’تیز رفتار ڈمپر کے بریک فیل‘، لاہور میں ٹریفک حادثے میں پانچ افراد جاں بحق

لاہور کے علاقے باغبانپورہ میں جی ٹی روڈ پر ایک افسوس نالک ٹریفک حادثے میں پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ تین شدید زخمی ہوئے۔ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ایک تیز رفتار ڈمپر کے بریک فیل ہو گئے اور وہ بے قابو ہو کر تین رکشوں اور دو موٹرسائیکلوں سے جا ٹکرایا، جس سے موقع پر ہی تباہی مچ گئی۔ یہ بھی پڑھیں: سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا ریسکیو 1122 کی امدادی ٹیموں نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ جاں بحق افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ریسکیو حکام کے مطابق ڈمپر کے نیچے دبے افراد کو نکالنے میں کافی وقت لگا، جبکہ زخمیوں کو تشویشناک حالت میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ حادثے کے بعد ڈمپر کا ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا، جس کی تلاش جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ اپنے تعزیتی بیان میں انہوں نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے اور واقعے کی مکمل تحقیقات کی ہدایت کی۔ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر رہے ہیں، تاکہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ شہریوں نے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لاہور کے سیاسی و سماجی حلقوں نے اس واقعہ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے۔
سابق انڈین وزیر أرن شوری نے انڈین میڈیا کو ’شرمناک اور مجرمانہ‘ قرار دے دیا

حالیہ پاک انڈیا کشیدگی کے دوران انڈیا کو صرف عسکری میدان میں ہی نہیں بلکہ معلوماتی جنگ (انفارمیشن وار) میں بھی شدید خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بار تنقید صرف پاکستان یا عالمی ذرائع کی طرف سے نہیں آئی، بلکہ خود انڈیا کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، اور ان میں سب سے توانا آواز سابق انڈین وزیر أرن شوری کی ہے۔ أرن شوری ایک معروف انڈین تجزیہ نگار، صحافی اور ماہر معیشت ہیں۔ وہ واجپائی حکومت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات کے وزیر رہے، اور انڈین ایکسپریس و ٹائمز آف انڈیا جیسے بڑے اداروں میں ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ کرن تھاپر کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے انڈین میڈیا کے کردار کو “شرمناک” اور “جرم” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا نے سچائی سے منہ موڑ کر ایک ایسا بیانیہ گھڑا جو نہ صرف ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والا تھا بلکہ عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف بھی تھا۔ ان کے مطابق میڈیا نے عوامی جذبات کو ابھارنے، جنگی جنون پیدا کرنے، اور نیشنل ازم کے نام پر جھوٹ پھیلانے کا کام کیا۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ أرن شوری نے حکومت اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ ان میڈیا ہاؤسز اور افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے صحافتی اصولوں اور قومی ذمہ داری کو پامال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا پر احتساب نہ ہوا تو یہ مستقبل میں بھی قومی مفاد کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ انہوں نے انڈیا کی خارجہ پالیسی پر بھی سوال اٹھائے۔ ان کے مطابق بھارت کو امریکہ پر ضرورت سے زیادہ انحصار ختم کر کے اپنے عالمی تعلقات میں تنوع لانا چاہیے، جبکہ پاکستان کے اتحادی، چین اور ترکی، زیادہ مستقل اور وفادار رہے ہیں۔ أرن شوری کی یہ تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انڈین میڈیا پر جانبداری، سنسنی خیزی، اور ریاستی بیانیے کی اندھی تقلید کے الزامات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کی گفتگو نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ اگر میڈیا آزاد، ایماندار اور ذمہ دار نہ ہو تو وہ عوام کی رہنمائی کے بجائے انہیں گمراہ کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پاکستان نے’روسی ساختہ ایس 400‘ کیسے تباہ کیے؟

