نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم کی ایڈوائزری جاری: ’سوشل میڈیا صارفین فوری طور پر پاس ورڈز بدل لیں‘

Hackers.

نیشنل سائبر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم نے تمام افراد کو فوری طور پر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے پاس ورڈ تبدیل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ایڈوائزری میں خبردار کیا گیا ہے کہ ملک میں سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، اور غیر محفوظ اکاؤنٹس ہیکرز کے نشانے پر ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اینٹی وائرس اور دیگر سیکیورٹی سافٹ ویئرز کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ رکھیں تاکہ کسی بھی ممکنہ سائبر حملے سے بچا جا سکے۔ نیشنل سائبر ٹیم کے مطابق، صارفین کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر غیر معمولی لاگ ان سرگرمیوں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے، کیونکہ یہ ممکنہ ہیکنگ یا سیکیورٹی بریک کی علامت ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: امریکا ٹی شرٹس نہیں بلکہ ٹینکس بنائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو’پاگل‘ قرار دے دیا ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو حکومتی اور حساس اداروں کے نظام بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں، جو ملکی سیکیورٹی کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ سائبر سیکیورٹی ماہرین نے بھی ایڈوائزری میں عوام کو تاکید کی ہے کہ وہ دو مرحلہ جاتی تصدیق جیسے حفاظتی اقدامات کو فعال کریں تاکہ ذاتی معلومات اور اکاؤنٹس محفوظ رہ سکیں۔ حکام کے مطابق یہ ایڈوائزری عوامی آگاہی کے لیے جاری کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ بڑے سائبر حملے سے پہلے ہی حفاظتی اقدامات کیے جا سکیں۔

ڈاکٹر ماحیرہ عبدالغنی، یونیورسٹی آف کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے والی ’پہلی پاکستان خاتون‘، کیسا سفر رہا؟

Maheera

ڈاکٹر ماحیرہ عبدالغنی نے یونیورسٹی آف کیمبرج سے میٹریل سائنس اور میٹالرجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انہوں نے پاکستان سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی اور بعد ازاں ایراسمس منڈس اسکالرشپ کے تحت جرمنی اور فرانس میں میٹیریلز انجینئرنگ میں ماسٹرز کیا، اور بالآخر دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیمبرج میں پی ایچ ڈی کی۔ ڈاکٹر ماحیرہ کی تحقیق ڈی 2 میٹیریلز پر مرکوز رہی، جس میں انہوں نے جدید الیکٹرونکس میں درپیش چیلنجز اور ممکنہ اطلاق کا مطالعہ کیا۔ دورانِ تحقیق انہوں نے نینو فیبری کیشن کی مہارت حاصل کی اور اعلیٰ معیار کا سائنسی کام انجام دیا۔یہ پاکستانی خواتین کے لیے سٹیم (STEM)کے میدان میں ایک سنگِ میل ہے۔یہ بھی پڑھیں: امریکا ٹی شرٹس نہیں بلکہ ٹینکس بنائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو’پاگل‘ قرار دے دیا ڈاکٹر ماحیرہ عبدالغنی 21 سال کی عمر میں انجینئرنگ میں ماسٹرز کرنے کے لیے جرمنی گئیں۔ اس کے بعد 22 سال کی عمر میں میٹیریلز فار الیکٹرانکس میں ماسٹرز کے لیے فرانس منتقل ہوئیں۔ صرف ایک سال بعد، 23 برس کی عمر میں انہیں ایراسمس منڈس کی جانب سے کیمبرج یونیورسٹی میں اسکالرشپ ملی، جہاں انہوں نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ڈاکٹر ماحیرہ عبدالغنی نجی نشریاتی ادارے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیمبرج میں جو میرا  وقت گزرا ہے وہ بہت انسپائرنگ تھا۔مجھے اس لیول تک کام کرنے کا موقع ملا جہاں بہت زیادہ سہولیات ملتی ہیں اور بہت زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔  پی ایچ ڈی کرتے ہوئے مجھے اپنی فیلڈ کے بارے میں بہت زیادہ جاننے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ شروع میں پی ایچ ڈی کافی دلچسپ لگی لیکن جیسے جیسے اس میں گہرائی آتی گئی تو بوریت آنا شروع ہو جاتی ہے، لیکن اگر آپ ثابت قدم رہیں تودلچسپی قائم رہ سکتی ہے۔

