28 مئی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو کن چیلنجز سے نمٹنا پڑا؟

28 مئی 1998 کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے اقوامِ عالم میں یہ اعلان کر دیا کہ اب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ ان اقدام کے بعد امریکا اور باقی ممالک کی جانب سے پاکستان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جس کی وجہ سے پاکستان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان میٹرز کے خصوصی سلسلے ‘میڈیا میٹرز’ میں سینئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی کی میزبان ساجد ناموس سے خصوصی گفتگو سنیں اور مزید جانیے۔
’مکمل طور پر ناقابل قبول‘، اسرائیل نے امریکا کا پیش کردہ جنگ بندی کا معاہدہ مسترد کر دیا

فلسطینی اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی تجویز قبول کر لی ہے، تاہم اسرائیلی حکام نے اس مؤقف کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ پیش کیے گئے معاہدے کے تحت حماس دو گروپوں میں قید دس اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی، جس کے بدلے میں اسرائیل جزوی طور پر غزہ سے انخلاء کرے گا اور 70 دن کے لیے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کرے گا۔ اس معاہدے میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو طویل عرصے سے سزائیں کاٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے اس تجویز کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کوئی ذمہ دار حکومت ایسے معاہدے کو قبول نہیں کر سکتی۔ اسرائیلی اہلکار کا کہنا تھا کہ جو منصوبہ زیر بحث ہے، وہ اسٹیو وٹکوف کی پیشکش سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ بھی پڑھیں :دورہ ایران: شہبازشریف کی ایرانی سپریم لیڈر، صدر سے ملاقاتیں، اہم امور پر تبادلہ خیال اسٹیو وٹکوف نے بھی واضح طور پر اس تاثر کو رد کر دیا کہ حماس نے ان کی تجویز کو تسلیم کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دستاویز کو حماس کی منظوری کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پر جاری ایک پیغام میں کہا کہ وہ حماس کے خلاف جاری جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے جلد یا بدیر پیش رفت کے لیے پر امید ہیں، تاہم اسرائیلی حکام نے فوری طور پر اس پر وضاحت دینے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے 18 مارچ کو جنوری میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کو غیر مؤثر قرار دے کر غزہ میں اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کی تھی، جس کے بعد حماس اور اس کے اتحادیوں نے راکٹ حملے دوبارہ شروع کر دیے تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ سے مکمل انخلاء پر راضی ہو تو وہ باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے اور مستقل جنگ بندی پر آمادہ ہے، تاہم اسرائیلی وزیراعظم کا مؤقف ہے کہ اسرائیل صرف عارضی جنگ بندی پر راضی ہو سکتا ہے اور جنگ صرف حماس کے مکمل خاتمے پر ہی ختم ہو گی۔ یہ تنازع 7 اکتوبر 2023 کے اس واقعے کے بعد شدت اختیار کر گیا جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کر کے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق 54,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ علاقے میں غذائی قلت سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے اور انسانی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری میں شدت، شہادتوں کی تعداد 61 ہزار سے تجاوز کر گئی

