کیا شوگر ہونے کی وجہ چینی زیادہ استعمال کرنا ہے؟

کیا چینی سے شوگر ہوتی ہے؟ یہ سوال نہ صرف عام عوام بلکہ تعلیم یافتہ افراد کو بھی الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ جب بھی ذیابیطس یا شوگر کی بیماری کا ذکر آتا ہے، ذہن فوراً سفید چینی یا میٹھے کھانوں کی طرف جاتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ زیادہ چینی کھانے سے ہی شوگر لاحق ہوتی ہے، اور اس سوچ کے تحت وہ ہر قسم کی مٹھاس کو بیماری کی جڑ تصور کرتے ہیں۔ گھروں میں بزرگوں سے لے کر نوجوانوں تک، جب کوئی فرد ذرا سا بھی بیمار ہو یا تھکا ہوا محسوس کرے تو فوراً کہا جاتا ہے “چینی کم کھایا کرو، شوگر نہ ہو جائے!” لیکن کیا واقعی چینی ہی ذیابیطس کی واحد یا بنیادی وجہ ہے؟

بڑھتا عالمی دباؤ، اسرائیل نے عارضی جنگ بندی پر آمادگی کا اظہار کر دیا

Gaza help

اسرائیلی وزیرِاعظم کے حالیہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یورپی سفارتکاروں کے وفد پر مبینہ طور پر فائرنگ کی۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر جنین کے قریب موجود سفارتی وفد کو نشانہ بنایا۔ واقعے کے بعد خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے، جبکہ یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدے پر بات چیت روکنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ یورپی یونین بھی اس معاہدے پر نظرثانی کر رہی ہے۔ لازمی پڑھیں: انڈین کرکٹ بورڈ کی ایشیا کپ سے دستبرداری سے متعلق خبروں کی تردید عالمی دباؤ میں اضافے کے بعد، اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ بدھ کے روز 100 امدادی ٹرکوں کو غزہ جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان ٹرکوں میں آٹا، بچوں کی خوراک، اور طبی ساز و سامان شامل تھا۔ تاہم، اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان امدادی اشیاء کی تقسیم ان افراد تک نہیں ہو سکی جو اس وقت شدید بحران کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی صورتحال کو انسانی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے فوری اور مؤثر امداد کی اپیل کی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت عالمی برادری کے سخت دباؤ کا نتیجہ ہے، مگر زمینی حقائق میں بہتری ابھی تک نظر نہیں آ رہی۔ فلسطینی علاقوں میں جاری فوجی کارروائیوں، امداد کی بندش، اور سفارتی شخصیات کو نشانہ بنائے جانے جیسے اقدامات خطے میں امن کی کوششوں کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہ بنائیں اور غزہ میں امداد کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

بلند پرواز، پرفیکٹ نشانہ: وہ طیارہ جو جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے

J 35 missile

حالیہ پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد سے پاکستان اپنے دفاعی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے چین کے جے-35 اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی خریداری کے معاہدے کو حتمی شکل دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی کے ’ٹی ایف-ایکس کاآن‘ جیٹ میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کررہا ہے۔ دوسری جانب انڈیا ‘ایڈوانسڈ میڈیم کومبیٹ ایئرکرافٹ (اے ایم سی اے)’ کے علاوہ ممکنہ طور پر روسی ایس یو-57 اور امریکی ایف-35 جیسے جدید طیاروں کی خریداری کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ حالیہ فضائی ناکامیوں کے پس منظر میں یہ بڑھتی ہوئی اسلحہ کی دوڑ جنوبی ایشیا کے عسکری توازن کو ازسرنو تشکیل دے سکتی ہے۔ جے – 35 اور انڈین رافیل طیاروں کا موازنہ کرتے ہوئے ماہرعالمی امور ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  جے-35 کی شمولیت پاکستان کے لیے ایک اسٹریٹیجک بریک تھرو ہو سکتی ہے۔ یہ انڈیا کے رافیل اور ایس یو -57کے مقابلے میں اسٹیلتھ، سینسر فیوژن اور نیٹ ورک سینٹرک وار فیئر میں نمایاں برتری رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف جے -35  نہ صرف توازن قائم کرے گا بلکہ انڈیا کی فضائی برتری کے دعووں کو چیلنج بھی کرے گا۔ پاکستان نے باضابطہ طور پر چین سے 40 جے 35 اسٹیلٹھ پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی خریداری کی منظوری دے دی ہے، جن کی ترسیل آئندہ 24 ماہ میں متوقع ہے۔ پاکستانی فضائیہ کے پائلٹس پہلے ہی چین میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر جے-35 طیارے پاکستان کے فضائی بیڑے میں شامل ہو جاتے ہیں تو خطے میں فضائی طاقت کا توازن وقتی طور پر تبدیل ہو سکتا ہے،کم از کم اُس وقت تک جب تک انڈیا اپنی اسٹیلتھ صلاحیت حاصل نہ کر لے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا ہےکہ اسٹیلتھ طیارے روایتی ریڈار اور فضائی دفاعی نظاموں کے لیے سنگین چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ ان کی کم ریڈار سگنیچر اور جدید الیکٹرانک وارفیئر صلاحیتیں دشمن کی ابتدائی دفاعی لائنز کو بے اثر کر سکتی ہیں۔ خطے میں ان کی تعیناتی موجودہ دفاعی توازن کو یکسر بدل سکتی ہے۔ ترکیہ  کے “کاآن پی او” کی پہلی آزمائشی پرواز کے بعد پاکستان ‘ٹی ایف ایک’ پروگرام پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے تاکہ اسے ایک متبادل اسٹیلتھ آپشن کے طور پر استعمال کیا جا سکے،یہ طیارہ دو انجنوں پر مشتمل ہے اور اس کی چُستی ایف-22 سے مشابہت رکھتی ہے۔ انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات کی ممکنہ دلچسپی کے ساتھ پاکستان کی شمولیت ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی محاصرہ جاری: بھوک سے مزید 326 فلسطینی شہید انڈیا کا ‘اے ایم سی اے’منصوبہ، جس کے لیے 15,000 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے، 2035 تک ایک ففتھ جنریشن کے لڑاکا طیارے کو فضائیہ میں شامل کرنے کا ہدف رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق و ترقی میں پیچیدگیوں کے باعث یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے انڈین فضائیہ کے اعلیٰ حکام مبینہ طور پر ایسے ثابت شدہ پلیٹ فارمز کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری پر غور کر رہے ہیں، خاص طور پر اگر پاکستان کے جے-35 طیارے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ جے-35 کئی ففتھ جنریشن فیچرز جیسے لو آوبزرویبلٹی، ایڈوانسڈ ایویونکس اور انٹیگریٹڈ وار فیئر سسٹمز رکھتا ہے، تاہم انجن ٹیکنالوجی اور انڈیجنس ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے کچھ تکنیکی تحفظات موجود ہیں۔ اگرچہ جے-35 مکمل طور پر ایف -35 یا ایف -22 کا ہم پلہ نہیں، لیکن ریجنل تھیٹر میں یہ ایک مؤثر ففتھ جنریشن پلیٹ فارم ضرور ہے۔ اگر انڈیا اے ایم سی اے اور ایس یو 57 جیسے طیارے خرید لیتا  ہے تو پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اس سے انڈیا کو برتری حاصل ہو جائے گی۔ سینئر تجزیہ کار میاں محمد عرفان نے کہا  ہے کہ جنگ میں جدید آلات بہت معنی رکھتے ہیں مگر برتری کا دارومدار تربیت، انٹیگریشن اور جنگی حکمت عملی پر ہوتا ہے، انڈیا جتنے بھی بڑے جدید آلات لے آئے لیکن پاکستان کی فضائیہ کا مقابلا نہیں کر سکتا، پاکستانی پائلٹ اپنے جذبوں سے طیاروں کو اڑاتے  ہیں جوکہ دشمن کےلیے بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: خضدار حملہ، 4 بچوں سمیت 6 جاں بحق: ’انڈیا کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کیا جائے گا‘ فروری 2025 میں امریکہ نے انڈیا کو ایف-35 طیاروں کی فروخت کی باضابطہ پیشکش کی، جو کہ ایک نئے دفاعی فریم ورک کا حصہ ہے۔ اس پیشکش کو اگرچہ لاگت کے باعث تنقید کا سامنا ہے، تاہم یہ روس سے پالیسی کی ممکنہ تبدیلی کا عندیہ بھی ہے، جس سے پاکستانی فضائیہ کو برتری حاصل ہو گی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہےکہ اے ایم سی اے پروگرام کی تاخیر انڈیا کے لیے تکنیکی و عملی نقصان ہے، جب کہ  پاکستان کے لیے یہ ایک قیمتی اسٹریٹیجک ونڈو ہے۔ اگر پاکستان جے-35 جیسے ففتھ جنریشن طیارے بروقت شامل کر لیتا ہے تو کم از کم اگلی دہائی تک اسے فضائی برتری میں سبقت حاصل رہ سکتی ہے۔ عالمی خبررساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق روس نے انڈیا کو موجودہ ایس  ایو-30 طیاروں کی مقامی پیداوار کے ساتھ ساتھ ایس یو-57 اسٹیلتھ طیاروں کی تیاری کی پیشکش کی ہے، جس میں مکمل تکنیکی منتقلی شامل ہے۔ اگر انڈیا اور پاکستان اسی طرح  ہتھیاروں کو اکٹھاکرتے رہے تو اس سے نا صرف دونوں ممالک کو نقصان ہو گا بلکہ پورے ایشیا کے لیے خطرناک مور بن جائے گا۔ لازمی پڑھیں: جب تک غزہ کے تمام علاقے مکمل طور پر اسرائیلی کنٹرول میں نہیں آ جاتے، جنگ جاری رہے گی، نیتن یاہو میاں محمد عرفان کا کہنا ہےکہ انڈیااور پاکستان کی جانب سے جدید ہتھیاروں کی دوڑ جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرناک موڑ کی علامت ہے۔ یہ اسلحہ جمع کرنا اسٹریٹیجک عدم توازن، غلط فہمیوں اور حادثاتی جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔ علاقائی امن و استحکام کے لیے اس رجحان کا بروقت جائزہ اور سفارتی توازن ناگزیر ہو چکا ہے