ذوالحجہ کا چاند نظر نہیں آیا، پاکستان میں عیدالاضحیٰ 7 جون کو ہوگی

Chand

مرکزی روایت ہلال کمیٹی نے کہا ہے کہ پاکستان بھر میں عیدالاضحیٰ کا چاند نظر نہیں آیا، عید 7 جون کو ہوگی۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا میں عیدالاضحیٰ 6 جون کو، ملائیشیا اور برونائی میں 7 جون کو منائی جائے گی عرب میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق انڈونیشیا میں ذوالحجہ کا چاند نظر آگیا ہے، جس کے بعد ملک بھر میں عیدالاضحیٰ 6 جون بروز جمعرات کو منائی جائے گی۔ دوسری جانب ملائیشیا اور برونائی میں عید کا چاند نظر نہیں آیا، جس کے باعث ان دونوں ممالک میں عیدالاضحیٰ 7 جون بروز جمعہ کو منائی جائے گی۔ ماہرین فلکیات اور رویت ہلال کمیٹیوں نے اپنے الگ الگ اجلاسوں میں چاند نظر نہ آنے کی تصدیق کی، جس کے بعد اسلامی مہینے ذوالحجہ کی پہلی تاریخ 30 مئی سے شروع ہوگی اور یومِ عرفہ 6 جون کو ہوگا، جب کہ عید کا دن 7 جون قرار پایا۔ اجلاس میں چاند کی رویت کے حوالے سے شواہد کا جائزہ لیا جائے گا تاکہ ذوالحج کے آغاز کا باضابطہ اعلان کیا جا سکے۔ محکمہ موسمیات اور سپارکو کے ماہرین کے مطابق آج شام چاند کی عمر تقریباً 11 گھنٹے ہوگی، جو فلکیاتی اصولوں کے مطابق قابل رویت نہیں سمجھی جاتی۔ اسی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ چاند نظر آنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ اگر چاند آج نظر نہ آیا تو یکم ذوالحج 29 مئی کو ہوگی اور یوں پاکستان میں عیدالاضحیٰ بروز ہفتہ 7 جون 2025 کو منائے جانے کا قوی امکان ہے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر بھی چاند کی رویت پر نظریں جمی ہوئی ہیں۔ سعودی عرب میں بھی آج ذوالحج کا چاند دیکھنے کے لیے اجلاس ہوگا اور سعودی فلکیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی حالات کے تحت چاند دکھائی دینے کا قوی امکان ہے۔  اگر چاند نظر آ گیا تو وہاں عیدالاضحیٰ جمعہ 6 جون کو منائی جائے گی۔ متحدہ عرب امارات کے فلکیاتی مرکز نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چاند نظر آنے کے واضح امکانات موجود ہیں جس کے نتیجے میں یو اے ای میں بھی عید 6 جون کو ہونے کا امکان ہے۔ یوں دنیا کے مختلف ممالک میں عید کی تاریخوں میں ایک دن کا فرق متوقع ہے اور پاکستان میں عوام مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے حتمی اعلان کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں تاکہ قربانی اور عید کی دیگر تیاریاں مکمل کی جا سکیں۔ مزید پڑھیں: ساہیوال میں ’بنوقابل‘ کا میلہ: ’کشمیر و فلسطین کے مظلوم بچوں کو مت بھولیں‘