غزہ میں اسرائیلی حملوں کا سلسلہ پیر کی صبح سے تیز ہو چکا ہے جس میں اب تک 81 معصوم فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق صرف غزہ شہر میں 53 افراد نے جام شہادت نوش کیا، جب کہ باقی کی شہادتیں مختلف علاقوں میں ہوئیں۔ دوسری جانب جنگ بندی کے حوالے سے مختلف پیغامات سامنے آئے ہیں۔ الجزیرہ کے نمائندے کے مطابق حماس اور امریکا کے بیانات میں واضح تضاد پایا جا رہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حماس نے امریکی تجویز کردہ جنگ بندی منصوبے کو قبول کر لیا ہے تاہم امریکی حکام اس حوالے سے واضح مؤقف اختیار کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں طبی صورتحال تشویش ناک ہو چکی ہے۔ اسپتالوں میں طبی سامان ختم ہو چکا ہے جب کہ شدید زخمیوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ تنظیم کے ترجمان کے مطابق ‘ہر کوئی اذیت میں ہے’ اور اسرائیلی پابندیوں کے باعث امدادی سامان داخل نہیں ہو پا رہا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جاری جنگ میں اب تک کم از کم 53,977 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جب کہ 122,966 زخمی ہیں۔ سرکاری میڈیا آفس نے شہادتوں کی مجموعی تعداد 61,700 سے زائد بتائی ہے جس میں ان ہزاروں افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ملبے تلے دبے ہونے کے باعث لاپتہ اور مردہ سمجھے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں اسرائیل میں 1,139 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 200 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ مزید پڑھیں: ’وژن 2030‘، سعودی عرب کا 600 مقامات پر شراب فروحت کرنے کا اعلان
انڈین وزیراعظم کے بیانات ’غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز‘ ہیں، پاکستان

پاکستان نے انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ الزامات کو اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کہا ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انڈین وزیراعظم کے گجرات میں دیے گئے ریمارکس نہ صرف ایک جوہری ریاست کے رہنما کے شایان شان نہیں بلکہ علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ بیان میں پاکستان نے مودی کی تقریر کو اشتعال انگیزی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانا ہے۔ یہ بھی پڑھیں :دورہ ایران: شہبازشریف کی ایرانی سپریم لیڈر، صدر سے ملاقاتیں، اہم امور پر تبادلہ خیال دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے انڈیا پر لازم ہے کہ وہ عالمی ذمہ داریوں کا احترام کرے اور غیر ذمہ دار بیانات سے اجتناب برتے۔ پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ انڈیا کی بڑھتی ہوئی جارحانہ بیان بازی کا نوٹس لے، جس سے نہ صرف علاقائی استحکام متاثر ہو رہا ہے بلکہ دیرپا امن کی کوششیں بھی کمزور ہو رہی ہیں۔ بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ پاکستان ہمیشہ عالمی امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی محاذ پر ایک مضبوط آواز کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اگر انڈیا کو واقعی انتہاپسندی پر تشویش ہے تو اسے اپنی سرزمین پر بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت، اقلیتوں کے خلاف تشدد، اور ہندوتوا نظریے کے تحت ہونے والی زیادتیوں کا بھی نوٹس لینا ہوگا۔ دفتر خارجہ نے آخر میں واضح کیا کہ پاکستان امن، باہمی احترام اور خودمختاری کی بنیاد پر تعلقات کا خواہاں ہے، لیکن کسی بھی ممکنہ خطرے کی صورت میں وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
برطانیہ: میچ جیتنے کی خوشی میں گاڑی شائقین پر چڑھا دی، 45 افراد زخمی

