ملک کے مختلف علاقوں میں شدید آندھی، بارش، 6 افراد جاں بحق

پنجاب، خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں حالیہ شدید بارشوں اور طوفانی آندھیوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 6 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں طوفانی ہواؤں نے درختوں اور بجلی کے کھمبوں کو گرا دیا، جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اور بجلی کی فراہمی میں بھی خلل پیدا ہوا۔ یہ بھی پڑھیں: ہم اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، صدر اور وزیراعظم کا یومِ تکبیر پر پیغام پشاور میں بھی آندھی اور بارش کے باعث درخت جڑوں سے اکھڑ گئے، کئی گاڑیوں اور گھروں کے سولر پینلز کو نقصان پہنچا جبکہ اٹک میں بارش کے ساتھ تیز ہواؤں اور گرج چمک کا سلسلہ ریکارڈ کیا گیا۔ مظفرآباد میں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے شدید جانی و مالی نقصان ہوا، جس میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے، متعدد مکانات اور ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔ وادی نیلم میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث شاہراہ نیلم آٹھ مقامات پر بند ہو چکی ہے جس نے آمد و رفت معطل کر دی ہے۔ دیامر اور بابوسر ٹاپ پر وقفے وقفے سے برفباری جاری ہے، جبکہ چلاس میں بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کے سبب شاہراہ قراقرم دیامر اور لوئر کوہستان کے درمیان بند ہو گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں ژالہ باری اور طوفانی بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے، جس کے نتیجے میں مختلف حادثات میں تین افراد جاں بحق اور سات زخمی ہوئے۔ پنجاب کے مختلف حصوں میں بھی گرد کے طوفان اور بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ ملتان میں تیز ہواؤں سے ریلوے روڈ پر پول گرنے سے بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی، جبکہ پرانا شجاع آباد روڈ پر آندھی کی وجہ سے ایک مکان کی دیوار گرنے سے 10 سالہ بچی جاں بحق ہو گئی۔ خراب موسم کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور امدادی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ پیشگوئی کے مطابق جنوبی پنجاب کے علاقوں میں آئندہ 2 سے 5 گھنٹوں کے دوران گردآلود طوفان، گرج چمک اور بارش،ہلکی بوندا باندی کا امکان ہے۔ یہ موسمی سرگرمیاں خصوصاً ڈیرہ غازی خان، راجن پور، تونسہ، مظفر گڑھ، ملتان، لودھراں، وہاڑی، خانیوال، بہاول نگر اور ملحقہ علاقوں میں متوقع ہیں۔ اسی طرح، سندھ کے علاقوں خیرپور، سکھر، گھوٹکی، کشمور، حیدرآباد اور قرب و جوار میں آئندہ 1 سے 3 گھنٹوں کے دوران کہیں کہیں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔
پاکستان ’ایٹمی طاقت‘ کیسے بنا؟

برصغیر میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے، انڈیا کے دھماکوں کا جواب دینے اور عالمی سطح پر اپنی خودمختار شناخت کو منوانے کے لیے پاکستان نے ایک طویل اور محنت طلب سفر طے کیا۔ جس کے بعد پاکستان نے 28 مئی 1998 کو پانچ ایٹمی دھماکے کیے، یہ دن اب “یومِ تکبیر” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ چاغی کے پہاڑوں میں ہونے والے ان دھماکوں کے بعد پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ سائنسی ترقی کے علاوہ یہ ایک دفاعی پیغام بھی تھا کہ پاکستان اپنا دفاع مضبوط انداز میں کر سکتا ہے۔ آئیے سنتے ہیں اس سفر کی تفصیلی داستان۔
پاکستان، انڈیا جنگ کا اثر یا کچھ اور، ایشیائی ممالک کیسے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں؟

