وادیِ کیلاش، جہاں بہاریں زندہ نظر آتی ہیں

کیلاش پاکستان کے شمالی علاقہ جات، خاص طور پر ضلع چترال کی وادیوں بمبوریت، رمبور اور بریر میں آباد ایک قدیم اور منفرد تہذیب رکھنے والی قوم ہے۔ کیلاش کی ثقافت اپنی انفرادیت، رنگا رنگی اور تاریخی ورثے کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ ان کی زندگی، روایات، لباس، رسومات اور عقائد سب کچھ باقی قوموں سے بہت مختلف ہے۔ کیلاشی خواتین کا روایتی لباس نہایت دلکش اور رنگ برنگا ہوتا ہے، جس میں سیاہ لمبی قمیض، رنگین دھاگوں سے کڑھا ہوا کشیدہ کام، اور موتیوں، سیپیوں سے سجا خوبصورت سرپوش شامل ہے۔ مرد نسبتاً سادہ لباس پہنتے ہیں لیکن خاص مواقع پر وہ بھی روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں۔ کیلاشی زبان ایک الگ زبان ہے جس کا تعلق داردی زبانوں کے گروہ سے ہے۔ ان کی زبان اور بول چال بھی ان کی شناخت کا اہم حصہ ہے، اگرچہ اب یہ زبان زوال کا شکار ہے۔ کیلاشی قوم پاکستان کا ایک نایاب ثقافتی خزانہ ہے جو نہ صرف ملک بلکہ دنیا کے ثقافتی نقشے پر بھی اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔

غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 85 معصوم فلسطینی شہید

Father with daughter

غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں میں شدت دیکھنے کو ملی ہے جس میں کم از کم 85 فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ یہ حملے جمعرات کی صبح کے ابتدائی اوقات میں شروع ہوئے اور تاحال جاری ہیں، جس سے زخمیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 29 فلسطینی بچے اور بزرگ جو حالیہ دنوں میں شہید ہوئے ہیں ان کو “بھوک سے متعلق اموات” کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے۔ یہ اموات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ غزہ میں جاری محاصرے اور امدادی سامان کی کمی کے باعث ہزاروں افراد قحط کا شکار ہیں۔ اسرائیلی فضائی حملوں نے غزہ کے شمالی علاقے بیت لہییا کو شدید نقصان پہنچایا ہے جہاں متعدد رہائشی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اور شہید ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شہید شامل تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 53,762 فلسطینی شہید اور 122,197 زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومتی میڈیا آفس کے مطابق ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کی لاشیں ابھی تک نہیں مل سکیں، جنہیں شہید سمجھا جا رہا ہے۔ عالمی برادری کی خاموشی اور امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی جارحیت نے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ غزہ میں جاری اس انسانی المیے پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں جن پر عالمی برادری کو فوری اور مؤثر ردعمل دینا چاہیے۔ مزید پڑھیں: فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے محمود خلیل کی پہلی مرتبہ اپنے بیٹے ’دین‘ سے ملاقات