LIVE دورہ ایران: شہبازشریف کی ایرانی سپریم لیڈر، صدر سے ملاقاتیں، اہم امور پر تبادلہ خیال

President iran

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف وفد کے ہمراہ تہران پہنچے ہیں جہاں وہ ایرانی صدر سے ملاقات کریں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دو روز تک  ترکیہ  میں قیام کیا، ترکیہ کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہ ایران کے دارالحکومت تہران کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ استنبول کے ہوائی اڈے پر ترک وزیر دفاع یاشار گیولر (YASHAR GULER)، ڈپٹی گورنر استنبول الکر حاقتان کچمز (İLKER HAKTANKAÇMAZ)، پاکستان ترکیہ کلچرل ایسوسی ایشن کے صدر برہان قایاترک (BURHAN KAYATURK)، پاکستان کے ترکیہ میں سفیر یوسف جنید، قونصل جنرل استنبول نعمان اسلم، حکومت ترکیہ کے اعلیٰ حکام اور ترکیہ میں تعینات پاکستانی سفارتکاروں نے وزیراعظم کو رخصت کیا۔ وزیراعظم کے دورے کا بنیادی مقصد ترکیہ کے عوام اور بالخصوص صدر ایردوان کا پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں بھرپور تعاون اور حمایت پر شکریہ ادا کرنا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف اب ایران کے شہر تہران پہنچیں گے جہاں ان کی ایرانی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں متوقع ہیں۔

ملک بھر کی طرح کراچی بھی گرمی کی لپیٹ میں، شدید گرمی سے کیسے بچا جائے؟

Heat wave

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ حبس نے بھی شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق کراچی میں آئندہ پورے ہفتے کے دوران موسم گرم اور مرطوب رہنے کا امکان ہے۔ ماہرین موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ ہفتے کے اختتام تک گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اتوار کے روز کراچی میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 37.6 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، تاہم 70 فیصد نمی کے باعث موسم نہایت حبس زدہ رہا۔  ماہرین کے مطابق محسوس ہونے والی حدت سے حقیقت میں درجہ حرارت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ شہریوں کی بڑی تعداد نے گرمی اور حبس کے باعث سر درد، تھکن، چکر اور دیگر مسائل کی شکایت کی ہے، جبکہ اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک کے خدشے کے پیش نظر تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ مزید پڑھیں: گرمی کے مقابلے میں لاہوریوں کا منفرد ہتھیار جس میں گولہ بارود نہیں پھل شامل ہیں محکمہ موسمیات کے ایک اعلیٰ اہلکار کے مطابق آئندہ جمعرات اور جمعہ کے دن خاص طور پر شدید گرمی کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ان دنوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر سکتا ہے، جو کہ شہریوں کی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر بچوں، بزرگوں اور بیماریوں میں مبتلا افراد کے لیے۔ محکمہ موسمیات نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گرمی کے ان دنوں میں خصوصی احتیاط برتیں۔ ماہرین نے ہدایت دی ہے کہ شہری دن کے اوقات میں غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں، دھوپ میں سفر کرنے سے گریز کریں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں، اور زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کریں تاکہ پانی کی کمی سے بچا جا سکے۔ طبی ماہرین کے مطابق زیادہ درجہ حرارت اور نمی کی موجودگی میں ہیٹ اسٹروک اور ڈی ہائیڈریشن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا، شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں، خاص طور پر دوپہر 12 بجے سے شام 4 بجے تک کے وقت میں دھوپ سے بچیں۔

