضح پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔ معروف قانونی و سیاسی تجزیہ کار اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ “سانحہ 12 مئی محض ایک پرتشدد واقعہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، سیاسی مفاہمتوں اور عدالتی کمزوریوں کا مجموعہ ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ریاست نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ سے ہاتھ کھینچ لیا، اور آج 18 سال بعد بھی ہم اس غفلت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اگر 12 مئی پر بروقت کارروائی ہوتی تو شاید بعد کے کئی سانحات روکے جا سکتے۔ سانحے کے وقت کی حکومتی جماعت پر الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے چیف جسٹس کے خلاف مزاحمت کے لیے شہر میں بدامنی کو نظر انداز کیا۔ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ، گورنر اور دیگر اہم حکومتی شخصیات پر براہ راست سوالات اٹھے، مگر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو سکی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اُس وقت کی ریاست نے اقتدار بچانے کے لیے قانون کو معطل رکھا۔2025 میں کراچی کے شہریوں کو اب بھی اس دن کی یاد آتی ہے۔ شہری حقوق کی تنظیمیں اور وکلاء برادری ہرسال 12 مئی کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ لیکن حکومتی سطح پر خاموشی ہے۔ نہ کوئی کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی، نہ ہی مقدمات میں نمایاں پیشرفت ہوئی۔ سانحہ 12 مئی محض ایک عدالتی کیس نہیں، یہ ریاستی غفلت، انصاف کی سست روی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کی علامت بن چکا ہے۔ 18 سال بعد بھی جب قاتل آزاد، متاثرین بے بس اور ریاست خاموش ہو، تو سوال یہی اٹھتا ہے:کیا پاکستان میں انصاف واقعی سب کے لیے ہے؟
کشمیر اصل مسئلہ ہے، انڈیا جلد سمجھے تو بہتر ہوگا، اعزاز چوہدری

سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ کل کے بعد سے پاکستان نے عالمی سطح پر واضح کردیا ہے کہ خطے کا اصل اور بنیادی مسئلہ، مسئلہ کشمیر ہے جس کا حل ناگزیر ہوچکا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ جموں و کشمیر میں 93 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی لیکن ایک گہری اور منظم سازش کے تحت یہ علاقہ پاکستان سے چھینا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حالیہ موقف انڈیا کے لیے حیران کن اور پریشان کن ہے اور انڈیا نے پاکستان کے سخت ردعمل کو دیکھ کر بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اعزاز چوہدری نے زور دیا کہ انڈیا کو پاکستان کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے، مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھے اور سنجیدہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرے۔ ان کے مطابق انڈیا کو انڈس واٹر ٹریٹی کی معطلی کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ ایسے اقدامات امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن کوئی ایک دن کا عمل نہیں بلکہ ایک مسلسل پراسس ہے اور بات چیت ہی وہ ذریعہ ہے جس سے بڑے بڑے تنازعے حل ہوسکتے ہیں۔ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ انڈیا کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ کشمیری عوام اس کے ساتھ رہنے کے خواہاں نہیں۔ مزید پڑھیں: جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا کا ’مذاکرات‘ کے لیے رابطہ، کیا لائحہ عمل ہوگا؟
’14 سال وائٹ جرسی پہننا اعزاز کی بات رہی‘، وراٹ کوہلی کا ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان

وراٹ کوہلی نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے ایک دور کا اختتام کر دیا ہے۔ اپنے سوشل میڈیا پیغام میں انہوں نے کہا کہ 14 سال تک بھارت کے لیے وائٹ جرسی پہن کر کھیلنا ان کے لیے اعزاز کی بات رہی، اور یہ فیصلہ ان کے لیے آسان نہیں تھا، مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے۔ ان کے چاہنے والوں نے انہیں شاندار کیریئر پر خراج تحسین پیش کیا اور سوشل میڈیا پر مبارکبادوں کے ساتھ ساتھ افسوس کا اظہار بھی کیا۔ کوہلی کا شمار ان عظیم بیٹرز میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف بھارتی ٹیم کی قیادت کی بلکہ کئی تاریخی فتوحات میں مرکزی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 123 میچوں میں 9230 رنز بنائے، جن میں 30 سنچریاں اور 31 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ان کے جارحانہ مزاج، فائٹ کرنے کی صلاحیت، اور کھیل کے لیے جنون نے انہیں ایک یادگار کھلاڑی بنا دیا۔
دنیا بھر کی سکھ کمیونٹی کا پاک فوج سے اظہار یکجہتی، بھارتی پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا

دنیا بھر میں بسنے والی سکھ کمیونٹی نے پاک فوج سے اپنے گہرے نظریاتی اور جذباتی تعلق کا اعادہ کرتے ہوئے عالمی سطح پر اتحاد و یگانگت کا پیغام دیا ہے۔ سکھ ڈائس پورا، انٹرنیشنل ورلڈ سکھ پارلیمنٹ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے جاری بیانات میں پاک فوج کے مؤقف اور اقدامات کی بھرپور حمایت کی گئی ہے۔ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، یورپ، سوئٹزرلینڈ اور انڈیا سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم سکھ برادری نے واضح کیا ہے کہ وہ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سکھ قوم اپنی وحدت، رواداری اور امن پسندی کے نظریات سے کسی بھی سیاسی یا مذہبی تعصب کو ٹکنے نہیں دے گی۔ پنجاب اسمبلی کے رکن اور سکھ رہنما رمیش سنگھ اروڑہ نے کہا کہ سکھ کمیونٹی نے ہر قسم کی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سکھ جہاں کہیں بھی بستے ہوں، وہ ایک جسم کی مانند جُڑے ہوئے ہیں، جنہیں کوئی سرحد یا سیاسی بیانیہ جدا نہیں کر سکتا۔ ورلڈ سکھ پارلیمنٹ نے اپنے اعلامیے میں بابا گرو نانک دیو جی کی تعلیمات کو فروغ دینے پر زور دیا ہے جن میں امن، سچائی، بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی کی تلقین کی گئی ہے۔ سکھ کمیونٹی نے انڈیا کی جانب سے کیے جانے والے جھوٹے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حق و انصاف کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتی رہے گی۔ اس کے علاوہ سکھ تنظیم کے جنرل کونسل گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک ویڈیو پیغام میں اعلان کیا ہے جس میں انہوں نے انڈین حملوں میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے خاندانوں کو 35 لاکھ روپے کی مالی امداد دی جائے گی۔ گرپتونت پنوں نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “مودی نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ سکھوں کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انڈیا کو اس کے ہر اقدام کی قیمت چکانا ہو گی۔” مزید پڑھیں: سکھ فار جسٹس کا انڈین حملوں میں شہید پاکستانیوں کے خاندانوں کی امداد کا اعلان
جنگ صرف اس صورت میں ختم ہو گی جب حماس کا خاتمہ ہو گا، اسرائیل

غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے امریکا اور حماس کے درمیان مذاکرات تیز ہو گئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں غزہ کے فلسطینیوں تک خوراک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امداد پہنچانے کے لیے ایک امریکی حمایت یافتہ طریقہ کار جلد نافذ ہو گا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ جاری مذاکرات پر تبصرہ نہیں کر سکتے لیکن قطر اور مصر کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ معاہدے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ تاہم، ترجمان نے حماس کو جنگ کی ذمہ داری اور امریکی شہری ایڈن ایلکزانڈر سمیت چار امریکیوں کے ہلاک ہونے کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس جلد ایڈن ایلکزانڈر کو امریکی صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل رہائی کے طور پر پیش کر سکتا ہے۔ ایلکزانڈر، جو ایک امریکی اسرائیلی فوجی ہیں، وہ اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے دوران اغوا ہوئے تھے۔ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کی پٹی میں تمام سپلائی روک دی ہیں، اور 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدہ ختم کر کے اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں۔ حماس نے کہا ہے کہ وہ تمام قیدیوں کی رہائی اور مستقل جنگ بندی کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اسرائیل غزہ سے مکمل انخلا کرے۔ دریں اثنا، اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ جنگ صرف اس صورت میں ختم ہو گی جب حماس کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ نے غزہ میں قحط کے خطرے کے پیشِ نظر فوری امداد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ سیزفائر برقرار رکھیں، امریکی وزیر خارجہ
جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا کا ’مذاکرات‘ کے لیے رابطہ، کیا لائحہ عمل ہوگا؟

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد، دونوں ممالک کے فوجی آپریشنز کے سربراہان آج پیر کے روز ایک اہم گفتگو کے لیے رابطہ کریں گے تاکہ سرحد پر حالات کو معمول پر لایا جا سکے۔ دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان آج گفتگو ہوگی۔ یہ بات چیت ایسے وقت ہو رہی ہے جب تقریباً تین دہائیوں بعد، دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان سرحدی جھڑپیں شدید ترین سطح پر پہنچ چکی تھیں، لیکن اب جنگ بندی کی صورت میں کچھ بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جنگ بندی کے باوجود، ابتدائی طور پر چند خلاف ورزیاں ہوئیں، تاہم ہندوستانی فوج کے مطابق اتوار کی رات پہلی بار کسی دھماکے یا میزائل حملے کے بغیر گزری، جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ اگرچہ کچھ علاقوں میں احتیاط کے طور پر اسکول بند رکھے گئے ہیں۔ یہ جنگ بندی ہفتے کے روز عمل میں آئی، جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا۔ اس سے قبل چار دن تک شدید فائرنگ، سفارتی کوششیں اور امریکی دباؤ کی وجہ سے حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ ہندوستانی فوج نے پاکستان کو ایک “ہاٹ لائن” پیغام کے ذریعے جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اعتراض کیا اور واضح کیا کہ آئندہ ایسی کسی کارروائی کا بھرپور جواب دیا جائے گا، جبکہ پاکستانی فوج نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’یہ انڈیا کی غلطی ہوگی‘، کیا سندھ طاس معاہدہ ختم ہو سکتا ہے؟ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بتایا کہ پیر کو دوپہر 12 بجے دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت متوقع ہے، جس کا مقصد جنگ بندی کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ پاکستان نے تاحال اس کال پر باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔ حالیہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب انڈیا نے پاکستان پر ایک سیاحتی مقام پر ہونے والے حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کا الزام لگایا۔ انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی علاقے میں دہشت گردوں کے نو کیمپ تباہ کیے، جب کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ حملے شہری علاقوں پر ہوئے۔ اسلام آباد نے امریکی کردار کی تعریف کی اور صدر ٹرمپ کی کشمیر تنازع میں ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا، تاہم انڈیا نے کسی تیسرے فریق کی مداخلت کو قبول نہیں کیا اور کہا کہ ایسے مسائل صرف باہمی بات چیت سے ہی حل ہونے چاہییں۔