لیورپول میں فٹ بال میچ کی جیت کی خوشی میں ایک شخص نے گاڑی ہجوم پر چڑھا دی، جس کے نتیجے میں 45 افراد زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ پیر کی شب اس وقت پیش آیا جب لوگ پریمیئر لیگ چیمپیئن شپ کی فتح کا جشن منانے کے لیے سڑکوں پر جمع تھے۔ حکام کے مطابق، 53 سالہ مقامی برطانوی شہری کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس نے ایک گرے وین کے ذریعے یہ حملہ کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے یہ واضح ہوا ہے کہ یہ واقعہ کسی منظم منصوبہ بندی یا دہشت گردی کا حصہ نہیں بلکہ ملزم کا انفرادی اقدام ہے۔ ایمرجنسی سروسز فوری طور پر موقع پر پہنچ گئیں۔ ایمبولینس سروس کے سربراہ ڈیو کچن نے بتایا کہ 27 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا، جن میں دو کی حالت نازک ہے، جبکہ دیگر کو موقع پر ہی طبی امداد فراہم کی گئی۔ زخمیوں میں کم از کم چار بچے بھی شامل ہیں۔ چار بالغ افراد اور ایک بچہ گاڑی کے نیچے پھنس گئے تھے، جنہیں فائر فائٹرز نے گاڑی اٹھا کر نکالا۔ یہ بھی پڑھیں :دورہ ایران: شہبازشریف کی ایرانی سپریم لیڈر، صدر سے ملاقاتیں، اہم امور پر تبادلہ خیال عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب فنکشن ختم ہوا تو لوگ باہر نکل رہے تھے، اسی دوران گاڑی ہجوم کی طرف مڑی اور لوگوں کو روندنا شروع کر دیا۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی پہلے ایک شخص کو ٹکر مارتی ہے، پھر تیزی سے ہجوم میں داخل ہو جاتی ہے۔ موقع پر موجود شہری ہیری رشید، جو اپنی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ وہاں موجود تھے، نے بتایا کہ ڈرائیور کو روکنے کی کوشش کی گئی، مگر اس نے گاڑی نہ روکی اور موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ سٹی کونسل کے رہنما لیام رابنسن نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ واقعہ شہر کے لیے ایک بڑے صدمے کا باعث ہے اور ایک خوشی کے دن کو سوگ میں بدل دیا ہے۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ اس کی اصل وجوہات اور محرکات کا تعین کیا جا سکے۔
کیا ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز جنگی محاذ پر خطرناک ہتھیار بن چکی ہیں؟

ذرا تصور کریں کہ کسی جنگ کے دوران ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو جائے، جس میں ایک نامور جرنیل جنگ بندی کا اعلان کر دے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد پتہ چلے کہ وہ ویڈیو ہی جعلی تھی۔ نہ ایسی کوئی تقریر ہوئی اور نہ ہی کوئی جنگ بندی ۔ بالکل ایسی ہی صورتِ حال آج دنیا بھر میں کئی محاذوں پر سامنے آ رہی ہے، جہاں ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز ایک نئے قسم کے ‘ڈیجیٹل ہتھیار’ کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکسپرٹ سید اسد نعیم نے کہا کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نے جنگی حکمتِ عملی کو بدل دیا ہے۔ اب نفسیاتی جنگ اور غلط معلومات کا استعمال زیادہ کارگر ثابت ہورہا ہے، جس کے باعث یہ روایتی ہتھیاروں کی جگہ لے رہا ہے۔” ڈیپ فیک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کسی بھی شخص کی شکل، آواز اور حرکات کی نقالی کر کے ایک مصنوعی مگر حقیقت سے قریب ویڈیو یا آڈیو تیار کی جا سکتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ عام آنکھ سے اصل اور نقلی میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا۔ مزید پڑھیں: پاکستان کا ایران سے تجارت بڑھانے کا اعلان، کتنا ہدف مقرر کیا گیا ہے؟ پاکستان۔انڈیا کشیدگی، روس-یوکرین جنگ، غزہ-اسرائیل تنازع اور ایران-امریکہ کشیدگی جیسے عالمی تنازعات میں ڈیپ فیک مواد بطور ایک اہم نفسیاتی ہتھیار سامنے آیا ہے۔ سید اسد نعیم کے مطابق “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے پھیلائی گئی غلط معلومات عوامی رائے کو متاثر کر سکتی ہیں، جس سے سیاسی عدم استحکام اور عوامی اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ کا ایک مؤثر ہتھیار بن چکی ہے۔ اس بات کا اقرار ‘کینیڈین سیکیورٹی انٹیلیجنس سروس’ کی رپورٹ میں بھی ہو چکا ہے۔” روسی صدر پیوٹن یا یوکرینی صدر زیلنسکی کے جعلی پیغامات، یا اسرائیلی حملے کے مناظر کو مسخ کر کے دکھانے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر باآسانی وائرل ہو جاتی ہیں۔ مقصد صرف دشمن کے مورال کو کمزور کر کے عوام میں خوف پیدا کرنا اور عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی محقق ثاقب علی نے کہا کہ “2022 میں یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے نظر آتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس واقعے نے ظاہر کیا کہ کس طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے دشمن کی حوصلہ شکنی اور غلط معلومات پھیلائی جا سکتی ہیں۔” پاکستان اور انڈیا کے درمیان رواں ماہ لائن آف کنٹرول کے قریب ایک فضائی جھڑپ ہوئی جس میں بھارتی رافیل طیارے اور پاکستانی J-10C جہازوں کے مابین مقابلہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد بھارتی سوشل میڈیا پر متعدد جعلی ویڈیوز گردش کرتی رہیں جن میں پاکستانی طیاروں کی تباہی یا پاکستانی پائلٹ کی گرفتاری کے مناظر دکھائے گئے، بعد ازاں اس تمام پروپیگنڈے کا پول کھل گیا اور تمام ویڈیو ڈیپ فیک یا پھر پرانی نکلیں۔ ثاقب علی کے نزدیک ” چونکہ جعلی ویڈیوز اور آڈیوز کی تصدیق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ اس لیے میڈیا کو چاہیے کہ وہ ڈیپ فیک کی شناخت کے لیے جدید ٹولز استعمال کریں اور صحافیوں کو اس حوالے سے تربیت فراہم کریں تاکہ وہ جعلی مواد کا شکار نہ ہوں۔” دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان۔انڈیا کشیدگی کے دوران پاکستانی سوشل میڈیا صارفین، اوپن سورس محققین اور یوٹیوب و لاجیکل بلاگرز نے فوری طور پر ان ویڈیوز کا تجزیہ کیا، ویڈیو کے میٹا ڈیٹا سے پتہ چلا کہ ویڈیو کلپس پرانی تھیں، کچھ ویڈیوز میں پس منظر کا موسم موجودہ موسم سے مختلف تھا، تو بعض آوازیں الگ ایپس سے نکالی گئی تھیں۔ اس بے نقاب کاری کے بعد بھارت کو عالمی میڈیا میں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ سائبر سیکیورٹی ماہرین کے مطابق ڈیپ فیک ایسا ‘سائبر بم’ ہے جو دشمن کے اندر سے حملہ کرتا ہے۔ کسی فوجی لیڈر کی جعلی تقریر، یا کسی ملک کے ہتھیار چھوڑنے کی جعلی خبر پورے محاذ کو الٹ سکتی ہے۔ سید اسد نعیم کا ماننا ہے کہ “ڈیپ فیک کا استعمال اگر دشمن کو دھوکہ دینے یا عوامی اعتماد کو مجروح کرنے کے لیے کیا جائے تو یہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔” ڈیجیٹل میڈیا ریگولیٹرز کے مطابق پاکستان میں ابھی تک ڈیپ فیک کے خلاف کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے۔ ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “پاکستان میں ڈیپ فیک کے خلاف مؤثر قانونی فریم ورک کی کمی ہے جس سے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 موجود ہے لیکن اس میں ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا واضح ذکر نہیں ہے۔” ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ عوام ہر وائرل ویڈیو پر فوری یقین نہ کریں۔ اس بارے اسکولوں، جامعات اور صحافی اداروں میں ٹریننگ دی جانی چاہیے۔ سید اسد نعیم کا کہنا ہے کہ “ڈیجیٹل لٹریسی کے کورسز عوام کو یہ سکھانے کے لیے ضروری ہیں کہ وہ جعلی معلومات کی شناخت کیسے کریں اور اس سے کیسے بچیں۔ یہ موجودہ دور میں نہایت ضروری ہے۔” یورپی یونین، امریکہ، اور اقوامِ متحدہ اب AI اور ڈیپ فیک مواد کے خلاف ضابطہ اخلاق پر غور کر رہے ہیں تاکہ اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ ثاقب علی کا کہنا ہے کہ “ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ، حقیقت اور فریب کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ میڈیا اور عوامی اعتماد کے لیے خطرہ ہے۔ اس لیے اس بارے ضابطہ اخلاق طے کرنا ناگزیر ہے۔” جہاں ڈیپ فیک فلم سازی، تعلیم اور تفریح میں نئی راہیں کھول رہا ہے، وہیں اس کا استعمال جھوٹ، جنگ اور فریب کے لیے ایک خطرناک ہتھیار بھی بن سکتا ہے۔ ڈیپ فیک اور جعلی ویڈیوز صرف ایک سافٹ ویئر کی کرامات نہیں رہیں، یہ اب جنگی حکمتِ عملی کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اس کا قانونی و تکنیکی حل تلاش کریں بلکہ عوام کو باخبر بنائیں تاکہ دشمن کے