یوم تکبیر 28 مئی کو عام تعطیل ہو گی یا نہیں؟

Holiday

پاکستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری بحث میں آج تک کا ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر عام تعطیل ہے یا نہیں؟28 مئی وہ دن ہے جب 1998 میں پاکستان نے انڈین دھماکوں کے جواب میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا ٹیسٹ کیا تھا۔ بلوچستان کے علاقے چاغی میں 12 ایٹمی دھماکے کر کے انڈیا کی جانب سے 11 ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا گیا تھا۔اس دن کو اس وقت کی حکومت نے یوم تکبیر قرار دیتے ہوئے عام تعطیل کا اعلان کیا۔ بعد میں اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت اور دیگر ادوار میں اس دن کو بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ نتیجتاً سالانہ تعطیل کا سلسلہ بھی کبھی رہا کبھی منقطع ہوتا ہوگیا۔گزشتہ برس حکومت کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر کے اس دن کو عام تعطیل قرار دیا گیا۔رواں برس 2025 میں ایسا کوئی اعلان نہیں ہوا جس نے ابہام پیدا کیا تو بہت سے لوگ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ یوم تکبیر کے موقع پر 28 مئی کو عام تعطیل ہے یا نہیں؟ پاکستان میٹرز کے نامہ نگاروں کے مطابق اب تک پاکستان اسٹاک ایکسچینج، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، کراچی میٹرک اینڈ انٹر بورڈ، فیڈرل بورڈ کی جانب سے 28 تاریخ کو تعطیل کا باقاعدہ طور پر نوٹیفکیشن کیا جا چکا ہے۔ اصل سوال بھی وہیں ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے عام تعطیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے؟ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اس وقت تک کوئی نیا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوئی، اس لیے کہ 28 مئی کی تعطیل رواں برس اعلان کردہ سالانہ تعطیلات کے پلان میں پہلے سے ہی شامل ہے۔ مزید پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟پاکستان میں عمومی روایت کے تحت اگر کوئی تعطیل پہلے سے سالانہ پروگرام میں شامل ہو تو اسے الگ سے نوٹیفائی نہیں کیا جاتا۔ مختلف ادارے اپنے طور پر اس کا اعلان کر دیتے ہیں۔ جس طرح اسٹیٹ بینک، تعلیمی بورڈز اور اسٹاک ایکسچینج سمیت دیگر نے کیا ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر اعلان کردہ سالانہ تعطیلات کا پروگرام حکومت کا شعبہ کیبنٹ ڈویژن نشر کرتا ہے۔ جس نے پہلے سے ہی اسے سالانہ تعطیلات میں شامل کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں رواں برس یوم تکبیر کو یوم ڈاکٹر عبدالقدیر کے طور پر بھی منایا جا رہا ہے۔

’کیلے کا چھلکا‘، ہونڈا سِوک جو زمین میں دھنس کر چلتی ہے

Taiwan Civic

دنیا بھر میں منفرد گاڑیوں کے شوقین افراد کے لیے ایک حیران کن منظر تائیوان میں سامنے آیا ہے جہاں ایک ہونڈا سِوک کو اس قدر کم اونچائی پر تبدیل کر دیا گیا ہے کہ وہ سڑک پر یوں محسوس ہوتی ہے جیسے زمین میں دھنس کر چل رہی ہو۔ سوشل میڈیا پر اس گاڑی کو بنانا پیل یعنی کیلے کا چھلکا کہا جا رہا ہے صارفین اسے نہ صرف انجینئرنگ کا شاہکار قرار دے رہے ہیں بلکہ ایک چلتا ہوا فن پارہ بھی کہا گیا ہے۔ اس کی اونچائی اس قدر کم ہے کہ بظاہر دیکھنے پر یوں لگتا ہے جیسے سڑک پر رینگتی ہوئی چل رہی ہو۔ گاڑی مکمل طور پر اپنی اصل حالت سے مختلف دکھائی دیتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے خاص طور پر کسٹمائز کیا گیا ہے تاکہ وہ زمین کے انتہائی قریب ہو۔ یہاں تک کہ اس کا انجن ویل بیس اور ٹائرز بھی خاص ترتیب سے دوبارہ ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ باوجود اس کے غیر معمولی کم اونچائی کے یہ گاڑی مکمل طور پر قابل استعمال ہے اور عام ٹریفک میں رواں دواں دیکھی جا سکتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین اور گاڑیوں کے شوقین افراد اسے کار موڈیفیکیشن کی انتہا قرار دے رہے ہیں یہ منفرد کار نہ صرف تائیوان بلکہ دنیا بھر میں کار ڈیزائن کے شوقین افراد کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے اور اس کی تصاویر اور ویڈیوز کو لاکھوں افراد دیکھ اور شیئر کر چکے ہیں۔

73 سرکاری محکموں کی 3896 گاڑیاں ای چالان کی نادہندہ، ٹریفک پولیس کی جانب سے کریک ڈاؤن کا آغاز

