شہری کا نواز شریف سے ملاقات کے لیے اخبار میں اشتہار

شہری نے اخبار میں اشتہار دیا کہ وہ طویل مدت سے میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کا خواہش مند ہے۔نجی اخبار روزنامہ دنیا لاہور میں شہری کی جانب سے آج بدھ کو اخبار کے پہلے صفحے پر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی تصویر کے ساتھ اشتہار دیا گیا۔ اشتہار میں بڑے حروف میں ‘اپیل برائے ملاقات’ لکھا ہوا ہے۔ محمد صادق نامی شہری کی طرف سے دیے گئے اشتہار میں اپیل کی گئی میں میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیاشہری نے اشتہار میں لکھا کہ وہ اس سے پہلے 2014 میں بھی اپیل کر چکا ہے، اپیل برائے ملاقات سے اشتہار کا آغاز کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ “میں محترم سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب حکومت پاکستان کی قیادت میں ہونے والی ترقیاتی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور میاں صاحب کی مصروفیات سے مکمل ادراک رکھتا ہے اور ان کی قومی خدمات اور قیادت کو خراج تحسین پھی پیش کرتا ہوں”۔ اس نے مزید لکھا کہ “میں میاں محمد نواز شریف سے باضابطہ درخواست کرتا ہوں کہ مخصوص معاملہ پر تفصیلی تبادلہ خیال کے لیے قیمتی وقت درکار ہے”۔ اشتہار کے آخر میں اس نے اپنا فون نمبر دیا اور اعتماد کا اظہار کیا کہ میاں صاحب کی بصیرت اور تجربہ رہنمائی کا باعث ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ درخواست پر غور کرنے اور ملاقات کے لیے موزوں وقت دینے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد صادق کا کہنا تھا کہ “وہ ملتان کے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف سے ذاتی وجوہات کی بنا پر ملنا چاہتا ہوں۔ 2014 میں بھی اشتہار دیا تھا لیکن تب نواز شریف وزیراعظم تھے تو ملاقات نہیں ہو سکی تھی اب پھر ملنا چاہتا ہوں میری ملاقات کروائی جائے”۔
لائن آف کنٹرول پر انڈین جارحیت کے نتیجے میں پاک فوج کے دو زخمی جوان شہید ہوگئے

انڈین فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کی جانے والی بلا اشتعال اور بزدلانہ جارحیت کے نتیجے میں زخمی ہونے والے پاک فوج کے دو جوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دونوں زخمی جوان اسپتال میں زیرِ علاج تھے، جہاں وہ زخموں کی شدت کے باعث جامِ شہادت نوش کر گئے۔ ان دونوں جوانوں کی شہادت کے بعد بھارتی جارحیت میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کی مجموعی تعداد 13 ہو گئی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا شہید ہونے والوں میں پاک فوج کے حوالدار محمد نوید اور سینئر سینیشن محمد ایاز شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق حالیہ انڈین اشتعال انگیزیوں کے دوران اب تک 78 جوان دورانِ ڈیوٹی زخمی ہو چکے ہیں۔ انڈین فوج کی ان کارروائیوں کو عالمی قوانین اور جنگ بندی معاہدوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ ترجمان پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ انڈین فوج کی ہر جارحیت کا مؤثر اور بھرپور جواب دیا جا رہا ہے، اور مادرِ وطن کے دفاع کے لیے پاک فوج کے جوان ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں انڈیا کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف فوجی بلکہ شہری آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
بیجنگ بمقابلہ واشنگٹن، کیا چین عسکری سازوسامان میں مغرب کو ’مات‘ دے چکا ہے؟

