کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی کارروائی: 44 لاپتہ بچے بازیاب، تعلق کہاں سے ہے؟

Kidnapers

پنجاب پولیس کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CCD) نے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے منشیات، جنسی استحصال، چائلڈ لیبر اور دیگر جرائم کا شکار 44 لاپتہ، گمشدہ اور گھروں سے بھاگے ہوئے بچوں کو بازیاب کروا لیا ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے زیر اہتمام بازیاب ہونے والے بچوں کی واپسی کے لیے ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں ایڈیشنل آئی جی سی سی ڈی سہیل ظفر چٹھہ، ڈی آئی جی عمر فاروق سلامت، ڈی آئی جی وقاص الحسن، ایس پی عبدالحنان اور دیگر سینئر افسران شریک ہوئے۔ آئی جی پنجاب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سے زیادتی، استحصال اور جبری مشقت کو “ریڈ لائن” قرار دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی اصلاح کے لیے ان بچوں کو جنسی درندوں اور جرائم کی دنیا سے بچانا اور مفید شہری بنانا ناگزیر ہے۔ پولیس حکام کے مطابق 44 میں سے 13 بچے چائلڈ لیبر، 15 بچے والدین یا اساتذہ کے تشدد سے تنگ آ کر گھروں سے فرار ہوئے تھے جبکہ 16 بچے مجرموں کے ہاتھوں نشے اور جنسی زیادتی کا شکار بن گئے۔ لازمی پڑھیں: گرمی میں ’غیرمعمولی‘ اضافہ، کراچی میں کورونا سے چار افراد جاں بحق اس گینگز میں ملوث افراد کی گرفتاری کا عمل جاری ہے اور متاثرہ بچوں اور ان کے والدین کی ماہرین نفسیات سے کونسلنگ بھی کی جا رہی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سہیل ظفر چٹھہ نے بتایا کہ بازیاب بچوں میں کراچی، گھوٹکی، سوات، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور لاہور سمیت کئی شہروں کے بچے شامل ہیں۔ اس وقت 13 بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کیا جا چکا ہے جبکہ دیگر لاوارث بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو، ایس او ایس ویلج اور دیگر اداروں کے سپرد کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بازیابی کی یہ کوشش داتا دربار، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈز اور دیگر عوامی مقامات سے کی گئی۔ اس دوران “ہمارا پیارا ایپ”، ورچوئل چائلڈ پروٹیکشن سنٹر، سوشل میڈیا اور مختلف این جی اوز کی مدد لی گئی۔ سی سی ڈی لا کے تحت بچوں سے جنسی زیادتی میں ملوث ملزمان کی ای-ٹیگنگ کا عمل بھی شروع کیا جا چکا ہے تاکہ ان کی مسلسل نگرانی ممکن بنائی جا سکے۔  مزید پڑھیں: کشمیر کے ساتھ پانی کا کنٹرول بھی ہمارے ہاتھ میں ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر

2025 میں شائقین کن ڈراموں کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں؟

