غزہ میں اسرائیلی بمباری، ایک ہی خاندان کے نو بچے شہید

Mom crying with child

غزہ میں اسرائیلی شدید بمباری کا سلسلہ جاری ہے، خان یونس شہر میں ایک ہی حملے میں فلسطینی ڈاکٹر علاء النجار کے 9 بچے شہید ہو گئے، صرف ایک بچہ زندہ بچ سکا۔ اسرائیلی فوج نے واقعے کی نظرثانی کا اعلان کیا ہے جبکہ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ معصوم بچوں کا قتل اسرائیلی فوجیوں کا مشغلہ بن چکا ہے۔ دوسری جانب غزہ میں انسانی بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ خوراک کی قلت کے باعث چار سالہ محمد یاسین بھوک سے دم توڑ گیا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی خوراک پروگرام خبردار کر چکا ہے کہ غزہ میں 70,000 سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے بدھ سے اب تک صرف 100 امدادی ٹرک داخل ہونے دیے ہیں، جو دو ملین کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں اب تک کم از کم 53,901 فلسطینی شہید اور 122,593 زخمی ہو چکے ہیں۔ سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق مجموعی شہداء کی تعداد 61,700 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں وہ ہزاروں افراد بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دب کر شہید ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کے حملوں میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے تھے۔ اس ظلم کے چلتے عالمی برادری مسلسل خاموش ہے اور امریکا اسرائیل کی پشت پناہی پر کھلی حمایت میں مصروف ہے۔ مزید پڑھیں: ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

یوکرین کا روس پر حملہ، فضائی دفاعی نظام نے 95 ڈرونز ناکام بنا دیے

Ukrain attack on russia

روسی وزارت دفاع کے مطابق آج صبح یوکرین کی جانب سے ڈرونز کا ایک منظم حملہ کیا گیا، جس میں لگ بھگ 100 بغیر پائلٹ طیارے روسی حدود میں داخل ہونے کی کوشش میں تھے۔ حکام نے بتایا کہ فضائی دفاعی نظام نے چار گھنٹوں کے دوران 95 ڈرونز کو کامیابی سے مار گرایا یا ناکام بنایا۔ ان حملوں میں دو ڈرون ماسکو کے قریب تباہ کیے گئے، جب کہ زیادہ تر حملے روس کے وسطی اور جنوبی علاقوں پر مرکوز تھے۔ ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانن نے بعد ازاں ٹیلیگرام پر بتایا کہ دارالحکومت کے اطراف 11 ڈرونز کو روکا گیا۔ اس کارروائی کے دوران ماسکو کے تین بڑے ہوائی اڈے عارضی طور پر بند کر دیے گئے۔ علاقائی حکام کے مطابق تولہ اور ٹور شہر میں بھی ڈرونز کو مار گرایا گیا۔ واقعہ نے روسی فضائی تحفظ پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مزید پڑھیں: ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ انتظامیہ کے نشانے پر کیوں؟