Traffic

لاہور ٹریفک پولیس نے سرکاری اداروں کی جانب سے ای چالان کی عدم ادائیگی پر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے 73 سرکاری محکموں کی 3,896 گاڑیاں ای چالان کی مد میں ڈیفالٹر قرار دے کر کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا۔ چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) لاہور ڈاکٹر اطہر وحید کے مطابق ان گاڑیوں کی مکمل فہرست مرتب کر کے متعلقہ محکموں کو فراہم کر دی گئی ہے جبکہ انہیں باقاعدہ مراسلے بھی ارسال کیے جا چکے ہیں تاکہ جرمانوں کی ادائیگی کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ای چالان کی ڈیفالٹر فہرست میں پولیس کی متعدد گاڑیاں بھی شامل ہیں، جنہیں ادائیگی کے اعتبار سے اولین فہرست میں رکھا گیا ہے۔ “معاشرے میں حقیقی تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب خود احتسابی سے آغاز کیا جائے”، سی ٹی او لاہور نے کہا۔ ڈاکٹر اطہر وحید کے مطابق، کئی سرکاری گاڑیاں بار بار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب پائی گئی ہیں جس سے نہ صرف قانون کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ عوام کے لیے بھی غلط مثال قائم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیورز کو چاہیے کہ وہ سڑکوں پر مثالی رویہ اپنائیں تاکہ شہری ان کی تقلید کریں۔ یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟ سی ٹی او نے مزید بتایا کہ لاہور شہر میں نصب جدید کیمرے بلا امتیاز ہر اس گاڑی کے خلاف ای چالان جاری کر رہے ہیں جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے، خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی۔ عوام کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ٹریفک قوانین کی پاسداری صرف جرمانے سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ قیمتی جانوں کے تحفظ اور حادثات سے بچاؤ کے لیے بھی ضروری ہے۔ ٹریفک پولیس کی اس نئی حکمت عملی کا مقصد سسٹم میں شفافیت لانا، قوانین کی بالادستی قائم کرنا اور تمام شہریوں، بشمول سرکاری اداروں، کو قانون کے دائرے میں لانا ہے۔

