’زندگی رُک سی گئی ہے‘، روس اور یوکرین میں قیدیوں کا تبادلہ، فوجیوں کے علاوہ عام شہری بھی شامل

روس اور یوکرین کے درمیان 2022 میں شروع ہونے والی مکمل جنگ کے بعد قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا ہے، جس میں دونوں ممالک نے 390، 390 قیدی واپس کیے۔ اس تبادلے میں 270 فوجی اور 120 عام شہری شامل تھے، جو بیلاروس کی سرحد پر یوکرینی علاقے میں ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔ یہ اقدام استنبول میں ہونے والی حالیہ ملاقات میں طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہوا، جس کے تحت مجموعی طور پر 1000 قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا گیا تھا، اور آئندہ دنوں میں مزید تبادلوں کی امید کی جا رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے یہ تبادلہ اس لحاظ سے منفرد رہا کہ اس میں بڑی تعداد میں عام شہری بھی شامل تھے، جبکہ اس سے قبل صرف فوجی قیدیوں کے تبادلے دیکھے گئے تھے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، یوکرینی قیدیوں میں وہ لوگ شامل تھے جنہیں حالیہ مہینوں میں روسی سرحدی علاقے کرسک میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ان افراد کو اب بیلاروس سے روس منتقل کیا جا رہا ہے جہاں ان کا طبی معائنہ اور علاج کیا جائے گا۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قیدی کی شناخت اور تفصیلات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس عمل میں اپنے لوگوں کو واپس لانے کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ یوکرینی حکام نے تصدیق کی کہ رہا کیے گئے فوجی یوکرین کے مختلف علاقوں، کیف، چرنیہیو، سومی، ڈونیٹسک، کھارکیو، اور کھیرسن، سے تعلق رکھتے تھے۔ رہا شدگان میں تین خواتین بھی شامل ہیں، اور کچھ افراد 2022 سے روسی قید میں تھے۔ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تبادلے پر اپنی ٹرتھ سوشل پوسٹ میں مبارکباد دی اور کہا کہ یہ پیش رفت کسی بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ تبادلے کی خبر کے بعد شمالی یوکرین میں کئی اہل خانہ جمع ہوئے، جنہیں امید تھی کہ ان کے جاننے والے بھی آزاد کیے گئے ہوں گے۔ ایک ماں نتالیہ نے عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ وہ تین سال سے اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں، جبکہ اولہا نے کہا کہ جب سے اس کا بیٹا لاپتہ ہوا، اس کی زندگی رک سی گئی ہے۔ یہ تبادلہ ترکی میں ہونے والی اس دو گھنٹے کی ملاقات کا نتیجہ ہے جہاں روس اور یوکرین کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے ہوئے تھے۔ تاہم، جنگ بندی پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ مذاکرات کا دوسرا دور بھی متوقع ہے، اور روس یوکرین کو ایک میمورنڈم پیش کرے گا۔ ادھر ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے دو گھنٹے طویل فون کال کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ فریقین فوری جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، تاہم زیلنسکی نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے اسے روس کی جانب سے وقت خریدنے کی کوشش قرار دیا۔ اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ویٹیکن کو ممکنہ ثالث بنانے کی تجویز کی حمایت کی، لیکن لاوروف نے اسے غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا۔ لاوروف نے مزید دعویٰ کیا کہ زیلنسکی کی صدارت قانونی نہیں رہی اور کسی بھی امن معاہدے سے قبل یوکرین میں نئے انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ ایک قانونی قیادت کے ساتھ معاہدہ ممکن ہو۔ ان کے بقول، روس کی ترجیح ایک ایسا معاہدہ ہے جو دیرپا امن اور تمام فریقین کی سلامتی کو یقینی بنائے۔
’ پوری کائنات کو مسلسل دیکھنے والا‘ ایل ایس ایس ٹی کیمرہ کیسے کام کرتا ہے؟