عشرہ ذوالحجہ کے دس دن تبدیلی کی طرف پہلا قدم

Whatsapp image 2025 05 25 at 1.07.41 am

ہماری زندگیوں میں کتنے دن آتے ہیں اور کتنے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو دل و روح پر ایک ان مٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ عشرہ ذوالحجہ کے یہ دس دن بھی ایسے ہی دن ہیں، رب کے قرب کے دس سنہرے مواقع، بندگی کی معراج کے دس لمحے اور تبدیلی کی سب سے بہترین امید کے دس قیمتی خزانے۔ سوچنے کی بات ہے… کیا یہ دس دن ہماری زندگی کے باقی دنوں کی طرح خاموشی سے گزر جائیں؟ یا ہم انہیں اپنی ذات میں تبدیلی کے لیے استعمال کریں؟ یہ وہی دن ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ کے ہاں ان دس دنوں کے عمل سے بڑھ کر کوئی عمل زیادہ محبوب نہیں۔”(صحیح بخاری) یہ وہ لمحے ہیں جب اللہ خود اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے، جب قربانی کا ہر قطرہ ہمارے جذبے کی گواہی بنتا ہے، اور جب بندگی کی خوشبو آسمانوں تک جا پہنچتی ہے۔ یہ تبدیلی کا وقت ہے۔ آئیے سوچیں: اگر دل میں کینہ ہے، تو ان دس دنوں میں معاف کر کے دل کو آزاد کیوں نہ کریں؟ظاہری بھی، باطنی بھی۔ اگر زبان کڑوی ہو چکی ہے، تو ان لمحوں میں نرمی کی مٹھاس کیوں نہ شامل کریں؟ اگر روح غفلت سے گرد آلود ہے، تو توبہ کی بارش سے دھو کیوں نہ ڈالیں؟ اگر رب کو بھلا بیٹھے ہیں، تو لوٹ کر اس کے در پر کیوں نہ آ جائیں؟ یہ عشرہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اپنی انا، اپنی خودغرضی، اپنے غرور کو ذبح کرنے کا نام بھی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی سنت ہمیں سکھاتی ہے کہ تبدیلی تب آتی ہے جب بندہ رب کے حکم کے آگے خود کو بے اختیار کر دے، جب وہ صرف “میں” سے نکل کر “تو” کہنے لگے۔ آج ہمیں بھی اپنے اندر کے اس اسماعیل کو ڈھونڈنا ہے جسے قربان کرنا ہو،کبھی وہ ہمارا وقت ہوتا ہے، کبھی ہمارا نفس، کبھی ہماری خواہشیں اور جب ہم رب کی رضا کے لیے ان قربانیوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، تب ہی اصل تبدیلی ہمارے اندر جنم لیتی ہے۔ عشرہ ذوالحجہ، یہ فقط دن نہیں، یہ زندگی بدلنے کا آغاز ہیں۔ یہ وہ دستک ہے جو دل کے دروازے پر رب کی طرف سے دی جاتی ہے۔ اب یہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اس دروازے کو کھولیں یا پھر بند ہی رہنے دیں۔ آئیے! ان دس دنوں کو ایسا آغاز بنائیں، جو باقی زندگی کو رب کی رضا سے جوڑ دے۔ یہی وقت ہے۔۔۔یہی لمحہ ہے… تبدیلی کی طرف پہلا قدم اٹھانے کا۔

خاموش سمندری جنگجو: پاکستان کا آگسٹا 90 بی اور انڈیا کا آریہنت، زیرِ سمندر کس کی طاقت فیصلہ کن ہے؟