بلوچستان میں بھارتی سازشیں اور وکی لیکس کے تازہ انکشافات

جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی نئی لہر اٹھتی ہے، خاص طور پر بلوچستان میں تو ایک سوال ذہن میں فوراً آتا ہے کہ آخر اس خونریزی کے پیچھے کون ہے؟ اگر اس سوال کا جواب کسی تجزیے، مشاہدے یا قیاس پر چھوڑا جائے تو شاید کسی کو بھی یقین نہ آئے لیکن جب عالمی سطح کی رپورٹس، وکی لیکس جیسے معتبر ذرائع اور خود مغربی سفارتکاروں کے الفاظ اس حقیقت کی تصدیق کریں کہ بھارت گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں ایک خفیہ اور منظم دہشت گردانہ مہم چلا رہا ہے تو معاملہ محض الزام سے نکل کر ناقابل تردید حقیقت بن جاتا ہے۔ وکی لیکس کی حالیہ رپورٹ میں جو امریکی سفارتی کیبلز منظر عام پر آئی ہیں، ان میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ واشنگٹن ڈی سی میں موجود امریکی حکام اس امر سے پوری طرح واقف تھے کہ بھارت، افغانستان کے راستے بلوچستان میں نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ عسکریت پسندوں کو مالی، لاجسٹک اور تربیتی معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔ سفارتی سطح پر لکھی گئی ان کیبلز میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی قونصل خانے دراصل خفیہ ایجنسی ’را‘ کے فیلڈ دفاتر کے طور پر کام کر رہے تھے اور ان کا اصل ہدف پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا تھا۔ بلوچستان، جو کہ جغرافیائی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل خطہ ہے، طویل عرصے سے دشمنوں کی نظریں اس پر مرکوز رہی ہیں۔ یہاں کے وسائل، بندرگاہیں اور سی پیک جیسے بڑے منصوبے بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس خطے میں بدامنی کو ہوا دینے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں بھی بھارت کی خفیہ مداخلتوں کے شواہد پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کے سامنے رکھے گئے لیکن مغربی طاقتوں کی منافقانہ خاموشی اور مفادات کی چادر میں لپٹے اصولوں نے ہمیشہ بھارت کو کھلی چھوٹ دی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری نے اس خفیہ مہم کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ ایک حاضر سروس بھارتی نیوی افسر کا پاکستان کی سرزمین پر جاسوسی اور دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ کلبھوشن کا اعترافی بیان، جسے ویڈیو اور تحریری صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا، اس بات کا کھلا اعلان تھا کہ بھارت بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کو اسلحہ، پیسہ، تربیت اور سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا نے بھارت کا اصل چہرہ براہ راست ایک جاسوس کی زبانی سنا مگر پھر بھی عالمی برادری کی زبان پر تالے پڑے رہے۔ وکی لیکس کی حالیہ رپورٹس اس وقت سامنے آئی ہیں جب مودی سرکار پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوئی ہے اورہندوستانی دعوے اور بھڑکیں پاکستانی شاہینوں نے خاک میں ملا دیے جبکہ پاک فوج نے دشمن کی جارحیت کا نہ صرف منہ توڑ جواب دیا بلکہ اس کے چودہ طبق روشن کر دیے مگر اس کے خفیہ عزائم اور بغل میں چھپی چھریاں یہ بتاتی ہیں کہ وہ صرف اپنے مفادات کے لیے خطے کو آگ میں جھونکنے پر آمادہ ہے۔ سفارتی کیبلز میں ایک خاص بات یہ بھی سامنے آئی کہ امریکی حکام نے بھارت کی سرگرمیوں پر اگرچہ نجی طور پر خدشات ظاہر کیے لیکن باضابطہ طور پر خاموشی اختیار کی تاکہ بھارت کو چین کے خلاف ایک تزویراتی اتحادی کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ یہ وہی دوہرا معیار ہے جو مسلم دنیا کو بار بار نقصان پہنچاتا آیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ افغانستان میں بھارت کی موجودگی کا اصل مقصد نہ تو انسانی ترقی تھا اور نہ ہی علاقائی امن بلکہ اس کی آڑ میں وہ پاکستان کے خلاف ایک پراکسی وار چلا رہا تھا۔ قندھار، جلال آباد اور ہرات میں موجود بھارتی قونصل خانے درحقیقت بلوچستان میں دہشت گردوں کو ہینڈل کرنے کے آپریشنل بیس تھے۔ کئی بار پاکستانی خفیہ اداروں نے ان قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان دشمن عناصر کی مالی معاونت،تربیت اور آمد و رفت کے شواہد جمع کیے مگر یہ شواہد بھی عالمی قوتوں کو خواب غفلت سے جگانے میں ناکام رہے۔ بلوچستان میں حالات کو خراب کرنے کے لیے بھارت نے صرف عسکریت پسندوں کا سہارا نہیں لیا بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی بھرپور استعمال کیا۔ بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنے، ریاست سے دور کرنے اور نفرت پھیلانے کے لیے جعلی خبروں، ویڈیوز اور پروپیگنڈا کے ذریعے ایک ذہنی جنگ چھیڑی گئی۔ کئی بھارتی ایجنٹس نے خود کو انسانی حقوق کے کارکن، صحافی یا سکالر ظاہر کر کے بیرون ملک بلوچ ڈائسپورا کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ان میں سے کئی کے تعلقات بعد میں ’را‘ سے ثابت بھی ہوئے مگر مغربی میڈیا کی بھارت نوازی نے ان سچائیوں کو کبھی سرخیوں میں جگہ نہ دی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی ادارے، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور صحافتی تنظیمیں اس واضح مداخلت اور دہشت گردی پر خاموش کیوں ہیں؟ جب پاکستان میں کوئی چھوٹا واقعہ بھی ہو جائے تو انسانی حقوق کے نام پر واویلا مچ جاتا ہے مگر بھارت جیسے بڑے ملک کی منظم مداخلت اور قتل و غارت گری پر مجرمانہ خاموشی کیوں؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے؟ یا اس لیے کہ اسے چین کے خلاف ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے؟ پاکستان نے متعدد بار سفارتی سطح پر ان خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں جمع کرائی گئی رپورٹس،ڈوزیئرز،کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان اور اب وکی لیکس کی سفارتی کیبلز،یہ سب مل کر ایک ناقابل تردید کیس بن چکے ہیں۔۔۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان نہ صرف عالمی سطح پر اپنی سفارت کاری کو مزید موثر بنائے بلکہ دنیا کو یہ باور کرائے کہ بلوچستان میں بدامنی کوئی قدرتی یا داخلی معاملہ نہیں بلکہ ایک منظم اور بیرونی منصوبہ بند مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اب یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کا سوال ہے۔ اگر بھارت کو اس دہشت گردی سے باز نہ رکھا گیا تو یہ شعلے پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔۔۔پاکستان