Dramas

اگرچہ حالیہ پاکستانی ڈرامے اکثر پرانے موضوعات اور کمزور اسکرپٹس کے باعث ناظرین کو متاثر کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، لیکن 2025 میں ٹیلی وژن اسکرینز پر ایک نیا جوش اور توقعات کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ شائقین اب ان ڈراموں کی جانب دیکھ رہے ہیں جن میں بڑی کاسٹ، مضبوط کہانیاں، اور پُرکشش پروڈکشن ویلیو شامل ہے۔ وہاج علی، بلال عباس خان، احمد علی اکبر اور ہانیہ عامر جیسے بڑے ناموں کی واپسی سے مداحوں کی توقعات بلند ہو چکی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: بیویوں کا شوہروں سے مقابلہ طلاق کی بڑی وجہ ہے، صبا فیصل اس سال کے تین ایسے ڈرامے جن کا ناظرین کو بے چینی سے انتظار ہے، ان میں سرفہرست ہے “میری زندگی ہے تُو”، جس میں بلال عباس خان اور ہانیہ عامر پہلی بار ایک ساتھ نظر آئیں گے۔ مصدق ملک کی ہدایتکاری میں بننے والا یہ رومانوی ڈرامہ پہلے ہی سوشل میڈیا پر خوب مقبول ہو رہا ہے۔ مداحوں نے شوٹنگ کے سیٹ سے لیک تصاویر اور فین میڈ پوسٹرز سے اندازہ لگا لیا ہے کہ یہ ایک بڑی ہٹ ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسرے نمبر پر “سانول یار پیا” ہے، جو کہ ہاشم ندیم کی تحریر اور دانش نواز کی ہدایت میں تیار ہو رہا ہے۔ احمد علی اکبر، دُرفشاں سلیم اور فیروز خان جیسے اداکار اس میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اقرا عزیز کے متنازع انخلا کے بعد یہ پروجیکٹ مزید توجہ کا مرکز بن گیا ہے، مگر مضبوط ٹیم اور کہانی کی بدولت توقع ہے کہ یہ ڈرامہ “پری زاد” جیسی کامیابی دہرائے گا۔ تیسرا ڈرامہ “جن کی شادی اُن کی شادی” ہے، جو کہ ایک رومانوی کامیڈی ہے۔ اس میں وہاج علی سحر خان کے ساتھ نظر آئیں گے، جبکہ معاون کرداروں میں ارسلان نصیر، نادیہ افغان، سید جبران، رومیسہ خان، اور سدرہ نیازی جیسے نام شامل ہیں۔ انوکھا عنوان اور دلچسپ کاسٹ پہلے ہی سوشل میڈیا پر شائقین کی دلچسپی کا باعث بن چکے ہیں۔ ان ڈراموں کی مقبولیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ایک بار پھر ناظرین کا اعتماد جیتنے کے لیے سنجیدہ کوششوں میں مصروف ہے۔ 2025 میں ان پروجیکٹس کی ریلیز ممکنہ طور پر ایک نئی تخلیقی لہر کی شروعات ثابت ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد میں پینے کا پانی چوری ہو رہا ہے، سینیٹ اجلاس میں انکشاف

Senator fauzia

سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر فوزیہ ارشد نے پانی چوری کے معاملے کو اُٹھاتے ہوئے بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں یومیہ پانی کی طلب 240 ملین گیلن ہے، مگر فراہمی صرف 120 ملین گیلن تک محدود ہے۔ اس میں سے بھی تقریباً 40 فیصد، یعنی 50 ملین گیلن پانی چوری ہو جاتا ہے، جس کے بعد صرف 70 ملین گیلن پانی شہریوں تک پہنچ پاتا ہے۔ سینیٹر فوزیہ ارشد کے مطابق سملی ڈیم، خان پور ڈیم اور ٹیوب ویلز سے جو پانی حاصل ہوتا ہے، وہ شہریوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: بیویوں کا شوہروں سے مقابلہ طلاق کی بڑی وجہ ہے، صبا فیصل انہوں نے خاص طور پر اسلام آباد کے ریڈ زون سے منسلک سیکٹر جی سکس فور کی نشاندہی کی، جہاں برسوں سے پانی دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے وہاں کے مکینوں کو مہنگے داموں ٹینکر مافیا سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔ انہوں نے عیدالاضحی کے قریب آنے اور پانی کی ممکنہ بڑھتی ہوئی طلب کے تناظر میں فوری اقدامات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ سی ڈی اے کو ہدایت کی جائے کہ وہ مسئلے کے فوری حل کے لیے متحرک ہو۔ اجلاس کی صدارت کرنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے معاملے کی حساسیت کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت دی کہ اس مسئلے کو سینیٹ کی داخلہ امور کمیٹی کو بھیجا جائے، جہاں سینیٹر فوزیہ ارشد ذاتی طور پر پیش ہو کر اس کیس کا دفاع کریں گی۔