Whatsapp image 2025 05 25 at 12.46.01 am

اس کشیدگی نے ایک نئے سوال کو جنم دیا ہے اور وہ یہ کہ اگر جنوبی ایشیائی تصادم زمین یا فضا میں نہیں بلکہ سمندر کی تاریکی میں ہوتا ہے تو اس کا منظرنامہ کیسا ہوگا؟ ایک طرف پاکستان کی تجربہ کار آگوسٹا-90 بی تو دوسری طرف انڈیا کی جدید اور ایٹمی طاقت سے لیس آبدوز آئی این ایس آریہنت کون فیصلہ کن ثابت ہوگا؟ فرانسیسی ساختہ آگوسٹا-90 بی ایک ڈیزل-الیکٹرک آبدوز ہے، جو کئی دہائیوں سے پاکستانی بحریہ کا حصہ ہے۔ اگرچہ اس میں جدید اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی کمی ہے لیکن اس کی مہارت، پانیوں کی واقفیت اور مشن کا تجربہ اسے طاقت ور ثابت کرتا ہے۔ پاکستان نیوی کی یہ آبدوز بھاری بھرکم تارپیڈوز اور سب-ہارپون میزائلوں سے لیس ہے، جو کسی بھی بحری بیڑے کو مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری جانب انڈیا کی ایٹمی آبدوز آریہنت کی طاقت بھی منفرد ہے۔ یہ ایٹمی ری ایکٹر سے چلنے والی آبدوز مہینوں تک سطح کے قریب آئے بغیر سمندر میں گشت کر سکتی ہے۔ انڈیا کی اس ایٹمی آبدوز میں نصب کے-15 ایٹمی میزائل اسے ہندوستان کے دوسرے حملے کی صلاحیت کا ستون بناتے ہیں۔ اگر زمین پر ہر چیز ختم بھی ہو جائے تو آریہنت زیرِآب سے جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ماہرِعالمی امور منہاج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر حسن فاروق مشوانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “Agosta 90B کی کامیابی تجربے اور ماحولیاتی واقفیت پر منحصر ہے، اگرچہ انڈین آریہنت بھی جدید ہے مگر پاکستان کی تربیت یافتہ کریو اور بہتر علاقائی فہم زیرِآب برتری دلا سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “جنگ کی صورت میں آبدوزوں کی حرکات مشکل حالات پیدا کرسکتی ہیں اور ایک غلط فیصلہ خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایسے کسی تصادم سے گریز ہی عقلمندی ہے۔” مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: دونوں ممالک کی معیشیت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اگر پاکستان اور انڈیا کہ درمیان بحری جنگ ہوتی ہے تو خلیج کے دہانے پر واقع تنگ گزرگاہیں اور گجرات کے ساحلوں سے لے کر کراچی کی بندرگاہ کے آس پاس کی گہرائیاں اس جنگ کا میدان ہوں گی۔ ان آبدوزوں کا ایک غلط قدم نہ صرف ان کی اپنی بقا بلکہ پورے خطے کے استحکام کو داؤ پر لگا سکتا ہے کیونکہ یہی وہ مقامات ہیں، جہاں سے تیل کی اہم سپلائی گزر کر آتی ہے۔ پاکستانی ایٹمی آبدوز آگوسٹا کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی پی-3 سی اورین طیاروں سے مربوط ہو کر دشمن کا سراغ لگا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ انڈین آریہنت پر نگاہ رکھنے کے لیے فضا سے مدد لی جا سکتی ہے، جب کہ انڈیا کی خلائی نگرانی اس کے رد عمل میں معاون ہو سکتی ہے لیکن ایٹمی آبدوز جب خاموشی سے گشت پر ہو تو یہ تمام طریقے ناکام ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نواب سجاد علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “آبدوز جنگ کا مطلب ہے غیر یقینی تباہی، خاص کر جب بات ایٹمی ہتھیاروں کی ہو۔ اس صورتحال میں احتیاط، معاہدوں اور سفارت کاری ناگزیر ہیں تاکہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر تصادم نہ ہو جائے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ” ایسے ہتھیاروں کا آمنے سامنے آنا صرف فوجی مسئلہ نہیں بلکہ ایک سیاسی اور انسانی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی: ‘سلامتی کو خطرہ ہوا تو پاکستان ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے’ واضح رہے کہ اب اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا؟ مگر ایک بات تو طے ہے کہ زیرِآب جنگی برتری کا مطلب ہے کہ خلیج سے ایندھن کی سپلائی کو روکنا، دشمن کی تجارتی راہوں کو کاٹنا اور دفاعی بندرگاہوں کو غیر فعال کرنا۔ یہی وہ عناصر ہیں، جو کسی بھی جنگ کو چند گھنٹوں میں فیصلہ کن مرحلے تک لے جا سکتے ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آریہنت جیسے پلیٹ فارم پر موجود ایٹمی ہتھیار صرف دفاع کا ذریعہ نہیں بلکہ ممکنہ تباہی کی ضمانت بھی ہیں۔ اگر جنگ کی صورت میں یہ ہتھیار استعمال ہوتے ہیں تو نہ صرف خطے کا نقشہ بدل سکتا ہے بلکہ عالمی امن پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لازمی پڑھیں: پاکستان-انڈیا  کشیدگی: کیا دفاعی بجٹ میں اضافہ معاشی ترقی کو روک دے گا؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تناؤ اپنی آخری حد کو پہنچ جائے گا، تو کیا آگوسٹا کی ٹیوبیں پہلے کھلیں گی یا آریہنت کی سائلنٹ کمانڈز پہلے حرکت میں آئیں گی؟ اب اس سوال کا جواب تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات تو طے ہے کہ مستقبل قریب یا پھر بعید میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی چھوٹی سی جھڑپ بھی جنوبی ایشیاء کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور بڑی ایٹمی طباہی کا سبب بن سکتی ہے۔