ایل ایس ایس ٹی کیمرہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ ہے جو خلا کی تصویریں لینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ کیمرہ ویرا روبن آبزرویٹری کے ایک منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد پوری کائنات کا مسلسل مشاہدہ کرنا ہے۔ یہ کیمرہ ایک چھوٹی کار جتنا بڑا ہے اور اس میں 3200 میگا پکسل کا سینسر لگا ہے، جو زمین پر بنائے گئے کسی بھی کیمرے سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ کیمرہ ایک وقت میں آسمان کے بہت بڑے حصے کی تصویر لے سکتا ہے اور ہر رات تقریباً 20 ٹیرا بائٹ ڈیٹا ریکارڈ کرے گا۔ دس سال کے عرصے میں یہ کائنات میں ہونے والی بہت سی تبدیلیوں کو دستاویزی شکل دے گا، جیسے ستاروں کی حرکت، کہکشاؤں کی ساخت، سپرنووا کے دھماکے اور خلائی ملبے کی نگرانی۔ اس کا مقصد نہ صرف خلا میں چیزوں کی نقل و حرکت کو سمجھنا ہے بلکہ ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر جیسے کائناتی رازوں پر بھی روشنی ڈالنا ہے۔ یہ کیمرہ اتنا حساس ہے کہ اگر چاند پر ایک موم بتی جلائی جائے تو یہ اسے بھی محسوس کر سکتا ہے۔ اس کی مدد سے ماہرین فلکیات کو کائنات کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔
سری لنکن کرکٹر انجیلو میتھیوز نے اپنے کیریئر میں کون سے ریکارڈز بنائے؟

سری لنکن کرکٹ کے سینئر کھلاڑی انجیلو میتھیوز نے طویل عرصے بعد ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ 37 سالہ میتھیوز، جنہوں نے 2009 میں عالمی کرکٹ کا آغاز کیا، جون میں گال کے میدان پر بنگلا دیش کے خلاف اپنا آخری ٹیسٹ میچ کھیلیں گے۔ انہوں نے اس بات کا اعلان سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پیغام میں کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 17 برسوں میں اپنے ملک کے لیے کھیلنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔ میتھیوز کا کہنا تھا کہ انہوں نے کرکٹ کو سب کچھ دیا، اور کرکٹ نے بھی انہیں وہ سب کچھ لوٹایا جس کا انہوں نے خواب دیکھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ وہ ٹیسٹ فارمیٹ کو خیرباد کہہ رہے ہیں، لیکن محدود اوورز کی کرکٹ یعنی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں وہ اپنی دستیابی برقرار رکھیں گے، بشرطیکہ ٹیم کو ان کی ضرورت محسوس ہو۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے انجیلو میتھیوز نے 118 ٹیسٹ میچوں میں سری لنکا کی نمائندگی کی اور 44.62 کی اوسط سے 8,167 رنز اسکور کیے۔ وہ سری لنکا کی ٹیسٹ تاریخ میں تیسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹر کے طور پر ریٹائر ہو رہے ہیں، ان سے آگے صرف لیجنڈری بلے باز کمار سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے ہیں۔ بلے بازی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 33 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ قیادت کے میدان میں بھی میتھیوز نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے 2013 سے 2017 کے دوران سری لنکن ٹیم کی قیادت کی اور اس عرصے میں ٹیم کو کئی یادگار فتوحات دلائیں۔ ان کی قیادت میں سری لنکا نے کئی مشکل دوروں میں مزاحمت دکھائی اور نئے کھلاڑیوں کو موقع ملا۔ میتھیوز کے اس فیصلے پر دنیا بھر کے کرکٹ شائقین، خصوصاً سری لنکن عوام، جذباتی انداز میں ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کی خدمات کو سراہا جا رہا ہے اور انہیں سری لنکن کرکٹ کے سنہری دور کا اہم ستون قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کی 16 سنچریوں میں چند ایسی اننگز بھی شامل ہیں جو وقت کے ساتھ یادگار بن چکی ہیں، جن میں سب سے نمایاں 2014 میں ہیڈنگلے میں کھیلی گئی میچ جیتنے والی 160 رنز کی اننگ ہے۔ یہ فتح سری لنکا کی بیرون ملک سب سے بڑی کامیابیوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اگرچہ میتھیوز کو اکثر صرف جزوی بولنگ آپشن کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا، پھر بھی انہوں نے 33 وکٹیں حاصل کیں۔ وہ اکثر سخت حالات میں اہم پارٹنرشپس توڑتے یا ٹیم کے لیے بروقت بریک تھرو فراہم کرتے رہے۔ ان کے کیریئر کا سنہری دور 2013 سے 2015 کے درمیان رہا، جب انہوں نے 59.45 کی شاندار اوسط سے 2,378 رنز اسکور کیے۔ زیادہ تر مواقع پر وہ نچلے مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرتے رہے اور ٹیم کو سنبھالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
میکسیکو میں سیاحتی مقام پر ’گرم ہوا کا غبارہ‘ گر گیا، 12 افراد زخمی

میکسیکو سٹی کے قریب واقع قدیم آثار کے مقام تیوتیہواکن کے نزدیک ایک گرم ہوا کا غبارہ گر گیا۔ اس حادثے میں کم از کم 12 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ جمعے کے روز اس وقت پیش آیا جب غبارہ ایک عمارت سے ٹکرا کر ہنگامی لینڈنگ پر مجبور ہو گیا۔ زخمیوں کو ایک مقامی کلینک میں ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔ تصاویر اور مقامی حکام کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، حادثہ چاند کے اہرام سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پر پیش آیا، جہاں غبارہ باڑ لگانے والے تاروں اور بجلی کی لائنوں میں الجھ گیا۔ متاثرہ مقام اہرام کی بنیاد سے تقریباً ایک ہزار فٹ دور ایک دو لین والی سڑک پر واقع ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے یہ غبارہ ایک نجی ٹور کمپنی کی ملکیت تھا، جو سیاحوں کو فضاء سے اہرام کا نظارہ کروانے کے لیے گرم ہوا کے غبارے کی سواریاں فراہم کرتی ہے۔ ریاست میکسیکو کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ ایک 29 سالہ شخص کو حراست میں لے کر واقعے کی تفتیش جاری ہے۔ حکومتِ میکسیکو کے مطابق، تیوتیہواکن کولمبیا سے پہلے کے دور میں میسو امریکا کا سب سے بڑا شہر تھا، جہاں سورج اور چاند کے اہرام اس قدیم تہذیب کے اہم آثار شمار ہوتے ہیں۔ مقامی سیاحت کے حکام کے مطابق، اہرام کے گرد گرم ہوا کے غبارے کی پروازیں میکسیکو آنے والے سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں، اور اس واقعے نے ان سرگرمیوں کی سکیورٹی پر نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔
’پہلا قدم‘، امریکا نے شام پر لگائی گئی پابندیاں اٹھالیں

امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ نے شام پر عائد اقتصادی پابندیاں مؤثر طریقے سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کا مقصد خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ اقدام اس ماہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس وعدے کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ شام کی بحالی کی کوششوں کو فروغ دیں گے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے ایک عمومی لائسنس (GL25) جاری کیا ہے، جس کے تحت شام کی عبوری حکومت، مرکزی بینک اور دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لائسنس کے مطابق، شام پر عائد پابندیوں میں نرمی لاتے ہوئے وہاں نئی سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی سرگرمیوں کو ممکن بنایا جائے گا۔ محکمہ خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ اقدام “امریکہ فرسٹ” حکمت عملی کا حصہ ہے اور اس کا مقصد شام میں معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے “سیزر ایکٹ” کے تحت 180 دن کی رعایت دی ہے تاکہ پابندیاں انسانی بنیادوں پر جاری کوششوں، بجلی، پانی، توانائی اور صفائی کے شعبے میں کام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ یہ بھی پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان کی گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے روبیو کے مطابق، یہ ابتدائی قدم صدر ٹرمپ کے اس وژن کا حصہ ہے جو شام اور امریکا کے درمیان ایک نئے تعلق کا آغاز کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پابندیوں میں نرمی کے بعد شامی حکومت سے عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے، جن میں تمام غیر ملکی جنگجوؤں کا شام سے انخلا، فلسطینی دہشت گردوں کی ملک بدری، اور داعش کے دوبارہ ابھرنے کو روکنے کے لیے امریکا سے تعاون شامل ہے۔ وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ اور شامی صدر احمد الشارع کی ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ امریکا نے شام کو اقتصادی ریلیف دینے کے بدلے مخصوص شرائط پر عمل کرنے کا کہا ہے۔ ان شرائط میں خطے میں امن قائم کرنا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ اقدام ایک واضح پیغام ہے کہ امریکا مشروط طور پر شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے اور وہاں استحکام قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔
مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثرات: کیا صحافت اور نوکریاں خطرے میں ہیں؟

مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ اب روزمرہ کی زندگی کا کوئی بھی پہلو اس سے محفوظ نہیں رہا۔ تعلیم، طب، صنعت، عدلیہ، سیکیورٹی اور خاص طور پر صحافت جیسے شعبے تیزی سے بدلتے ہوئے اس ٹیکنالوجی کے زیر اثر آ رہے ہیں۔ ایک طرف جہاں مصنوعی ذہانت نے انسانی زندگی کو آسان بنایا ہے، وہیں دوسری جانب یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ کیا یہ ترقی انسانی محنت کی جگہ لے کر نوکریوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے؟ خاص طور پر صحافت جیسے حساس اور تحقیقی شعبے میں جہاں سچائی، تنقید اور انسانی تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے، کیا ایک مشین یا پروگرام اس خلا کو پُر کر سکتا ہے? اسلام آباد کے ایک میڈیا انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم صحافت کے طالبعلم علی اکبر اس معاملے پر خاصی فکر کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہم روز سنتے ہیں AI نیوز آرٹیکلز لکھ سکتی ہے، تصویریں بنا سکتی ہے، یہاں تک کہ ویڈیوز میں رپورٹرز کی جگہ ورچوئل اینکرز استعمال ہو رہے ہیں۔ ایسے میں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل مشینوں کے رحم و کرم پر ہے۔ علی کی بات صرف ایک طالبعلم کا خدشہ نہیں بلکہ اس وقت دنیا بھر میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے درمیان بحث کا ایک مرکزی نقطہ بھی ہے۔ گزشتہ سال معروف عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز نے ایک تجرباتی اقدام کے تحت کچھ خبروں کی رپورٹنگ مکمل طور پر AI کے ذریعے کی۔ رپورٹس کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خبریں رفتار کے لحاظ سے تو بہت تیز تھیں مگر ان میں انسانی احساس، نکتہ نظر اور تنقیدی زاویہ ناپید تھا۔ اس تجربے سے ایک اہم سوال نے جنم لیا کہ کیا صرف معلومات کی ترسیل کافی ہے یا سچائی، سیاق و سباق اور انسانی فہم بھی اتنے ہی ضروری ہیں؟ لاہور میں مقیم ایک تجربہ کار صحافی انعم شاہین، جو کہ ایک قومی روزنامے میں بطور فیچر رائٹر کام کرتی ہیں، نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے خود کئی دفعہ اے آئی ٹولز استعمال کیے ہیں، جیسے کہ ChatGPT یا Grammarly، لیکن ان سے صرف مدد لی جا سکتی ہے، مکمل تحریر یا رپورٹنگ ان کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ خبر کی تحقیق، متاثرہ فریق سے گفتگو، سوالات کی ترتیب اور مخصوص لہجے کی ادائیگی یہ سب ابھی بھی انسان ہی بہتر کر سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: ’ایک قومی بحران‘، امریکا کے درآمدی ٹیکس جاپان میں گاڑیوں کی صنعت کے لیے خطرہ بن گئے انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو دشمن سمجھنے کے بجائے اسے ایک ہتھیار کے طور پر دیکھنا چاہیے، جو صحافیوں کو زیادہ بہتر اور منظم بنا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ تمام رائے دہندگان اس بات سے متفق نہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ٹیکنالوجی ایکسپرٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کنسلٹنٹ رضوان خان کا کہنا ہے کہ صحافت کا موجودہ ماڈل خود تبدیل ہو رہا ہے اور مصنوعی ذہانت اس تبدیلی کا فطری حصہ ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دیکھیں یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر خبریں ویڈیوز کی شکل میں گردش کر رہی ہیں، لوگ بریکنگ نیوز اب موبائل نوٹیفیکیشن سے حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر AI رپورٹرز فوری اور درست خبریں فراہم کریں تو صارفین کو فرق نہیں پڑتا کہ یہ خبر کس نے لکھی۔ انہیں صرف مواد، رفتار اور درستگی سے غرض ہے۔ خیال رہے کہ یہ مسئلہ صرف صحافت تک محدود نہیں۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر میں لاکھوں نوکریاں آنے والے برسوں میں AI کی وجہ سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں تقریباً 85 ملین نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں، جب کہ تقریباً 97 ملین نئی نوکریاں پیدا ہوں گی، جن کے لیے مختلف مہارتیں درکار ہوں گی۔ یہ بھی پڑھیں: چینی کمپنی بی وائے ڈی نے یورپ میں سستی الیکٹرک گاڑی متعارف کرا دی پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں پہلے ہی بے روزگاری ایک سنگین مسئلہ ہے، وہاں AI کی آمد ایک نئے بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے، اگر اس کے لیے بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ دوسری جانب پاکستان میں ابھی تک AI کی تعلیم اور مہارت عام نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، جس کے ذریعے نوجوانوں کو AI ٹولز کے استعمال اور اس سے جڑی مہارتیں سکھائی جائیں۔ حالانکہ کئی نجی ادارے اور اسٹارٹ اپس اپنی سطح پر تربیت فراہم کر رہے ہیں، مگر یہ اقدامات کافی نہیں۔ اس بدلتے منظرنامے میں امید کی کرن یہ ہے کہ انسان میں وہ فطری تخلیقیت، ہمدردی، تنقید اور اخلاقی شعور موجود ہے، جو کسی بھی مشین سے بہتر ہے۔ اے آئی خود تخلیق نہیں کر سکتا، وہ صرف پہلے سے موجود ڈیٹا پر مبنی کام کرتا ہے۔ جب تک صحافت میں سچائی کی جستجو، مظلوم کی آواز بننے کی خواہش اور طاقت کے سامنے سوال اٹھانے کی جرأت باقی ہے، تب تک انسانی صحافت کا وجود بھی باقی رہے گا۔ لازمی پڑھیں: صارفین کا ڈیجیٹل کرنسی پر بڑھتا اعتماد: بٹ کوائن کی قیمت ایک لاکھ 5 ہزار ڈالر سے تجاوز کرگئی یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ مصنوعی ذہانت صحافت اور نوکریوں کے لیے خطرہ ضرور بن سکتی ہے، لیکن اگر انسان خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھالے، نئی مہارتیں سیکھے اور AI کو بطور مددگار استعمال کرے، تو یہ خطرہ ایک نئے موقع میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جائے گی، ویسے ویسے انسان کی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی جائے گی۔
فوج کی ضرورت پر سوال اٹھانے والوں کو 6 مئی کو زبردست جواب ملا، علیم خان