عالمی جریدہ بلومبرگ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حالیہ پاک انڈیا جنگ کے اثرات صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلحے کی منڈی اور خاص طور پر چینی عسکری ٹیکنالوجی کے بارے میں قائم پرانی سوچ کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اس جھڑپ نے دنیا کو چینی ہتھیاروں پر ازسر نو غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب یہ تصور کہ چینی اسلحہ مغربی ہتھیاروں سے کمتر ہے، تیزی سے بدل رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جنگ کے دوران چین کے تیار کردہ جے ٹین سی طیاروں سے انڈیا کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا، جن میں فرانسیسی ساختہ رافال بھی شامل تھا۔ انڈیا نے اس کی تصدیق نہیں کی، مگر ان خبروں نے چینی اسلحہ ساز ادارے کے حصص کی قیمت میں زبردست اضافہ کر دیا۔ محض ایک ہفتے میں اس کمپنی کی مارکیٹ ویلیو میں تقریباً سات اعشاریہ چھ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ جنگی کامیابیاں نہ صرف سیاسی بلکہ مالیاتی فوائد بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا اس واقعے نے تائیوان کو بھی الرٹ کر دیا۔ وہاں کے دفاعی تھنک ٹینک کے محققین کا کہنا ہے کہ چین کی فضائی صلاحیتیں اب امریکی فضائی طاقت کے قریب پہنچ چکی ہیں یا ممکن ہے اسے پیچھے چھوڑنے لگیں۔ اسی پس منظر میں یہ آواز بھی بلند ہوئی کہ امریکا کو تائیوان کو مزید جدید دفاعی نظام فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ چین کے اندر بھی اس پیش رفت کو سنجیدگی سے دیکھا گیا۔ معروف چینی صحافی ہو شی جن نے سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ حملے واقعی کامیاب رہے تو تائیوان کو مزید پریشان ہونا چاہیے۔ جنگ میں ایک اور نکتہ جو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا وہ چین کا جدید میزائل پی ایل 15 تھا، جسے پہلی بار عملی طور پر استعمال کیا گیا۔ اس کی رفتار آواز سے پانچ گنا زیادہ ہے اور اس کی کچھ باقیات انڈین سرزمین پر پائی گئیں، جو اس کے استعمال کی علامت سمجھی جا رہی ہیں۔ اس میزائل کو مغربی ایئر ٹو ایئر میزائل سسٹمز کا مدمقابل سمجھا جا رہا ہے۔ رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں تیزی سے ترقی کی ہے۔ اس کی پانچ سالہ اوسط برآمدات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ مگر اس کے بیشتر خریدار ترقی پذیر ممالک ہیں، جیسے پاکستان، میانمار اور بنگلہ دیش۔ ایک وجہ یہ ہے کہ چین کے ہتھیار نسبتاً سستے ہوتے ہیں اور چین آسان قرضوں کی پیش کش کرتا ہے۔ تاہم اس مقبولیت کے ساتھ کئی خدشات بھی جڑے ہوئے ہیں۔ سابق تجزیہ کار سنڈی ژینگ کے مطابق یہ ہتھیار اگرچہ قیمت میں کم ہیں، مگر ان میں تکنیکی خرابیاں اکثر سامنے آتی ہیں۔ جب یہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو ان کی مرمت یا فنی معاونت مہنگی اور پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ کئی مثالیں بھی رپورٹ میں دی گئی ہیں، جن میں میانمار کا اپنے چینی لڑاکا طیارے گراؤنڈ کرنا، بنگلہ دیش کی شکایات، اور پاکستان کی بحریہ کو چینی فریگیٹس کے ساتھ درپیش مسائل شامل ہیں۔ بلومبرگ کے ایک اور تجزیہ کار ایرک ژو کا کہنا ہے کہ چینی ہتھیاروں کی جنگی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی ہے کہ یہ دیگر غیر چینی نظاموں سے ہم آہنگ نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے ان کی برآمد محدود دائرے میں رہتی ہے۔
’خبر سن کر یقین نہیں کر پائے‘، پاکستان اور انڈیا نے قیدی اہلکار ایک دوسرے کے حوالے کر دیے

پاکستان اور انڈیا کے درمیان واہگہ اٹاری بارڈر پر قیدیوں کا تبادلہ ہوا، جس میں دونوں ممالک نے ایک ایک اہلکار کو ایک دوسرے کے حوالے کیا۔ یہ عمل نہ صرف سفارتی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کا مظہر ہے بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کے باوجود رابطے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق، بدھ کے روز پنجاب رینجرز کے اہلکار محمد اللہ، جنہیں پچھلے ماہ انڈین پنجاب میں سرحد عبور کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، وطن واپس لوٹ آئے۔ دوسری جانب انڈیا کے کانسٹیبل پورنم کمار شا، جو 23 اپریل کو فیروزپور سیکٹر میں ڈیوٹی کے دوران غلطی سے پاکستانی حدود میں داخل ہو گئے تھے، کو پاکستان نے واہگہ بارڈر پر انڈین حکام کے حوالے کیا۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا بی ایس ایف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کانسٹیبل شا کو صبح 11:50 پر گرفتار کیا گیا تھا، اور ان کی واپسی متعدد فلیگ میٹنگز، رابطوں اور سفارتی کوششوں کے بعد ممکن ہوئی۔ اسی طرح پاکستان کا کہنا ہے کہ محمد اللہ کی گرفتاری بھی غلطی سے سرحد پار کرنے کے باعث عمل میں آئی، اور انہیں بھی انسانی بنیادوں پر واپس لایا گیا۔ انڈین اہلکار کی رہائی پر ان کے والد نے انڈین اخبار دی ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ یہ خبر سن کر یقین نہیں کر پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ رہائی کی اطلاع انہیں شام 7:30 بجے ملی تھی، جو ان کے لیے ایک بڑی راحت تھی۔
’جنریشن زی میں انتہائی مقبول‘، وائس مارشل اورنگزیب احمد کون ہیں؟

جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی آسمانوں کو چیر رہی تھی، جب ہر طرف شور تھا، خدشات تھے اور خوف تھا، تب صرف ایک چہرہ تھا جو اس سارے شور میں سب پر چھا گیا۔ ایسی صورتحال میں جنریشن Z کی ٹائم لائنز پر صرف ایک نام ہی چھایا ہوا تھا، پاکستان کا سب سے ‘ہینڈسم پائلٹ’ یعنی ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد۔ میمز، فین پیجز اور نیم سنجیدہ سرخیاں چھا گئیں۔ لیکن اس وائرل کشش کے پیچھے صرف اسٹائل نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسا عسکری کیریئر ہے جو آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے دسمبر 1992 میں پاکستان ایئر فورس میں کمیشن حاصل کیا جو ان کے شاندار کیرئیر کی بنیاد بنی۔ انہوں نے اپنے شاندار کیریئر میں صرف جہاز ہی نہیں اڑائے بلکہ دیگر پائلٹس کی قیادت بھی کی۔ انہوں نے فرنٹ لائن اسکواڈرن پھر ایئر بیس کی قیادت کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ ناظرین یہ سب ان کے عزم اور قائدانہ صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا ساتھیوں میں اپنی اسٹریٹجک بصیرت کے باعث مشہور ایئروائس مارشل اورنگزیب احمد نے چین کی ایک یونیورسٹی سے ملٹری آرٹس میں ماسٹرز کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے نیشنل سیکیورٹی و وار اسٹڈیز میں بھی ماسٹرز کیا۔ انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں بطور ڈائریکٹنگ اسٹاف بھی خدمات سرانجام دیں، جہاں انہوں نے آنے والے فضائی افسران کو اُسی سختی اور معیار کے ساتھ تربیت دی جس نے ان کی شروعات کو ممتاز کیا تھا۔ اسلام آباد میں ایئر ہیڈکوارٹرز واپسی پر وہ اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر اسٹاف (آپریشنل ضروریات و ترقی) تعینات ہوئے، پھر ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز (ڈی جی پی آر) بنے جو پاکستان ایئر فورس کے ترجمان کا ایسا عہدہ تھا جس نے انہیں قومی سطح پر نمایاں کر دیا۔ جب آپریشن ‘بنیان المرسوس’ شروع ہوا تو اورنگزیب احمد آئے، بولے اور بولے تو ایسے اعتماد کے ساتھ کہ پورا میڈیا ہِل گیا۔ کم الفاظ، زیادہ وزن، کوئی جذبات نہیں صرف اور صرف حقائق۔ ان کے ایک ایک لفظ میں یقین اور ہر ایک فقرے میں وقار جھلکتا دکھائی دیا۔ انہوں نے جب بتایا کہ پاکستان ایئر فورس نے لائن آف کنٹرول پر 6 بھارتی طیارے مار گرائے تو ٹوئٹر پر میمز کا طوفان برپا ہو گیا۔ سوشل میڈیا پر ‘اورا’، ‘پوکی’ اور ‘رز’ سے لے کر ان کی اسٹائلش ڈریکسنگ پر ‘مین کریکٹر انرجی’ تک کئی ٹرینڈز کا آغاز ہوا جس نے جنریشن Z کی سوشل ٹائم لائن کو بھر دیا۔ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد کو دباؤ میں خدمات انجام دینے اور ان کی عملی مہارتوں کے اعتراف میں پاکستان کے اعلیٰ ترین اعزاز ‘ستارہ امتیاز (ملٹری)’ سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز اُن کی جنگی کامیابیوں اور اسٹریٹجک کمیونیکیشن میں مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے سعودی عرب میں پاک فضائیہ کی ٹیم کے کنٹیجنٹ کمانڈر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے پاکستانی فضائی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد آج ڈپٹی چیف آف دی ایئر اسٹاف (آپریشنز) کے ستارے بھی اپنی وردی پر سجا چکے ہیں۔ وقت قریب ہے کہ جب وہ پاک فضائیہ کی اگلی چالیں اعلیٰ سطح پر طے کریں کریں۔ ناظرین کاک پٹ سے لے کر پوڈیم تک ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد نے اس تصور کو بدل کر رکھ دیا ہے کہ ایک فوجی ترجمان کیا کیا ہو سکتا ہے، ایک سپاہی، ایک اسکالر اور حیرت انگیز طور پر ایک سوشل میڈیا آئیکون بھی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اگلی بریفنگ پھر سے سوشل میڈیا کو ہلا کر رکھ دے گی یا نہیں؟ کیا وہ پاک فضائیہ کو مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کی نئی دنیا میں لیڈ کریں گے؟ نئے مشن، نئی ٹیکنالوجی اور نئے ہدف اورنگزیب احمد کے منتظر ہیں۔ اورنگزیب احمد نہ صرف ایک فائٹر اور اسکالر ہیں بلکہ وہ پاک فضائیہ کا نیا چہرہ، نیا انداز اور نیا باب ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین ان کی تعریفی میمز بنا رہے ہیں جبکہ ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ خواتین ان کو کرش کہہ رہی ہیں۔ موسی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ایک مرتبہ اورنگزیب احمد نے اسکول سے دو دن چھٹی کی، وہ دو دن اب ویک اینڈ کہلاتے ہیں۔ ایک اور صارف نے لکھا کہ ایک مرتبہ اورنگزیب اسکول میں لیٹ گئے، باقی تمام طلبا کو جرمانہ کیا گیا۔ آمنہ نامی ایک لڑکی نے لکھا کہ میں اپنے جہازوں کے بارے میں جاننے میں بہت دلچسبی رکھتی ہوں۔ اس طرح کی بریفینگز ہر مہینے ہونی چاہیے۔
اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں مزید 60 فلسطینی جاں بحق، ایسی کوئی صورتحال نہیں کہ جنگ روکیں، نیتن یاہو

اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں حالیہ کارروائیوں نے نصف شب کے بعد سے جاری فضائی اور زمینی حملوں میں اب تک کم از کم 60 فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ طبی حکام کے مطابق صرف شمالی غزہ میں، خاص طور پر جبالیہ مہاجر کیمپ جیسے علاقوں میں، تقریباً 45 افراد ہلاک ہوئے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، حالیہ جنگ کے آغاز سے اب تک 52,908 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 119,721 سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوسری جانب، غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کا دعویٰ ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 61,700 سے زیادہ ہے کیونکہ کئی ہزار افراد تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیشِ نظر عالمی سطح پر سفارتی دباؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ روس، چین اور برطانیہ نے امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے پیش کیے گئے امدادی تقسیم کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، اور اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ پر جاری دو ماہ سے زیادہ طویل ناکہ بندی ختم کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس وقت سعودی عرب کے دورے پر ہیں، نے کہا ہے کہ وہ اس تنازعے کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے سخت مؤقف اپناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کی فوجی کارروائیاں کسی صورت روکی نہیں جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا، “ایسی کوئی صورتحال نہیں ہو گی جہاں ہم جنگ روک دیں۔” یہ سب صورت حال غزہ میں انسانی بحران کو مزید سنگین بناتی جا رہی ہے۔ نہ صرف شہری آبادی مسلسل نشانہ بن رہی ہے بلکہ بنیادی طبی سہولیات، خوراک اور پانی تک رسائی بھی محدود ہوتی جا رہی ہے، جبکہ جنگ بندی اور فوری امداد کے لیے کی جانے والی عالمی اپیلیں اب تک بے اثر دکھائی دے رہی ہیں۔
