علی خان محمودآباد کی گرفتاری پرانڈین اپوزیشن سراپا احتجاج: ’بیان قوم دشمن تھا اور نہ ہی عورت مخالف ہے‘

انڈیا میں معروف اسکالر اور اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی گرفتاری نے ملک بھر میں سیاسی بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ ان پر بغاوت، مذہبی جذبات مجروح کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے ان الزامات کو بے بنیاد اور انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے بی جے پی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ پروفیسر علی خان محمودآباد کو اتوار کے روز دو ایف آئی آرز کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا، جن میں ایک شکایت بی جے پی کے ایک عہدیدار اور دوسری ہریانہ خواتین کمیشن کی سربراہ کی جانب سے درج کی گئی۔ شکایات میں ان کے سوشل میڈیا پر دیے گئے تبصروں کو بنیاد بنایا گیا جن میں انہوں نے “آپریشن سندور” پر ہونے والے جذباتی ردعمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کچھ طبقات فوجی کارروائیوں پر خوشیاں منا رہے تھے وہیں مسلم کمیونٹی کے خلاف ہونے والی پرتشدد کارروائیوں پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان میں ’کواڈ کاپٹر حملہ‘، چار بچے جاں بحق، مظاہرین کا دھرنا اس گرفتاری پر سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا شامل تھیں جنہوں نے اسے “بچگانہ الزامات” قرار دیتے ہوئے کہا کہ محمودآباد کی گرفتاری صرف ان کے نام کی وجہ سے ہوئی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پروفیسر کی پوسٹ کو دوبارہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے بھی سخت ردعمل دیا اور کہا کہ”بی جے پی کو تنقید سے اتنا خوف ہے کہ وہ اب اسکالرز کو بھی گرفتار کرنے لگی ہے۔” انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک جانب پروفیسر کو محض ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مدھیہ پردیش کے وزیر وجے شاہ کھلے عام نفرت انگیز بیانات دے رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کھڑگے نے مزید کہا کہ یہی وزیر، کرنل صوفیہ قریشی کو “دہشت گردوں کی بہن” کہہ چکے ہیں مگر بی جے پی ان کے خلاف ایک لفظ تک بولنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ہر اس آواز کو دبانا چاہتی ہے جو امن، برداشت یا تنقید کی بات کرے۔ ضرور پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ آر جے ڈی کے ایم پی منوج کمار جھا نے بھی سخت لہجہ اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ “حکومت پر تنقید کرنا قوم پر تنقید نہیں ہوتی۔ جمہوریت میں تنقید حب الوطنی کی علامت ہوتی ہے، نہ کہ بغاوت۔” دوسری جانب، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے گرفتاری کو قانونی عمل کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ “محض بی جے پی کے ایک کارکن کی شکایت پر ہریانہ پولیس نے کارروائی کی، جبکہ پروفیسر کا بیان نہ تو قوم دشمن تھا، نہ ہی عورت مخالف۔” کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے بھی محمودآباد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔ مزید پڑھیں: مودی کی پالیسیوں پر تنقید، انڈیا نے خاتون پروفیسر کی شہریت منسوخ کر دی
غزہ ’جہنم‘ بن گیا، اڑتالیس گھنٹوں میں 14 ہزار بچے مرنے کا خدشہ

غزہ میں بڑے انسانی المیے نے جنم لے لیا، 48 گھنٹوں میں امداد نہ پہنچنے کی صورت میں 14 ہزار بچوں کے مرنے کا خدشہ ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ پیر کے روز پانچ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں لیکن وہ سرحد پار کر کے رک گئے ہیں اور تاحال کسی متاثرہ علاقے تک نہیں پہنچ سکے۔ ان ٹرکوں میں بچوں کی خوراک اور غذائیت سے متعلق اشیا موجود ہیں۔ فلیچر کے مطابق یہ امداد ’سمندر میں ایک قطرے‘ کے برابر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ امدادی سامان غزہ نہ پہنچا تو اگلے 48 گھنٹوں میں 14 ہزار بچے جان کی بازی ہار سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی بمباری میں گزشتہ رات سے اب تک کم از کم 50 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ جنوبی شہر خان یونس میں اسرائیلی افواج نے شہریوں کو فوری انخلا کا حکم دے کر بڑے حملے کی دھمکی دی ہے، جس کے بعد علاقے میں شدید گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کو وارننگ دی ہے کہ اگر غزہ میں حملے نہ رکے تو وہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ 22 ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کی اجازت دے۔ تاہم اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اپنا حملہ جاری رکھے گا اور پورے غزہ پر کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی جنگ میں اب تک کم از کم 53,475 فلسطینی شہید جبکہ 121,398 زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومت کی میڈیا آفس کے مطابق یہ تعداد 61,700 سے تجاوز کر چکی ہے کیونکہ ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہیں اور ان کے زندہ بچنے کی امید نہیں۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد افراد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اسرائیل کی یہ جارحیت امریکا کی کھلی پشت پناہی کے ساتھ جاری ہے جبکہ عالمی برادری کی بے حسی اور خاموشی فلسطینیوں کی شہادتوں پر سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ مزید پڑھیں: ’کچھ پیش رفت ہو رہی ہے‘، روس اور یوکرین جلد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم: رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع، یہ سہولت کب تک میسر ہوگی؟

نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی کے لیے وزیراعظم پاکستان نے لیپ ٹاپ اسکیم شروع کررکھی ہے۔لیپ ٹاپ اسکیم کے لیے رجسٹریشن کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع کی گئی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد زیادہ سے زیادہ طلباء کو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینا ہے تاکہ وہ تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لیے ڈیجیٹل سہولت حاصل کر سکیں۔ حکومتی ترجمان کے مطابق اس اسکیم کو ملک بھر کے طلباء کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ توسیع کا فائدہ ان طلباء کو ہوگا جو کسی وجہ سے پہلے مقررہ وقت پر درخواست نہیں دے سکے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر یہ اسکیم ملک بھر کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں بیچلرز، ماسٹرز، ایم فل، اور پی ایچ ڈی پروگراموں میں زیر تعلیم ایک لاکھ طلباء کے لیے ہے۔ درخواست دہندگان کو کم از کم 2.80 سی جی پی اے یا 60 فیصد نمبروں کا معیار پورا کرنا ہوگا۔ پہلے سال کے طلباء اپنے انٹرمیڈیٹ کے نمبرز دیں گے جبکہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء اپنی سابقہ ڈگریوں کے نتائج پیش کریں گے۔ یہ اسکیم صرف ان طلباء کے لیے ہے جو فی الحال کسی پروگرام میں داخل ہیں۔ جو طلباء گریجویٹ ہو چکے ہیں، وہ اہل نہیں، چاہے انہوں نے اندراج کے دوران درخواست بھی دی ہو۔ لیپ ٹاپ میرٹ کی بنیاد پر دیے جائیں گے اور انتخاب کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کیا جائے گا۔ اس میں کوٹہ سسٹم بھی شامل ہے جس کے تحت بلوچستان کے طلباء کے لیے 18 فیصد اور پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء (ورچوئل یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی) کے لیے 5 فیصد لیپ ٹاپ مختص ہیں۔ درخواست دینے کے لیے طلباء سرکاری ویب سائٹ www.pmyp.gov.pk یا ڈیجیٹل یوتھ ہب ایپ استعمال کر سکتے ہیں۔ رجسٹریشن کے بعد ایک عارضی میرٹ لسٹ جاری کی جائے گی، جس پر اعتراضات یا شکایات کے لیے 15 دن کی مدت دی جائے گی۔ اعتراضات کے ازالے کے بعد حتمی فہرست شائع کی جائے گی۔ حکومت اس منصوبے کو صرف لیپ ٹاپ کی تقسیم نہیں بلکہ نوجوانوں میں ڈیجیٹل صلاحیتوں کے فروغ اور معیشت میں ان کی شمولیت کو بڑھانے کا ایک اسٹریٹجک قدم تصور کرتی ہے۔ اس کا مقصد تعلیم کے میدان میں مساوات، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی اور نوجوانوں کو بااختیار بنانا ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے طلباء کو تعلیمی میدان میں بہتر کارکردگی کا موقع ملے گا اور وہ ملک کی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔ پرائم منسٹر یوتھ لیپ ٹاپ اسکیم کی رجسٹریشن کی آخری تاریخ 20 مئی سے بڑھا کر اب یکم جون 2025 کر دی گئی ہے۔
جنگ بندی میں ’امریکا کا کوئی کردار‘ نہیں تھا، انڈیا