سعد منور ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے

Saad manawar

کوہ پیما سعد منور ہفتے کے روز دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ (8,848.86 میٹر) کو شمالی جانب سے سر کرنے والے پہلے پاکستانی بن گئے۔ نجی نشریاتی ادارے ‘ڈان نیوز’ کے مطابق سعد منورنے اپنےآفیشل فیس بک اکاؤنٹ پراس کارنامے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ اس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی کی چوٹی پر سبز پرچم بلند کیا۔ پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ پہلا موقع ہے، جب کسی پاکستانی نے شمال کی جانب سے ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا ہے، سعد رات کے لیے بحفاظت واپس کیمپ 3 پہنچ گیا ہے۔ اگلے دنوں میں بیس کیمپ میں واپس آنے کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔ کوہ پیماؤں کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کے شمالی چہرے سر کرنے کا راستہ تبت سے شروع ہوتا ہے، جو کہ زیادہ تر کوہ پیماؤں سے مختلف راستہ ہے، جو نیپالی جانب سے چڑھتے ہیں۔ مزید پڑھیں:ماؤنٹ ایوریسٹ پر دو کوہ پیما ہلاک، تعلق کن ممالک سے تھا؟ خیال رہے کہ سعد منور کے علاوہ معروف پاکستانی کوہ پیما ساجد علی سدپارہ نے 11 مئی کو دنیا کی ساتویں بلند ترین چوٹی دھولاگیری (8,167 میٹر) کو بغیر آکسیجن یا پورٹر کی مدد کےسر کیا، ان کے علاوہ معروف پاکستانی کوہ پیما سرباز خان نے بھی کامیابی کے ساتھ 18 مئی کو بغیر آکسیجن کے ہمالیہ میں واقع دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی کنچن جونگا کو سر کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان کی صفِ اوّل کی خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی نے ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی کنچن جونگا کو سر کیا تھا۔

کراچی سے لاہور جانے والی فلائٹ طوفان کی زد میں تباہی سے بچ گئی

Flight

کراچی سے لاہور جانے والی نجی ایئر لائن علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران شدید طوفان میں پھنس گئی، مگر یہ پرواز کسی بھی ناخوشگوار حادثے سے بال بال بچ گئی۔ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق کراچی سے لاہور جانے والی فلائٹ کے لینڈنگ کے دوران طوفان میں پھنسنے سے مسافروں نے شدید جھٹکے محسوس کیے، پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جہاز میں سوار افراد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے طیارے کو واپس کراچی موڑ لیا۔ نجی نشریاتی ادارے کے مطابق پرواز کے 57 مسافروں نے خوفناک تجربے کی وجہ سے اپنا سفر جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں:تیز آندھی اور طوفانی بارش کی باعث دو افراد جاں بحق، متعدد زخمی، مریم نواز کا انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت مسافروں کے مطابق لاہور ایئرپورٹ کے قریب پہنچتے ہی طیارہ کم از کم پانچ بار شدید ہنگامہ آرائی میں پھنس گیا، پائلٹ نے بالآخر لینڈنگ منسوخ کر دی اور طیارے کو کراچی واپس اڑایا۔ کراچی میں بحفاظت لینڈنگ کے بعد طیارے میں ایندھن بھرا گیا اور موسم بہتر ہونے پر لاہور کے لیے دوسری کوشش کے لیے تیار کیا گیا۔ تاہم، درجنوں پریشان مسافروں نے جہاز سے اتر کر اپنے سفری منصوبے منسوخ کر دیے۔ واضح رہے کہ لاہور سے کراچی جانے والی دو پروازوں کی روانگی خراب موسم کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی۔ لاہور میں موسم کی صورتحال بہتر ہونے پر علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر آمد و روانگی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے، پروازیں PK-305 اور PA-405 کراچی کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