’تیز رفتار ڈمپر کے بریک فیل‘، لاہور میں ٹریفک حادثے میں پانچ افراد جاں بحق

لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں جی ٹی روڈ پر ایک افسوس نالک ٹریفک حادثے میں پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ایک تیز رفتار ڈمپر کے بریک فیل ہو گئے اور وہ بے قابو ہو کر تین رکشوں اور دو موٹرسائیکلوں سے جا ٹکرایا، جس سے موقع پر ہی تباہی مچ گئی۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا ریسکیو 1122 کی امدادی ٹیموں نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ جاں بحق افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ریسکیو حکام کے مطابق ڈمپر کے نیچے دبے افراد کو نکالنے میں کافی وقت لگا، جبکہ زخمیوں کو تشویشناک حالت میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ حادثے کے بعد ڈمپر کا ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا، جس کی تلاش جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ اپنے تعزیتی بیان میں انہوں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی ہدایت کی۔ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں، تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ شہریوں نے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لاہور کے سیاسی و سماجی حلقوں نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔
سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا

حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے دوران انڈیا کو صرف عسکری میدان میں ہی نہیں بلکہ معلوماتی جنگ (انفارمیشن وار) میں بھی شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بار تنقید صرف پاکستان یا عالمی ذرائع کی طرف سے نہیں آئی، بلکہ خود انڈیا کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اور ان میں سب سے توانا آواز سابق انڈین وزیر أرن شوری کی ہے۔ أرن شوری ایک معروف انڈین تجزیہ نگار، صحافی اور ماہر معیشت ہیں۔ وہ واجپائی حکومت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کے وزیر رہے، اور انڈین ایکسپریس و ٹائمز آف انڈیا جیسے بڑے اداروں میں ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ کرن تھاپر کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے انڈین میڈیا کے کردار کو “شرمناک” اور “جرم” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے سچائی سے منہ موڑ کر ایک ایسا بیانیہ گھڑا جو نہ صرف ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا تھا بلکہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف بھی تھا۔ ان کے مطابق میڈیا نے عوامی جذبات کو ابھارنے، جنگی جنون پیدا کرنے، اور نیشنل ازم کے نام پر جھوٹ پھیلانے کا کام کیا۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ أرن شوری نے حکومت اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان میڈیا ہاؤسز اور افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے صحافتی اصولوں اور قومی ذمہ داری کو پامال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا پر احتساب نہ ہوا تو یہ مستقبل میں بھی قومی مفاد کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ انہوں نے انڈیا کی خارجہ پالیسی پر بھی سوال اٹھائے۔ ان کے مطابق بھارت کو امریکہ پر ضرورت سے زیادہ انحصار ختم کر کے اپنے عالمی تعلقات میں تنوع لانا چاہیے، جبکہ پاکستان کے اتحادی، چین اور ترکی، زیادہ مستقل اور وفادار رہے ہیں۔ أرن شوری کی یہ تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انڈین میڈیا پر جانبداری، سنسنی خیزی، اور ریاستی بیانیے کی اندھی تقلید کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی گفتگو نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ اگر میڈیا آزاد، ایماندار اور ذمہ دار نہ ہو تو وہ عوام کی رہنمائی کے بجائے انہیں گمراہ کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پاکستان نے’روسی ساختہ ایس 400‘ کیسے تباہ کیے؟