 انڈیا گذشتہ 20 سال سے دہشت گردی سپانسر کر رہا ہے، پاکستان 

Ispr intro

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ انڈیا پاکستان میں ’گذشتہ 20 سال سے دہشت گردی سپانسر‘ کر رہا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے وفاقی سیکریٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک سلائڈ کے ذریعے 20 سالوں میں حملوں کی تفصیل اور اعداد و شمار شیئر کیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا 20 سال سے ریاستی دہشت گردی کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔2009 میں پاکستان نے انڈین وزیر اعظم کو دہشت گردی کے شواہد دیے تھے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انڈیا خطے میں امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کا انسانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کشمیر کے ساتھ پانی کا کنٹرول بھی ہمارے ہاتھ میں ہوگا، ڈی جی آئی ایس پی آر پاکستانی افواج کے ترجمان نے عرب ٹی وی کو دیے گئے حالیہ انٹرویو میں علاقائی سیکیورٹی، انڈیا کے الزامات، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے مؤقف کو واضح انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے لیکن فتح اللہ تعالیٰ کی ہے۔” انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا مؤقف شفاف، اصولی اور سچائی پر مبنی ہے جس کی جھلک پاکستان کے عوام کے چہروں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ حالیہ جھڑپوں اور حملوں کے بعد انڈیا نے ایک من گھڑت کہانی گھڑی، مگر پاکستان نے فوری مطالبہ کیا کہ اگر انڈیا کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لایا جائے، چاہے وہ کسی شہری، ریاست یا کسی تنظیم کے حوالے سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ شفاف تحقیقات کی بنیاد صرف حقیقی اور قابل تصدیق شواہد پر ہو سکتی ہے۔ تاہم، انڈیا آج تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ لازمی پڑھیں:  حکومت سے گفتگو بے فائدہ،مذاکرات انہی سے ہوں گے جن کے پاس اختیار ہے، عمران خان حالیہ بیان میں انڈیا کی وزارت خارجہ نے بھی کہا کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں جس سے ان کے مؤقف کی کمزوری واضح ہوتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے 6 اور 7 مئی کو کی گئی کارروائیوں کا کوئی اخلاقی جواز نہیں، اور دنیا نے خود دیکھا کہ انڈین میڈیا اور ریاست کس طرح جھوٹ پر مبنی بیانیہ تشکیل دے رہے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی اقدار، مذہب اور ثقافت کسی مذہبی یا سویلین مقام پر حملے کی اجازت نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس تنازعے میں نہ کسی صحافی کو جیل میں ڈالا اور نہ ہی اظہار رائے پر پابندی لگائی۔ انہوں نے افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی فضائیہ، نیوی اور آرمی پر فخر ہے۔ تینوں افواج کے درمیان ہم آہنگی ہے اور سیاسی قیادت و عوام بھی مکمل طور پر متحد ہیں۔ انہوں نے ‘آہنی دیوار’ یعنی ‘بنیان مرصوص’ کو انڈیا کی جارحیت کے خلاف ایک متحد مزاحمت قرار دیا۔ پاکستان کی تکنیکی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے جے ایف 17 تھنڈر، جے 10 سی طیاروں اور ‘فتح’ میزائل سیریز کو ملکی دفاع میں سنگ میل قرار دیا۔ یہ بھی پڑھیں: مردان: زمین کے تنازعہ پر فائرنگ، دو بیٹوں سمیت باپ قتل انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ابھی تک اپنی مکمل روایتی طاقت استعمال نہیں کی کیونکہ فوج کا بڑا حصہ اندرونی دہشتگردی، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں انڈیا کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کے خلاف مصروف ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ دنیا جانتی ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا تصور خطرناک اور مضحکہ خیز ہے۔ انڈیا کا جنگی جنون خطے کے امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا ایسا ماحول بنا رہا ہے جو باہمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی، سکھ اور نچلی ذات کے ہندو بھی ظلم کا شکار ہیں۔ ان مظالم کے فطری ردعمل کو انڈیا پاکستان پر الزام دیکر بیرونی مسئلہ بنانے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ اس کا حل اندرونی اصلاحات سے ہی ممکن ہے۔ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کو دہراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک عالمی تنازعہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر سے نکلنے والے چھ دریا خطے میں اہمیت رکھتے ہیں اور اگر کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو پانی پر کنٹرول بھی پاکستان کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ انہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک خطے میں امن کے لیے ذمہ دار کردار ادا کر رہے ہیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اگر انڈیا میں خودداری ہے تو اسے جنگ، جھوٹ اور الزام تراشی کے بجائے خود مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ مزید پڑھیں: پنجاب بھر میں مویشی منڈیاں سج گئیں، سکیورٹی کے انتظامات مکمل، انٹری کیسے ہوگی؟