’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے

Japan auto industry

تقریباً چالیس سال پہلے، ہیروکو سوزوکی کے والد نے اپنی خاندانی کمپنی کیووا انڈسٹریل کو عام گاڑیوں کے پرزے بنانے سے ہٹا کر خاص قسم کے پرزے بنانے پر لگا دیا تھا، تاکہ اس وقت امریکا اور جاپان کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے اثرات سے بچا جا سکے۔ لیکن اب ٹرمپ حکومت کی طرف سے لگائے گئے بھاری ٹیکس اس کمپنی کے لیے ایک نئے بحران کا سبب بن رہے ہیں۔ ان درآمدی ٹیکسوں نے کمپنی کی میڈیکل آلات میں کام کرنے کی کوشش کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جاپان کے وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے ان ٹیکسوں، خاص طور پر گاڑیوں پر پچیس فیصد ٹیرف، کو جاپان کے لیے ایک قومی بحران قرار دیا ہے۔ جاپان کے اعلیٰ تجارتی نمائندے ریوسی آکازاوا اس مسئلے پر بات چیت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی کیووا انڈسٹری، جو ٹوکیو کے شمال میں واقع تاکاساکی شہر میں ہے، ایسی کمپنیوں میں شامل ہے جو گاڑیوں کے خاص پرزے اور ریسنگ کاروں کے اجزاء بناتی ہے۔ اس میں ایک سو بیس افراد کام کرتے ہیں۔ سوزوکی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب ٹیرف کا اعلان ہوا تو ان کے ذہن میں یہی سوال آیا کہ وہ دنیا میں اب کیا کریں گے۔ انہیں لگا کہ صورتحال بہت خراب ہونے والی ہے۔ کیووا اور دیگر چھوٹے کارخانے جاپان کے اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو کئی دہائیوں سے گاڑیاں بنانے کے لیے مونوزوکوری یعنی اعلیٰ معیار کی تیاری پر عمل پیرا ہے۔ اس طریقے کو ٹویوٹا نے فروغ دیا تھا جس میں پیداوار میں مستقل بہتری اور درستگی پر زور دیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ جاپان کو ایک مضبوط صنعتی ملک بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ لیکن اب گاڑیوں کی دنیا میں تبدیلی آ چکی ہے۔ بیٹری سے چلنے والی سمارٹ گاڑیوں نے سافٹ ویئر کو بہت اہم بنا دیا ہے، اور اب کمپنیاں جیسے ٹیسلا اور چین کی کمپنی بی وائی ڈی مارکیٹ میں نمایاں ہو چکی ہیں۔ سوزوکی نے 2016 میں یہ اندازہ لگایا کہ بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کا بڑھتا ہوا رجحان انجن کے پرزوں کی مانگ کو کم کر دے گا۔ اس لیے انہوں نے نیورو سرجری کے آلات تیار کرنا شروع کیے۔ انہوں نے امریکا میں ان آلات کی فروخت کا آغاز بھی کیا، لیکن انہیں اندازہ ہوا کہ ان پر بھی وہی درآمدی ٹیکس لاگو ہوتے ہیں جو باقی مصنوعات پر ہوتے ہیں۔ کیووا اگرچہ امریکا کو گاڑیوں کے پرزے برآمد نہیں کرتی، لیکن سوزوکی کو خدشہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے سپلائرز پر قیمتیں کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہیں تاکہ وہ ان ٹیکسوں کا ازالہ کر سکیں۔ اب تک ان کی کمپنی کو اس دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ایک اور گاڑی بنانے والی کمپنی سبارو نے کہا ہے کہ انہیں اپنے سپلائرز کے لیے امریکا سے باہر دوسرے متبادل دیکھنے پڑ سکتے ہیں۔ بڑی کار ساز کمپنیاں زیادہ تر اس مسئلے پر خاموش ہیں، لیکن ٹویوٹا، نسان اور فورڈ جیسی کمپنیاں کچھ جاپانی سپلائرز کی امریکی شاخوں کو خطوط لکھ چکی ہیں جن میں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ان خطوط کی کاپیاں روئٹرز نے دیکھی ہیں، حالانکہ ان کمپنیوں نے اس پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا۔

فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والے محمود خلیل کی پہلی مرتبہ اپنے بیٹے ’دین‘ سے ملاقات

