وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا چینی ہم منصب کی دعوت پر بیجنگ کا تین روزہ دورہ، ’علاقائی صورتحال‘ پر بات ہوگی

نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار تین روزہ سرکاری دورے پر چین روانہ ہو گئے ہیں۔ یہ دورہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی کی دعوت پر ہو رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد انڈیا نے بغیر ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا۔ اس کے بعد بھارت کے فضائی حملوں میں پنجاب اور آزاد کشمیر میں شہری جاں بحق ہوئے، جس پر پاکستان نے پانچ انڈین طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ ڈرونز اور ایئر بیسز پر حملوں کے بعد 10 مئی کو امریکی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی، مگر انڈیا کا جارحانہ رویہ اب بھی برقرار ہے جبکہ پاکستان نے بات چیت کی پیشکش کرتے ہوئے مزید کشیدگی بڑھانے سے روکا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے 19 سے 22 مئی کے اس دورے کے دوران، وزیر خارجہ اسحاق ڈار چینی وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے۔ دونوں رہنما جنوبی ایشیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور اس کے امن و استحکام پر اثرات کا گہرائی سے جائزہ لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاک چین تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کریں گے اور علاقائی و عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔ چین کے اس دورے کو پاکستان اور چین کے درمیان جاری اعلیٰ سطحی سفارتی رابطوں کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور مضبوط تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس موقع پر افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی بیجنگ میں موجود ہوں گے۔ جس کے بعد تینوں ممالک پاکستان، چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کی سہ فریقی ملاقات ہو گی تاکہ خطے کے امن و سلامتی پر مشترکہ حکمت عملی پر بات ہو سکے۔ اسحاق ڈار نے روانگی سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کا اہم تجارتی شراکت دار ہے اور دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں ان کی چینی وزیر خارجہ سے دو بار فون پر بات ہوئی اور انہیں یہ دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ دورے کے دوران وہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی، خطے کی سیاسی صورتحال، اور عالمی حالات پر چینی قیادت سے تفصیلی گفتگو کریں گے۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ وہ دنیا کے مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے ان رابطوں میں انڈیا کی طرف سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات کو بے نقاب کیا ہے، جن میں پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملے کا الزام بھی شامل ہے۔ چینی حکومت نے بھی حالیہ دنوں میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے دوران انڈیا کے ساتھ کشیدہ صورتحال کے دوران پاکستان کی حمایت جاری رکھنے کا کہا ہے۔ چین نے پاکستان کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کے ذریعے، جنہیں پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے۔
’یہ بہت زیادہ خطرناک ہے‘، سابق امریکی صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص

امریکا کے سابق صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر تشخیص ہوئی ہے، جو ان کی ہڈیوں تک پھیل چکا ہے۔ میڈیکل رپورٹس کے مطابق پروسٹیٹ کینسر ’جارحانہ‘ سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یہ بات ان کے دفتر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہی گئی ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق، 82 سالہ بائیڈن کو پیشاب سے متعلق کچھ علامات ظاہر ہونے پر جمعے کے روز ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا، جہاں ابتدائی معائنے اور ٹیسٹوں کے بعد کینسر کی تصدیق ہوئی۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے بائیڈن کے دفتر کے مطابق، یہ کینسر ہارمون سے حساس ہے، جس کا مطلب ہے کہ جدید طبی طریقوں کے ذریعے اس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت سابق صدر اور ان کے اہل خانہ مختلف علاج کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس خبر پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے بائیڈن اور ان کی اہلیہ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ میلانیا اس خبر سے افسردہ ہیں اور بائیڈن کی جلد صحتیابی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ماہر یورولوجی ڈاکٹر ہربرٹ لیپور کے مطابق، جو بائیڈن کا گلیسن سکور 10 میں سے 9 ہے، جو کہ پروسٹیٹ کینسر کی شدت اور جارحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک “بہت زیادہ خطرناک” درجہ ہے، لیکن اس کے باوجود کئی مریض میٹاسٹیٹک پروسٹیٹ کینسر کے ساتھ پانچ سے دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر لیپور نے مزید کہا کہ گزشتہ دہائی میں اس کینسر کے علاج میں نمایاں بہتری آئی ہے، جس سے مریضوں کی زندگی کے معیار اور دورانیے میں اضافہ ممکن ہوا ہے۔ اس وقت دنیا بھر سے جو بائیڈن کے لیے ہمدردی اور دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے۔
چین کے جنوبی صوبوں میں شدید بارشیں، پانچ افراد ہلاک ہوگئے

چین کے جنوبی صوبوں گوانگ ڈونگ اور گوانگسی میں شدید بارشوں کے باعث پانچ افراد ہلاک اور کئی لاپتہ ہو گئے ہیں۔ حکام نے ملک کے جنوبی حصے میں موسلا دھار بارش، پہاڑی سیلاب اور زمینی تودے گرنے جیسے خطرات کے پیشِ نظر ہنگامی الرٹ جاری کر رکھا ہے۔ قومی موسمیاتی مرکز نے خبردار کیا ہے کہ اتوار سے پیر کے دوران جیانگ شی، ژی جیانگ، فوجیان، گوانگسی، گوانگ ڈونگ اور شمال مغربی سنکیانگ کے کچھ علاقوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان میں سے ژی جیانگ، فوجیان، گوانگ ڈونگ اور گوانگسی کے کچھ حصوں میں پیلے رنگ کا وارننگ الرٹ جاری کیا گیا ہے، جو پہاڑی علاقوں میں اچانک آنے والے سیلاب کے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے چین میں موسمی خطرات کا چار سطحی نظام ہے، سرخ سب سے زیادہ سنگین، اس کے بعد نارنجی، پھر پیلا اور آخر میں نیلا۔ اس وقت پیلا الرٹ جاری کیا گیا ہے، جو درمیانے درجے کے خطرے کو ظاہر کرتا ہے۔ موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2024 چین کے لیے ریکارڈ شدہ تاریخ میں سب سے گرم سال رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا، جس کے ساتھ تیز آندھیاں اور شدید بارشیں بھی آئیں۔ ان موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بجلی کے استعمال میں بھی نمایاں اضافہ ہوا، جو صنعتی پیداوار اور روزمرہ زندگی پر اثرانداز ہوا۔ سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق پیر سے منگل کے درمیان ملک کے انتہائی مغربی علاقے، جیسے تیان شان پہاڑوں کے قریب سنکیانگ، بھی شدید بارشوں کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ موجودہ موسمی حالات نے نہ صرف مقامی آبادی کی نقل و حرکت کو متاثر کیا ہے بلکہ زرعی زمینوں، رہائشی علاقوں اور بنیادی ڈھانچے کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حکام نے ہنگامی ٹیموں کو متحرک کر دیا ہے اور لوگوں کو نشیبی علاقوں سے محفوظ مقامات کی جانب منتقل کرنے کا عمل جاری ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ کی سربراہی، انڈیا کا ایشین کرکٹ کونسل سے علیحدگی کا اعلان

انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) نے ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے تمام ایونٹس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت انڈیا ویمنز ایمرجنگ ٹیمز ایشیا کپ میں شرکت نہیں کرے گا، جو آئندہ ماہ سری لنکا میں شیڈول ہے، اور ساتھ ہی وہ ستمبر میں ہونے والے مینز ایشیا کپ میں بھی شامل نہیں ہوگا۔ رپورٹس کے مطابق بی سی سی آئی نے اے سی سی کو مطلع کر دیا ہے کہ انڈین ٹیم ان ایونٹس میں حصہ نہیں لے گی، کیونکہ اس وقت اے سی سی کی سربراہی پاکستان کے وزیر داخلہ کر رہے ہیں جو بیک وقت پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین بھی ہیں۔ انڈین بورڈ کا مؤقف ہے کہ وہ ایسے ٹورنامنٹ میں نہیں کھیل سکتا جس کی نگرانی ایک پاکستانی وفاقی وزیر کرے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے انڈین میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے کہا کہ بی سی سی آئی کی یہ پالیسی پاکستان کرکٹ کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک قومی جذبے کا اظہار ہے، اور اس پالیسی کے تحت بی سی سی آئی حکومت سے مسلسل مشاورت میں ہے۔ اس پیش رفت سے ستمبر میں انڈیا میں ہونے والے مینز ایشیا کپ پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں، کیونکہ ٹورنامنٹ میں انڈیا کی غیر موجودگی اس کے مستقبل کو غیر یقینی بنا سکتی ہے۔ ایشیا کپ میں روایتی طور پر انڈیا، پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اگر انڈیا اس میں شریک نہ ہوا تو براڈکاسٹرز اور سپانسرز کی دلچسپی بھی کم ہو جائے گی کیونکہ ایشیا کپ کی سب سے بڑی توجہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہائی وولٹیج میچ ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں شائقین کو متوجہ کرتا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایشیا کپ جیسے ایونٹس کا بڑا حصہ انڈین مارکیٹ اور سپانسرشپ پر انحصار کرتا ہے، اور بی سی سی آئی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔ لہٰذا، اس کے بغیر ایشیا کپ کا انعقاد تجارتی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں کہ بی سی سی آئی کا یہ فیصلہ مستقل ہے یا وقتی طور پر سیاسی حالات کے تحت لیا گیا ہے، تاہم اس کے خطے کی کرکٹ سیاست اور اے سی سی کی خود مختاری پر دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ٹیلی پورٹیشن: بغیر جسمانی سفر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ کیسے جا سکتے ہیں؟

صدیوں سے انسان نے وقت اور فاصلے پر قابو پانے کے خواب دیکھے ہیں۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی گئی، بہت سے ایسے تصورات ابھرتے گئے جو کبھی صرف افسانوی کہانیوں یا فلموں میں ممکن سمجھے جاتے تھے۔ انہی حیران کن تصورات میں ایک ہے ٹیلی پورٹیشن، یعنی کسی شے یا انسان کو ایک مقام سے اچانک دوسرے مقام پر منتقل کر دینا، وہ بھی بغیر کسی جسمانی سفر کے۔ ٹیلی پورٹیشن کا تصور ہمیں نہ صرف سائنسی دنیا میں ملتا ہے بلکہ یہ قدیم فلسفوں، مذہبی عقائد اور سائنسی افسانوں میں بھی اپنی جگہ رکھتا ہے۔ آج کے دور میں، جہاں کوانٹم فزکس نے مادے کی فطرت کے کئی راز فاش کیے ہیں، وہاں ٹیلی پورٹیشن ایک سنجیدہ سائنسی تحقیق کا موضوع بھی بن چکا ہے۔
مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی

انڈین حکومت ایک جانب دوسرے ملکوں کو اپنا موقف بتانے کے لیے بھاری خراج پر پارلیمانی وفود بھیج رہی ہے جب کہ دوسری جانب اپنے اوورسیز شہریوں کی شہریت مودی پر تنقید کی پاداش میں کینسل کر رہی ہے۔اس سلسلے کا تازہ شکار برطانیہ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کی پروفیسر نتاشا کول بنی ہیں۔ انہوں نے 18 مئی کو سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر لکھا کہ آج جب میں گھر پہنچی تو مجھے اپنی اوورسیز سٹیزن شپ آف انڈیا کی منسوخی کا نوٹس ملا۔ یہ ایک انتقامی اور غیر منصفانہ قدم ہے جو انڈیا میں مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف اور جمہوریت دشمن پالیسیوں کا حصہ ہے۔ مجھے یہ سزا اس لیے دی گئی ہے کیونکہ میں نے ان پالیسیوں پر تحقیق اور علمی کام کیا ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انڈیا میں نفرت کے خلاف بولنے پر ماہرینِ تعلیم کو گرفتار کرنا صرف ایک داخلی دباؤ نہیں، بلکہ یہ ان غیرملکی ماہرین تعلیم کے لیے بھی ایک سخت پیغام ہے جن کی جڑیں انڈیا سے جڑی ہوئی ہیں، ان کے لیے ملک اور خاندان تک رسائی محدود یا ختم کرنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے اصل مقصد ایک واضح پیغام دینا ہے ہمیں اندر سے چیلنج کرنے کی ہمت نہ کرو، اور نہ ہی بیرونی دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کرو کہ یہاں درپردہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ایک قسم کی دھمکی ہے، جو تجزیے، سوال، اور اختلافِ رائے کو جرم بنانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے پہلے بھی اسی سال 24 فروری کو لکھا کہ مجھے صرف جمہوری اور آئینی اقدار پر بات کرنے کی پاداش میں انڈیا میں داخلے سے روک دیا گیا۔ مجھے کرناٹک کی حکومت، جو کانگریس کے زیرِ انتظام ہے، نے ایک کانفرنس میں معزز مندوب کے طور پر مدعو کیا تھا، لیکن انڈیا کی مرکزی حکومت نے مجھے ملک میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔ میری تمام دستاویزات بالکل درست اور کارآمد تھیں، برطانیہ کا پاسپورٹ اور او سی آئی کارڈ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پروفیسر علی خان محمود آباد، جو اشوکا یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، کو “آپریشن سندور” سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ کارروائی بی جے پی یووا مورچہ کے ایک رہنما کی شکایت پر ہوئی۔ علی خان کا کہنا ہے کہ ان کی پوسٹس بدسلوکی پر مبنی نہیں تھیں بلکہ ان پر ناحق سنسرشپ کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق انہیں دہلی سے حراست میں لیا گیا ہے۔ اشوکا یونیورسٹی نے تصدیق کی ہے کہ وہ پولیس سے رابطے میں ہے اور مکمل تعاون کر رہی ہے۔ یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب ہریانہ کی خواتین کمیشن نے ان کے ریمارکس کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی باتوں سے خواتین افسران کی توہین ہوئی اور فرقہ وارانہ جذبات کو ہوا ملی۔ اپنے سوشل میڈیا بیان میں علی خان نے کہا کہ ان کے ریمارکس کو غلط سمجھا گیا ہے اور خواتین کمیشن کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی بطور نمائندہ خواتین افسران تقرری قابلِ تعریف ہے، اور ان کی نیت کسی بھی طور پر توہین یا نفرت پھیلانے کی نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہوں نے ان دائیں بازو کے افراد کی بھی تعریف کی جنہوں نے خواتین افسران کی حمایت کی، اور انہیں دعوت دی کہ وہ عام مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا رویہ اپنائیں جنہیں روزانہ کی بنیاد پر تعصب اور ظلم کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ان کے تمام تبصرے شہریوں اور فوجی اہلکاروں کی جانوں کے تحفظ کے بارے میں تھے، نہ کہ کسی کے خلاف۔
انڈین شہر حیدرآباد میں شدید آگ، چھ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوگئے

انڈیا کے شہر حیدرآباد میں اتوار کے روز آگ لگنے سے کم از کم 17 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ تاریخی چارمینار کے قریب اس وقت پیش آیا جب ایک تین منزلہ عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر زیورات کی دکان تھی جبکہ اوپر کی منزلیں رہائش کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ حادثے کے وقت عمارت میں 21 افراد موجود تھے۔ تلنگانہ فائر سروسز کے ڈائریکٹر جنرل وائی ناگی ریڈی کے مطابق آگ صبح کے وقت شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔ عمارت کی سیڑھیاں تنگ تھیں اور صرف ایک ہی باہر نکلنے کا راستہ تھا جو آگ سے بند ہو گیا، جس کی وجہ سے لوگ باہر نہ نکل سکے۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان کئی افراد بے ہوش ہو گئے جنہیں فوری طور پر مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا لیکن 17 افراد جانبر نہ ہو سکے۔ مرنے والوں میں چھ بچے بھی شامل تھے جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں۔ وفاقی وزیر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما جی کشن ریڈی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور میڈیا کو بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آگ کی وجہ شارٹ سرکٹ تھی۔ جائے حادثہ پر تقریباً ایک درجن فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے میں مصروف رہیں اور بعد ازاں آگ پر قابو پا لیا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سانحے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا۔ انہوں نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ اس جانی نقصان پر بے حد غم زدہ ہیں۔ انڈیا میں اس قسم کے حادثات معمول بن چکے ہیں جہاں اکثر عمارتوں میں حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ عمارت کے ضابطے اور فائر سیفٹی کے قوانین پر عمل نہ ہونے کے باعث چھوٹے مسائل بھی بڑے سانحے میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ حکام نے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے تاکہ ذمے داروں کا تعین کیا جا سکے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔
زمینی آپریشن کا دائرہ کار وسیع کرنے کے بعد امداد کا اعلان کریں گے، اسرائیل

اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی بحران کو کم کرنے کے لیے اپنی ناکہ بندی میں جزوی نرمی کرتے ہوئے محدود مقدار میں خوراک فراہم کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ اعلان وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے اُس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی فوج نے غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں زمینی آپریشن کا دائرہ وسیع کرنے کا اعلان کیا۔ مارچ میں اسرائیل کی جانب سے لگائی گئی امدادی پابندیوں کے باعث غزہ میں قحط کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا، اور عالمی برادری کی جانب سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ اسرائیل انسانیت کی بنیاد پر امداد بحال کرے۔ فلسطینی صحت حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملوں میں سینکڑوں فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن میں صرف ایک رات میں 130 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی درخواست پر بلاول بھٹو کا عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کرنے کا اعلان نیتن یاہو کے دفتر کے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی دفاعی افواج کی سفارش پر، “حماس کو شکست دینے کے لیے جاری شدید لڑائی کی ضرورت” کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسرائیل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں بنیادی خوراک کی ترسیل کی اجازت دے گا تاکہ قحط کی صورتِ حال سے بچا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے امدادی امور کے سربراہ ٹام فلیچر کے ترجمان ایری کانیکو نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حکام نے اقوام متحدہ سے محدود انسانی امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “زمین پر موجود صورتِ حال کے پیش نظر” امدادی رسد کے حوالے سے مزید بات چیت جاری ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب قطر میں اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا ایک نیا دور بغیر کسی نمایاں پیش رفت کے اختتام پذیر ہوا ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق موجودہ مذاکرات میں یرغمالیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور غزہ کی عسکریت سے صفائی کے ساتھ ساتھ حماس کے عسکری رہنماؤں کی جلاوطنی جیسے نکات شامل ہیں۔ تاہم، حماس ان شرائط کو پہلے بھی مسترد کر چکی ہے۔ اسرائیلی فوج نے بعد ازاں اپنے ایک بیان میں عندیہ دیا کہ اگر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کسی معاہدے کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ اپنی کارروائیاں محدود کرنے پر غور کر سکتی ہے۔ فوجی سربراہ ایال ضمیر نے غزہ میں تعینات اسرائیلی افواج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “فوج اپنے ملک کی سیاسی قیادت کو اتنی لچک فراہم کرے گی جس سے وہ یرغمالیوں کے معاہدے تک پہنچ سکیں۔” فوجی بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ “گیڈون کے رتھ” نامی ایک زمینی کارروائی کے آغاز کے بعد، غزہ میں گزشتہ ہفتے کے دوران حماس کے 670 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا، اور درجنوں حماس جنگجو ہلاک کیے گئے۔ اس کارروائی کا مقصد غزہ کے مخصوص علاقوں میں “آپریشنل کنٹرول” حاصل کرنا ہے۔ مجموعی طور پر یہ صورتِ حال اس بات کی عکاس ہے کہ ایک طرف اسرائیل اپنی عسکری حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے غزہ میں پیش قدمی کر رہا ہے، تو دوسری جانب عالمی دباؤ اور انسانی المیے کے پیشِ نظر محدود نرمی کے اشارے بھی دے رہا ہے۔ تاہم، اصل تبدیلی کا انحصار قطر میں جاری مذاکرات کی کامیابی اور دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد سازی پر ہے۔
ہیٹ ویو: کب تک رہے گی یہ قیامت خیز گرمی؟

پاکستان اس وقت شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے کئی علاقے معمول سے کہیں زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں۔ سڑکیں سنسان، چھاؤں قیمتی اور پانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت نے گزشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور لوگوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ شہری علاقوں میں تیز دھوپ، خشک ہوائیں اور مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت لوگوں کو ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہیٹ ویو کب ختم ہوگی اور عوام کو اس جان لیوا گرمی سے کب نجات ملے گی؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈی جی عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع بہاولپور، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں ہیٹ ویو کی لہر شدید ہو سکتی ہے، حال ہی میں بہاولنگر میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ، رحیم یار خان 45، بھکر 44، جب کہ کوٹ ادو میں 44 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور سمیت میدانی علاقوں میں تقریباً 42 ڈگری تک درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا، ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، منڈی بہاوالدین، خانیوال، قصور، لیہ، جھنگ، حافظ آباد اور فیصل آباد میں 40 سے 42 ڈگری تک ریکارڈ کیا گیا۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف، جو نشتر اسپتال کی ایمرجنسی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لوگ شدید جسمانی کمزوری، لو لگنے اور ڈی ہائیڈریشن کے باعث اسپتال آ رہے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو معاملہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر آمنہ لطیف کا کہنا کہ گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے بنیادی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ دن کے اوقات خاص طور پر صبح 11 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک، غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ ہلکے رنگوں اور ڈھیلے کپڑوں کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم میں گرمی کا دباؤ کم رہے۔ ان کے مطابق پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، چاہے پیاس نہ بھی لگے۔ لیموں پانی، نمکول اور ORS جیسے محلول جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتے ہیں اور لو لگنے سے بچاتے ہیں۔ باہر نکلتے وقت سر کو گیلا کپڑا یا ٹوپی سے ڈھانپیں اور سایہ دار راستوں کو ترجیح دیں۔ اگر دھوپ میں جانا مجبوری ہو تو بار بار پانی پینا اور وقفے لینا نہ بھولیں، ہیٹ ویو سے سب سے زیادہ متاثر وہ افراد ہوتے ہیں، جو دھوپ میں کام کرتے ہیں جیسے تعمیراتی مزدور، ٹریفک پولیس اہلکار، رکشہ یا ریڑھی چلانے والے اور کھلے آسمان تلے روزی کمانے والے عام، لوگ ان کے پاس نہ تو سایہ ہوتا ہے نہ پانی کی سہولت اور نہ ہی مناسب طبی سہولیات۔ اس کے علاوہ بچے، بزرگ شہری، حاملہ خواتین اور وہ افراد جو شوگر یا بلڈ پریشر جیسے دائمی امراض میں مبتلا ہیں، بھی ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہوتے ہیں۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیز میں گرمی سے متاثرہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ہیٹ ویو سے نمٹنے میں حکومت اور اداروں کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ عوام کو انفرادی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں، لیکن ریاستی سطح پر مؤثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے۔ ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ بڑے شہروں میں ہنگامی کولنگ پوائنٹس قائم کیے جائیں، جہاں عوام کو پینے کا پانی، فرسٹ ایڈ اور سایہ میسر ہو۔ مزدور طبقے کے لیے دن کے اوقاتِ کار میں نرمی کی جائے تاکہ وہ دن کی تپتی دھوپ میں کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ اسٹروک یونٹس قائم کیے جائیں اور طبی عملے کو ہنگامی صورت حال کے لیے تیار رکھا جائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو بروقت، درست اور مفید معلومات فراہم کرے تاکہ لوگوں میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کا شعور پیدا ہو۔ ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر کامران مغل نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹ ویوز اور گلوبل وارمنگ کی شدت کم کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر شہری جنگلات (Urban Forests) کے قیام، شجرکاری اور سرسبز جگہوں میں اضافے پر کام کرنا ہوگا۔ درخت نہ صرف زمین کا درجہ حرارت کم کرتے ہیں بلکہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں، زہریلی گیسوں کو جذب کرتے ہیں اور بارشوں کے امکانات بھی بڑھاتے ہیں۔ ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں درخت لگانا اب کوئی آپشن نہیں بلکہ ایک مجبوری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ گرین بیلٹس پر عمارتیں بنانے کے بجائے وہاں شجرکاری کو فروغ دے۔ اگر ہم نے اب بھی درختوں کو اہمیت نہ دی تو آنے والے سالوں میں گرمی اور موسمی آفات ہماری برداشت سے باہر ہو جائیں گی۔ موجودہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی اب صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک انسانی بحران بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں پہلے ہی صحت کی سہولیات محدود اور وسائل ناکافی ہیں، وہاں ہیٹ ویو جیسے حالات مزید مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات خبردار کر چکے ہیں کہ اگر حکومت نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا، شہروں میں سبزے کو فروغ نہ دیا اور ماحولیاتی پالیسیوں کو مؤثر نہ بنایا تو آنے والے سالوں میں گرمی کی یہ لہریں مزید خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہیٹ ویو محض ایک عارضی موسمی رجحان نہیں بلکہ ہماری زندگیوں، صحت اور مستقبل کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ نہ صرف خود احتیاط کریں بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں، خصوصاً بچوں، بزرگوں اور کمزور طبقات کی مدد بھی کریں کیونکہ صرف شعور، احتیاط اور باہمی تعاون ہی ہمیں اس قدرتی آزمائش سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