کچھ ایشیائی ممالک نے حالیہ برسوں میں ہتھیاروں اور دفاعی تحقیق پر اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے کیونکہ وہ خطے میں بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ ان ممالک کا مقصد اپنی دفاعی صنعتوں کو فروغ دینا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بیرونی ملکوں سے صنعتی تعاون کو بھی وسعت دے رہے ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں تک رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ لندن میں قائم ادارہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک اسٹڈیز کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، اگرچہ یہ ممالک خود پر انحصار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس وقت انہیں بیرونی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات، امریکا اور چین کے درمیان تناؤ، اور ایشیا پیسیفک میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورتحال ان ممالک کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق، 2022 سے 2024 کے درمیان ایشیا پیسیفک کے چھ بڑے ممالک، جن میں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں، نے دفاعی تحقیق اور خریداری پر 2.7 ارب ڈالر زیادہ خرچ کیا ہے، جس کے بعد یہ مجموعی رقم 10.5 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں دیکھنے کو ملا ہے جب ان ممالک نے 2024 میں اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے اوسطاً 1.5 فیصد تک محدود رکھا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اگرچہ ان ممالک نے اپنے بجٹ میں اضافہ کیا ہے، مگر وہ ابھی بھی جدید ہتھیاروں اور فوجی ٹیکنالوجی کے لیے دوسرے ملکوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ان میں سب میرین، جنگی طیارے، ڈرون، میزائل اور انٹیلیجنس اکٹھا کرنے والے جدید آلات شامل ہیں۔ یہ صورتحال شنگری لا ڈائیلاگ کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جو سنگاپور میں ہونے والی ایک اہم دفاعی کانفرنس ہے اور جس میں دنیا بھر کے دفاعی ماہرین اور رہنما شرکت کریں گے۔ کانفرنس میں یوکرین کی جنگ، تائیوان کی صورتحال، اور جنوبی بحیرہ چین جیسے متنازعہ علاقوں میں کشیدگی جیسے مسائل زیر بحث آئیں گے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی دفاعی میدان میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ یو اے ای نے چین اور انڈیا سمیت کئی ملکوں کے ساتھ ہتھیاروں کی تیاری میں شراکت داری قائم کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر، انڈیا اور روس نے مل کر برہموس میزائل تیار کیا، لیکن اس کی برآمدات میں تاخیر ہوئی کیونکہ انڈیا کی طرف سے برآمدی حکمت عملی واضح نہیں تھی۔ فلپائن کو اس میزائل کی فراہمی 2024 میں جا کر ممکن ہوئی۔ اسی طرح، روس اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی ہتھیاروں کی ترقی کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اگر روس بیجنگ کے ساتھ ہائپرسونک میزائل بنانے کو ترجیح دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ایشیائی ممالک دفاعی خود کفالت کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں لیکن فی الحال وہ عالمی شراکت داروں کے تعاون پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔
نائیجیریا میں مسلح حملے، دو روز میں 42 افراد ہلاک

نائیجیریا کی وسطی ریاست بینو کے ضلع گور ویسٹ میں ہفتہ اور اتوار کو پیش آنے والے پے در پے حملوں میں کم از کم 42 افراد ہلاک ہوگئے۔ مقامی حکام کے مطابق یہ حملے مبینہ طور پر مسلح چرواہوں کی جانب سے کیے گئے۔ گور ویسٹ کی مقامی حکومت کے چیئرمین، وکٹر امنن، نے منگل کے روز میڈیا کو بتایا کہ صرف اتوار کو آہومے اور آوندونا دیہاتوں میں 32 لاشیں برآمد کی گئیں، جب کہ اس سے ایک روز قبل ہفتہ کو تیولاہا اور تسے ابیام دیہاتوں پر حملے میں مزید 10 افراد ہلاک ہوئے۔ امنن کا کہنا تھا کہ “صورتحال نہایت افسوسناک ہے، تاحال لاشوں کی بازیابی جاری ہے۔” بینو، نائیجیریا کے مڈل بیلٹ علاقے میں واقع ہے جہاں مسلمان شمال اور عیسائی اکثریتی جنوب کا ملاپ ہوتا ہے۔ اس خطے میں زمین کے استعمال پر دیرینہ تنازعات پائے جاتے ہیں، چرواہے چراگاہوں کے لیے اور کاشتکار زرعی مقاصد کے لیے زمین چاہتے ہیں۔ ان تنازعات کو نسلی اور مذہبی تقسیم مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ بینو کے گورنر ہیا سنتھ ایورم علیا کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں ایک کیتھولک پادری کو بھی گولی مار دی گئی، جو کہ تشویشناک حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ سیکیورٹی حکام نے صورتحال پر قابو پانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، تاہم متاثرہ علاقوں میں خوف کی فضا تاحال قائم ہے۔ مزید پڑھیں: کریبین جزیرے میں 11 لاشیں لیے کشتی نمودار، مسافروں کا تعلق کہاں سے تھا؟
پاکستان میٹرز اسپیشل: ایٹمی دھماکوں سے پہلے کے 17 دن میں کیا ہوا؟

