ترکیہ نے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کا ساتھ دیا، ترک صدر رجب طیب اردوان

رجب طیب اردوان

ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے ملک نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے، خاص طور پر جب بات دشمن کا مقابلہ کرنے کی ہو۔ اُنہوں نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جنگ بندی کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ وہ اس پیش رفت سے مطمئن ہیں۔ صدر اردوان کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں پاکستانی عوام کو متحد رہنے کی ضرورت ہے اور ترکیہ ہمیشہ اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ کشیدگی کے دوران اُنہوں نے پاکستانی وزیراعظم سے رابطہ کیا اور خطے میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ دوسری طرف پاکستان میں تعینات ترکیہ کے سفیر عرفان نذیر اوعلو نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی اور پاک فوج اور سفارت کاری میں حاصل ہونے والی کامیابی پر پوری قوم کو ترکیہ کی جانب سے مبارکباد پیش کی۔ ملاقات کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ ترکیہ کی مستقل اور غیر متزلزل حمایت نے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ترک صدر کی مکمل حمایت پر اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات میں ایک نیا اور شاندار باب شامل ہو چکا ہے۔ اُنہوں نے ترکیہ کی اس پُرعزم حمایت کو بھارتی جارحیت کے خلاف ایک مضبوط پیغام قرار دیا۔ وزیراعظم نے پاکستان کی مسلح افواج کو خصوصاً “آپریشن بنیان مرصوص” کے ذریعے دشمن کو دندان شکن جواب دینے پر زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ کامیابی پوری قوم کے لیے فخر کا لمحہ ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں امن کا خواہاں ہے، لیکن کسی صورت میں اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرے گا۔ اُنہوں نے جنگ بندی کی رضامندی کو پاکستان کی مفاہمتی اور پرامن پالیسی کا حصہ قرار دیا۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی: ایک مردِ حق جو اسلام کو مسجد سے پارلیمنٹ تک لے آیا

ایک بار ایک نوجوان نے اپنے استاد سے پوچھا، “استادِ محترم! کیا آج کے دور میں بھی کوئی ایسا شخص پیدا ہو سکتا ہے جو دین کو صرف مسجد کے اندر نہیں، بلکہ بازار، عدالت، پارلیمنٹ اور میڈیا تک لے جائے؟” استاد تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر کہنے لگا: “ہاں بیٹے، ایسا ایک شخص پیدا ہو چکا ہے, اس کا نام ہے سید ابو الاعلیٰ مودودی۔” جس نے دین اسلام کو صرف عبادات تک محدود نہ رہنے دیا، بلکہ اسے ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ مولانا مودودی وہ مردِ حق تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی قلم، فکر اور جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے وقف کر دی۔ 25 ستمبر 1903 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے اس شخص نے رسمی تعلیم تو مکمل نہیں کی، لیکن خود مطالعے اور غور و فکر کے ذریعے ایسا علمی مقام حاصل کیا کہ بڑے بڑے علما بھی حیران رہ گئے،عربی، فارسی، اردو اور انگریزی پر عبور، قرآن و حدیث پر گہری نظر، اور زمانے کے تقاضوں کا بھرپور شعور،یہ سب چیزیں ان کی شخصیت کا حصہ تھیں۔ ان کے قلم سے نکلنے والی تحریریں دلوں کو جھنجھوڑ دیتی تھیں۔ انہوں نے “ترجمان القرآن” کے ذریعے دین کی سچائی عوام تک پہنچائی۔ ان کی تفسیر “تفہیم القرآن” آج بھی لاکھوں گھروں میں پڑھی جاتی ہے اور دلوں میں ایمان جگاتی ہے۔ مولانا مودودی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو ایک متحرک، مکمل، اور زندہ نظام کے طور پر پیش کیا۔ انہوں نے اسلام کو ایک سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی نظام کے طور پر سمجھایا اور اسی نظریے کی بنیاد پر 1941 میں جماعت اسلامی قائم کی۔ جب دنیا مغرب کے فتنوں کی طرف جھک رہی تھی، جب سیکولرزم اور لبرل ازم کے نعرے مسلمانوں کو ان کے دین سے دور کر رہے تھے، تب مولانا مودودی ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ قید و بند کی صعوبتیں، مقدمے، فتوے،کچھ بھی ان کے عزم کو متزلزل نہ کر سکا۔ ان کی فکر نے صرف برصغیر نہیں، بلکہ مصر، ترکی، انڈونیشیا، حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ تک کے مسلمانوں کو متاثر کیا۔ ان کی کتابیں آج بھی نوجوانوں کے ہاتھوں میں چراغِ راہ بنی ہوئی ہیں۔ 11 مئی 1953 جب قادیانی مسئلہ کی کتاب نتیجہ لکھنے کی پاداش میں فوجی عدالت نے ختمِ نبوت کے مجاہد، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کو موت کی سزا سنائی تو ان کے تاریخی الفاظ تھے “زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں۔ میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔ میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے، مگر ان کی سوچ، ان کا نظریہ، اور ان کی جدوجہد آج بھی زندہ ہے۔”22 ستمبر 1979

