امریکا ٹی شرٹس نہیں بلکہ ٹینکس بنائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نے پیوٹن کو’پاگل‘ قرار دے دیا

Trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں “پاگل” قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر روس نے پورے یوکرین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو یہ خود روس کے لیے زوال کا باعث بنے گا۔ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ اگرچہ ان کے پیوٹن سے خوشگوار تعلقات رہے ہیں، لیکن اب وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ پیوٹن کو کیا ہو گیا ہے، کیونکہ وہ بے گناہ لوگوں کی جان لے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے روس کی جانب سے یوکرینی شہروں پر میزائل اور ڈرون حملوں کو بلاوجہ تشدد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اقدامات روس کے لیے خود نقصان دہ ثابت ہوں گے۔ یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ان کے اندازِ گفتگو سے بھی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہو رہی ہے۔ انہوں نے زیلنسکی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بیانات میں احتیاط برتیں، کیونکہ ان کے الفاظ معاملات کو بگاڑ رہے ہیں۔ یہ تنقید ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب روس نے حالیہ دنوں میں یوکرین پر شدید ڈرون حملے کیے، جن میں اب تک کم از کم 12 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں اتوار کو نیو جرسی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کی ٹیرف پالیسی کا مقصد مقامی سطح پر ٹینکوں کی تیاری کو بڑھانا ہے نہ کہ سنیکرز اور ٹی شرٹس کو۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کو اب بڑی چیزیں بنانی ہیں، جیسے ٹینک، بحری جہاز، چپس اور کمپیوٹرز، کیونکہ یہی جدید معیشت کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ کپڑوں کی صنعت پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ کام دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق امریکا کو ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت میں خود کفیل ہونا چاہیے۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی پہلی بار ان کے صدر بننے کے بعد سامنے آئی تھی، جب انہوں نے چین سمیت دنیا کے کئی ممالک سے درآمد کی جانے والی اشیا پر بھاری محصولات لگائے تھے۔ اس اقدام کے بعد کئی ملکوں نے امریکا کی مصنوعات پر بھی جوابی ٹیرف عائد کر دیے، جس سے عالمی تجارت میں بے یقینی پیدا ہوئی۔ حال ہی میں ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ یکم جون سے یورپی یونین میں تیار ہونے والی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف لگا سکتے ہیں، جبکہ ایپل کو خبردار کیا ہے کہ امریکا سے باہر بننے والے آئی فونز پر بھی 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین اس صورتحال کو ایک تجارتی جنگ کا نام دے رہے ہیں، جس کے عالمی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جبکہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی مذاکرات بھی تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔

پی ایس ایل 10: کس کھلاڑی نے کون سا اعزاز اپنے نام کیا؟

Lq

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 10 کے فائنل میں لاہور قلندرز نےکوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو دلچسپ مقابلے کے بعد شکست دے کر تیسری مرتبہ ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ لاہور میں کھیلے گئے اس میچ میں کوئٹہ نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقررہ 20 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 201 رنز بنائے۔ لاہور قلندرز نے 202 رنز کا ہدف زبردست بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے آخری اوور کی پانچویں گیند پر حاصل کیا۔ ٹیم کی فتح میں کوشل پریرا نے نمایاں کردار ادا کیا، جو 62 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے، جبکہ سکندر رضا نے آخری لمحات میں صرف سات گیندوں پر 22 قیمتی رنز جوڑ کر میچ کا رخ موڑ دیا۔ اس شاندار کارکردگی کے باعث کوشل پریرا کو فائنل کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ ٹورنامنٹ میں سب سے نمایاں بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے پر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے حسن نواز کو بیٹر آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز حاصل ہوا۔ شاہین شاہ آفریدی نے پورے ایونٹ میں شاندار باؤلنگ کی اور ایونٹ کے بہترین بولر قرار پائے۔ یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟ سکندر رضا کو آل راؤنڈ کارکردگی پر بہترین آل راؤنڈر کا اعزاز دیا گیا، جبکہ لاہور قلندرز کے محمد نعیم کو ایمرجنگ پلیئر آف دی لیگ تسلیم کیا گیا۔ حسن نواز کی مجموعی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔ لاہور قلندرز کو اس فتح کے ساتھ پانچ لاکھ امریکی ڈالر کی انعامی رقم حاصل ہوئی جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریباً 14 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے۔ رنر اپ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے حصے میں دو لاکھ امریکی ڈالر کی رقم آئی، جو کہ پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔

غزہ میں اسرائیل کا حملہ، ایک دن میں ریسکیو اہلکار اور صحافی سمیت 30 افراد شہید

Gaza.

مقامی حکام کے مطابق غزہ میں بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک سکول پر اسرائیلی حملے میں کم سے کم 20 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل نے مئی کے اوائل میں غزہ میں فوجی کارروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حماس کی فوجی اور انتظامی صلاحیتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اور وہاں رہ جانے والے باقی یرغمالیوں کو واپس لانا چاہتا ہے۔ پیر کو طبی عملے نے بتایا ہے کہ غزہ شہر کے الدرج کے علاقے میں واقع سکول پر حملے میں درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر کے مطابق بعض لاشیں بری طرح جھلس چکی ہیں تاہم روئٹرز ان تصاویر کی فوری طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کے ایک اور حملے میں کم از کم 30 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ ان ہلاکتوں میں ریسکیو سروس کے ایک سینئر اہلکار اشرف ابو نار اور ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق یہ اموات خان یونس، جبالیہ اور نصیرات جیسے علاقوں میں علیحدہ علیحدہ فضائی حملوں کے باعث ہوئیں۔ غزہ کے میڈیا دفتر کے مطابق جاں بحق صحافی کی ہلاکت کے بعد اکتوبر 2023 سے اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینی صحافیوں کی تعداد 220 ہو چکی ہے۔ ان حملوں میں نہ صرف عام شہری بلکہ امدادی اداروں کے اہلکار شہید ہوئے۔ عالمی ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق خان یونس میں ایک گھر پر حملے میں دو ملازمین، ابراہیم عید اور احمد ابو ہلال بھی شہید گئے۔ یہ بھی پڑھیں: شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟ اسرائیلی فوج کے مطابق ان کے چیف آف اسٹاف ایال ضمیر نے خان یونس میں تعینات فوجیوں سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ہمیشہ جاری نہیں رہ سکتی، اور حماس اب اپنے بیشتر بنیادی ڈھانچے سے محروم ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو واپس لانے، اور غزہ میں اس کی حکمرانی کے خاتمے کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔ تاہم، اسرائیلی بیان میں اتوار کے حملوں کی تفصیل نہیں دی گئی۔ اس دوران غزہ کے میڈیا دفتر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فورسز غزہ کی پٹی کے 77 فیصد رقبے پر قابض ہیں۔ جہاں وہ یا تو براہ راست فوجی موجودگی سے یا انخلاء کے احکامات اور بمباری کے ذریعے، جس نے بڑی تعداد میں شہریوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا ہے۔ دوسری طرف، حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے کہا کہ ان کے جنگجوؤں نے غزہ کے مختلف علاقوں میں اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے بموں اور ٹینک شکن ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ جمعہ کے روز اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ انہوں نے غزہ میں رات بھر کیے گئے فضائی حملوں میں 75 اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں ہتھیاروں کے ذخائر اور راکٹ لانچر شامل تھے۔ یہ تنازع 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گیا تھا جب حماس کے جنگجوؤں نے سرحد پار حملہ کیا، جس میں اسرائیلی فوج کے مطابق 1,200 افراد مارے گئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق اب تک اس جنگ میں 53,900 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور علاقہ شدید تباہی کا شکار ہے۔ امدادی ادارے متنبہ کر رہے ہیں کہ علاقہ شدید غذائی قلت سے دوچار ہے۔

شام پر امریکی پابندیوں کا خاتمہ: فلسطینی مزاحمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا یا مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ؟