Mahmood khalil

کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم اور فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے والے کارکن محمود خلیل نے اپنی گرفتاری کے بعد پہلی بار اپنے نومولود بیٹے سے ملاقات کی۔ ان کے وکلا کے مطابق یہ ملاقات جمعرات کو اس وقت ممکن ہوئی جب ایک جج نے خلیل کو اپنی بیوی اور بچے سے ملنے کی اجازت دی۔ خلیل کے بیٹے کی پیدائش اسی وقت ہوئی تھی جب وہ مارچ میں امریکی امیگریشن حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے۔ محمود خلیل نے امریکا کی امیگریشن عدالت میں پیشی سے پہلے اپنی اہلیہ ڈاکٹر نور عبداللہ اور اپنے بیٹے دین سے ملاقات کی۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ خلیل کے لیے اپنے بیٹے کو پہلی بار گود میں لینا اور اپنی بیوی سے بات کرنا ایک جذباتی لمحہ تھا، لیکن انہوں نے اس ملاقات کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں تاکہ ان کے نجی لمحات کی حفاظت کی جا سکے۔ یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کردیا خلیل غزہ پر اسرائیلی فوجی حملوں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کی تحریک کے نمایاں رہنما ہیں۔ ان کی گرفتاری نے امریکا میں اظہارِ رائے کی آزادی، سیاسی مخالفت، اور امیگریشن قوانین کے استعمال پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ محمود خلیل کی موجودگی ملک کے خارجہ پالیسی مفادات کے خلاف ہے، جس وجہ سے اس کا گرین کارڈ ایک خاص قانون کے تحت منسوخ کر دیا گیا۔ یہ قانون وزیرِ خارجہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی غیر ملکی کو ملک بدر کرا سکتا ہے اگر اس کی موجودگی قومی مفاد کے خلاف ہو۔ محمود خلیل، جن کی عمر 30 سال ہے، شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2022 میں اسٹوڈنٹ ویزا پر امریکا آئے۔ انہوں نے ایک امریکی شہری سے شادی کی اور 2023 میں قانونی طور پر امریکا کے مستقل رہائشی بن گئے۔ اس دوران، ایک علیحدہ عدالتی کارروائی میں ایک وفاقی جج نے خلیل کی ملک بدری کو روک دیا ہے، کیونکہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری غیر قانونی تھی۔ اب یہ دیکھا جائے گا کہ امیگریشن عدالت کا جج محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کے حق میں فیصلہ دیتا ہے یا نہیں، لیکن جب تک یہ فیصلہ نہیں ہوتا، خلیل کو ملک سے نہیں نکالا جا سکتا۔ یہ کیس امریکہ میں فلسطینی حامی مظاہرین اور طلبہ کے ساتھ حکومتی سلوک پر جاری بحث کا اہم حصہ بن چکا ہے۔

گرمی میں ’غیرمعمولی‘ اضافہ، کراچی میں کورونا سے چار افراد جاں بحق

Corona

کراچی میں کووڈ 19 کے کیسز میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کم از کم چار افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ حکام اور ماہرین صحت کے مطابق، ہلاک ہونے والے افراد میں زیادہ تر وہ تھے جنہیں پہلے سے موجود طبی مسائل یا مدافعتی نظام کی کمزوری کا سامنا تھا۔ ان تمام مریضوں کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں حالیہ دنوں میں کووڈ کے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔ ماہر متعدی امراض پروفیسر ڈاکٹر سید فیصل محمود نے ’دی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسپتال میں روزانہ کووڈ کے نئے مریض داخل ہو رہے ہیں، جو اس موسم میں غیر متوقع ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عام طور پر اس طرح کی سانس کی بیماریاں سردیوں میں پھیلتی ہیں، لیکن حالیہ لہر گرمی کے شدید موسم کے دوران آئی ہے، جب دن کے وقت درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر سے متعلق پیشگی انتباہ جاری کردیا ڈاکٹر محمود کے مطابق، اگرچہ صحت مند افراد میں علامات عموماً فلو جیسی اور ہلکی ہوتی ہیں، لیکن بزرگ، حاملہ خواتین اور کمزور قوتِ مدافعت کے حامل افراد کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو جلد ٹیسٹ کروانے اور علامتی علاج کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ سندھ انسٹیٹیوٹ آف انفیکشس ڈیزیزز میں بھی چند کووڈ مریض داخل کیے گئے ہیں، جن کی تصدیق پی سی آر اور ریپڈ اینٹیجن ٹیسٹ سے ہوئی ہے۔ ان نمونوں کو مزید تجزیے کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز بھیجا گیا ہے، جہاں ماہرین موجودہ انفیکشنز کو اومیکرون کی JN.1 قسم سے جوڑ رہے ہیں۔ یہ قسم عمومی طور پر ہلکی علامات پیدا کرتی ہے، لیکن ضعیف افراد کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ علامات، جن میں گلے کی خراش، بخار، آنکھوں میں پانی، کھانسی اور پیٹ کی خرابی شامل ہیں، عام فلو کی موجودہ غیر موجودگی کے باعث کووڈ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی لوگ ٹیسٹ نہ کروانے کی وجہ سے رپورٹنگ میں کمی آ رہی ہے، جس سے اصل صورت حال کا اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں بھی چند کیسز سامنے آئے ہیں، تاہم ضلعی انتظامیہ نے کسی بڑے اضافے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق، انہیں جو نمونے موصول ہو رہے ہیں، ان میں سے 10 سے 20 فیصد مثبت آ رہے ہیں۔ ملک گیر سطح پر بہتر نگرانی کے لیے حکمتِ عملی پر غور کیا جا رہا ہے۔ ماہرین نے اس غیر متوقع رجحان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانس کی بیماریوں کا گرمی کے موسم میں پھیلاؤ غیر معمولی ہے، اور خاص طور پر بزرگ، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر یا کینسر کے مریضوں میں پیچیدگیوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ وبا کے ابتدائی دنوں میں پاکستان نے مختلف ویکسینز کا استعمال کیا، جن میں سائنو فارم، فائزر، موڈرنا اور دیگر شامل تھیں۔ ان ویکسینز کی وجہ سے ملک میں کووڈ سے اموات کی تعداد نسبتاً کم رہی۔ سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو سے موجودہ صورتحال پر موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، تاہم رپورٹ کے فائل ہونے تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستان-انڈیا  کشیدگی: کیا دفاعی بجٹ میں اضافہ معاشی ترقی کو روک دے گا؟