چین کا لاطینی اور کیریبین ممالک کے لیے ویزہ فری کرنے کا اعلان

Chines meeting

چین کے صدر شی جن پنگ نے لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک کے لیے اقتصادی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین، خطے کی ترقی کے لیے تقریباً 10 ارب امریکی ڈالر کے مساوی رقم کی کریڈٹ لائن دے گا، لیکن یہ تمام رقم چینی کرنسی “یوان” میں فراہم کی جائے گی۔ یہ اعلان بیجنگ میں ہونے والے چین-سیلا‌ک (China-CELAC) فورم کے وزارتی اجلاس کے آغاز پر کیا گیا جہاں چین اور لاطینی و کیریبین ممالک کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ صدر شی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت وہ عالمی سطح پر اپنی کرنسی “یوان” کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی لین دین میں امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 2015 میں ہونے والے پہلے چین-سیلا‌ک فورم میں بیجنگ نے 20 ارب ڈالر کی کریڈٹ لائن کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو فروغ دینا تھا۔ لیکن اس بار مالی تعاون کو صرف یوان میں فراہم کرنے کا فیصلہ ایک نئی حکمت عملی کی جانب اشارہ ہے۔ چین گلوبل ساؤتھ پروجیکٹ کے شریک بانی ایرک اورلینڈر کے مطابق، “چین اب زیادہ تر سودے یوان میں کر رہا ہے خاص طور پر کرنسی سوئپ معاہدے جو ممالک کو امریکی ڈالر کے بجائے یوان میں لین دین کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔” اجلاس کے دوران ایک اور اعلان ویزہ فری پالیسی کے حوالے سے ہوا۔ صدر شی نے کہا کہ چین پانچ لاطینی اور کیریبین ممالک کیلئے ویزہ فری سہولت دے گا جبکہ مستقبل میں مزید ممالک کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم، انہوں نے ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے۔ شی جن پنگ نے بتایا کہ 2024 میں چین اور لاطینی امریکا کے درمیان تجارت پہلی بار 500 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے جو 2023 میں 450 ارب ڈالر تھی۔  2000 میں دونوں کے درمیان تجارتی حجم محض 12 ارب ڈالر تھا، جس میں وقت کے ساتھ حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چین-سیلاک فورم بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے تحت چین اور لاطینی امریکا کے درمیان سرمایہ کاری، تجارت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کا ایک مؤثر پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ صدر شی نے فورم کے شرکاء کو “پرانے اور نئے دوست” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک کے عالمی سطح پر اثر و رسوخ میں اضافے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی اسپتال پر بمباری، ایک صحافی شہید متعدد زخمی