ناکامی پر خاموشی کیوں؟ یشونت سنہا نے مودی سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا

Ishont sinha

انڈین سیاستدان اور سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے آپریشن سندور کے حوالے سے مودی حکومت پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ حکومت اپنے میڈیا کے ذریعے اس آپریشن کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق حکومت نے پاکستان فضائیہ کے ہاتھوں تباہ ہونے والے طیاروں کی اصل تعداد کو چھپایا ہے۔ یشونت سنہا نے مزید کہا کہ حکومت اس آپریشن کو بہار کے انتخابات میں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرے گی۔ انہوں نے نریندر مودی، امت شاہ، ایس جے شنکر اور اجیت دوول سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق، حکومت عوام کو حقائق بتانے کے بجائے خاموش ہے اور جو اس آپریشن کی ناکامی پر سوال اٹھاتا ہے اسے غدار قرار دیا جاتا ہے۔ اس دوران اںڈین حکومت نے پاکستان کی جانب سے آپریشن سندور کے حوالے سے خبروں کی تردید کی ہے۔  ان خبروں میں انڈین طیاروں کے مار گرائے جانے اور فوجیوں کے پکڑے جانے کی جھوٹی اطلاعات شامل تھیں۔ انڈین حکومت نے ان تمام دعووں کو مسترد قرار دیا ہے۔ یہ صورتحال انڈیا میں سیاسی اور فوجی سطح پر شدید بحث کا باعث بنی ہوئی ہے جبکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ مزید پڑھیں: غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 85 معصوم فلسطینی شہید

’ہارٹ سینڈر‘، پاکستانی اداروں نے امریکا میں سائبر کرائم کرنے والوں کو ملتان سے کیسے پکڑا؟

Hackers.