Pak vs india

پاکستان اور انڈیا  کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی نے نہ صرف خطے میں امن کے امکانات کو متاثر کیا ہے بلکہ دونوں ممالک کی معیشتیں بھی اس تلخی کی بھاری قیمت چکا رہی ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہوتے تو خطے میں تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے اربوں ڈالر کی آمدنی ممکن تھی، لیکن بداعتمادی اور تنازعات نے ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ پہلگام سے شروع ہونے والی یہ کشیدگی بالآخر جنگ بندی معاہدے  کے ذریعے ختم ہوئی مگر اس نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، وہ برسوں یاد رکھے جائیں گے۔ واہگہ بارڈر پر واقع تجارتی مرکز کبھی دونوں ممالک کے درمیان سامان کے تبادلے کا اہم ذریعہ تھا، مگر 2019 کے بعد تجارتی سرگرمیاں مکمل طور پر بند کر دی گئیں۔ دونوں جانب کے تاجروں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اور پہلگام واقعے کے بعد ایک بار پھر وہی ہوا۔  لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر نے کہا ہے کہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں ہی انڈیا سے سستی خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کا براہ راست اثر برآمدات پر پڑا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے مابین ہونے والی اس کشیدگی کا اثر نہ صرف دو طرفہ تجارت پر پڑا ہے بلکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ انڈیا کی جانب سے بلوچستان میں مبینہ مداخلت اور اس پر پاکستان کے تحفظات نے خطے میں غیرملکی سرمایہ کاری کو محدود کر دیا ہے۔ ایک نجی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ جب تک ہم انڈیا کے ساتھ تعلقات کو مستحکم نہیں کرتے، تب تک علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں قائم رہیں گی۔ ایک اور اہم پہلو دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ 2024 کے بجٹ میں پاکستان نے دفاع کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے، جب کہ انڈیا کی دفاعی بجٹ کا حجم 70 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ اخراجات صحت، تعلیم اور دیگر سماجی شعبوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ معاشی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق دونوں ممالک اگر صرف 10 فیصد دفاعی بجٹ تعلیم یا صحت پر لگا دیں تو جنوبی ایشیا کی غربت میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔ انڈیا میں جاری سیاسی کشیدگی کے باوجودملک کی مالیاتی منڈیوں نے بارہا لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔ جے ایم فنانشل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ماضی کے تنازعات جیسے 1962 کی چین-انڈیا جنگ، 1965 اور 1971 کی پاکستان-انڈیاجنگیں اور 1999 کی کارگل جنگ کے دوران انڈیاایکویٹی مارکیٹس پر محدود اثرات دیکھے گئے، جب کہ معیشت کو زیادہ نقصان ہوا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1962 کی چین-انڈیا جنگ میں انڈیا کی جی ڈی پی میں 0.8 فیصد کی کمی واقع ہوئی، 1965 میں شرح نمو 7.5 فیصد سے کم ہو کر 2.6 فیصد رہ گئی،جب کہ1971میں جی ڈی پی کی شرح 5.2 فیصد سےکم ہو کر 1.6 فیصد ہو گئی۔ کبھی لاہور سے امرتسر تک بسیں چلا کرتی تھیں، فلم، موسیقی اور ادب کے ذریعے عوام کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے تھے۔ لیکن اب ویزہ پالیسی اتنی سخت ہو چکی ہے کہ دونوں ممالک کے شہری ایک دوسرے سے ملنے کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ٹور آپریٹر شیراز ضمیر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ویزہ پالیسی نرم ہو جائے تو مذہبی سیاحت کے ذریعے کروڑوں روپے سالانہ آمدنی حاصل ہو سکتی ہے، خاص طور پر سکھ یاتریوں کے لیے، اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پرانے روابط موجود ہیں۔ پاکستان انڈیا  سے ادویات، کیمیکل اور دیگر اشیاء منگواتا تھا، ان اشیاء کی  درآمد بند ہونے کے بعد پاکستانی صنعتکاروں کو مہنگی اشیاء متبادل ممالک سے منگوانا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ آخرکار عام آدمی پر پڑتا ہے۔ نجی اسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انڈیا سے منگوائی گئی دوا جو پہلے 100 روپے کی ملتی تھی، اب وہی یورپ سے 300 روپے میں آتی ہے۔ایسے میں غریب آدمی کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ یہ دوا خرید سکے۔ عالمی تجارتی اجلاس میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے اس بات پرزور دیا کہ جنوبی ایشیا میں ترقی کا راستہ امن سے ہو کر گزرتا ہے۔ پاکستان  اور انڈیا اگر اپنے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں تو یہ پورے خطے کی معاشی تصویر بدل سکتا ہے۔ شعبہ تاریخ کے پروفیسر عمران علی خان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کی کشیدہ سیاسی فضا نے دوطرفہ تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2019 کے بعد جب کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی گئی، تو اس نے دونوں ممالک کے درمیان خلش کو جنم دیا۔اگرچہ تجارت سے دونوں معیشتوں کو فائدہ ہو سکتا تھا، مگر سیاسی کشیدگی نے معاشی امکانات پر پردہ ڈال دیا۔” ماہرین، صنعتکار اور پالیسی ساز اس بات پر متفق ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان عوام اور معیشت کو ہوتا ہے۔ خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی اسی وقت ممکن ہے، جب سیاسی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ جے ایم فنانشل کی رپورٹ اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ معیشت کی لچک ممکن ہے، لیکن سیاسی بصیرت کے بغیر ترقی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔

امریکا: سی آئی اے ہیڈکوارٹر کے باہر سیکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے خاتون زخمی

Cia incident

سی آئی اے کے سیکیورٹی اہلکاروں نے جمعرات کی صبح تقریباً 4 بجے (مشرقی وقت کے مطابق) ایک خاتون پر گولیاں چلائیں، جو گاڑی میں سوار ہو کر ایجنسی کے مرکزی دروازے کے قریب پہنچی تھی۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق خاتون کو حراست میں لے لیا گیا ہے، تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا کہ سی آئی اے کے سیکیورٹی اہلکاروں نے فائرنگ کیوں کی۔ فیئر فیکس کاؤنٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ نے ایک بیان میں واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائرنگ کے نتیجے میں خاتون زخمی ہوئی، تاہم اس سے جانی نقصان نہیں ہوا،خاتون کی صحت کے حوالے سے مزید تفصیلات فوری طور پر فراہم نہیں کی گئیں۔ پولیس کے بیان کے مطابق، فیئر فیکس پولیس اس وقت ٹریفک کنٹرول میں معاونت کر رہی ہے جبکہ سی آئی اے اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:’کچھ پیش رفت ہو رہی ہے‘، روس اور یوکرین جلد جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ واضح رہے کہ گزشتہ رات واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارتخانےکے دو ملازمین کو قتل کیا گیا تھا، فی الحال اس واقعے کا بدھ کی رات واشنگٹن ڈی سی میں دو اسرائیلی سفارت خانے کے ملازمین کے قتل سے کوئی تعلق سامنے نہیں آیا ہے۔ سی آئی اے کے ترجمان نے کہاکہ سی آئی اے ہیڈکوارٹر کے باہر ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کی۔ مرکزی دروازہ فی الحال بند کر دیا گیا ہے اور آئندہ اطلاع تک بند رہے گا۔ اضافی تفصیلات مناسب وقت پر جاری کی جائیں گی۔ ایف بی آئی کے واشنگٹن فیلڈ آفس نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے واقعے کا جواب دیا اور یہ عوامی سلامتی کے لیے کسی جاری خطرےکا باعث نہیں ہے۔