اسرائیلی فورسز کی اسپتال پر بمباری، ایک صحافی شہید متعدد زخمی

Israel attack on gaza

غزہ کے شہر خان یونس میں واقع ناصر میڈیکل کمپلیکس پر اسرائیلی فوج کی بمباری میں معروف صحافی حسن اسلحہ شہید ہو گئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب غزہ بھر میں اسرائیلی حملوں میں گزشتہ روز 39 افراد شہید ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق غزہ کی پوری آبادی قحط کے خطرے سے دوچار ہے لیکن عالمی برادری کی خاموشی تشویش کا باعث ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے ثالث بھیجیں گے۔ حماس کی جانب سے ایک امریکی-اسرائیلی فوجی رہا کیے جانے کے بعد یہ اقدام سامنے آیا۔ نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ دورے تک غزہ پر حملوں میں اضافہ نہیں کریں گے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں اب تک 52,862 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور 119,648 زخمی ہیں۔ حکومت میڈیا آفس نے شہادتوں کی تعداد 61,700 سے زائد بتائی ہے، جن میں سے ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہیں اور زندہ نہیں ملے۔ اسرائیل کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملوں میں 1,139 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد اغوا کیے گئے۔ ان حملوں کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں۔ یہ واقعات اسرائیل کی جارحیت اور عالمی برادری کی خاموشی کی عکاسی کرتے ہیں جو فلسطینیوں کے لیے ایک سنگین انسانی بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مزید پڑھیں: غزہ میں قحط سالی، کتنے فلسطینی بھوک سے شہید ہوسکتے ہیں؟

برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟

Keir starmer

برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیر سٹارمر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ملک کے امیگریشن کے ٹوٹے ہوئے نظام کو درست کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا نیا نظام متعارف کرانا چاہتے ہیں جو منصفانہ، منتخب اور مکمل کنٹرول میں ہو۔ اس نظام میں کئی بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ سب سے اہم تجویز یہ ہے کہ برطانیہ میں مستقل سکونت (سیٹلمنٹ) حاصل کرنے کے لیے تارکین وطن کو اب پانچ سال کے بجائے دس سال تک انتظار کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ تمام ویزا درخواست دہندگان اور ان کے ساتھ آنے والے بالغ افراد کے لیے انگلش زبان کا معیار مزید سخت کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ سر کیر نے موجودہ نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کئی صنعتیں برطانوی نوجوانوں کی تربیت اور ان میں مہارت پیدا کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے سستی مزدوری لانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انجینئرنگ کے شعبے کی مثال دی، جہاں ویزا کی منظوریوں میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مقامی سطح پر تربیتی مواقع، یعنی اپرنٹس شپس میں کمی آئی ہے۔ سر کیر سٹارمر کا کہنا ہے کہ ایسا امیگریشن نظام ہونا چاہیے جو برطانوی نوجوانوں کو نظر انداز نہ کرے بلکہ ان کی تربیت اور مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ ان کے مطابق موجودہ نظام نے مقامی نوجوانوں کو وہ مواقع نہیں دیے جن کے وہ حقدار تھے۔ دوسری جانب شیڈو ہوم سیکریٹری کرس فلپ نے لیبر پارٹی کی امیگریشن پالیسی کو ایک “مذاق” قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں امیگریشن پر باقاعدہ کیپ (حد بندی) نافذ کرے۔ یہ تمام بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب برطانیہ امیگریشن سے متعلق اپنی “وائٹ پیپر” رپورٹ جاری کرنے والا ہے، جس میں آنے والی پالیسیوں کی تفصیل دی جائے گی۔ یہ ایک اہم سیاسی اور سماجی موضوع ہے جو نہ صرف تارکین وطن بلکہ برطانوی عوام کی روزگار، تربیت اور معیشت سے بھی براہ راست جڑا ہوا ہے۔