امریکا کی معروف برینڈ’نائیکی‘ نے کپڑے، جوتے مہنگے کردیے

Nikee

امریکہ کی مشہور اسپورٹس ویئر کمپنی نائیکی نے جون کے آغاز سے اپنے کچھ جوتوں اور کپڑوں کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب دیگر کمپنیوں، جیسا کہ اڈیڈاس، نے بھی امریکہ میں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کی بات کی ہے۔ اگرچہ نائیکی نے براہ راست امریکی درآمدی محصولات کو قیمت بڑھانے کی وجہ نہیں بتایا، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اسی خدشے کے تحت لیا جا رہا ہے۔ نائیکی کی تقریباً تمام مصنوعات ایشیائی ممالک میں تیار ہوتی ہیں، خاص طور پر ویتنام، چین، انڈونیشیا اور کمبوڈیا میں، جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں اور درآمدی ٹیکسز کا سامنا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ نے 90 دن کے لیے ان ‘متقابل محصولات’ پر عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے، تاہم 10 فیصد کا بنیادی محصول تاحال برقرار ہے۔ یہ محصولات دراصل درآمدی اشیاء پر لگنے والے ٹیکس ہیں، جو درآمد کرنے والی کمپنی ادا کرتی ہے نہ کہ بنانے والی۔ اکثر کمپنیاں یہ اضافی بوجھ صارفین پر ڈال دیتی ہیں، اور یہی کچھ اب نائیکی بھی کر رہی ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کا مسلسل جائزہ لیتی ہے اور موسمی منصوبہ بندی کے تحت قیمتوں میں ردوبدل کرتی ہے۔ کمپنی کے چیف فنانشل آفیسر میٹ فرینڈ نے مارچ میں سرمایہ کاروں کو بتایا تھا کہ نائیکی اس وقت کئی بیرونی غیر یقینی عوامل، جیسے تجارتی محصولات اور صارفین کے اعتماد میں کمی، سے دوچار ہے۔ یکم جون سے، وہ نائیکی کے جوتے جن کی قیمت 100 ڈالر یا اس سے زیادہ ہے، ان کی قیمت میں 10 ڈالر تک اضافہ ہوگا۔ کپڑوں اور کھیلوں کے سامان کی قیمتوں میں بھی 2 سے 10 ڈالر تک اضافہ متوقع ہے۔ البتہ نائیکی کے مشہور ‘ایئر فورس 1’ جوتے، بچوں کی مصنوعات، اور ‘جورڈن’ برانڈڈ اشیاء پر یہ اضافہ لاگو نہیں ہوگا۔ اور دوسری طرف’ اڈیڈاس’ نے بھی حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں کے باعث ان کے مشہور جوتے، جیسے ‘گزیل’ اور ‘سامبا’، کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے۔ برطانیہ کی ریٹیل کمپنی جے ڈی اسپورٹس نے بھی خبردار کیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ امریکی صارفین کی طلب کو متاثر کر سکتا ہے۔ ویتنام، جہاں نائیکی کے آدھے سے زیادہ جوتے تیار ہوتے ہیں، پر امریکہ نے 46 فیصد تک کا محصول لگایا ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ آرگنائزیشن خود ویتنام میں 1.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہی ہے، اور ایریک ٹرمپ ان دنوں ویتنام کے دورے پر ہیں۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ نائیکی چھ سال بعد دوبارہ ایمیزون پر اپنی مصنوعات فروخت کرنے جا رہی ہے۔ کمپنی نے 2019 میں ایمیزون پر اپنی مصنوعات کی فروخت بند کر دی تھی تاکہ اپنی ویب سائٹ اور فزیکل اسٹورز پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ تاہم حالیہ دنوں میں آن لائن فروخت میں نمایاں کمی آئی ہے، خاص طور پر یورپ، مشرق وسطیٰ اور چین میں۔ اب نائیکی نے ایک نیا کاروباری منصوبہ بنایا ہے جس میں امریکا، برطانیہ اور چین پر توجہ دی جائے گی۔ کمپنی کے سابقہ سینئر ایگزیکٹو ایلیٹ ہل کو دوبارہ کمپنی کا کنٹرول دیا گیا ہے تاکہ وہ کاروبار میں بہتری لا سکیں۔

شہباز شریف کی آذربائیجانی صدر سے ملاقات: ‘تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کا اظہار’

