بیرون ملک بھیک مانگنے والے 5400 پاکستانی ڈی پورٹ، تعلق کن کن علاقوں سے ہے؟

عالمی خبر رساں ادارے اردو نیوز کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ سال میں 5400 پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیجا گیا۔ ان افراد پر بھیک مانگنے کا الزام تھا۔ ملک بدر کیے گئے افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں 4850 جبکہ 2025 میں اب تک 552 پاکستانی شہری واپس آئے۔ ان میں بڑی تعداد سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ سال 2024 کے دوران سب سے زیادہ افراد کا تعلق سندھ سے تھا۔ اس سال 2604 افراد سندھ سے تعلق رکھتے تھے جنہیں مختلف ممالک سے واپس بھیجا گیا۔ ان میں سے اکثر خلیجی ممالک میں پکڑے گئے۔ اس معاملے میں پنجاب دوسرے نمبر پر رہا جہاں سے 2024 میں 1230 افراد ڈی پورٹ کیے گئے۔ پنجاب کے شہری زیادہ تر عراق، ملائیشیا، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات سے واپس آئے۔ زیادہ تر افراد وزٹ یا زیارات ویزا پر گئے تھے اور پھر وہاں غیر قانونی طور پر قیام کر کے بھیک مانگنے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے۔ اردو نیوز کے مطابق خیبر پختونخوا سے اسی سال 860 افراد کو ملک بدر کیا گیا۔ ان میں 39 افراد عراق اور دو افراد ملائیشیا سے واپس آئے۔ اگرچہ یہ تعداد سندھ اور پنجاب سے کم ہے، لیکن یہ ظاہر کرتی ہے کہ خیبر پختونخوا سے بھی ایسے افراد دوسرے ممالک جا رہے ہیں جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان سے 2024 میں 119 افراد واپس بھیجے گئے جن میں صرف دو افراد عراق سے آئے۔ کشمیر سے 32 اور اسلام آباد سے پانچ افراد واپس آئے۔ 2025 کے ابتدائی مہینوں میں 552 پاکستانی شہری واپس آئے۔ ان میں سے سندھ سے 191، خیبر پختونخوا سے 142، بلوچستان سے چھ اور اسلام آباد سے پانچ افراد شامل ہیں۔ اس بارے میں سیکریٹری اوورسیز پاکستانیز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ بھکاری پاکستان سے باہر جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق جتنے بھی بھکاری بیرون ملک گرفتار ہوتے ہیں ان میں سے نوے فیصد پاکستانی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سفیر شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان سے ایسے لوگ بھیجے جا رہے ہیں جو بار بار جرائم میں ملوث ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے ان کی جیلیں بھر گئی ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ ہیومن ٹریفکنگ کا مسئلہ ہے۔
سبز پاسپورٹ کو عزت گھر ٹھیک کرنے سے ملے گی، طارق فضل چودھری

وفاقی وزیر طارق فضل چودھری کا کہنا ہے کہ ہے کہ سبز پاسپورٹ کو عزت اپنا گھر ٹھیک کرنے سے ہی ملے گی۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے پاسپورٹ سے متعلق حقائق قوم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ سبز پاسپورٹ کو عزت گھر ٹھیک کرنے سے ملے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ صرف پاسپورٹ کو رنگین اور دیدہ زیب بنانے سے بین الاقوامی وقار حاصل نہیں ہوتا۔ وفاقی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ بدقسمتی سے پاسپورٹ سسٹم میں مسائل موجود ہیں اور ایسے افراد کو بھی پاسپورٹ جاری کیے گئے جو پاکستانی نہیں تھے۔ افغان شہریوں کو سب سے زیادہ پاکستانی پاسپورٹ جاری ہوئے۔ ڈاکٹر طارق فضل چودھری کا مزید کہنا تھا کہ 9 مئی 2024 کے مقابلے میں 10 مئی 2025 کو پاسپورٹ کی عزت میں 100 گنا اضافہ ہوا ہے۔ مزید پڑھیں: دہشت گرد ریاست کے آگے نہیں ٹھہرسکتے، وزیراعلیٰ بلوچستان انہوں نے نشاندہی کی کہ کچھ ناعاقبت اندیش عناصر بیرون ملک پاکستان مخالف قراردادیں منظور کروا کر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تاہم حکومت اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو بہتر سہولتیں فراہم کر رہی ہے اور تمام سفارتخانوں کو واضح ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔
ہم ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بہت قریب ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی راہ ہموار ہونے کو ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے دورے کے دوران انکشاف کیا کہ واشنگٹن اور تہران کے درمیان ایک طویل المدتی امن معاہدے پر سنجیدہ مذاکرات جاری ہیں اور ایران “کسی حد تک” شرائط پر رضامند بھی ہو چکا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’’ہم ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بہت قریب ہیں۔‘‘ اس وقت عمان میں امریکی اور ایرانی مذاکرات کاروں کے درمیان بات چیت کا ایک اور دور اختتام پذیر ہو چکا ہے اور فریقین نے مزید ملاقاتوں پر اتفاق کیا ہے۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کا جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن پر براہ راست حملہ دوسری جانب ایران نے عوامی سطح پر اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک سفارت کاری کو ترجیح دینے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر متعدد اہم نکات پر اختلافات بدستور موجود ہیں جنہیں حل کیے بغیر معاہدے کی راہ ہموار ہونا ممکن نہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی بھی معاہدے میں تاخیر ممکنہ عسکری کارروائیوں کے خطرے کو جنم دے سکتی ہے۔
کیا غزہ کے نام پر لی گئی امداد حقیقت میں غزہ میں پہنچ رہی ہے؟

کچھ عرصہ قبل خبریں زیرِ گردش رہیں کہ پاکستان میں غزہ متاثرین کے نام پر جو عطیات اور امدادی اکٹھی کی جارہی ہے وہ غزہ تک نہیں پہنچ رہی۔ الخدمت فاونڈیشن پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوز میں سے ایک ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت سے شدید بحران پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر سے اکٹھی کی جانے والی امدادی چار طریقوں سے غزہ تک پہنچائی جارہی ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک سے اشیاء خرید کر غزہ پہنچائی جا رہی ہیں، غزہ میں موجود مقامی این جی اوز کی مدد سے بھی ضروریاتِ زندگی کے سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن دیگر مقامی اور عالمی این جی اوز کے اشتراک سے غزہ میں صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی کو بہتر کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر سے بھیجی گئی امداد غزہ میں کیسے تقسیم کی جاتی ہے؟ الخدمت بھیجے جانے والی امداد کا ریکارڈ کیسے برقرار رکھا جاتا ہے؟ اب تک کتنی مالیت کا امدادی سامان غزہ بھیجا جا چکا ہے؟ مصر سے الخدمت غزہ میں کس طرح امدادی کارروائیوں کو چلا رہی ہے؟ اقوام متحدہ کس طرح سارے امدادی نظآم کی مانیٹرنگ کر رہا ہے؟ اسرائیلی جارحیت کس طرح امدادی سامان کی ترسیل کو مشکل بنارہی ہے؟ الخدمت کیسے غزہ کے بچوں کو تعلیم مہیا کر رہی ہے؟ یہ سب اور مزید جاننے کے لیے ویڈیو ملاخطہ کریں۔
میکسیکو: لائیو ویڈیو کے دوران ’خاتون ماڈل‘ قتل

میکسیکو میں 23 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر والیریا مارکیز کو ٹک ٹاک پر لائیو اسٹریم کے دوران بے دردی سے گولی مار کر قتل کر دیا گیا، اس افسوسناک حادثے نے ملک بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ جلیسکو ریاست کے شہر زپوپن کے ایک بیوٹی سیلون میں پیش آیا۔ والیریا اسی بیوٹی پارلر پر کام کر رہی تھیں۔ ریاستی پراسیکیوٹر نے اس قتل کو فیمنی سائیڈ یعنی صنفی بنیاد پر قتل قرار دیا ہے، فیمنی سائیڈ میں عورتوں کو صرف اور صرف ان کی جنس کی بنا پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق، ایک نامعلوم شخص سیلون میں داخل ہوا اور اندھا دھن فائرنگ کی جس کے نتیجے میں والیریا موقع پر ہی جان کی بازی ہار گئی، ملزم کامیابی کے ساتھ موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ قتل سے چند لمحے قبل، والیریا اپنے لائیو ویڈیو میں ایک کھلونا لیے بیٹھی تھیں اور پریشانی کے عالم میں یہ کہہ رہی تھیں “وہ آ رہے ہیں۔” پھر ایک آواز آئی “ارے، ویل؟” جس پر انہوں نے جواب دیا “ہاں۔” اور اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ پھر چند لمحوں بعد فائرنگ کی آواز سنائی دی اور ایک نامعلوم شخص والیریا کا فون اٹھاتا دکھائی دیا۔ ملزم کی جھلک لائیو ویڈیو میں نظر تو آئی لیکن اس کی شناخت واضح نہیں ہو سکی۔ خیال رہے کہ والیریا نے ماضی میں بھی ایک لائیو ویڈیو میں انکشاف کیا تھا کہ ایک شخص نے ان سے کچھ دن پہلے ملاقات کی۔ وہ اس ملاقات پر بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ وہ اس شخص سے اب دوبارہ کبھی ملاقات نہیں کریں گی۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق میکسیکو صنفی بنیاد پر قتل کے حوالے سے لاطینی امریکا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جہاں خواتین کے قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ خواتین کی اموات میں سے 1300 ایسی اموات ریکارڈ کی گئیں جو کہ صنفی بنیادوں پر کی گئیں۔ جلیسکو ریاست فیمنی سائیڈ کے واقعات کے حوالے سے میکسیکو کی 32 ریاستوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔ صدر کلاڈیا شین بام کے دورِ حکومت کے آغاز سے اب تک جلیسکو میں 906 قتل ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ والیریا میک اپ اور بیوٹی ٹپس سے متعلق اپنی ویڈیوز کے ذریعے لاکھوں صارفین کی پسندیدہ تھیں اور ان کے انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر تقریباً دو لاکھ فالوورز بھی تھے۔
اسرائیل کا جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن پر براہ راست حملہ

جنوبی لبنان کے پرامن اور حساس علاقے میں ایک خطرناک پیشرفت سامنے آئی ہے جہاں اسرائیلی افواج نے اقوام متحدہ کے امن مشن (یونفیل) کے اڈے پر براہ راست فائرنگ کر دی۔ گزشتہ روز یونفیل کے جاری کردہ احتجاجی بیان میں اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ واقعہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ‘بلیو لائن’ کے قریب واقع گاؤں ‘کفار شوبا’ کے قریب پیش آیا۔ یہ حملہ نومبر 27 کے بعد پہلا براہ راست حملہ ہے جب حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان دو ماہ کی جنگ کے بعد ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ یونفیل، جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت تعینات ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جارحانہ کارروائیاں نہ صرف اس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کے امن مشن کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ یونفیل کے بیان کے مطابق، منگل کے روز دو گولیاں اسرائیلی سرحد کے اندر سے داغی گئیں، جن میں سے ایک براہ راست امن مشن کی چوکی کے احاطے میں لگی۔ مزید برآں، کم از کم چار دیگر واقعات بھی رپورٹ ہوئے جن میں اسرائیلی گولہ باری یونفیل کی پوزیشنز کے انتہائی قریب گری۔ یونفیل نے ان تمام واقعات کو واضح طور پر “خطرناک اور ناقابل قبول” قرار دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: مذاکرات ہوں گے لیکن روسی اور امریکی صدر شامل نہیں ہوں گے، امریکا اور روس کا ’اشارہ‘ یونفیل کے اہلکاروں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ گشت کے دوران انہیں اسرائیلی چوکی سے لیزر شعاعوں سے نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے امن مشن نے اس اقدام کو اشتعال انگیز اور امن مشن کے اختیارات میں براہ راست مداخلت قرار دیا۔ قابل ذکر ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو مکمل طور پر جنوبی لبنان سے فوجی انخلا کرنا تھا جبکہ حزب اللہ کو جنوبی علاقے میں اپنے ہتھیار ختم کرنے اور دریائے لیتانی کے شمال میں منتقل ہونے کی شرط دی گئی تھی۔ اگرچہ اسرائیل نے جزوی انخلا مکمل کیا ہے مگر اب بھی وہ لبنان کے اندر پانچ مقامات پر اپنی افواج رکھے ہوئے ہے جنہیں وہ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل قرار دیتا ہے۔ یونفیل کے مطابق گزشتہ اکتوبر میں جاری لڑائی کے دوران اسرائیلی حملوں میں ان کے اہلکار یا چوکی کم از کم 20 مرتبہ نشانہ بنے تھے۔ اقوام متحدہ نے عالمی برادری کو یاد دہانی کرائی ہے کہ اقوام متحدہ کی تنصیبات کی حرمت کو ہر حال میں تسلیم کیا جانا چاہیے اور امن اہلکاروں کی حفاظت ہر فریق کی ذمہ داری ہے۔ مزید پڑھیں: نکبہ کی گونج: ماضی کی ہجرت، حال کے محاصرے میں قید زندگی
’امریکی پالیسی کا مرکزی نکتہ‘، ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے ساتھ کون سے معاہدے کیے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج جمعرات کو قطر میں امریکی فوجیوں سے خطاب کے بعد اپنا مختصر دورہ مکمل کر کے متحدہ عرب امارات روانہ ہو گئے۔ اس دورے کے دوران امریکی اور خلیجی ممالک کے درمیان کئی اہم تجارتی اور تکنیکی معاہدے طے پائے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات کو امید ہے کہ امریکا کی مدد سے وہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی سطح پر قائد بن سکے گا۔ رپورٹس کے مطابق، متحدہ عرب امارات نے ایک ابتدائی معاہدہ کیا ہے جو اسے امریکی کمپنی این ویڈیا کی جانب سے 500,000 جدید ترین AI چپس درآمد کررہا ہے۔ یہ عمل اس سال کے آخر سے شروع ہوگا۔ ان چپس کے حصول سے ملک میں جدید ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو فروغ ملے گا جو کہ AI ماڈلز کی تربیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم، امریکی ذرائع کے مطابق، اس معاہدے نے امریکا میں قومی سلامتی سے متعلق اداروں کو فکرمند کر دیا ہے، اور معاہدے کی شرائط میں تبدیلی کا امکان بھی موجود ہے۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ ٹرمپ کے چار روزہ خلیجی دورے میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے، جن میں قطر ایئرویز کے لیے 210 بوئنگ طیاروں کی خریداری، سعودی عرب کی طرف سے امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 142 ارب ڈالر کے امریکی ہتھیاروں کی فروخت کے معاہدے شامل ہیں۔ سفارتی سطح پر بھی اس دورے نے غیر معمولی سرگرمی پیدا کی۔ ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا اور شام کے عبوری صدر احمد الشارع سے ملاقات کی۔ یہ اقدام مشرق وسطیٰ کی سفارتی صورتحال میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جمعرات کو ٹرمپ نے قطر کے جنوب مغرب میں واقع العدید ایئر بیس پر امریکی فوجیوں سے خطاب کیا۔ یہ بیس مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی سب سے بڑی تنصیب ہے۔ اس کے بعد وہ ابوظہبی روانہ ہوئے جہاں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات ہوگی۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہونے والے AI چپ معاہدوں کی وجہ سے اس دورے کے آخری حصے میں مصنوعی ذہانت پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے AI چپس کی برآمدات پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں تاکہ یہ حساس ٹیکنالوجی چین جیسے ممالک تک نہ پہنچے، جو امریکہ کے سٹریٹجک خدشات میں شامل رہا ہے۔ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اپنی پالیسی کا مرکزی نکتہ قرار دیا ہے۔ اگر متحدہ عرب امارات میں مجوزہ چپ معاہدے مکمل ہو جاتے ہیں تو یہ خطہ امریکا اور چین کے بعد AI کے میدان میں تیسرا بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ واشنگٹن واپسی سے پہلے ٹرمپ نے ترکی کے مختصر دورے کا بھی امکان ظاہر کیا تھا تاکہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری مذاکرات میں شریک ہو سکیں، تاہم امریکی حکام نے تصدیق کی ہے کہ وہ وہاں نہیں جائیں گے۔