انڈیا کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

Muhammad aurangzeb

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود پاکستان کی معیشت کو کوئی بڑا مالی نقصان نہیں ہوگا، اور اس صورتِ حال کو حکومت موجودہ مالی حالات کے اندر رہتے ہوئے سنبھال سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بات غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات جلد مکمل ہو جائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاکستان امریکا سے کپاس، سویا بین اور دیگر چیزیں جیسے ہائیڈروکاربنز درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی میں امریکا نے اہم کردار ادا کیا۔ محمد اورنگزیب نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کو “چھوٹا تنازع” قرار دیا اور کہا کہ اس کا مالی اثر معمولی ہے اور اسے حکومت باآسانی سنبھال سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دفاعی ضروریات کے لیے مزید اقدامات کرنا پڑے تو حکومت کرے گی، لیکن فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اگلے بجٹ میں دفاعی اخراجات بڑھیں گے یا نہیں۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ اسی دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں کہا کہ امریکا، پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کی مدد کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تجارت اس جنگ بندی کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تجارت میں تقریباً 3 ارب ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے، لیکن امریکا نے پاکستانی برآمدات پر 29 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا، جس پر اپریل سے 90 دن کے لیے عمل روک دیا گیا ہے۔ 9 مئی کو آئی ایم ایف نے پاکستان کو 7 ارب ڈالر کے قرض پیکیج میں سے ایک ارب ڈالر کی قسط دینے کی منظوری دی، جو وزیر خزانہ کے مطابق منگل کو پاکستان پہنچ جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کا اضافی قرض بھی دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ جولائی سے شروع ہوگا اور اگلے تین سے چار ہفتوں میں اسے حتمی شکل دے دی جائے گی۔ اس سلسلے میں 14 سے 23 مئی تک آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بھی ہوں گے۔ یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان یہ کشیدگی 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا نے بغیر کسی ثبوت کے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا، جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کیا اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں، انڈیا نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں پاکستان کی مسلح افواج نے بھرپور کارروائی کرتے ہوئے بھارت کے پانچ جنگی طیارے مار گرائے، کئی چیک پوسٹس، بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور مہار بٹالینز کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد انڈیا کی فوج نے لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں میں سفید جھنڈے لہرا کر پسپائی اختیار کی۔ 10 مئی کو پاکستان نے “آپریشن بنیان مرصوص” شروع کیا، جس میں انڈیا کے کئی فوجی اور دفاعی ٹھکانے، ایئربیسز، براہموس میزائل اسٹوریج اور ایس 400 نظام کو تباہ کیا گیا۔ اس شدید صورتحال کے بعد، دونوں ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان اور انڈیا مکمل سیز فائر پر راضی ہو گئے ہیں۔

’جب دشمن لڑتے ہیں تو عقلمند سنتے ہیں‘ پاکستان انڈیا کشیدگی سے چین کیسے مستفید ہو سکتا ہے؟