Whatsapp image 2025 05 27 at 10.14.35 pm

وزیرِاعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے آذربائیجان کے صدر الہام علییف سے لاچین شہر میں ملاقات کی، جو کہ پاکستان، آذربائیجان اور ترکی کے سہ فریقی سربراہی اجلاس سے قبل ایک اعلیٰ سطحی دوطرفہ ملاقات تھی، یہ اجلاس آذربائیجان کے یومِ آزادی کے موقع پر منعقد ہوا۔ پاکستانی وفد میں نائب وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، چیف آف آرمی اسٹاف و فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی طارق فاطمی شامل تھے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے صدر علییف اور آذربائیجانی عوام کو یومِ آزادی پر دلی مبارکباد دی اور دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اور گہرے تعلقات کو سراہا۔ انہوں نے انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران آذربائیجان کی غیر متزلزل حمایت پر شکریہ ادا کیا، بالخصوص آذربائیجانی قیادت اور عوام کی جانب سے پاکستان کی “برحق جدوجہد” کے لیے جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا گیا، اسے خصوصی طور پر سراہا۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی تعلقات کے وسیع تر پہلوؤں کا جائزہ لیا اور سیاسی، معاشی، دفاعی اور ثقافتی شعبوں میں مثبت پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے باہمی مفاد پر مبنی شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے ذریعے اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید وسعت دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ صدر علییف اور وزیرِاعظم شریف نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جلد اعلیٰ سطحی وفود کی سطح پر مذاکرات کیے جائیں تاکہ پاکستان میں آذربائیجان کی سرمایہ کاری کے امکانات کو مزید دریافت کیا جا سکے۔ وزیرِاعظم نے لاچین میں ملاقات کو آذربائیجان کی جدوجہد، استقامت اور تعمیرِ نو کی علامت قرار دیا، اور کہا کہ اس مقام پر ملاقات نے گفت و شنید کو جذباتی اور علامتی اہمیت عطا کی ہے۔ دونوں رہنماؤں نے علاقائی استحکام، مشترکہ خوشحالی اور بین الاقوامی معاملات پر اصولی موقف اختیار کرنے کے لیے قریبی تعاون پر زور دیا۔ ملاقات کے اختتام پر پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور علاقائی اہداف کے حصول کے لیے قریبی شراکت داری جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف پاکستان کے خلاف انڈین جارحیت کے بعد مختلف ممالک کے دورے کررہے ہیں، پہلے مرحلے میں ترکیہ گئے، ترکیہ کے بعد ایران میں رہبراعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای، ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے بھی ملے۔ آذر بائیجان کے بعد تاجکستان جائیں گے، جہاں وہ تاجک صدر اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملیں گے۔ پیر کے روز وزیراعظم شہبازشریف نے تہران میں ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ برادر ملک ایران کا دورہ کرکے دلی مسرت ہوئی، ایران کو ہم اپنا دوسراگھر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں پر بات ہوئی، تجارت، سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ مسعود پزشکیان نے ٹیلیفون کرکے خطے میں کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہارکیا اور میں ڈاکٹرمسعود پزشکیان کے پاکستانی عوام کےلیے جذبات پر مشکورہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بہادر مسلح افواج نے دلیرانہ کارروئی کی، پاکستان پر امن ملک ہے، خطے میں امن و سلامتی چاہتاہے، امن کی خاطربات چیت کےلیے تیار ہیں، ہمسائیہ ملک سے خطے میں امن، پانی کے مسئلے، تجارت اور انسداد دہشتگردی کے معاملے پربات چیت کےلیے تیار ہیں لیکن اگر جارحیت ہوگی تو ہم اس کا بھرپورجواب دیں گے۔ مزید پڑھیں: انڈین وزیراعظم کے بیانات ’غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز‘ ہیں، پاکستان ان کا کہنا تھاکہ مسئلہ کشمیرسمیت تمام تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں اور خطے میں امن کے لیے کام کریں گے۔ پرامن نیوکلیئر پروگرام کے لیے ایران کی حمایت کرتے ہیں۔ غزہ صورتحال پر وزیراعظم کاکہناتھاکہ غزہ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، 50 ہزار سے زائد لوگ شہید ہوگئے، وقت کاتقاضہ ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری اور دیرپاجنگ بندی یقینی بنائے، پاکستان اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے، او آئی سی کے پلیٹ فارم پر پاکستان اور ایران کا موقف یکساں ہے۔ ایرانی صدر کا کہنا تھاکہ وزیراعظم شہبازشریف سے معیشت سیاست سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر بات ہوئی، سرحدی علاقے میں انسداد دہشتگردی کے لیے دو طرفہ قریبی تعاون ضروری ہے۔