روس کا ایس 400 دفاعی نظام جسے دنیا کے سب سے جدید ایئر ڈیفنس سسٹمز میں شمار کیا جاتا ہے، مبینہ طور پر پاکستانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ S-400 نظام، جو روس نے شام اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات کیا ہے، فضائی دفاع کی صلاحیتوں میں ایک “گیم چینجر” سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ رپورٹس کے مطابق ایک فوجی مشق کے دوران S-400 نظام پاکستانی میزائلوں کو نہ تو بروقت شناخت کر سکا اور نہ ہی انہیں روک پایا، جس سے اس کی مؤثریت پر سنجیدہ سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس ویڈیو میں ہم اس واقعے کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا S-400 نظام واقعی پاکستانی میزائلوں سے چکما کھا گیا، یا یہ محض ایک وقتی تکنیکی خرابی تھی؟ کیا یہ واقعہ عالمی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ جاننے کے لیے ویڈیو مکمل دیکھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے خواہاں، کیا امریکی صدر نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا اور پاکستان کو ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے اختلافات حل کرنے کا مشورہ دینے کے کچھ ہی گھنٹے بعد، امریکی محکمہ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ واشنگٹن کی توجہ اب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست رابطوں کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکا بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہے اور دونوں وزرائے اعظم کو امن کے راستے پر چلنے پر سراہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کا مؤقف مستقل رہا ہے کہ فریقین کو براہ راست رابطہ رکھنا چاہیے، اور امریکا اسی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے دہشت گردی کے الزامات سے متعلق انڈیا کو کوئی یقین دہانی کرائی ہے، تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ امریکا مذاکرات کی حمایت کرتا ہے اور دونوں ممالک کو براہ راست بات چیت کی ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان ان انڈین الزامات کو جھوٹا اور بلاجواز قرار دیتا ہے، جبکہ انڈیا ان الزامات کو اپنی دفاعی کارروائیوں کا جواز بناتا ہے۔ ترجمان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ امریکا انڈین قیادت کے رویے پر مایوس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے اور امریکا کی تمام تر توجہ اسی بات پر ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے اور دونوں ممالک رابطے میں رہیں۔ میڈیا رپورٹس میں پاکستان کی کچھ ایٹمی تنصیبات سے تابکاری کے اخراج کی افواہوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے پاس اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ امریکا نے کوئی ٹیم پاکستان بھیجی ہو۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر صدر ٹرمپ کشمیر کا تنازع حل کروا لیتے ہیں تو کیا وہ نوبل امن انعام کے مستحق ہوں گے، تو ترجمان نے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے خواہاں ہیں، وہ ایک “ڈیل میکر” ہیں اور انہوں نے کئی بار تنازعات کے حل میں دلچسپی اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ تمام بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکا، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ، جنوبی ایشیا میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے دونوں فریقین کو قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، اس بات کا انحصار انڈیا اور پاکستان کی سیاسی آمادگی اور داخلی حکمت عملیوں پر ہوگا کہ آیا وہ امریکی حوصلہ افزائی کو حقیقت میں بدلنے کو تیار ہیں یا نہیں۔