Indian army

جب دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہوں، میدانِ جنگ میں جدید ہتھیار، جنگی طیارے اور میزائل استعمال ہو رہے ہوں  تو دنیا کی آنکھیں صرف ایک لمحے کے لیے نہیں، بلکہ طویل عرصے تک اس منظر کو یاد رکھتی ہیں۔ حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی نے نہ صرف خطے میں جنگ کے خطرات کو بڑھایا ہے بلکہ ایک خاموش طاقت  چین کوبھی ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔ یہ موقع محض سفارتی نہیں بلکہ خفیہ معلومات اور جدید جنگی تجربات سے فائدہ اٹھانے کا ہے۔ سنگاپور کے سیکیورٹی تجزیہ کار الیگزینڈر نیل نے عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ چین کے لیے یہ ایک نایاب اور قیمتی موقع ہے، جب اس کے سرحدی علاقوں کے قریب ایک ممکنہ دشمن اپنی عسکری صلاحیتوں کو کھول کر پیش کر رہا ہے۔ چین اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ انڈیا کی نقل و حرکت کو براہِ راست، زمین، سمندر اور خلا سے مانیٹر کر سکے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ لندن کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز (IISS) کے مطابق چین کے پاس 267 سیٹلائٹس ہیں، جن میں سے 115 انٹیلیجنس، سرویلنس اور ریکونیسینس (ISR) کے لیے وقف ہیں، جب کہ 81 سیگنلز اور الیکٹرانک انٹیلیجنس پر مامور ہیں۔ یہ نیٹ ورک خطے میں انڈیا سمیت کسی بھی ملک سے کئی گنا طاقتور ہے۔ حالیہ جھڑپوں میں پاکستانی فضائیہ نے چینی ساختہ J-10 طیارے استعمال کیے، جن کے بارے میں دو امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے انڈین ایئرفورس کے دو طیارے مار گرائے، جن میں ایک فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل ہے۔ انڈیا نے اب تک اپنے کسی بھی طیارے کی تباہی کی تصدیق نہیں کی، لیکن پاکستان کے وزرائے دفاع و خارجہ J-10 کے استعمال کی تصدیق کر چکے ہیں۔ یہ صورتحال چین کے لیے ایک قیمتی ‘لائیو ایکسرسائز’ کی مانند ہے، جس میں وہ اپنے ہتھیاروں، میزائلز اور پائلٹس کی کارکردگی کو عملی میدان میں دیکھ سکتا ہے، اس کے  ساتھ ہی چین  انڈین فضائیہ، اس کے دفاعی نظام اور جنگی حکمت عملیوں کا بھی تجزیہ کر سکتا ہے، جو کہ آئندہ کسی ممکنہ چینی-انڈین تصادم میں انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔ چینی انٹیلیجنس کے لیے سب سے زیادہ قیمتی معلومات وہ ہوں گی جو انڈیا کے ایئر ڈیفنس سسٹمز، کروز اور بیلسٹک میزائلز کے استعمال اور ان کے کنٹرول سسٹمز سے حاصل ہوں، خاص طور پر انڈین برہموس کروز میزائل، جو روس کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے، اگر استعمال ہوتا ہے، تو چین کے لیے ایک بڑا انٹیلیجنس ہدف ہو گا۔ واضح رہے کہ یہ معلومات نہ صرف میزائل کی رینج اور اسپیڈ بلکہ کنٹرول، لاک آن سسٹم اور لانچ پیٹرن تک کو ظاہر کر سکتی ہیں۔ ان معلومات کو چین اپنی دفاعی و تکنیکی ترقی کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں انڈین سمندر میں اپنی سرگرمیاں بڑھائی ہیں۔ امریکی پینٹاگون کی رپورٹس اور اوپن سورس ٹریکرز کے مطابق چین نے اپنے اوشیانوگرافک ریسرچ جہازوں، فشنگ بیڑوں اور اسپیس ٹریکنگ ویسلس کو طویل مشنز پر تعینات کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نام نہاد ‘سویلین’ بیڑے اکثر انٹیلیجنس اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ یکم مئی کو ایکس پر پوسٹ کرنے والے اوپن سورس ٹریکر ڈیمیئن سائمن نے انکشاف کیا کہ 224 چینی فشنگ ویسلز انڈین نیول مشقوں کے قریب، تقریباً 120 ناٹیکل میل دور، منظم انداز میں موجود تھیں، جو ایک منظم ملٹری ملیشیا کا تاثر دیتی ہیں۔ یہ جہاز بحری مشقوں کی نقل و حرکت، ردعمل کی رفتار اور جنگی تیاریوں کو مانیٹر کر کے بیجنگ کو بروقت انٹیلیجنس فراہم کرتے ہیں، جو کہ خطے میں چین کی عسکری موجودگی کو خاموش مگر مؤثر انداز میں بڑھاتا ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کو ہمیشہ ‘ہر موسم کی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ’ قرار دیا جاتا ہے۔ موجودہ کشیدگی میں، چین کی موجودگی اور شراکت داری پاکستان میں نہ صرف فوجی ہتھیاروں کی ترسیل تک محدود ہے، بلکہ چینی عسکری مشیر اور تکنیکی ماہرین بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ سنگاپور کے اسکالر جیمز چار کے مطابق “چین کے عسکری اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی کوئی راز نہیں اور حالیہ کارروائیوں میں اکٹھا ہونے والی معلومات یقیناً PLA (چینی فوج) کے ہاتھ لگ رہی ہوں گی۔” چین نہ صرف پاکستان-انڈیا کشیدگی کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے، بلکہ اپنے تجزیاتی مراکز اور انٹیلیجنس نیٹ ورکس کے ذریعے عالمی سطح پر انڈین کمزوریوں کو اجاگر بھی کر رہا ہے۔ امریکی اثر و رسوخ کے کم ہوتے ماحول میں چین خود کو جنوبی ایشیا میں طاقتور اور قابلِ اعتماد کھلاڑی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ انڈیا کے ساتھ اس کا سرحدی تنازع 1962 کی جنگ سے لے کر 2020 کے گلوان تصادم تک مسلسل کشیدگی کا شکار ہے، چین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے اسٹریٹیجک حریف کی چالوں کو قریب سے جانچ سکے اور جب وقت آئے تو ان کا توڑ کر سکے۔ جب پاکستان اور انڈیا جنگی بیانات، فوجی نقل و حرکت اور دفاعی تیاریوں میں مصروف ہیں، چین ایک سادہ مگر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے، جوکہ خاموشی سے سیکھنا، معلومات اکٹھی کرنا اور مستقبل کی حکمت عملی ترتیب دینا ہے۔ خیال رہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا صرف سرخیوں پر نظر رکھ رہی ہے، مگر اصل جنگ تو خلا میں، ڈیجیٹل نیٹ ورکس میں اور سیٹلائٹ ویوز میں لڑی جا رہی ہے اور اس جنگ کا سب سے بڑا فاتح، شاید وہ ہو گا جو خاموش ہے، لیکن سب دیکھ رہا ہے۔

