نیویارک: بحری جہاز پُل سے ٹکرا گیا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا

نیویارک سٹی میکسیکن بحریہ کا تربیتی جہاز بروکلین برج سے ٹکرا گیا۔ نیویارک کے میئر ایرک ایڈمز کے مطابق، جہاز کے اونچے مستول پل سے ٹکرا گئے، جس کے نتیجے میں ان کے اوپری حصے کٹ گئے اور کم از کم 19 افراد زخمی ہو گئے، جن میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب جہاز مشرقی دریا کے راستے بروکلین برج کے نیچے سے گزرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جہاز کے مستول 147 فٹ بلند تھے، جو پل کی اونچائی سے زیادہ نکلے اور یوں یہ ٹکراؤ پیش آیا۔ حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں نیول کیڈٹس کو سفید وردیوں میں جہاز کی رکاوٹوں سے لٹکتے اور راہگیروں کو خوفزدہ ہو کر بھاگتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صرف تین مہینوں میں فیملی عدالتوں کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ، معاشرتی شعور یا بڑھتے مسائل؟ میکسیکو کی بحریہ نے بتایا کہ جہاز پر 277 افراد سوار تھے اور حادثے میں 22 زخمی ہوئے، جن میں سے 19 کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔ خوش قسمتی سے کوئی بھی شخص دریا میں نہیں گرا، اس لیے ریسکیو آپریشن کی ضرورت نہیں پڑی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ حادثے کی ممکنہ وجہ مکینیکل خرابی ہو سکتی ہے، تاہم اس پر ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ نیویارک شہر کے محکمۂ ٹرانسپورٹ کے مطابق، پل کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا اور ابتدائی معائنے کے بعد ٹریفک دونوں اطراف بحال کر دی گئی ہے۔ تربیتی جہاز، جو 1981 میں اسپین کے بلباؤ شہر میں تیار کیا گیا تھا، نیویارک کے ساؤتھ اسٹریٹ سی پورٹ میوزیم کے ساتھ مشترکہ طور پر شہر کے دورے پر آیا تھا۔ عوام کو اس دوران جہاز کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی، اور اس کا دورہ ہفتے کی شام کو مکمل ہونا تھا۔ حادثے کے بعد یہ جہاز نیویارک سے روانہ ہو کر آئس لینڈ کی جانب جا رہا تھا۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے بیان دیا کہ امریکا میں تعینات میکسیکن سفیر اور دیگر حکام زخمی کیڈٹس کی مدد کر رہے ہیں اور امریکی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
’امن مذاکرات ناکام‘، امریکی صدر خود جنگ بندی کے لیے روس اور یوکرین کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ پیر کے روز روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے الگ الگ بات چیت کریں گے۔ یہ اعلان ایسے وقت میں آیا ہے جب روس اور یوکرین کے درمیان ترکی میں ہونے والی براہِ راست ملاقات کے بعد بھی جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ یوکرین کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق، مذاکرات میں روسی وفد نے جنگ بندی سے پہلے یوکرین سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام علاقوں سے اپنی فوجیں واپس بلائے جن پر روس نے قبضے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ اس مطالبے نے جنگ بندی کے امکانات کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صرف تین مہینوں میں فیملی عدالتوں کے کیسز میں ریکارڈ اضافہ، معاشرتی شعور یا بڑھتے مسائل؟ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ صدر پیوٹن اور ٹرمپ کے درمیان بات چیت کی تیاری جاری ہے۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ وہ پیر کو صبح 10 بجے پیوٹن سے کال پر بات کریں گے، جس میں جنگ بندی اور تجارت جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ کو روکنا ترجیح ہے، کیونکہ اس میں ہر ہفتے اوسطاً 5000 سے زائد روسی اور یوکرینی فوجی ہلاک ہو رہے ہیں۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ اس کے بعد زیلنسکی اور نیٹو کے کئی رہنماؤں سے بھی بات کریں گے۔ ان کے مطابق، یہ دن “نتیجہ خیز” ثابت ہو سکتا ہے، اور امید ہے کہ اس جنگ کا اختتام ہو جو کبھی شروع ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے پیشکش کی تھی کہ اگر پیوٹن بھی شریک ہوں تو وہ امن مذاکرات کے لیے ترکی کا دورہ کر سکتے ہیں، لیکن روس کی جانب سے صرف مذاکرات کار بھیجے گئے۔ کریملن نے جمعے کے اجلاس میں پیش کیے گئے مطالبات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، جبکہ مذاکرات صرف ایک گھنٹہ 40 منٹ جاری رہے۔ اس دوران ایک معاہدہ ہوا کہ دونوں ممالک 1000 جنگی قیدیوں کا تبادلہ کریں گے، تاہم اس پر عملدرآمد کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ دوسری جانب زیلنسکی نے روسی ڈرون حملے میں نو شہریوں کی ہلاکت کے بعد ماسکو پر مزید سخت پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے، اور اس واقعے کو شہریوں کا دانستہ قتل قرار دیا ہے۔
سستا، کارآمد اور کثیرالمقاصد: جے ایف-17 تھنڈر عالمی منڈی میں اپنی جگہ کیسے بنا رہا ہے؟

یورپی اور امریکی اسلحہ ساز اداروں کے مقابلے میں پاکستان کا تیار کردہ جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ، پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے ہی دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ کیا آئندہ افریقہ، ایشیا یا قفقاز میں کوئی جنگ پاکستان کے بنائے گئے طیارے کے ساتھ لڑی جائے گی؟ یہ سوال اب محض قیاس آرائی نہیں رہا بلکہ ایک سنجیدہ تزویراتی امکان بن چکا ہے۔ نائجیریا، میانمار اور آذربائیجان جیسے ممالک پہلے ہی جے ایف-17 کو اپنے بیڑے میں شامل کر چکے ہیں، جب کہ بنگلہ دیش، مصر، ارجنٹائن اور بولیویا جیسے ممالک اس کی خریداری کے امکانات کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ 2016 میں نائجیریا نے تین جے ایف-17 طیاروں کا آرڈر دیا، جو مارچ 2021 میں 184.3 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت فراہم کیے گئے۔ ان طیاروں کو انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کی کارکردگی توقعات پر پوری اتری تو نائجیریا مزید 40 طیاروں کا آرڈر بھی دے سکتا ہے۔ نجی آئی ٹی کمپنی ‘کوڈنگ فرسٹ’ کے سی ای او محمد سکندر حیات ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ جے ایف-17 کی عالمی مانگ پاکستان کے لیے دفاعی سفارت کاری کو مضبوط کرنے کا سنہری موقع ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ خطے میں انڈیا یا دیگر حریف ممالک کے خدشات کو بڑھا کر کشیدگی میں اضافہ بھی کر سکتا ہے، اس لیے توازن اور احتیاط ضروری ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے انسٹرکٹرز کے ساتھ نائجیریا کے پائلٹ اور ٹیکنیشنز کی مشترکہ تربیت اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جے ایف-17 ایک کم لاگت، آسانی سے قابلِ استعمال اور مؤثر جنگی پلیٹ فارم ہے۔ میانمار نے جولائی 2015 میں 560 ملین ڈالر میں 16 جے ایف-17 بلاک-2 طیاروں کا آرڈر دیا۔ پہلا بیچ 2018 کے آخر میں میانمار پہنچا۔ اگرچہ حالیہ رپورٹس میں تکنیکی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم میانمار اب بھی اس طیارے کی کم لاگت اور کثیر المقاصد صلاحیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ستمبر 2024 میں آذربائیجان نے 1.6 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت 14 جے ایف-17 بلاک-3 طیارے، تربیت اور سپورٹ سسٹمز کے ساتھ حاصل کیے۔ قفقاز کے اس متنازعہ خطے میں یہ معاہدہ جے ایف-17 کی تزویراتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان یا پھر انڈیا، ففتھ جنریشن طیارہ پہلے کون لائے گا؟ جنوری 2025 میں بنگلہ دیش کا ایک اعلیٰ سطحی عسکری وفد اسلام آباد پہنچا۔ اطلاعات ہیں کہ بنگلہ دیش 32 جے ایف-17 طیارے خریدنے پر غور کر رہا ہے تاکہ اپنی فضائیہ کو جدید بنایا جا سکے۔ اس پیش رفت نے دہلی کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کا چین اور پاکستان کی طرف اسٹریٹیجک جھکاؤ ظاہر ہوتا ہے۔ سکندر حیات کا کہنا ہے کہ جے ایف-17 کی کامیابی بنیادی طور پر اس کی کم قیمت، آسان دیکھ بھال اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی پیشکش پر مبنی ہے، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے پرکشش ہے۔ تاہم، F-16، رافال اور گرِپن جیسے مغربی طیارے اب بھی ٹیکنالوجی، رینج اور سینسرز کے لحاظ سے برتری رکھتے ہیں۔ جے ایف-17 ایک متبادل ضرور ہے، مگر ابھی اسے مکمل طور پر مغربی طیاروں کا ہم پلہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس معاہدے میں ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور لوکل اسمبلنگ کی شقیں بھی شامل ہو سکتی ہیں، جو بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گی۔ ارجنٹائن ایک عرصے سے اپنے پرانے میرَاج طیاروں کی جگہ نئے لڑاکا طیاروں کی تلاش میں ہے۔ جے ایف-17 بلاک-3، انڈین تیجس Mk-2 اور استعمال شدہ F-16s اس کی فہرست میں شامل تھے۔ بالآخر ارجنٹائن نے ڈنمارک سے F-16s حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، مگر جے ایف-17 اب بھی مستقبل کے اپ گریڈ پلانز میں ایک اہم امیدوار ہے۔ 2015 میں مصر کے عسکری وفود نے پاکستان کی جے ایف-17 پیداواری لائنوں کا دورہ کیا۔ قیمت کے اعتبار سے یہ طیارہ مصر کے لیے موزوں تھا، مگر بجٹ اور جیوپالیٹیکل وجوہات کی وجہ سے معاہدہ التواء کا شکار رہا۔ بولیویا بھی بلاک-3 طیاروں میں دلچسپی رکھتا ہے تاکہ اپنے پہاڑی اور جنگلاتی علاقوں کی فضائی نگرانی مؤثر انداز میں کر سکے۔ تاہم ابھی تک مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان عوامی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش، ارجنٹائن یا بولیویا جیسے ممالک کے ساتھ جے ایف-17 کے معاہدے پاکستان کی دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافہ لا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں! اگر یہ معاہدے حتمی شکل اختیار کرتے ہیں تو یہ پاکستان کے لیے دفاعی برآمدات میں پائیدار اضافے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر بنگلہ دیش جیسے قریبی اور اہم ملک کے ساتھ معاہدہ نہ صرف مالی فوائد دے گا بلکہ پاکستان کی دفاعی صنعت کے لیے اعتماد کا اظہار بھی ہوگا۔ طویل مدتی پائیداری کا انحصار معیار، بعد از فروخت سروس اور جیوپولیٹیکل حالات پر ہوگا۔ پیرو نے بھی خطے میں سویڈن کے گرِپن طیاروں کی فروخت کے بعد جے ایف-17 کو ایک متبادل کے طور پر زیر غور لایا۔ عراق اور میکسیکو جیسے ممالک بھی غیر رسمی طور پر جے ایف-17 میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے مسابقتی پیشکشیں صورتحال کو پیچیدہ بناتی ہیں۔ جہاں مغربی 4.5 جنریشن طیارے 80 سے 100 ملین ڈالر فی یونٹ کی لاگت رکھتے ہیں، وہیں جے ایف-17 کی قیمت 25 سے 30 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ اس کے کم ایندھن خرچ، سادہ الیکٹرانکس اور مقامی مرمت کے قابل ڈیزائن کی وجہ سے اس کے آپریشنل اخراجات 30 سے 40 فیصد کم ہیں۔ یہ طیارہ فضائی لڑائی، زمینی حملے، اینٹی شپ مشن، ریکانیسنس اور دیگر کئی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک اسے ایک “jack-of-all-trades” پلیٹ فارم سمجھتے ہیں جو ان کی دفاعی ضروریات کو بآسانی پورا کر سکتا ہے۔ ضرور پڑھیں: انڈین ٹریول وی لاگر جیوتی ملہوترا پاکستان کے
شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان

سابق وزیر خارجہ و پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ان سے رابطہ کر کے انہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد کی قیادت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کی اور کہا کہ انہیں وزیراعظم کی جانب سے پاکستان کے لیے امن کا مقدمہ عالمی فورمز پر پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ بلاول نے ایکس پر لکھا کہ”آج وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مجھ سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے پاکستان کے امن کے مؤقف کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے لیے وفد کی قیادت کرنے کی درخواست کی۔ یہ ذمہ داری قبول کرنا میرے لیے باعثِ فخر ہے اور میں ان مشکل حالات میں پاکستان کی خدمت کے لیے پُرعزم ہوں۔ پاکستان زندہ باد” I was contacted earlier today by Prime Minister @CMShehbaz, who requested that I lead a delegation to present Pakistan’s case for peace on the international stage. I am honoured to accept this responsibility and remain committed to serving Pakistan in these challenging times.… — BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) May 17, 2025 واضح رہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب خطے اور دنیا میں سیکیورٹی اور جغرافیائی سیاسی صورتحال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے اور پاکستان سفارتی محاذ پر فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ خیال رہے کہ تاحال حکومتِ پاکستان کی جانب سے اس بارے میں باقاعدہ کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا، نہ ہی وفد کے دیگر ارکان کے نام سامنے آئے ہیں اور ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ یہ وفد کب اور کن ممالک کا دورہ کرے گا، تاہم وزارتِ خارجہ اور وزیرِاعظم آفس کی جانب سے جلد اس حوالے سے مزید تفصیلات جاری کیے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور جنگ بندی کے بعد انڈین حکومت نے اپنے ارکان پارلیمنٹ کا وفد مختلف ممالک بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے سینیئر رہنما ششی تھرور نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ’انڈین حکومت کی جانب سے پانچ اہم دارالحکومتوں میں آل پارٹی وفد کی قیادت کے لیے دعوت ملنے کا مجھے اعزاز حاصل ہوا ہے۔ جب قومی مفاد کی بات ہو اور میری خدمات درکار ہوں، تو میں کبھی پیچھے نہیں رہوں گا۔‘ I am honoured by the invitation of the government of India to lead an all-party delegation to five key capitals, to present our nation’s point of view on recent events. When national interest is involved, and my services are required, I will not be found wanting. Jai Hind! 🇮🇳 pic.twitter.com/b4Qjd12cN9 — Shashi Tharoor (@ShashiTharoor) May 17, 2025 انڈین پارلیمنٹ کے ارکان مختلف ممالک میں جاکر جنوبی ایشیا کی صورت حال کے تناظر میں اپنے ملک کی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے پریس انفارمیشن بیورو( پی آئی بی) دہلی کی جانب سے جاری کیا گیا ایک سرکاری اعلامیے کی تصویر بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر کی تھی۔ اعلامیے کے مطابق ’آپریشن سندور اور سرحد پار دہشت گردی کے خلاف انڈیا کی جاری جنگ کے پس منظر میں، سات جماعتی وفد رواں ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان سمیت دیگر اہم شراکت دار ممالک کا دورہ کرے گا۔