یہ واقعہ 15 اور 16 مئی کی درمیانی رات پیش آیا، جب ملتان کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں سیکیورٹی اداروں نے چھاپہ مارا۔ ان کا مقصد ایک ایسے نیٹ ورک کے افراد کو گرفتار کرنا تھا جو عالمی سطح پر ہیکنگ اور فراڈ میں ملوث تھا۔ بی بی سی اردو کے مطابق اس نیٹ ورک کے بارے میں پہلی معلومات جنوری 2025 میں سامنے آئیں جب امریکا کی ایف بی آئی اور نیدرلینڈز کی پولیس نے اس گروہ کی 39 ویب سائٹس بند کیں۔ اس گروہ کا مبینہ سربراہ صائم رضا تھا، جو آن لائن دنیا میں ’ہارٹ سینڈر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ چھاپے کے دوران پاکستانی نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی اور دیگر اداروں نے دو گھروں کو نشانہ بنایا جن میں نیٹ ورک کے کارندے موجود تھے۔ ایک خصوصی ٹیم لوکیشن ٹریس کرنے والے آلات کے ساتھ پہنچی۔ موبائل نمبر کی مدد سے ٹیم نے ایک خاص جگہ کی نشاندہی کی اور کارروائی شروع کی۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے اس آپریشن میں 14 افراد کو گرفتار کر لیا گیا، تاہم نیٹ ورک کا مرکزی شخص فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ موبائل کی لوکیشن اسی گھر میں موجود تھی لیکن بعد میں اچانک غائب ہو گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ گروہ کے سربراہ نے پچھلے دروازے سے ایک خفیہ راستے کے ذریعے فرار ہو کر فون بند کر دیا تھا۔ گرفتار ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکی شہریوں اور مالیاتی اداروں کو دھوکہ دے کر پیسے لُوٹے۔ عدالت نے ان ملزمان کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے۔ حکام کے مطابق گروہ سے منسلک 21 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، اور ان کی تحقیقات کے لیے آٹھ رکنی ٹیم کام کر رہی ہے۔ گروہ کے زیرِ استعمال کمپیوٹرز، موبائل فون، لیپ ٹاپس، دیگر آلات اور لگژری گاڑیاں قبضے میں لے لی گئی ہیں، جبکہ گھروں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ 15 ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیے گئے ہیں۔ مزید تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ گروہ کے سربراہ نے دو اور گھر بھی کرائے پر لے رکھے تھے جو مرکزی گھروں کے پیچھے واقع تھے، اور وہیں سے فرار ہوا۔ حکام نے بتایا کہ یہی شخص 2011 میں پاکستان کی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ بھی ہیک کر چکا ہے۔ اس گروہ نے مختلف ویب سائٹس بنائی ہوئی تھیں جن کے ذریعے یہ ہیکنگ ٹولز اور مالی فراڈ کے لیے سافٹ ویئر فروخت کرتے تھے۔ نیدرلینڈز کی پولیس اور امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ان ویب سائٹس پر “سینڈرز”، “سکیمپینز” اور “کوکی گریبرز” جیسے سافٹ ویئر بیچے جاتے تھے جو دھوکہ دہی اور پاسورڈ چوری کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ امریکی حکام کے مطابق اس نیٹ ورک نے نہ صرف یہ ٹولز بیچے بلکہ یوٹیوب پر ان کے استعمال کے طریقے بھی سکھائے۔ ان ٹولز کا استعمال کر کے مجرم متاثرہ کمپنیوں کو کسی جعلی اکاؤنٹ میں پیسے بھیجنے پر مجبور کرتے تھے، جس سے انہیں لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوتا تھا۔ امریکی حکام نے کہا کہ یہ نیٹ ورک 2020 سے کام کر رہا تھا اور اب تک امریکی شہریوں کو 30 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا چکا ہے۔ اس نیٹ ورک پر دنیا بھر کے مجرموں کو ہیکنگ کے لیے سہولت فراہم کرنے، ٹولز فروخت کرنے، اور انہیں استعمال کرنے کی تربیت دینے کا الزام ہے۔ نیدرلینڈز پولیس کے مطابق 2022 میں جب ایک علیحدہ مقدمے کی تفتیش کے دوران ایک ملزم کے کمپیوٹر سے ایک مشکوک سافٹ ویئر ملا، تو تحقیقات کا آغاز ہوا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس گروہ نے “کریمنل ویب شاپس” بھی بنا رکھی تھیں جن کے اشتہارات یوٹیوب پر چل رہے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کی مکمل گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں اور مرکزی ملزم کی گرفتاری کے لیے ملک بھر کے ائیرپورٹس کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

وادیِ کیلاش، جہاں بہاریں زندہ نظر آتی ہیں

کیلاش پاکستان کے شمالی علاقہ جات، خاص طور پر ضلع چترال کی وادیوں بمبوریت، رمبور اور بریر میں آباد ایک قدیم اور منفرد تہذیب رکھنے والی قوم ہے۔ کیلاش کی ثقافت اپنی انفرادیت، رنگا رنگی اور تاریخی ورثے کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ ان کی زندگی، روایات، لباس، رسومات اور عقائد سب کچھ باقی قوموں سے بہت مختلف ہے۔ کیلاشی خواتین کا روایتی لباس نہایت دلکش اور رنگ برنگا ہوتا ہے، جس میں سیاہ لمبی قمیض، رنگین دھاگوں سے کڑھا ہوا کشیدہ کام، اور موتیوں، سیپیوں سے سجا خوبصورت سرپوش شامل ہے۔ مرد نسبتاً سادہ لباس پہنتے ہیں لیکن خاص مواقع پر وہ بھی روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں۔ کیلاشی زبان ایک الگ زبان ہے جس کا تعلق داردی زبانوں کے گروہ سے ہے۔ ان کی زبان اور بول چال بھی ان کی شناخت کا اہم حصہ ہے، اگرچہ اب یہ زبان زوال کا شکار ہے۔ کیلاشی قوم پاکستان کا ایک نایاب ثقافتی خزانہ ہے جو نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے ثقافتی نقشے پر بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔

غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 85 معصوم فلسطینی شہید

Father with daughter

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جس میں کم از کم 85 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ یہ حملے جمعرات کی صبح کے ابتدائی اوقات میں شروع ہوئے اور تاحال جاری ہیں، جس سے زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 29 فلسطینی بچے اور بزرگ جو حالیہ دنوں میں شہید ہوئے ہیں ان کو “بھوک سے متعلق اموات” کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ یہ اموات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزہ میں جاری محاصرے اور امدادی سامان کی کمی کے باعث ہزاروں افراد قحط کا شکار ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کے شمالی علاقے بیت لہییا کو شدید نقصان پہنچایا ہے جہاں متعدد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اور شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شہید شامل تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 53,762 فلسطینی شہید اور 122,197 زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومتی میڈیا آفس کے مطابق ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کی لاشیں ابھی تک نہیں مل سکیں، جنہیں شہید سمجھا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اور امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت نے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ غزہ میں جاری اس انسانی المیے پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جن پر عالمی برادری کو فوری اور مؤثر ردعمل دینا چاہیے۔ مزید پڑھیں: فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے محمود خلیل کی پہلی مرتبہ اپنے بیٹے ’دین‘ سے ملاقات

’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے

Japan auto industry

تقریباً چالیس سال پہلے، ہیروکو سوزوکی کے والد نے اپنی خاندانی کمپنی کیووا انڈسٹریل کو عام گاڑیوں کے پرزے بنانے سے ہٹا کر خاص قسم کے پرزے بنانے پر لگا دیا تھا، تاکہ اس وقت امریکا اور جاپان کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے اثرات سے بچا جا سکے۔ لیکن اب ٹرمپ حکومت کی طرف سے لگائے گئے بھاری ٹیکس اس کمپنی کے لیے ایک نئے بحران کا سبب بن رہے ہیں۔ ان درآمدی ٹیکسوں نے کمپنی کی میڈیکل آلات میں کام کرنے کی کوشش کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے ان ٹیکسوں، خاص طور پر گاڑیوں پر پچیس فیصد ٹیرف، کو جاپان کے لیے ایک قومی بحران قرار دیا ہے۔ جاپان کے اعلیٰ تجارتی نمائندے ریوسی آکازاوا اس مسئلے پر بات چیت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی کیووا انڈسٹری، جو ٹوکیو کے شمال میں واقع تاکاساکی شہر میں ہے، ایسی کمپنیوں میں شامل ہے جو گاڑیوں کے خاص پرزے اور ریسنگ کاروں کے اجزاء بناتی ہے۔ اس میں ایک سو بیس افراد کام کرتے ہیں۔ سوزوکی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹیرف کا اعلان ہوا تو ان کے ذہن میں یہی سوال آیا کہ وہ دنیا میں اب کیا کریں گے۔ انہیں لگا کہ صورتحال بہت خراب ہونے والی ہے۔ کیووا اور دیگر چھوٹے کارخانے جاپان کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو کئی دہائیوں سے گاڑیاں بنانے کے لیے مونوزوکوری یعنی اعلیٰ معیار کی تیاری پر عمل پیرا ہے۔ اس طریقے کو ٹویوٹا نے فروغ دیا تھا جس میں پیداوار میں مستقل بہتری اور درستگی پر زور دیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ جاپان کو ایک مضبوط صنعتی ملک بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ لیکن اب گاڑیوں کی دنیا میں تبدیلی آ چکی ہے۔ بیٹری سے چلنے والی سمارٹ گاڑیوں نے سافٹ ویئر کو بہت اہم بنا دیا ہے، اور اب کمپنیاں جیسے ٹیسلا اور چین کی کمپنی بی وائی ڈی مارکیٹ میں نمایاں ہو چکی ہیں۔ سوزوکی نے 2016 میں یہ اندازہ لگایا کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا بڑھتا ہوا رجحان انجن کے پرزوں کی مانگ کو کم کر دے گا۔ اس لیے انہوں نے نیورو سرجری کے آلات تیار کرنا شروع کیے۔ انہوں نے امریکا میں ان آلات کی فروخت کا آغاز بھی کیا، لیکن انہیں اندازہ ہوا کہ ان پر بھی وہی درآمدی ٹیکس لاگو ہوتے ہیں جو باقی مصنوعات پر ہوتے ہیں۔ کیووا اگرچہ امریکا کو گاڑیوں کے پرزے برآمد نہیں کرتی، لیکن سوزوکی کو خدشہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے سپلائرز پر قیمتیں کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہیں تاکہ وہ ان ٹیکسوں کا ازالہ کر سکیں۔ اب تک ان کی کمپنی کو اس دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک اور گاڑی بنانے والی کمپنی سبارو نے کہا ہے کہ انہیں اپنے سپلائرز کے لیے امریکا سے باہر دوسرے متبادل دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ بڑی کار ساز کمپنیاں زیادہ تر اس مسئلے پر خاموش ہیں، لیکن ٹویوٹا، نسان اور فورڈ جیسی کمپنیاں کچھ جاپانی سپلائرز کی امریکی شاخوں کو خطوط لکھ چکی ہیں جن میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ان خطوط کی کاپیاں روئٹرز نے دیکھی ہیں، حالانکہ ان کمپنیوں نے اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔

فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے محمود خلیل کی پہلی مرتبہ اپنے بیٹے ’دین‘ سے ملاقات

Mahmood khalil

کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے کارکن محمود خلیل نے اپنی گرفتاری کے بعد پہلی بار اپنے نومولود بیٹے سے ملاقات کی۔ ان کے وکلا کے مطابق یہ ملاقات جمعرات کو اس وقت ممکن ہوئی جب ایک جج نے خلیل کو اپنی بیوی اور بچے سے ملنے کی اجازت دی۔ خلیل کے بیٹے کی پیدائش اسی وقت ہوئی تھی جب وہ مارچ میں امریکی امیگریشن حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔ محمود خلیل نے امریکا کی امیگریشن عدالت میں پیشی سے پہلے اپنی اہلیہ ڈاکٹر نور عبداللہ اور اپنے بیٹے دین سے ملاقات کی۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ خلیل کے لیے اپنے بیٹے کو پہلی بار گود میں لینا اور اپنی بیوی سے بات کرنا ایک جذباتی لمحہ تھا، لیکن انہوں نے اس ملاقات کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں تاکہ ان کے نجی لمحات کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کردیا خلیل غزہ پر اسرائیلی فوجی حملوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی تحریک کے نمایاں رہنما ہیں۔ ان کی گرفتاری نے امریکا میں اظہارِ رائے کی آزادی، سیاسی مخالفت، اور امیگریشن قوانین کے استعمال پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ محمود خلیل کی موجودگی ملک کے خارجہ پالیسی مفادات کے خلاف ہے، جس وجہ سے اس کا گرین کارڈ ایک خاص قانون کے تحت منسوخ کر دیا گیا۔ یہ قانون وزیرِ خارجہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کو ملک بدر کرا سکتا ہے اگر اس کی موجودگی قومی مفاد کے خلاف ہو۔ محمود خلیل، جن کی عمر 30 سال ہے، شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2022 میں اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکا آئے۔ انہوں نے ایک امریکی شہری سے شادی کی اور 2023 میں قانونی طور پر امریکا کے مستقل رہائشی بن گئے۔ اس دوران، ایک علیحدہ عدالتی کارروائی میں ایک وفاقی جج نے خلیل کی ملک بدری کو روک دیا ہے، کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ امیگریشن عدالت کا جج محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کے حق میں فیصلہ دیتا ہے یا نہیں، لیکن جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا، خلیل کو ملک سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ کیس امریکہ میں فلسطینی حامی مظاہرین اور طلبہ کے ساتھ حکومتی سلوک پر جاری بحث کا اہم حصہ بن چکا ہے۔