مذاکرات ہوں گے لیکن روسی اور امریکی صدر شامل نہیں ہوں گے، امریکا اور روس کا ’اشارہ‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ جمعرات کو ہونے والے ماسکو اور کیف کے درمیان پہلے براہ راست امن مذاکرات میں شرکت نہیں کریں گے۔ کریملن کی جانب سے ایک وفد روانہ کیا جا رہا ہے جس میں ٹیکنوکریٹس شامل ہوں گے۔ اس وفد میں صدارتی مشیر ولادیمیر میڈنسکی اور نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین شامل ہوں گے، لیکن خود پیوٹن شرکت نہیں کریں گے۔ پیوٹن نے اتوار کے دن ترکی کے شہر استنبول میں بغیر کسی پیشگی شرط کے براہ راست مذاکرات کی تجویز دی تھی، جو یوکرین کے ساتھ کئی سالوں میں پہلا موقع ہے۔ تاہم جب کریملن نے بدھ کی رات وفد کے اراکین کی فہرست جاری کی تو اس میں پیوٹن کا نام شامل نہیں تھا۔ یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟ اسی طرح امریکی حکام نے بھی واضح کیا کہ صدر ٹرمپ، جو مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں، مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گے، حالانکہ انہوں نے ماضی میں اس امکان پر غور کرنے کا ذکر کیا تھا۔ دونوں عالمی رہنماؤں کی غیر حاضری سے ان مذاکرات سے کسی بڑی پیش رفت کی امید کم ہو گئی ہے، حالانکہ یہ تنازعہ فروری 2022 سے جاری ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پیوٹن کو براہ راست مذاکرات میں شریک ہو کر اپنی امن کی خواہش ثابت کرنے کا چیلنج دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر روس واقعی امن چاہتا ہے تو پیوٹن کو خود مذاکرات میں آنا چاہیے۔ یوکرینی اہلکاروں نے ترکی روانگی سے پہلے واضح کیا کہ ان کی شرکت پیوٹن کی موجودگی سے مشروط ہے۔ بدھ کی رات ویڈیو خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین اپنے اگلے اقدامات کا فیصلہ پیوٹن کی شرکت سے متعلق معلومات کے بعد کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ماسکو کے پاس ہے، اس لیے امن کی بحالی کے لیے فیصلہ بھی وہیں سے آنا ہو گا۔ ان کے مطابق جنگ کا خاتمہ پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ نے تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک فوری طور پر 30 دن کی جنگ بندی پر دستخط کریں تاکہ یورپ میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی سب سے بڑی زمینی لڑائی کو روکا جا سکے۔ زیلنسکی نے اس جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کی ہے، تاہم پیوٹن نے کہا ہے کہ وہ پہلے مذاکرات میں ان نکات پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں جن میں جنگ بندی بھی شامل ہو۔ ایک روسی قانون ساز کے مطابق ممکنہ امن بات چیت میں جنگی قیدیوں کے تبادلے پر بھی غور ہو سکتا ہے، مگر جب تک فریقین کے رہنما براہ راست شامل نہیں ہوتے، کسی فوری اور بڑی پیش رفت کی امید نہیں کی جا رہی۔
نکبہ کی گونج: ماضی کی ہجرت، حال کے محاصرے میں قید زندگی

تصور کریں کہ آپ کے آباؤ اجدد کا گاؤں یعنی کہ وہ جگہ جہاں آپ کے خاندان نے صدیوں سے زندگی گزاری، ایک ہی رات میں نقشے سے غائب ہو جائے۔ زیتون کے درخت جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں، پرانی گلیوں پر نئی سڑکیں ڈال دی جائیں اور آپ کو صرف یادوں کے سہارے اپنا سب کچھ چھوڑ کر نکلنا پڑے۔ یہ المیہ 15 مئی 1948 کو فلسطینی عوام پر بیتا۔ مگر ‘نکبہ’ یعنی کہ تباہی صرف ایک دن کا واقعہ نہیں تھا۔ یہ ایک مسلسل اذیت ہے، جو آج بھی غزہ کی ملبے میں دبی زندگیوں اور مغربی کنارے کی دیواروں پر لکھی جا رہی ہے۔ 1917 سے پہلے فلسطین سلطنتِ عثمانیہ کا ایک کثیرالثقافتی صوبہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے 1922 کے مینڈیٹ کے تحت فلسطین کا کنٹرول سنبھالا۔ برطانیہ نے ایک طرف یہودیوں کے ‘قومی وطن’ کا وعدہ کیا، تو دوسری طرف عرب آبادی کے حقوق کی بھی ضمانت دی۔ مگر جب 1930 کی دہائی میں یہودی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا، تو یہ تضادات ٹکراؤ میں بدل گئے۔ نومبر 1947 میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں ایک یہودی اور ایک عرب میں تقسیم کرنے کی تجویز دی۔ منصوبے میں یہودی آبادی کے لیے 55 فیصد زمین مختص کی گئی، حالانکہ ان کی آبادی صرف ایک تہائی تھی۔ عربوں نے اس تقسیم کو غیرمنصفانہ قرار دے کر مسترد کر دیا، اور فوراً ہی ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ 14 مئی 1948 کو اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا۔ چند گھنٹوں کے اندر مصر، اردن، شام، لبنان اور عراق نے فوجی مداخلت کی اور مقامی خانہ جنگی مکمل جنگ میں بدل گئی۔ جنگ کے اختتام تک، 7 لاکھ سے زائد فلسطینی یعنی عرب آبادی کا تقریباً دو تہائی اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے تھے۔ دیری یاسین جیسے درجنوں قتل عام اور 400 سے 600 دیہات کا صفایا کیا گیا۔ ان دیہاتوں کے ساتھ صدیوں پرانی فلسطینی شناخت بھی مٹائی گئی۔ بے دخل فلسطینیوں نے غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، شام اور اردن میں کیمپ قائم کیے۔ آج اقوامِ متحدہ کی ریلیف ایجنسی (UNRWA) پانچ ملین سے زائد رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کو سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ ان میں سے اکثر ریاست سے محروم اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ عالمی امور بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان محمد ساجد نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نکبہ فلسطینی تاریخ کا کوئی بند باب نہیں، بلکہ ایک ایسا زندہ اور دردناک سلسلہ ہے جو آج بھی ہر فلسطینی کی زندگی کا حصہ ہے۔ 1948 میں فلسطینیوں کو صرف گھروں سے بے دخل نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں شناخت، زمین اور مستقبل سے بھی محروم کیا گیا۔ آج غزہ کی گلیوں میں ملبے تلے دبے لاشے، مغربی کنارے کی دیواروں کے سائے تلے قید نسلیں اور دنیا بھر کے کیمپوں میں پلنے والی بے ریاست نسلیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ نکبہ آج بھی جاری ہے۔ اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتیں اگر اس المیے کو صرف ‘تنازع’ سمجھتی ہیں، تو وہ فلسطینیوں کے وجود کے انکار میں برابر کی شریک ہیں۔ جب تک انصاف، واپسی کا حق اور آزادی کو تسلیم نہیں کیا جاتا، نکبہ صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک زندہ احتجاج رہے گا۔ 1948 کا یہ دکھ آج بھی دہرایاجا رہا ہے۔ اکتوبر 2023 سے جاری غزہ پر اسرائیلی بمباری میں اب تک 52,700 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جب کہ 19 لاکھ افراد یعنی غزہ کی 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ہر سال 15 مئی کو فلسطینی نکبہ ڈے مناتے ہیں، جلوس، ثقافتی تقریبات اور خاموشی کے لمحات کے ذریعے وہ دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ “قیامت” صرف ماضی نہیں، آج کی حقیقت بھی ہے۔ 2022 میں اقوامِ متحدہ نے قرارداد A/RES/77/23 منظور کی، جس میں نکبہ کی یادگاری کو تسلیم کیا گیا۔ 2025 میں اقوامِ متحدہ کی فلسطینی حقوق کمیٹی نے تاریخ میں پہلی بار نکبہ ڈے کی خصوصی نشست منعقد کی۔ 2025 کے اوائل میں اسرائیل نے مغربی کنارے میں 10,300 سے زائد نئے بستی یونٹس کی منظوری دی، جو کہ ایک سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ یہ تعمیرات فلسطینیوں کی مزید بے دخلی اور زمین کے قبضے کو تقویت دیتی ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو سینئر صحافی ایثار رانا نے بتایا کہ نکبہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سیاسی و استعماریت پر مبنی منصوبہ بند عمل تھا، جس کے ذریعے فلسطینیوں کی اجتماعی شناخت، زمین پر حق ملکیت اور قومی وجود کو ختم کیا گیا۔ یہ کوئی وقتی ہجرت نہیں تھی بلکہ یہ صدیوں پر محیط ایک مستقل منصوبہ بندی تھی، جس کا مقصد اسرائیلی ریاست کی توسیع اور فلسطینی ریاست کے امکان کا خاتمہ تھا۔ آج بھی جب ہم نئی بستیوں کی منظوری، غزہ کی ناکہ بندی اور واپسی کے حق سے انکار کو دیکھتے ہیں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ نکبہ کا دائرہ 1948 سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ عالمی طاقتیں اگر سنجیدہ امن چاہتی ہیں تو انہیں اس بنیادی تاریخی ناانصافی کو تسلیم کرنا ہوگا۔ بغیر سچ کو تسلیم کیے، کسی امن معاہدے کی بنیاد کھوکھلی رہے گی۔ جاری جنگ کے دوران پانچ لاکھ فلسطینی قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مندوب نے ان اسرائیلی منصوبوں کی مذمت کی ہے، جن کے تحت غزہ کے مزید باسیوں کو جنوب کی طرف ہجرت پر مجبور کیا جا رہا ہے، یہ سب 1948 کے المیے کی گونج ہے۔ پناہ گزینوں کی ‘واپسی کا حق’ فلسطینیوں کا بنیادی مطالبہ ہے، جو ہر امن مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے کیونکہ اس سے آبادیاتی توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ یوں نکبہ کا زخم آج بھی ہر امن کوشش کو متاثر کر رہا ہے۔ نکبہ صرف ایک دن نہیں، ایک مسلسل المیہ ہے، جو آج بھی جاری ہے۔ 15 مئی کو دنیا بھر کے فلسطینی اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ ان کی جلاوطنی محض ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ یہ دن عالمی برادری سے سوال کرتا ہےکہ کیا محض یاد رکھنا کافی ہے؟ یا اب وقت ہے کہ
پاکستان-انڈیا کشیدگی: چین کی دفاعی قربت پر امریکا اور مغرب بے چین کیوں؟

جنوبی ایشیا میں کشیدگی ایک بار پھر عروج پر ہے، پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی نے خطے میں طاقت کے توازن پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ایک اعلیٰ سکیورٹی ذرائع نے اس لڑائی میں پاکستان اور انڈیا کے 100 سے زائد لڑاکا طیارے شریک ہونے کی خبر دیتے ہوئے یہ خبر دیتے ہوئے اسے جدید فضائی جنگ کی تاریخ کی سب سے طویل اور شدید لڑائی قرار دیا۔ واضح رہے کہ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے طیارے اپنی اپنی فضائی حدود کے اندر موجود رہے، لڑاکا طیاروں کی تعداد، رفتار اور تیاری نے واضح طور پر جنگی ماحول پیدا کر دیا۔ اس کشیدگی میں پاکستان نے جدید، تیز رفتار اور انتہائی مؤثر چینی ساختہ جے-10 سی لڑاکا طیارے استعمال کیے، ان طیاروں نے پی ایل-15 ای میزائل فائر کیے، جن کی حد مار 250 کلومیٹر تک ہے اور یہ نظروں سے اوجھل اہداف کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی فضائیہ کے مطابق ان میزائلوں کی موجودگی نے پاکستان کو فضائی برتری دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان نے اس آپریشن میں چین کے تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر طیارے، سی ایچ-4 ڈرونز اور ایچ کیو-9 و ایچ کیو-16 فضائی دفاعی نظام بھی استعمال کیے۔ یہ ڈرونز 40 گھنٹے تک مسلسل پرواز کر سکتے ہیں اور زمین و سمندر پر حملوں کی صلاحیت رکھتے ہیں، جب کہ میزائل دفاعی نظام نہ صرف لڑاکا طیاروں بلکہ بیلسٹک اور کروز میزائلز کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں امریکہ پاکستان کا بڑا اسلحہ فراہم کنندہ تھا، مگر اب بیجنگ اور اسلام آباد کی بڑھتی ہوئی دفاعی قربت کو واشنگٹن میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا ماضی میں روسی ہتھیاروں پر انحصار کرتا تھا، مگراب تیزی سے امریکہ، فرانس اور اسرائیل کی طرف جھک رہا ہے۔ نئی دہلی نے رافال طیارے حاصل کیے اور اب امریکہ سے جدید ڈرونز اور میزائل دفاعی نظام خریدنے کے معاہدے بھی زیر غور ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت کشمیر بدستور ایک خطرناک تنازع کا مرکز ہے، جہاں پاکستان، انڈیا اور چین، تینوں ایٹمی طاقتیں بیک وقت مفادات رکھتی ہیں۔