America

ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط سیاسی و عسکری محاذ آرائی کے بعد امریکا نے شام پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے عوامی حلقوں میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے جیساکہ کیا ان امریکی پابندیوں کا خاتمہ فلسطینی مزاھمت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہےیا پھر مشرقِ وسطیٰ میں نئی صف بندی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ ماہرین اس فیصلے کو علامتی اور وقتی تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جب کہ عالمی تجزیہ کار اسے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کی نئی ترتیب کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں، جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا شام کی بحالی صرف ایک ریاست کا داخلی معاملہ ہے، یا یہ پورے خطے میں نئی صف بندی کی بنیاد رکھ رہا ہے؟ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ شام کی بحالی صرف ایک ریاست کا داخلی معاملہ نہیں، بلکہ یہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن، علاقائی اتحادوں اور جیوپولیٹیکل صف بندیوں میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ 2011 میں عرب بہار کے بعد شام میں بشارالاسد کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے خانہ جنگی میں بدل گئے۔ امریکا اور یورپی ممالک نے بشارالاسد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور جمہوری اقدار کو کچلنے کے الزامات لگائے اور اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ مگر گزشتہ دس سالوں میں روس، ایران اور حزب اللہ جیسے اتحادیوں کی مدد سے بشارالاسد نے نہ صرف اقتدار برقرار رکھا بلکہ ملک کے بیشتر حصے پر دوبارہ کنٹرول بھی حاصل کر لیا۔ دوسری طرف امریکا، خلیجی ریاستیں اور اسرائیل شام میں اسد مخالف عناصر اور کرد ملیشیاؤں کی حمایت کرتے رہے۔ امریکی فیصلے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خاموشی قابلِ غور ہے۔ دونوں ممالک پہلے ہی شامی حکومت کے ساتھ غیررسمی روابط بحال کر چکے ہیں۔ یہ اقدام خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف مشترکہ بلاک کی تشکیل کا عندیہ دے سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ تقویم چانڈیو نے کہا ہے کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے سے ایران،شام اورحزب اللہ اتحاد کو نہ صرف نئی توانائی مل سکتی ہے بلکہ یہ اتحاد خطے میں اپنی عسکری، اقتصادی اور سفارتی سرگرمیوں کو زیادہ آزادی اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھا سکتا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا: ‘بھتہ نہ دینے پر’ انتہا پسند ہندوؤں نے چار مسلمانوں کو ادھ موا کرکے ٹرک جلا ڈالا اسرائیل کے لیے یہ پیش رفت باعثِ تشویش ہے۔ ایران کی شامی سرزمین پر موجودگی اور حزب اللہ کی مضبوطی کے تناظر میں اسرائیلی دفاعی حکام اس تبدیلی کو خطے میں اپنی سٹریٹیجک برتری کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ تل ابیب کو اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ امریکی پابندیوں کے خاتمے کے بعد شام میں موجود فلسطینی مزاحمتی گروہوں، خاص طور پر حماس اور اسلامی جہاد کو نئی طاقت، اسلحہ اور تربیت مل سکتی ہے۔ ترکی بھی ایک اہم فریق ہے، جو شام کے شمالی حصے میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہا ہے۔ انقرہ کے لیے پابندیوں کا خاتمہ بظاہر مثبت نظر آتا ہے، لیکن اگر ایران اور شام کا اتحاد مضبوط ہوا تو ترکی کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ شام، ایران اور حزب اللہ کے مابین تعلقات کی تجدید کا براہِ راست فائدہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر غزہ میں موجود حماس اور اسلامی جہاد کو عسکری و مالی امداد کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اس امداد سے نہ صرف ان گروہوں کی عسکری صلاحیت میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کی نئی لہر کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی عوام کے لیے انسانی امداد کی رسائی بھی آسان ہو سکتی ہے۔ شام کے راستے غذائی، طبی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے، جس سے غزہ اور مغربی کنارے کے حالات میں کچھ بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدرایردووان سے ملاقات: ’ترکیہ کی حمایت سے پاکستان کو فتح ملی‘ پاکستان کے لیے یہ پیش رفت سفارتی سطح پر ایک پیچیدہ صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔ ایک طرف ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں، تو دوسری طرف سعودی عرب اور ترکی جیسے اہم شراکت داروں کے مفادات بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان تمام تعلقات کا توازن برقرار رکھنا ایک کٹھن سفارتی آزمائش بن سکتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے اصولوں اور امتِ مسلمہ کی یکجہتی کی بنیاد پر شام کے مسئلے پر محتاط موقف اپنایا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان پر دباؤ ہو سکتا ہے کہ وہ واضح طور پر کسی ایک بلاک کا حصہ بنے خاص طور پر جب چین، روس اور ایران ایک نیا خطے میں اتحاد تشکیل دے رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے طالب علم واصف علی واصف نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے یہ فیصلہ نہایت حساس اور پیچیدہ ہے کہ پاکستان کس کے ساتھ کھڑا ہوگا کیونکہ  ایک طرف اصولی مؤقف ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق اور امت مسلمہ کی یکجہتی پر مبنی ہے اور دوسری جانب اسٹریٹیجک مفادات ہیں جو امریکہ، چین، ایران، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک سے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان ممکنہ طور پر “توازن کی پالیسی” اپنائے گا، یعنی وہ کسی ایک بلاک کا کھلا حمایتی بننے کے بجائے، اصولی موقف کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے سفارتی و اقتصادی مفادات کا بھی تحفظ کرے گا۔ ایسے میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو کیسے برقرار رکھے گا؟ کیا پاکستان کو چین،ایران اور روس بلاک کی طرف جھکاؤ دکھانا چاہیے یا امریکی کیمپ میں رہتے ہوئے غیرجانبدار کردار ادا کرنا چاہیے؟ لازمی پڑھیں: آپریشن سندور نے دنیا کو پیغام دیا کہ انڈیا دہشت گردی کے خلاف تیار ہے، نریندرا مودی شام میں بحالی اور تعمیر نو کے امکانات پاکستانی کمپنیوں کے لیے ایک بڑا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔

انڈیا: ‘بھتہ نہ دینے پر’ انتہا پسند ہندوؤں نے چار مسلمانوں کو ادھ موا کرکے ٹرک جلا ڈالا

India .

اتر پردیش کے ضلع علی گڑھ میں ایک افسوسناک واقعے میں چار مسلمان افراد کو انتہا پسند ہندوؤں نے ‘بھتہ نہ دینے پر’ شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ادھ موا کرکے ترک جلا ڈالا۔ انڈین صحافی محمد زبیر نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ واقعہ ہفتے کے روز اس وقت پیش آیا، جب اکھیل بھارتیہ ہندو سینا کے مبینہ ‘گاؤ رکشکوں’ نے ان افراد کو اس شبہے میں روکا کہ وہ گائے کا گوشت لے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ‘گاؤ رکشکوں’ نے نہ صرف گاڑی کو زبردستی روکا بلکہ گاڑی میں سوار افراد کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے گاڑی کو نذر آتش کر دیا، جس سے وہ مکمل طور پر خاکستر ہو گئی۔ واقعے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جن میں زخمی افراد کو نیم بے ہوشی کی حالت میں زمین پر تڑپتے دیکھا جا سکتا ہے۔ واقعے کے بعد حیرت انگیز طور پر انہی ‘گاؤ رکشکوں’ نے پولیس کے پاس گاڑی میں گوشت لے جانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ پولیس نے متاثرین کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کیا اور گوشت کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے روانہ کر دیے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ آیا وہ واقعی گائے کا گوشت تھا یا نہیں۔ As mentioned in the FIR filed against 'Cow Protectors', The Vehicle number matches with number mentioned in receipt. Also, see the description of the item. 'Buffalo bone in meat'. Al-Ammar Frozen foods exports Pvt. Ltd is a registered buffalo beef export company and meat… pic.twitter.com/HT3j0Jy6zF — Mohammed Zubair (@zoo_bear) May 25, 2025 سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رہنما اور متاثرین میں سے ایک کے رشتہ دار نے واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خود کو “گاؤ رکشک” کہنے والے یہ افراد اکثر رجسٹرڈ فیکٹریوں سے بھینس کے گوشت لے جانے والی گاڑیوں کو روکتے ہیں اور زبردستی پیسے وصول کرتے ہیں۔ اگر کوئی پیسے دینے سے انکار کرے تو یہ لوگ تشدد پر اُتر آتے ہیں اور فساد برپا کرتے ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایس پی رہنما نے واقعے کو منظم بھتہ خوری قرار دیا ہے جس کے تحت مذہب کا لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ مزید براں، محمد زبیر کی جانب سے شیئر کی گئی ایف آئی آر اور رسید کی تفصیلات نے واقعے کی نوعیت کو واضح کر دیا ہے۔ ایف آئی آر میں درج گاڑی کا نمبر وہی ہے جو رسید پر درج ہے، اور رسید میں گوشت کی نوعیت “Buffalo bone in meat” یعنی بھینس کا ہڈی سمیت گوشت درج ہے۔ یہ گوشت علی گڑھ کی رجسٹرڈ کمپنی “Al-Ammar Frozen Foods Exports Pvt. Ltd” سے منسلک ہے، جو حکومت سے منظور شدہ بھینس کے گوشت کی برآمد اور پروسیسنگ کمپنی ہے۔ رسید اور سرٹیفکیٹ کی تصاویر کے مطابق نہ صرف گوشت قانونی طور پر لے جایا جا رہا تھا بلکہ اس کی پروسیسنگ اور نقل و حمل تمام قانونی تقاضوں کے مطابق تھی۔ The Self proclaimed Cow Protectors are nothing but Extortionists. More about the Vasuli gang 👇 pic.twitter.com/QMHQN8HzBV — Mohammed Zubair (@zoo_bear) May 25, 2025 واضح رہے کہ مقامی شرپسند عناصر نے ’گاؤ رکشا‘ کے نام پر گوشت کے تاجروں سے بھتہ وصولی کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ گروہ، جو خود کو ’گاؤ رکشک‘ قرار دیتے ہیں، سڑکوں پر گوشت لے جانے والی گاڑیوں کو روک کر اُن تاجروں سے ’چوتھ‘ یعنی زبردستی مالی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی تاجر ان کے ناجائز مطالبات مان لے، تو اُسے خاموشی سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر انکار کیا جائے، تو وہ فوری طور پر ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں اور تاجر پر گائے کے گوشت کی اسمگلنگ کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ یہ تمام صورتِ حال اس وقت کھل کر سامنے آئی جب علی گڑھ میں چار مسلم گوشت تاجروں کو انہی گاؤ رکشکوں نے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی گاڑی کو آگ لگا دی۔ دھیان رہے کہ وی ایچ پی (وشو ہندو پریشد) کے رہنما رام کمار آریہ، بی جے پی رہنما ارجن سنگھ، شِوم ہندو اور دیگر کئی افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ان پر گوشت سپلائرز پر حملے، نقدی لوٹنے اور 50 ہزار روپے بھتہ طلب کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ Update: FIR was registered against VHP leader Ramkumar Arya, BJP leader Arjun Singh, Shivam Hindu and many others for assaulting, looting cash and demanding extortion of Rs 50,000 from meat suppliers. pic.twitter.com/6wCDdjnqpg — Mohammed Zubair (@zoo_bear) May 25, 2025 دوسری جانب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اعلیٰ قیادت یا ریاستی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی واضح مذمتی بیان سامنے نہیں آیا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جب ‘گاؤ رکشا’ کے نام پر مسلمانوں یا دلتوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ پچھلے چند برسوں میں کئی ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں نہ صرف تشدد بلکہ اموات تک واقع ہو چکی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بارہا انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