حالیہ بارش اور شدید آندھی سے 12 افراد جاں بحق، موسمیاتی تبدیلی ملک کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟

Rains

پنجاب ایمرجنسی سروسز ڈپارٹمنٹ (پی ای ایس ڈی) کے مطابق حالیہ شدید آندھی اور بارش سے کل 221 حادثات رپورٹ ہوئے جن میں 12 افراد جان کی بازی ہار گئے، 43 افراد کو موقع پر طبی امداد فراہم کی گئی جبکہ 98 افراد کو مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ مجموعی طور پر ان حادثات میں 153 افراد زخمی ہوئے۔ ان حالات میں محکمہ موسمیات نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں، پانی کا زیادہ استعمال کریں اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ آندھی یا بارش کی صورت میں درختوں، بجلی کے کھمبوں اور دیگر غیر محفوظ جگہوں سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ممکنہ جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ ملک بھر میں اس وقت شدید گرمی کی لہر جاری ہے، جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ اگرچہ دن کے وقت موسم گرم اور خشک رہے گا، مگر شام اور رات کے اوقات میں کچھ علاقوں میں آندھی اور بارش متوقع ہے۔ یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟ محکمہ موسمیات کے مطابق آج گلگت بلتستان، کشمیر، خیبرپختونخوا، اسلام آباد، خطہ پوٹھوہار اور شمالی و جنوب مشرقی بلوچستان میں آسمان جزوی طور پر ابر آلود رہنے کی توقع ہے۔ ان علاقوں میں آندھی، تیز ہواؤں، بارش اور بعض مقامات پر ژالہ باری کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں درجہ حرارت خاصا بلند ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لاہور میں 42، کراچی میں 38، اسلام آباد میں 40، پشاور میں 41، کوئٹہ میں 36 اور گلگت میں 30 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ ہوا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ گرمی کی شدت عام معمولات زندگی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ دنیا بھر میں موسموں کا نظام غیر متوقع انداز میں تبدیل ہو رہا ہے اور پاکستان بھی اس تبدیلی سے متاثر ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی، گلوبل وارمنگ اور درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے فضا میں نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے جو طوفانی بارشوں اور آندھیوں کا باعث بنتا ہے۔ اپریل سے جون کے درمیان اکثر مغربی ہوائیں ایران، افغانستان اور بلوچستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ جب یہ ہوائیں مقامی گرم ہوا سے ٹکراتی ہیں تو تیز آندھی، ژالہ باری اور بارش پیدا ہوتی ہے۔ پنجاب میں گرمی کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور زمین کی سطح بہت گرم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے فضا میں موجود ٹھنڈی ہوا اور نمی اچانک متحرک ہو جاتی ہے اور طوفانی بارش یا آندھی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ شہروں میں نکاسی آب کے ناقص نظام، کمزور درخت، اور پرانی عمارتیں ان آفات کے اثرات کو مزید خطرناک بنا دیتی ہیں۔ جب آندھی آتی ہے تو درخت گرنے، چھتیں اڑنے یا کرنٹ لگنے جیسے واقعات سے جانی نقصان ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر ایسی خطرناک صورت حال پیدا کرتے ہیں جس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں ایسے موسمی مظاہر مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، اس لیے حکومتی اداروں اور عوام دونوں کو آگاہی، تیاری اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔

گرمی کے مقابلے میں لاہوریوں کا منفرد ہتھیار جس میں گولہ بارود نہیں پھل شامل ہیں

گرمی کی شدت جب حد سے بڑھ جائے تو جسم کو نہ صرف سکون بلکہ فوری توانائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں قدرتی اور روایتی مشروبات ایک نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ املی اور آلو بخارے کا جوس نہ صرف پیاس بجھاتا ہے بلکہ گرمی سے پیدا ہونے والی بےچینی، سستی اور ڈی ہائیڈریشن کے خلاف بھی ایک مؤثر قدرتی علاج ثابت ہوتا ہے۔ اس کا کھٹا میٹھا ذائقہ دل کو تازگی کا احساس دیتا ہے اور جسم کو فوری ٹھنڈک پہنچاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گرمیوں میں یہ مشروب صدیوں سے گھروں اور بازاروں میں یکساں مقبول ہے۔