روس کا ایس 400 دفاعی نظام جسے دنیا کے سب سے جدید ایئر ڈیفنس سسٹمز میں شمار کیا جاتا ہے، مبینہ طور پر پاکستانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ S-400 نظام، جو روس نے شام اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں تعینات کیا ہے، فضائی دفاع کی صلاحیتوں میں ایک “گیم چینجر” سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حالیہ رپورٹس کے مطابق ایک فوجی مشق کے دوران S-400 نظام پاکستانی میزائلوں کو نہ تو بروقت شناخت کر سکا اور نہ ہی انہیں روک پایا، جس سے اس کی مؤثریت پر سنجیدہ سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس ویڈیو میں ہم اس واقعے کا تفصیل سے جائزہ لیں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آیا S-400 نظام واقعی پاکستانی میزائلوں سے چکما کھا گیا، یا یہ محض ایک وقتی تکنیکی خرابی تھی؟ کیا یہ واقعہ عالمی طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ جاننے کے لیے ویڈیو مکمل دیکھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر حل کرانے کے خواہاں، کیا امریکی صدر نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈیا اور پاکستان کو ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے اختلافات حل کرنے کا مشورہ دینے کے کچھ ہی گھنٹے بعد، امریکی محکمہ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ واشنگٹن کی توجہ اب دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان براہ راست رابطوں کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے پرنسپل ڈپٹی ترجمان ٹومی پِگوٹ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امریکا بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی حالیہ جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہے اور دونوں وزرائے اعظم کو امن کے راستے پر چلنے پر سراہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کا مؤقف مستقل رہا ہے کہ فریقین کو براہ راست رابطہ رکھنا چاہیے، اور امریکا اسی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے دہشت گردی کے الزامات سے متعلق انڈیا کو کوئی یقین دہانی کرائی ہے، تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ امریکا مذاکرات کی حمایت کرتا ہے اور دونوں ممالک کو براہ راست بات چیت کی ترغیب دیتا ہے۔ پاکستان ان انڈین الزامات کو جھوٹا اور بلاجواز قرار دیتا ہے، جبکہ انڈیا ان الزامات کو اپنی دفاعی کارروائیوں کا جواز بناتا ہے۔ ترجمان نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ امریکا انڈین قیادت کے رویے پر مایوس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ جنگ بندی ایک مثبت قدم ہے اور امریکا کی تمام تر توجہ اسی بات پر ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے اور دونوں ممالک رابطے میں رہیں۔ میڈیا رپورٹس میں پاکستان کی کچھ ایٹمی تنصیبات سے تابکاری کے اخراج کی افواہوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے پاس اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ امریکا نے کوئی ٹیم پاکستان بھیجی ہو۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر صدر ٹرمپ کشمیر کا تنازع حل کروا لیتے ہیں تو کیا وہ نوبل امن انعام کے مستحق ہوں گے، تو ترجمان نے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، تاہم انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ امن کے خواہاں ہیں، وہ ایک “ڈیل میکر” ہیں اور انہوں نے کئی بار تنازعات کے حل میں دلچسپی اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ تمام بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکا، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ، جنوبی ایشیا میں تناؤ کو کم کرنے کے لیے دونوں فریقین کو قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم، اس بات کا انحصار انڈیا اور پاکستان کی سیاسی آمادگی اور داخلی حکمت عملیوں پر ہوگا کہ آیا وہ امریکی حوصلہ افزائی کو حقیقت میں بدلنے کو تیار ہیں یا نہیں۔
صدر ٹرمپ کی شامی صدر سے ملاقات، ’شام سے تمام پابندیاں اٹھا رہے ہیں‘

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے خلیجی دورے کا آغاز ایک حیران کن اعلان سے کیا، جس کے مطابق امریکا شام پر عائد طویل المدتی پابندیاں ختم کرے گا۔ ساتھ ہی، سعودی عرب نے امریکا میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جبکہ امریکا نے سعودی عرب کو 142 بلین ڈالر کا دفاعی سازوسامان فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے اس معاہدے کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی تعاون قرار دیا ہے۔ شام سے پابندیاں ہٹانا ایک ایسا قدم ہے جو کئی دہائیوں کی امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ شام پر پہلی بار 1979 میں پابندیاں لگائی گئیں جب اسے دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست قرار دیا گیا، اور بعد ازاں 2004 اور 2011 میں مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔ اب جبکہ ملک نے خانہ جنگی کے بعد نئی قیادت، احمد الشارع، کے تحت نیا دور شروع کیا ہے، امریکا کا یہ قدم شام کے لیے عالمی تعلقات کی بحالی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ صدر ٹرمپ نے ریاض میں سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر شام سے پابندیاں اٹھا رہے ہیں۔ ان کے الفاظ میں یہ اشارہ بھی موجود تھا کہ امریکا شام کے ساتھ نئے باب کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔ شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے بھی اس اقدام کو تعمیر نو کی راہ میں “نئی شروعات” قرار دیا۔ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے میں توانائی، دفاع، کان کنی، خلائی ٹیکنالوجی، اور مواصلاتی شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد نہ صرف دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطوں کو بہتر بنانا بھی ہے۔ امریکی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ صدر ٹرمپ بدھ کے روز سعودی عرب میں صدر احمد الشارع سے مختصر ملاقات کریں گے، جو شام کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں ایک علامتی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ دورہ نہ صرف امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیوں پیدا کرتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن اور سفارتی تعلقات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کا نیا کھیل: مشرقِ وسطیٰ میں کھربوں کی سرمایہ کاری، ایران پر دباؤ اور اسرائیل کے لیے نئی راہیں؟