غزہ میں صرف 4.6 فیصد زمین قابلِ کاشت رہ گئی، اقوامِ متحدہ

Israel tanks

غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری نے نہ صرف انسانی جانوں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ خوراک کی فراہمی کے پورے نظام تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ کی زرعی زمین کا صرف 4.6 فیصد حصہ اب کاشت کے قابل رہ گیا ہے، جب کہ 80 فیصد سے زائد فصلوں کی زمین یا تو تباہ ہو چکی ہے یا کسانوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس صورت حال کو ایف اے او نے انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے دوران زرعی زمین کی بربادی نے مقامی خوراک کی پیداوار کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘، اسرائیل نے امریکا کا پیش کردہ جنگ بندی کا معاہدہ مسترد کر دیا رپورٹ کے مطابق 71 فیصد گرین ہاؤسز اور 82 فیصد زرعی کنوئیں تباہ ہو چکے ہیں، جس سے پانی اور خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ایف اے او کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل بیت بیچڈول نے کہا کہ “یہ صرف زمین کی تباہی نہیں بلکہ غزہ کے پورے زرعی نظام اور ذریعہ معاش کی بربادی ہے۔ جو نظام کبھی لاکھوں افراد کو خوراک، آمدنی اور زندگی فراہم کرتا تھا، آج وہ ملبے میں دفن ہو چکا ہے۔” رواں ماہ کے آغاز میں انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن نے بھی خبردار کیا تھا کہ غزہ میں قحط کا خطرہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے گزشتہ ہفتے کچھ امدادی سامان بھیجنے کا اعلان کیا تھا مگر انسانی ہمدردی کی تنظیمیں کہہ رہی ہیں کہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، اور قحط زدہ آبادی تک رسائی ناکام ہو رہی ہے۔ دوسری جانب، اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پیر کے روز غزہ شہر میں ایک اسکول پر بمباری کے نتیجے میں آگ لگ گئی، جس میں بچوں سمیت کم از کم 36 فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق، صرف پیر کے دن کے آغاز سے شام تک اسرائیلی حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

شیخوپورہ کی پیپر مل میں زہریلی گیس پھیلنے سے 4 مزدور جاں بحق، 4 بے ہوش

Ambulance

شیخوپورہ لاہور روڈ پر خانپور کے قریب ایک نجی پیپر مل میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں زہریلی گیس امونیا کے اخراج سے چار مزدور جاں بحق اور چار بے ہوش ہو گئے۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کاغذ اور گتہ بنانے کے لیے ایک کنویں میں بھوسے اور ردی سے پلپ تیار کیا جا رہا تھا۔ دورانِ کام ایک نوجوان مزدور، 19 سالہ بلال احمد، کنویں میں گر گیا۔ یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں بارش کا سلسلہ، این ڈی ایم اے نے ایمرجنسی الرٹ جاری کر دیا دیگر چار مزدوروں میں سے عمران اور اختر کی حالت تشویشناک ہے، جبکہ صدام (32 سال) اور عباد علی (52 سال) کو خطرے سے باہر قرار دیا گیا ہے۔ اُسے بچانے کے لیے سات مزدور یکے بعد دیگرے کنویں میں اترے، تاہم فیکٹری میں حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی اور زہریلی گیس کے اخراج کے باعث 40 سالہ عباس، 30 سالہ علی حیدر اور بلال احمد موقع پر ہی دم توڑ گئے، جبکہ چوتھا مزدور، 24 سالہ شعیب ستار، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال شیخوپورہ میں جانبر نہ ہو سکا۔ ریسکیو حکام نے فیکٹری کو سیل کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں، جبکہ مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں نے فیکٹری مالکان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ واقعے نے ایک بار پھر صنعتی اداروں میں مزدوروں کی حفاظت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟ 