انڈین سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے ایک پارلیمانی اجلاس میں کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ بندی میں امریکا کا کوئی کردار نہیں تھا، اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا اس عمل میں اپنی انتظامیہ کی شمولیت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کو کم کرنے میں مدد کی، اور وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا تھا۔ تاہم، وکرم مصری نے کہا کہ جنگ بندی کی پیش کش پاکستان کی طرف سے کی گئی تھی اور کسی تیسرے فریق نے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر پارلیمنٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے اجلاس میں مصری سے متعدد سوالات کیے گئے، جن میں یہ بھی شامل تھا کہ انڈیا نے ٹرمپ کے دعوؤں کی تردید کیوں نہیں کی۔ ایک رکن نے پوچھا کہ امریکا کے بیانیے کو مرکزی حیثیت دینے سے انڈیا کی پوزیشن کمزور کیوں ہوئی۔ مصری نے اس سوال کا کوئی براہ راست جواب نہیں دیا۔ انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، مصری نے واضح کیا کہ جنگ بندی کا فیصلہ دو طرفہ سطح پر ہوا، اور امریکا کے ساتھ صرف معمول کی سطح کی بات چیت ہوئی، نہ کہ کوئی ثالثی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے اپنے بیانات سوشل میڈیا کے ذریعے دیے، کسی سرکاری چینل سے نہیں، جہاں انڈیا مناسب ردعمل دے سکتا۔ اجلاس کے دوران مصری نے مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا امکان بھی رد کر دیا۔ ان کے مطابق حالیہ کشیدگی مکمل طور پر روایتی سطح پر تھی اور پاکستان کی طرف سے کسی بھی جوہری اشارے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اگرچہ پاکستان کے وزیر دفاع نے تناؤ کے دوران آل آؤٹ جنگ کا عندیہ دیا تھا، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ جوہری آپشن حکومت کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔ آخر میں اجلاس کے دوران مصری سے یہ بھی پوچھا گیا کہ دشمنی کے دوران انڈیا کے کتنے طیارے ضائع ہوئے، خاص طور پر ان چھ انڈین جنگی طیاروں کا ذکر کرتے ہوئے جنہیں پاکستان ایئر فورس نے مار گرایا تھا۔ تاہم، خارجہ سیکرٹری نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط پاکستان پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں؟

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) کے سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے سلسلے میں کچھ نئی شرائط عائد کرنے کے ساتھ کچھ پرانی شرائط پر عملدرآمد کے لیے زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے متعلق آئی ایم ایف امور کی کوریج کرنے والے صحافی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان کے مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنا ہے تاکہ مالی خسارہ کم ہو۔ آئی ایم ایف کی جانب سے دیگر شرائط کے علاوہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے بھی چھوٹ دی گئی ہے جس کے باعث ان کی قیمتوں میں نمایاں تبدیلی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
شمالی وزیرستان میں ’کواڈ کاپٹر حملہ‘، چار بچے جاں بحق، مظاہرین کا دھرنا

شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک مشتبہ کواڈ کاپٹر حملے میں چار بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔ حملے میں پانچ افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ زخمیوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔ انگریزی اخبار ’ڈان‘ کے مطابق یہ حملہ دن کے وقت ہوا، حملے سے متاثر ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ حملے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ مقامی لوگ زخمیوں کو فوری طور پر میر علی اسپتال لے گئے جہاں کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان دونوں پر کواڈ کاپٹر استعمال کرنے کا شبہ کیا جاتا ہے، جس سے حملے کی ذمہ داری کے تعین میں ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سرزمین یا سالمیت پر حملہ ہوا تو جواب بے رحم ہو گا، ڈی جی آئی ایس پی آر واقعے کے خلاف شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ قبائلی عمائدین، نوجوانوں اور بچوں سمیت درجنوں لوگ میر علی چوک پر دھرنے کے لیے جمع ہو گئے۔ مظاہرین نے کواڈ کاپٹر حملوں کے خلاف نعرے لگائے اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی گئی۔ خیبر پختونخوا کے وزیر برائے ریلیف نائیک محمد داوڑ نے حملے کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ معصوم بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ انہوں نے اس حملے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا اور یقین دلایا کہ وہ ہر پلیٹ فارم پر متاثرہ خاندان کی آواز بنیں گے۔ تاحال وفاقی حکومت کی طرف سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، جبکہ مقامی حکام معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، قبائلی عمائدین نے ان ہلاکتوں کو حکومتی ناکامی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کو ایک بار پھر نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ مظاہرین نے حملے کی غیرجانبدار تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ ان تحقیقات کے نتائج سے مطمئن نہیں ہوتے، ان کا دھرنا جاری رہے گا۔
’کچھ پیش رفت ہو رہی ہے‘، روس اور یوکرین جلد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ روس اور یوکرین جلد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ یہ اعلان انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے فون پر بات چیت کے بعد کیا۔ تاہم، کریملن کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کے آغاز میں وقت لگے گا، اور ٹرمپ نے یہ بھی اشارہ دیا کہ وہ روس پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے یورپی پابندیوں کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ انہوں نے روسی صدر سے ٹیلیفونک گفتگو کے بعد یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی، یورپی یونین، فرانس، اٹلی، جرمنی اور فن لینڈ کے رہنماؤں سے گروپ کال میں بات کی۔ اس کال میں انہوں نے بتایا کہ روس اور یوکرین فوری جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کریں گے۔ بعد ازاں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے کہا کہ ان کے خیال میں کچھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’یہ بہت زیادہ خطرناک ہے‘، سابق امریکی صدر جو بائیڈن میں پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص روسی صدر پیوٹن نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ترکی میں ہونے والی ملاقات کے بعد مذاکرات کی بحالی میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کے لیے ایک یادداشت پر کام کرنے کو تیار ہے۔ اگرچہ روس اور یوکرین کے درمیان براہ راست رابطے تین سالہ جنگ کے بعد ایک اہم قدم سمجھے جا رہے ہیں، لیکن پیر کے روز ہونے والی بات چیت کسی بڑی کامیابی کی امیدوں پر پورا نہیں اتری۔ دوسری جانب، جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا کہ یورپی ممالک نے روس پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، ٹرمپ نے ان پابندیوں پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ جب صحافیوں نے ٹرمپ سے پوچھا کہ انہوں نے ماسکو پر مزید دباؤ کیوں نہیں ڈالا؟ تو ان کا جواب تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کچھ پیش رفت ہو سکتی ہے، اور اگر دباؤ ڈالا گیا تو شاید حالات بگڑ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر امن کی طرف پیش رفت نہ ہوئی تو وہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “یہ میری جنگ نہیں ہے۔” ٹرمپ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس عمل میں “کچھ بڑی انا” رکاوٹ بنی ہوئی ہے، اور اگر حالات میں بہتری نہ آئی تو وہ خود کو اس عمل سے علیحدہ کر لیں گے۔
پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اس کے اثرات اتنے ہی گہرے اور وسیع ہیں۔ ان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگی ماحول یا فوجی جھڑپیں نہ صرف سیاسی تناؤ کو ہوا دیتی ہیں بلکہ اس کا شدید اثر دونوں ممالک کی معیشت، تجارت اور کاروباری حلقوں پر بھی پڑتا ہے۔ سرحد پار تناؤ کا ہر واقعہ اسٹاک مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیتا ہے، درآمد و برآمد کا عمل سست ہو جاتا ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ نقصان وہ طبقہ اٹھاتا ہے، جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے وابستہ ہوتا ہے۔ 2023 میں جب لائن آف کنٹرول پر گولہ باری میں اضافہ ہوا اور سفارتی بیانات مزید تلخ ہو گئے تو اس کے بعد دونوں ملکوں کی معیشتوں نے دباؤ محسوس کیا۔ انڈیا میں روپیہ کمزور ہوا، جب کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت ایک بار پھر بڑھنے لگی۔ حالیہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی اور حملوں نے بھی دونوں ممالک کو اسی طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان رسمی تجارت 2019 سے بند ہے، تاہم غیر رسمی تجارت اب بھی مختلف راستوں سے جاری ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں ابوزر شاد نے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاک انڈیا رسمی تجارت اگست 2019 سے بند ہے۔ کچھ ادویات کا خام مال انسانی بنیادوں پر پاکستان درآمد کیا جاتا ہے، جن کی مالیت انتہائی کم ہے، لیکن غیر رسمی تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہے، جو رسمی تجارت کی نسبت تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ تجارت متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کے ذریعے ہوتی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا پاکستان کو تقریباً پونے دو ارب ڈالرز کی غیر رسمی برآمدات کرتا ہے، جن میں بڑا حصہ ادویات کا ہے، جب کہ پاکستان سے انڈیا کھجوریں اور نمک وغیرہ جاتا ہے، جن کی مالیت محدود ہے۔ میاں ابوزر شاد کے مطابق اگر غیر رسمی تجارت بند ہو جائے تو انڈیا کو زیادہ نقصان ہو گا، کیونکہ پاکستان ادویات کے متبادل ذرائع بآسانی تلاش کر سکتا ہے۔ لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید اس کے علاوہ فضائی حدود کی اہمیت بھی دونوں ملکوں کے معاشی تعلقات میں غیر معمولی ہے۔ ایئر لائن اکنامکس کے پروفیسر اور سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر ایئر ٹرانسپورٹ محمد اسفر ملک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سوائے جنگی حالات کے کسی ملک کے لیے ایئر اسپیس بند کرنا جرم ہے۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد پاکستان نے متعدد بار فضائی حدود بند کی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2019 میں پاکستان نے انڈیا کے لیے پانچ ماہ تک فضائی حدود بند رکھی تھیں، جس سے انڈیا کو تقریباً آٹھ کروڑ ڈالرز اور پاکستان کو دس کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا تھا، کیونکہ پاکستان نے تمام بین الاقوامی ایئر لائنز پر بھی انڈیا کے لیے پابندی عائد کی تھی۔ اس مرتبہ صرف انڈین ایئر لائنز پر پابندی لگائی گئی ہے، جس سے پاکستان کو کم نقصان کا اندیشہ ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے لاہور میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ راحیل محمود بتاتے ہیں کہ 2019 کے بعد سے جب بھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، ان کے یورپی کلائنٹس پریشان ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’جب بارڈر پر فائرنگ یا جنگ کی خبریں آتی ہیں، تو غیر ملکی خریدار آرڈر روک دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس خطے میں عدم استحکام ہے اور وہ متبادل سپلائرز کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔‘‘ راحیل محمود کا کہنا ہے کہ 2023 کی کشیدہ صورتحال کے بعد ان کے دو بڑے آرڈرز کینسل ہو چکے ہیں کیونکہ خریداروں کو خدشہ تھا کہ شپنگ میں تاخیر ہو سکتی ہے یا حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی کاروباری خاتون عائشہ صدیقہ، جو کہ مصالحہ جات اور خشک میوہ جات کی ایکسپورٹ کرتی ہیں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ 2019 میں جب دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہوئی تھی تو ان کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ ’’ہم انڈیا سے کچھ خام مال خریدا کرتے تھے جو اب افغانستان یا دیگر مہنگے ذرائع سے منگوانا پڑتا ہے۔ اسی طرح ہماری مصنوعات کا بھی انڈیا میں ایک خاص مارکیٹ تھی، جو بند ہو گئی۔ سیاستدان تو بیانات دے کر آگے نکل جاتے ہیں، نقصان ہم تاجروں کا ہوتا ہے۔” مزید پڑھیں: آپریشن بنیان مرصوص میں شاہین میزائل داغنے کی خبریں بےبنیاد اور من گھڑت ہیں، دفترِ خارجہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنگی ماحول یا کشیدگی براہ راست کاروبار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 2022 میں باہمی تجارت صرف 300 ملین ڈالر تک محدود رہی، جو کہ ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ حالانکہ دونوں ممالک کی مارکیٹس ایک دوسرے کے لیے بہترین مواقع رکھتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر سیاسی حالات سازگار ہوں تو دوطرفہ تجارت 5 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھ سکتی ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل کاروبار بھی اس کشیدگی سے محفوظ نہیں۔ لاہور میں فری لانسنگ اور ای کامرس سے وابستہ نوجوان حمزہ جاوید کا کہنا ہے کہ جب بھی جنگ یا کشیدگی کی بات ہوتی ہے تو ان کے آن لائن سٹور پر انڈین صارفین کا رسپانس کم ہو جاتا ہے۔ ’’پچھلے سال جب ایل او سی پر کشیدگی بڑھی تو مجھے اپنی انڈیا میں چل رہی ایڈز مہم بند کرنا پڑی، کیونکہ وہاں سے نیگیٹو فیڈبیک آنے لگا۔ سیاست کے جھگڑے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔‘‘ حمزہ سمجھتے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو باہمی ڈیجیٹل تعاون کے مواقع ملیں تو یہ دشمنی آہستہ آہستہ کم ہو سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوامی اور کاروباری حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ کشیدگی کسی کے لیے فائدہ مند نہیں۔ جنگ صرف گولہ بارود کی تباہی نہیں لاتی بلکہ روزگار، ترقی اور خطے کے استحکام کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ شرح اور کرنسی کی
بارڈر بند ہونے کے باوجود 21 چارٹرڈ پروازیں، 6 ارب روپے کا سامان غزہ کیسے پہنچا؟

الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے فلسطینی عوام کی امداد کے لیے جاری کوششیں ایک نئی مثال قائم کی گئی ہے، صدر الخدمت فاؤنڈیشن پروفیسر داکٹر حفیظ الرحمان نے کہا ہے کہ انہیں ابتدا میں یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اتنے شدید حالات میں غزہ تک امداد کیسے پہنچے گی، لیکن انہوں نے ہمیشہ اللہ پر توکل کیا اور اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ 8 اکتوبر 2023 کو الخدمت کی قیادت نے یہ عزم کیا کہ فلسطین کے مظلوم بھائیوں، بہنوں، بچوں اور بزرگوں تک ہر صورت امداد پہنچانی ہے۔ نتیجتاً اب تک الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان سے اکیس چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے امدادی سامان مصر کے الاریش ایئرپورٹ تک پہنچا چکی ہے۔ ہر پرواز میں تقریباً 100 ٹن سامان شامل ہوتا ہے، جس کا کرایہ تقریباً 12 کروڑ روپے ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 6 ارب روپے سے زائد مالیت کا سامان غزہ بھجوایا جا چکا ہے۔ ادارے نے حکومت پاکستان کے ساتھ “گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ” سسٹم کے تحت کام کیا، جہاں مصر کی حکومت اور ریڈ کریسنٹ کی معاونت سے امداد کو ترجیحی بنیادوں پر غزہ منتقل کیا گیا۔ تنظیم کے مطابق ان کا مقصد صرف خدمت ہے اور انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ سہرا کس کے سر بندھتا ہے، کیونکہ ان کے لیے اصل اعزاز پاکستان کا پرچم اور عوام کی مدد ہے۔ الخدمت کے تحت چار بیری جہازوں کے ذریعے بھی 4 ہزار ٹن سامان پہنچایا گیا ہے، جب کہ مصر میں ایک دفتر، فلیٹ اور وئیر ہاؤس قائم کیے گئے ہیں تاکہ وہاں موجود زخمی اور مہاجر فلسطینیوں کو فوری امداد دی جا سکے۔ غزہ کے محاصرے اور رفعہ بارڈر بند ہونے کی صورت میں الخدمت نے اردن کے راستے سے بھی امداد پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے 25 ٹن دوائیاں اردن بھیجی گئیں، جہاں سے ہاشمائٹ فاؤنڈیشن اور رائل جارڈینین آرمی کے تعاون سے ویسٹ بینک میں ایئر ڈراپ کیے گئے۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں لبنان، شام اور اردن تک پھیلی ہوئی ہیں، جہاں پاکستانی سفارتخانوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ ایک موقع پر الخدمت کے ذمہ داران خود کارگو طیارے میں لبنان تک پہنچے اور امدادی سامان پہنچایا۔ غزہ کے اندر اس وقت الخدمت کے 11 مقامی ملازمین موجود ہیں، جو وہاں 2 اسکول، 2 کچن اور صاف پانی کا منصوبہ چلا رہے ہیں۔ تمام تر سختیوں کے باوجود یہ منصوبے جاری ہیں۔