انڈین ڈرون حملے میں شہید ہونے والا نوجوان 8 بہنوں کا اکلوتا بھائی نکلا، وزیر داخلہ محسن نقوی کا اہلخانہ سے اظہار تعزیت

Indian drone attacks

لاہور کے علاقے کچا جیل روڈ سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ علی حیدر، جو اپنی آٹھ بہنوں کا اکلوتا بھائی اور خاندان کا واحد کفیل تھا، راولپنڈی میں انڈین ڈرون حملے میں شہید ہو گیا۔ علی حیدر روزگار کے سلسلے میں راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے باہر برگر کا اسٹال لگاتا تھا۔ حملے کے وقت وہ اپنے کزنز کے ہمراہ موجود تھا، جن میں سے ایک فیصل منظور زخمی بھی ہوا۔ شہادت کی خبر گھر پہنچی تو لاہور کے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے علی حیدر کے گھر جا کر اہلخانہ سے تعزیت کی اور شہید کی قربانی کو قوم کا فخر قرار دیا۔ محسن نقوی نے کہا کہ علی حیدر جیسے محنت کش نوجوانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ جنگ میں فتح ہمارے شہداء کی وجہ سے ممکن ہوئی، انڈیا کو اب کسی بھی مہم جوئی سے پہلے سو بار سوچنا پڑے گا۔ مزید پڑھیں: مودی کی خفت مٹانے کی کوشش: ’پہلگام واقعہ کے حساب کے لیے آپریشن سندور ضروری تھا‘ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے دشمن کو صرف میدان جنگ میں ہی نہیں بلکہ سفارتی، میڈیا اور سیاسی محاذ پر بھی شکست دی ہے۔ دہشتگردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور ہم بلوچستان سمیت ہر محاذ پر دشمن کے عزائم ناکام بنائیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انڈین ڈراموں اور جھوٹے الزامات کے باوجود دنیا نے سچ جان لیا ہے۔ پاکستان اب ڈیجیٹل دہشتگردی کا بھی مؤثر انداز میں مقابلہ کرے گا۔ یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا، جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی ایک نئے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشتگرد واقعہ پیش آیا، جس میں درجنوں افراد ہلاک، جب کہ متعدد زخمی ہوگئے۔ انڈین حکومت اور میڈیا کی جانب سے محض چند منٹوں میں واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا گیا اور واقعے کے دس منٹ بعد لکھی جانے والی ایف آئی آر میں بیرونی آقا کی ایما پر جیسے الفاظ شامل کیے گئے تھے، جنھوں نے اس حملے کو فالس فلیگ آپریشن بنا دیا۔ انڈین حکومت نے بنا کسی واضح ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا، جب کہ پاکستانی فوجی اتاشیوں کو انتہائی ناپسندیدہ قرار دیا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی کچھ اقدامات اٹھائے۔ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب کو انڈیا نے رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کردیا اور متعدد شہروں کو نشانہ بنایا، دہشتگردوں کے نام پر مساجد اور معصوم شہریوں کو شہید کردیا گیا، جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: انڈیا اور پاکستان کو متنبہ کیا تھا کہ اگر لڑائی نہ روکی گئی تو امریکا تجارت روک دے گا، امریکی صدر ٹرمپ انڈیا نے اس مشن کو ‘آپریشن سندور’ کا نام دیا اور لگاتار تین دن پاکستان پر میزائل اور ڈرون اٹیک کرتا رہا، جس کے جواب میں پاکستان نے 10 مئی کو صبح صادق کے وقت ‘آپریشن بنیان مرصوص’ شروع کیا، جس نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا۔ پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف کے مطابق انڈیا نے امریکا کے پاس جاکر جنگ بندی کی درخواست کی اور یوں 10 مئی کی شام کو ہی پاکستان اور انڈیا کے مابین آئندہ 48 گھنٹوں کے لیے جنگ بندی معاہدہ طے پایا اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا۔