وفاقی وزیر مواصلات و صدر استحکام پاکستان عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ لوگ فوج کی ضرورت پر سوال کرتے تھے لیکن 6 مئی کو انہیں زبردست جواب ملا۔ لیہ میں مارکہ حق کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی مسلح افواج کو ان کی بہادری اور لگن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عبدالعلیم خان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو اپنے محافظوں پر فخر ہے، خاص طور پر انڈیا کے ساتھ حالیہ تصادم کے بعد سے ہم فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے ہمیں عالمی سطح پر عزت اور وقار بخشا۔ پاکستان-انڈیا حالیہ کشیدگی پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر نے پاکستانی فوج کے اتحاد اور صبر کو اجاگر کیا، انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح ابتدائی تحمل کے باوجود فوج نے فیصلہ کن ردعمل کا آغاز کیا، جس نے دنیا کو دنگ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے رات کو چھپ کر حملہ نہیں کیا، ہم نے دنیا کو فجر کی نماز کے بعد بتایا کہ اسلام کیا کہتا ہے اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں؟ یہ بھی پڑھیں : فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس: ’انڈیا کو دوبارہ شوق پورا کرنا ہے تو آزما لے، ہم تیار ہیں‘ صدر استحکام پاکستان نے کہا کہ یہ فوج صرف پاکستان کی نہیں بلکہ عالم اسلام کی فوج ہے، یہ سپہ سالار عاصم منیر صرف پاکستان کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا سپہ سالار ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انڈیا سات گنا بڑی طاقت کے ساتھ ہماری فوج کو ڈیڑھ گھنٹہ بھی برداشت نہ کر سکا اور امریکا سے مدد لینے پر مجبور ہوگیا۔ مزید پڑھیں :انڈیا گذشتہ 20 سال سے دہشت گردی سپانسر کر رہا ہے، پاکستان علیم خان نے ملک کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ہم زندہ ہیں، قوم ہمیشہ اپنے شہداء کی قربانیوں کی مقروض رہے گی۔ انہوں نے دشمن کے وحشیانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بزدل دشمن نے ایک چھ سالہ بچے کی جان تک لے لی، جو ان کی غیر انسانی حرکت کی دل دہلا دینے والی یاد دہانی ہے۔ عبدالعلیم خان نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کبھی مودی پر گھمنڈ کرتے تھے، انہوں نے دیکھا کہ یہ تکبر صرف ڈیڑھ گھنٹے میں بکھر گیا۔
اپنا پانی بچانے کے لیے پاکستان فوجی کارروائی بھی کر سکتا ہے، سینیٹر علی ظفر

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ اگر انڈیا پانی بند کرتا ہے یا پھر پانی کا رخ موڑتا ہے تو وہ اقوام متحدہ کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کرے گا اور ہمارے پاس اختیار ہے کہ ہم اپنے ہتھیاروں سے اس معاہدےکی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے اقدامات کرسکتے ہیں۔ سینیٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ دریائے سندھ کے پانی پر انحصار کرتا ہے اور اگر یہ بحران حل نہ کیا گیا تو ملک کو شدید قحط اور بھوک کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے، جو پانی کے دباؤ کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اس پانی کے بحران کو ابھی حل نہ کیا تو ہم بھوک سے مر سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انڈس بیسن ہماری زندگی کی لکیر ہے۔ تین چوتھائی پانی ہمیں سرحد پار سے ملتا ہے۔ ہر دس میں سے نو افراد کی زندگی بین الاقوامی دریاؤں پر منحصر ہے۔ یہ بھی پڑھیں:سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے ’سرخ لکیر‘ ہے، وزیراعظم شہباز شریف سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد فصلیں اسی پانی پر انحصار کرتی ہیں، ہمارے تمام پاور پراجیکٹس اور ڈیمز بھی اسی پانی پر قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ ایک پانی بم ہے، جو ہمارے اوپر لٹک رہا ہے، ہمیں اسے ناکارہ بنانا ہوگا، ہمیں اسے حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان خصوصا وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بعد پیدا ہونے والے ‘پانی بم’ کو فوری طور پر ناکارہ بنانے کے لیے مؤثر سفارتی اور عملی اقدامات کریں۔