Cars

چین کی وزارتِ کامرس نے ملک کی مشہور گاڑی ساز کمپنیوں جیسے بی وائی ڈی اور ڈونگ فینگ موٹر کو ایک خاص اجلاس کے لیے منگل کی دوپہر کو بلایا ہے۔ اس اجلاس میں ان گاڑیوں پر بات ہوئی جو کبھی استعمال نہیں ہوئیں، لیکن پھر بھی پرانی گاڑیوں (یوزڈ کارز) کے طور پر بیچی جا رہی ہیں۔ یہ قدم اُس وقت اُٹھایا گیا ہے جب گریٹ وال موٹرز کے چیئرمین وی جیانجن نے پچھلے ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ چین میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جسے انہوں نے “زیرو مائلیج سیکنڈ ہینڈ کارز” کہا۔ ان کے مطابق، ایسی گاڑیاں جو رجسٹر ہو چکی ہیں اور جن پر نمبر پلیٹ لگ چکی ہے، یعنی کاغذوں میں وہ “فروخت شدہ” مانی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں وہ کبھی سڑک پر نہیں چلی ہوتیں۔ وی جیانجن نے بتایا کہ ایسی گاڑیاں بڑی تعداد میں آن لائن پرانی گاڑیوں کی مارکیٹ میں بیچی جا رہی ہیں، اور اندازہ ہے کہ کم از کم 3,000 سے 4,000 دکاندار اس طرح کی گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ کمپنیاں اور گاڑیوں کے ڈیلر یہ طریقہ اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی نئی گاڑیوں کی فروخت کا ہدف پورا کر سکیں اور یہ ظاہر ہو کہ گاڑیاں بک رہی ہیں، حالانکہ وہ اصل میں اسٹاک میں رہتی ہیں۔ اس اجلاس میں جن دوسرے اداروں کو بلایا گیا ہے اُن میں چائنا ایسوسی ایشن آف آٹوموبائل مینوفیکچررز، چائنا آٹوموبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن، اور کچھ بڑی آن لائن کار خرید و فروخت کی ویب سائٹس شامل ہیں۔ ابھی تک وزارتِ کامرس، بی وائی ڈی، ڈونگ فینگ موٹر اور (سی اے ڈی اے) نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ گریٹ وال اور (سی اے اے ایم) نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔جیسے ہی یہ خبر آئی، چینی گاڑیوں کی کمپنیوں کے شیئرز نیچے گرنے لگے۔ بی وائی ڈی اور لیپ موٹر کے شیئرز میں تقریباً 3.1 فیصد کمی ہوئی، جبکہ ہانگ کانگ کے گاڑیوں کے شیئرز کا انڈیکس بھی 2 فیصد سے زیادہ نیچے چلا گیا۔ یہ اجلاس اس وقت ہوا جب چینی کار انڈسٹری پہلے ہی سخت مسابقتی قیمتوں اور زائد اسٹاک کے دباؤ کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق، اگر “زیرو مائلیج” سیکنڈ ہینڈ کارز کے رجحان کو روکا نہ گیا تو اس سے مارکیٹ کی شفافیت، صارفین کا اعتماد اور مجموعی آٹو سیکٹر متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان، انڈیا جنگ کے بعد مغرب چین سے خوفزدہ ہونے لگا ہے؟