 حکومت سے گفتگو بے فائدہ،مذاکرات انہی سے ہوں گے جن کے پاس اختیار ہے، عمران خان

Imran khan latter

پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں اپنے وکلاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات بے معنی ہیں ،مذاکرات صرف ان سے ہوں گے جن کے پاس واقعی اختیار ہے۔ یہ مذاکرات صرف ملکی مفاد میں ہوں گے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 9 مئی کے مقدمات ایک بار پھر شروع کیے جا رہے ہیں حالانکہ یہ ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جس کا مقصد صرف تحریک انصاف کو کچلنا تھا۔  عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر 9 مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر لائی جائے تو سچ سب کے سامنے آ جائے گا، دو سال گزرنے کے باوجود اس فوٹیج کو پیش نہیں کیا گیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مقدمات کا مقصد صرف انتقام ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ ملک بھر کی طرح پشاور میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں سے فارم 47 کے ذریعے جیتی ہوئی نشستیں چھینی گئیں، الیکشن پٹیشنز کا فیصلہ دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ 180 دن کا وقت دیا گیا ہے لیکن 15 ماہ گزرنے کے باوجود اب تک ان پٹیشنز کی سماعت بھی شروع نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ پشاور سے جن افراد کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے، انہیں فوری طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے اور الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کرنا چاہیے، جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی سے بھی قرارداد منظور کی جائے۔ یہ بھی پڑھیں :عمران خان کا ایک بار پھر پولی گراف اور فارنزک ٹیسٹ کرانے سے انکار سابق وزیراعظم نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت کو بجٹ اور پالیسی سازی سے پہلے بطور پارٹی سربراہ ان سے ہدایات لینی چاہئیں، عوام نے تحریک انصاف کو حکومت کے لیے منتخب کیا ہے، لہٰذا پالیسی مرتب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ بجٹ پیش کرنے سے پہلے علی امین گنڈاپور اور وزیر خزانہ کو مجھ سے ملاقات کرنی چاہیے۔ عمران خان نے واضح کیا کہ مذاکرات کے حوالے سے ان سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور اس سلسلے میں شائع ہونے والی خبریں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ مزید پڑھیں :’عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے‘ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ہائیکورٹ میں رہائی کی درخواست دائر کر دی عمران خان نے کہا کہ ن لیگ کی کٹھ پتلی حکومت سے کسی بھی قسم کی گفتگو بے سود ہے، انہوں نے الزام لگایا کہ فارم 47 کی جعلی حکومت نے تحریک انصاف کے دو مہینے ضائع کیے اور ان کا مقصد صرف اقتدار سے چمٹے رہنا ہے، یہ وہ حکومت ہے جس نے پاکستان کی اخلاقی اقدار اور آئینی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کا قیام دو بنیادی اصولوں  پر ہوتا ہے، لیکن ملک میں نہ تو قانون کی حکمرانی ہے اور نہ ہی اخلاقیات کا کوئی وجود،مجھ پر اور میری جماعت کے ارکان پر بے بنیاد مقدمات بنائے گئے، لوگوں کو اغوا کر کے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ملک میں جنگل کا قانون رائج ہے۔

مردان: زمین کے تنازعہ پر فائرنگ، دو بیٹوں سمیت باپ قتل

Mardan incidnet

خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں ایک شخص اور اس کے دو بیٹوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، پولیس اور ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ پانچ مشتبہ افراد موقع سے فرار ہو گئے تھے۔ مردان میں جائیداد کے تنازع پر پیش آنے والے افسوسناک واقعے میں فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد جان کی بازی ہار گئے۔ پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں ایک باپ اور اس کے دو بیٹے شامل ہیں۔ واقعہ جمعرات کو مردان میں گڑیالہ کے علاقے میں پیش آیا۔ جہاں جائیداد کے تنازع پر مخالفین نے فائرنگ کر کے باپ اور دو بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ملزمان واردات کے بعد فرار ہوگئے، پولیس کے مطابق جاں بحق افراد میں پچپن سالہ قباد، چھبیس سالہ علی اور انتیس سالہ شیراز شامل ہیں۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاشوں کو تحویل میں لے لیا اور پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کر دیا۔ جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر کے واقعے کی تفتیش شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور جلد انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