ریاض سے دوحہ اور دوحہ سے ابوظہبی تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ چار روزہ دورہ ایک روایتی سفارتی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے بیچ ایک شطرنج کی بازی ہے۔ جہاں ایک طرف کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے، جدید ترین ہتھیاروں کے سودے اور ایران و غزہ پر دباؤ کی نئی حکمت عملی دیکھنے میں آرہی ہے۔ تو وہیں دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثرورسوخ کو ازسرِنو ترتیب دینے کی سنجیدہ کوشش بھی کی جارہی ہے۔ ریاض میں منعقدہ سعودی-امریکی سرمایہ کاری فورم میں ٹرمپ نے اعلان کیا کہ سعودی عرب اگلے چار برسوں میں امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا جس میں توانائی، دفاع، ٹیکنالوجی، معدنیات اور انفراسٹرکچر کے شعبے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات نے 1.4 ٹریلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ ادھر قطر نے خفیہ طور پر امریکی منصوبوں میں شمولیت کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ عالمی امور کے پروفیسر ڈاکٹر آصف بخاری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “یہ سرمایہ کاری خالص اقتصادی نہیں بلکہ گلوبل الائنسز کی ری شیپنگ ہے۔ چین کے بڑھتے اثرات کے خلاف امریکہ نے سرمایہ کاری کے نام پر ایک تزویراتی جال بچھایا ہے جس میں خلیجی ریاستیں بھی سیاسی فائدہ دیکھ رہی ہیں۔” ٹرمپ کے اس دورے میں دفاعی معاہدے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مالیت 142 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان معاہدوں میں جدید F-35 طیارے، ایئر ٹو ایئر میزائل اور دیگر جدید ٹیکنالوجی شامل ہے جو خطے میں امریکہ کی اسلحہ سپلائی میں سبقت کو مزید مستحکم کرے گی۔ ڈاکٹر آصف بخاری نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ خطے کو ایک منافع بخش اسلحہ منڈی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اصل مقصد صرف مالی مفاد نہیں بلکہ خطے میں ایران کے خلاف فوجی توازن کو امریکی مرضی سے کنٹرول کرنا بھی ہے۔” ٹرمپ نے سعودی وژن 2030 کی تعریف کرتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ اقدام ابراہام معاہدوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنا سعودی عرب کے لیے سیاسی و مذہبی سطح پر انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعلقات سعودی عرب کے لیے تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف بھی ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ دفاعی و تکنیکی شراکت داری چاہتا ہے ایسا کرنے سے ایران، چین اور روس جیسے علاقائی و عالمی کھلاڑی اس سے ناراض ہو سکتے ہیں۔ امریکہ سے قربت سعودی وژن 2030 کے لیے تو مفید ہے لیکن اس کی سیاسی قیمت خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے بدلتے توازن میں بہت حساس ہو سکتی ہے۔” عمان میں امریکی اہلکاروں نے ایرانی نمائندوں سے خفیہ مذاکرات کیے تاکہ جوہری معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ٹرمپ نے بھی واضح کیا کہ “فوجی آپشن” بھی میز پر موجود ہے۔ دوسری جانب قطر میں انہوں نے غزہ سے ایک امریکی یرغمالی کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے خلیجی ممالک سے حماس پر سخت اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔ ٹرمپ کے ہمراہ ایلون مسک (ٹیسلا) اور سیم آلٹمین (اوپن اے آئی) کی موجودگی نے اس دورے کو صرف سفارتی نہیں بلکہ “ٹیک ڈپلومیسی” کا رنگ دے دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ امریکہ کی اس نئی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس میں تیل سے ہٹ کر مستقبل کی ٹیکنالوجی میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر عرفان کا اس بارے کہنا ہے کہ “اسپیس ٹیک اور ڈیجیٹل انرجی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت حاصل کرنے کے لیے امریکی سیاسی قیادت ٹیکنالوجی لیڈرز کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں ہے تاکہ فیصلہ سازی براہِ راست ماہرین کے زیرِاثر ہو۔” پاکستان میں بھی اس دورے پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے خاص طور پر اس پس منظر میں کہ امریکہ نے حالیہ برسوں میں پاکستان کو نسبتاً نظرانداز کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے اس دورے سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا نیا توازن قائم ہو سکتا ہے جس میں پاکستان کو محتاط اور متوازن سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عرفان علی کے مطابق “اگر سعودی عرب امریکی دباؤ میں اسرائیل کے قریب ہوا تو پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی خاص طور پر ایران اور عرب دنیا کے درمیان تعلقات میں غیرجانب داری برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔” ان کا مزید کہنا ہے کہ “ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب خطے میں امریکی اثرورسوخ کو نئی جِہت دے سکتا ہے جس کے اثرات پاکستان کی علاقائی حکمتِ عملی پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان کو اس دورے کے بعد ایران، سعودی عرب اور چین کے ساتھ توازن قائم رکھنے کے لیے انتہائی محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔” ٹرمپ کا خلیجی دورہ وقتی سیاسی مہم نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی نئی جنگ کا حصہ ہے۔ اگرچہ سرمایہ کاری، دفاعی معاہدے اور سفارتی مکالمہ فوری فوائد لاتے دکھائی دیتے ہیں مگر اس کے طویل مدتی اثرات خلیجی ممالک، ایران، اور حتیٰ کہ جنوبی ایشیا تک محسوس کیے جائیں گے۔