Osama shafiq

چینی صدرشی جن پنگ امریکی فوجی بالادستی کو کمزور کر رہے ہیں، چین کی افواج میں تیزی سے توسیع پر خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ ملک امریکہ کے لیے وجودی خطرہ بن سکتا ہے۔ چین نے نہایت جارحانہ انداز میں ایک بڑی فوج تشکیل دی ہے جس کا مقصد ہماری طاقتوں کو زائل کرنا ہے۔ جب پاکستان کے ایک چینی ساختہ جنگی طیارے نے کشمیر کے پہاڑوں کے اوپر ایک میزائل داغا اور انڈیا کے فرانسیسی ساختہ رافال لڑاکا طیارے کو مار گرایا، تو مغربی حکام چونک گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مغرب نے چینی JC-10 طیارے اور PL-15 میزائل کو عملی جنگ میں استعمال ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد مغربی ماہرین نے اس جھڑپ کی تفصیلات کا بغور جائزہ لیا کہ آیا چین کی عسکری صلاحیتیں مغرب کے برابر آچکی ہیں یا نہیں۔ گزشتہ 25 برسوں میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی (PLA) ایک چھوٹی اور زرعی آمدنی پر انحصار کرنے والی فوج سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور افواج میں تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل ڈگ وکرٹ کے مطابق: ’’چین آج تک کے سب سے زیادہ طاقتور مقام پر ہے۔ اس نے خاصی جارحیت کے ساتھ ایک بہت بڑی فورس بنائی ہے جس کا مقصد ہمارے دفاعی نظام کو چیلنج کرنا ہے۔‘‘ آج PLA کے پاس امریکہ سے تقریباً دس لاکھ زیادہ سپاہی اور ایک ہزار سے زائد اضافی ٹینک ہیں۔ اس کی بحریہ دنیا کی سب سے بڑی بحریہ بن چکی ہے، جس میں تقریباً 400 جنگی جہاز شامل ہیں، اور فضائیہ میں تقریباً 2,000 لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ بیجنگ نے اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ سی آئی اے کے نائب ڈائریکٹر مائیکل ایلس کے مطابق چین اب ایسا وجودی خطرہ بن چکا ہے جس کا امریکہ نے ماضی میں کبھی سامنا نہیں کیا۔ تاہم، اگرچہ چین آج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ طاقتور ہے، لیکن اس کی اصل صلاحیتوں کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ PLA ابھی بھی مہارت اور تجربے میں پیچھے ہے اور اکثر اپنے حریف سے ایک قدم پیچھے رہتی ہے۔ جنرل وکرٹ کے مطابق: ’’اعداد و شمار پوری کہانی نہیں بتاتے۔ چین کی فوج تعداد اور تکنیکی ترقی دونوں میں بڑھی ہے، لیکن بعض شعبوں میں ہم اب بھی ٹیکنالوجی میں برتری رکھتے ہیں۔‘‘ ہر سال چین میں مختلف نمائشیں اور دفاعی شوز ہوتے ہیں، جن میں دنیا کی سب سے خفیہ افواج میں سے ایک کی ٹیکنالوجی پیش کی جاتی ہے۔ مزید پڑھیں: جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا سفارتی محاذ پر، کیا نتائج آ سکتے ہیں؟ نومبر میں، چین نے ژوہائی ایئر شو میں J-20 اسٹیلتھ فائٹر طیارے پیش کیے، جو امریکہ کے F-35 لائٹننگ II طیاروں کے حریف سمجھے جاتے ہیں، اور جو PL-15 جیسے میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں، ورلڈ ریڈار ایکسپو میں چین نے نیا JY-27V ریڈار پیش کیا، جسے چینی ریاستی میڈیا نے F-35 جیسے پانچویں نسل کے امریکی اسٹیلتھ طیاروں کا سراغ لگانے کی صلاحیت والا قرار دیا۔ چین کی بحریہ بھی مبینہ طور پر ایک نیا سپر کیریئر تیار کر رہی ہے، جو USS Gerald Ford جیسا ہوگا۔ جبکہ فوج ایک نئی چوتھی نسل کے ہلکے ٹینک پر کام کر رہی ہے، جس کے توپ خانے مختلف قسم کے گولے داغنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم، امریکا کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک پہلو چین کی جوہری طاقت میں تیز رفتار اضافہ ہے۔ 2023 سے 2024 کے درمیان چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 500 سے بڑھا کر 600 کر دی، اور اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1,000 سے تجاوز کر جائے گی۔ اگرچہ امریکہ کے پاس اب بھی 3,700 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ برتری حاصل ہے، لیکن بیجنگ کی رفتار نے واشنگٹن کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رینڈ کارپوریشن کے دفاعی محقق اور چین کے ماہر، ٹموتھی ہیتھ کے مطابق: چین کی یہ پیش رفت دراصل ایک “روک تھام کی حکمت عملی” کا حصہ ہے۔ ان کے بقول: ’’یہ اس بات کی علامت ہے کہ چین امریکہ سے روایتی جنگ سے بچنا چاہتا ہے۔‘‘ ہیتھ کے مطابق ہائپرسونک میزائل کا میدان ایک ایسا شعبہ ہو سکتا ہے جہاں چین نے تکنیکی لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ چین فوجی ڈرونز کے عالمی بازار میں بھی نمایاں کھلاڑی بن چکا ہے، حالانکہ جنرل وکرٹ جیسے ماہرین اس سے اتفاق نہیں کرتے کہ چین کسی بھی شعبے میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔ چینی فوجی ترقیات تائیوان کے ممکنہ تنازع کے تناظر میں سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہیں، کیونکہ یہ وہ واحد منظرنامہ ہے جہاں امریکہ اور چین آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔ جو بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ اس کا دفاع کرے گا، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے پر کوئی واضح مؤقف نہیں اپنایا۔ ہیتھ کے مطابق چین کی تائیوان کے قریب موجودگی اسے برتری دیتی ہے، کیونکہ بیجنگ کو اپنے زمینی نظام تک فوری رسائی حاصل ہوگی، جب کہ امریکہ کو سمندر پار سے اپنی طاقت پہنچانی پڑے گی۔ واشنگٹن نے چین کی سائبر جنگی صلاحیتوں پر بھی خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے جنرل وکرٹ نے انکشاف کیا کہ چین نے امریکہ کے بجلی کے نظام میں داخل ہو کر میلویئر نصب کیا ہے، جو بجلی، پانی اور گیس جیسے بنیادی ڈھانچے کی نگرانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’چین نے ان نظاموں تک رسائی حاصل کی اور ان کا نقشہ تیار کیا، جو یقیناً تشویش کا باعث ہے۔ یہ دراصل جنگی اقدام سمجھا جاتا ہے۔‘‘ 1990 کی دہائی میں PLA اتنی مضبوط نہیں تھی۔ جب مغربی ممالک اربوں ڈالر اپنی افواج پر خرچ کر رہے تھے، PLA کے پاس اتنا بجٹ بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ سنگاپور میں ایس راجارٹنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر فیلو اور امریکی محکمہ دفاع میں سابق ڈائریکٹر برائے چین، ڈریو تھامسن کے مطابق: ’’فوج کے پاس سرکاری بجٹ نہ ہونے کے باعث اسے اپنی آمدنی خود پیدا کرنی پڑتی تھی۔ یہ کارخانے، سروسز، لاجسٹک بزنس میں

جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا سفارتی محاذ پر، کیا نتائج آ سکتے ہیں؟

کیا پاکستان کے خلاف انڈیا سفارتی اور انفارمیشن فرنٹ پر کامیاب ہو سکے گا؟ انڈین وفود کتنے موثر رہیں گے؟ پاکستان کے پاس جواب میں کیا آپشنز ہیں؟ پاکستان کے اتحادیوں نے اسلام آباد کی حمایت کی مگر انڈین اتحادی نئی دہلی کو سپورٹ کیوں نہیں کر رہے؟ پاکستان میٹرز کے خصوصی سلسلے میں ماہر ابلاغیات اور بین الاقوامی امور ڈاکٹر اسامہ شفیق کی گفتگو سنیں اور مزید جانیں۔

’حجاج کرام کا تحفظ‘، رواں سال بھی حج کے دوران بچوں کے داخلے پر پابندی ہوگی

Hajj.

حج کے دوران کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی بچوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ سعودی حکام اس پابندی پر سختی سے عمل پیرا ہیں۔ حکام نے واضح کیا ہے کہ یہ اقدام حجاج کرام کے تحفظ اور ہجوم پر قابو پانے کے لیے ناگزیر ہے۔ سعودی وزارت حج و عمرہ کا کہنا ہے کہ حج کے موقع پر غیرمعمولی ہجوم کے پیش نظر بچوں کو شرکت کی اجازت نہ دینا ان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔فروری 2025 میں کیے گئے فیصلے پر اس سال بھی سختی سے عمل ہو رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: حج اسکیم بحران پرحافظ نعیم کا وزیراعظم کو خط، اعلیٰ سطحی کمیٹی سعودی عرب بھیجنے کا مطالبہ اس فیصلے کے تناظر میں حج کی تنظیمی حکمت عملی مزید سخت کر دی گئی ہے تاکہ مقدس مقامات پر نظم و ضبط برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم، اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ حج کے لیے پرائیویٹ اسکیم کے تحت رجسٹر ہونے والے 67 ہزار عازمین حج کے باوجود، دس ہزار اضافی کوٹے کے ساتھ بھی وہ سعادت حاصل نہیں کر سکیں گے۔ عازمین کی بڑی تعداد کے لیے یہ صورت حال باعثِ تشویش ہے، مگر حکام کے مطابق حج کے انتظامات اور زائرین کی جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہر ممکن قدم اٹھایا جا رہا ہے تاکہ کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔

ملک بھر میں بارش کا سلسلہ، این ڈی ایم اے نے ایمرجنسی الرٹ جاری کر دیا

Weather.jpg 12

محکمہ موسمیات نے آج شام (منگل) سے 31 مئی تک شدید بارشوں، تیز آندھی، ژالہ باری اور گرج چمک کے ساتھ طوفانی ہواؤں کی پیشگوئی کی ہے، جس کے باعث صوبے بھر میں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ پنجاب کے بیشتر اضلاع میں مغربی ہواؤں اور مرطوب ہواؤں کے باہمی اثرات سے شدید موسمی تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔ راولپنڈی، مری، گلیات، اٹک، چکوال، جہلم، میانوالی، سرگودھا، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، سیالکوٹ، نارووال، اوکاڑہ، لاہور، فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرانوالہ، گجرات اور شیخوپورہ میں موسلادھار بارشوں کے ساتھ ژالہ باری اور آسمانی بجلی گرنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب جنوبی پنجاب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان، راجن پور، ملتان، بھکر، لیہ، بہاولپور، ساہیوال، پاکپتن اور وہاڑی میں ہلکی سے درمیانے درجے کی بارشوں اور گرج چمک کے ساتھ ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) نے عوام کو ہدایت کی ہے کہ وہ کمزور ڈھانچوں، بجلی کے کھمبوں، درختوں، گاڑیوں اور خاص طور پر سولر پینلز سے دور رہیں۔ حالیہ آندھی طوفان میں جاں بحق ہونے والے 70 فیصد افراد کی موت ناقص طور پر نصب شدہ سولر پینلز کے گرنے سے ہوئی تھی۔ یہ بھی پڑھیں: کیا ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز جنگی محاذ پر خطرناک ہتھیار بن چکی ہیں؟ اسی تناظر میں PDMA نے سولر پینلز کی تنصیب کے حوالے سے نئے ضوابط متعارف کرانے کی ہدایت دی ہے۔ اس کے علاوہ ناقص مٹیریل اور غیر معیاری فٹنگز کے استعمال کو روکنے کے لیے سخت نگرانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہر ضلع میں موجود سولر سسٹمز کا ازسر نو سروے کیا جائے گا تاکہ خطرناک تنصیبات کو فوری درست کیا جا سکے۔ پنجاب حکومت نے تمام ضلعی انتظامیہ، صحت، تعلیم، بلدیات، آبپاشی اور ریسکیو 1122 سمیت متعلقہ اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر چوبیس گھنٹے الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی ہے اور تمام اضلاع میں ایمرجنسی آپریشن سینٹرز کو بھی فعال کر دیا گیا ہے۔ راولپنڈی کے لیہ نالہ کی خصوصی صفائی اور راجن پور کے واہا علاقے میں ڈیسلٹنگ کے لیے خصوصی فنڈ کی منظوری دی گئی ہے۔ لازمی پڑھیں: تائیوان میں منفرد کار کی نمائش: یہ ’کیلے کا چھلکا‘ ہے کیا؟ اس کے ساتھ ہی، ڈیرہ غازی خان میں ممکنہ ہل ٹورینٹس سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ PDMA نے ہیلپ لائن 1129، واٹس ایپ نمبر +923178371900 اور لینڈ لائن 042-9922135/6 پر عوام سے رابطے میں رہنے کی اپیل کی ہے۔ علاوہ ازیں مقامی نمائندوں اور مساجد کے ذریعے موسم کی تازہ ترین صورتحال سے متعلق عوام کو بروقت آگاہ کیا جائے گا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں میں اسلام آباد، خیبرپختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے علاقوں ژوب، زیارت اور بارکھان میں بھی بارش اور آندھی کا امکان ہے۔ درجہ حرارت 37 سے 39 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے گا جبکہ ہوا میں نمی کا تناسب 72 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوری حفاظتی اقدامات کریں جبکہ عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ موسم کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ضروری سفر اور کھلی جگہوں پر جانے سے گریز کریں۔   مزید پڑھیں: مصنوعی ذہانت کے بڑھتے اثرات: کیا صحافت اور نوکریاں خطرے میں ہیں؟