یومِ تکبیر ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان نے 1998 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ ان دھماکوں کا مقصد انڈیا کے ایٹمی تجربات کا جواب دینا تھا۔ پاکستان میٹرز کی اسپیشل پوڈکاسٹ میں سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کبھی نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹمی دھماکے کرے کیوں کہ ہم اس خطے کو نیوکلیئر ہتھیاروں سے پاک بنانا چاہتے تھے۔ لیکن جب انڈیا نے 1974 میں ایٹمی دھماکے کر دیے تو پاکستان نے اس پلان پر تیزی سے کام شروع کر دیا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں سے پہلے کے 17 دن میں کیا ہوا، کلنٹن کی 5 ارب ڈالر آفر اور اسرائیلی انوالومنٹ کا دعویٰ کتنا سچ؟نوازشریف کے سامنے “دھماکے کرو” کے نعرے کس نے لگائے؟ یہ سب جاننے کے لیے دیکھیے پاکستان میٹرز کی اسپیشل پوڈ کاسٹ۔
ہم اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، صدر اور وزیراعظم کا یومِ تکبیر پر پیغام

پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کو 27 سال مکمل ہونے پر صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم کو مبارکباد دی اور خصوصی پیغامات جاری کیے۔ یومِ تکبیر ہر سال 28 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان نے 1998 میں بلوچستان کے علاقے چاغی میں پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ ان دھماکوں کا مقصد انڈیا کے ایٹمی تجربات کا جواب دینا تھا۔ آج کے دن کو پاکستان میں یومِ تکبیر کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اس دن ملک بھر میں عام تعطیل ہے اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: مودی گولی چلاؤ گے تو جواب میں غوری چلے گا, حافظ نعیم الرحمان وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان اس وقت دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا نے جب 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے چھ دھماکوں کے ساتھ بھرپور جواب دیا۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ذوالفقار علی بھٹو، سائنسدانوں، انجینئرز اور افواج پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ پاکستان کو ایک ناقابلِ تسخیر ایٹمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں انڈیا کی طرف سے حملے کے بعد پوری قوم نے ایک بار پھر اتحاد اور قربانی کی مثال قائم کی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یومِ تکبیر ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنے دفاع، خودمختاری اور آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی قوم کو یومِ تکبیر کی مبارکباد دی اور کہا کہ یہ دن ہماری دفاعی طاقت اور خودمختاری کی علامت ہے۔ انہوں نے ایٹمی پروگرام کے معمار ذوالفقار علی بھٹو، سائنسدانوں، انجینئرز اور فوجی قیادت کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ صدر نے کہا کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت صرف دفاع کے لیے ہے اور ہمارا ملک جنگ کا خواہاں نہیں۔ ہم دنیا کے ساتھ امن اور احترام کے اصولوں کے تحت تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ یومِ تکبیر کے موقع پر دونوں رہنماؤں نے اس عزم کو دہرایا کہ ہم ہر صورت میں اپنے ملک کی خودمختاری اور سلامتی کا تحفظ کریں گے۔
پاکستان میں ٹیک اسٹارٹ اپس اور انوویشن ہبز: ڈیجیٹل مستقبل کی جانب بڑھتے قدم

پاکستان روایتی طور پر زراعت، ٹیکسٹائل اور سروس سیکٹر کے لیے جانا جاتا تھا۔ لیکن اب تیزی سے ٹیکنالوجی اور جدت کے میدان میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے لگا ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹیک کمپنیوں اور انوویشن ہبز نے ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے جو لوگوں کے جینے، کام کرنے اور ایک دوسرے سے جڑنے کے طریقے کو بدل رہا ہے۔ یہ ڈیجیٹل انقلاب اب صرف بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہا بلکہ نئے مواقع، روزگار اور امید کی نئی کرن کے ساتھ چھوٹے شہروں تک بھی پہنچنے لگا ہے۔ اس تبدیلی کی بنیاد مختلف شعبوں میں کام کرنے والے اسٹارٹ اپس کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جن میں صحت، ای کامرس، لاجسٹکس، تعلیم اور مالیات شامل ہیں۔ اس رجحان کو مزید حوصلہ افزا بنانے والی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کاروبار نوجوان پاکستانیوں نے شروع کیے ہیں، چاہے وہ بیرونِ ملک سے واپس آئے ہوں یا ملک میں ہی رہ کر کچھ نیا اور بامعنی کرنا چاہتے ہوں۔ یہ پُرعزم اور تخلیقی افراد ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کا حل تلاش کر رہے ہیں جو روزانہ لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں سب سے نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، خاص طور پر آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز کی آمد سے۔ اب طلباء اپنے موبائل فونز کے ذریعے معیاری تعلیم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر بورڈ امتحانات اور داخلہ ٹیسٹس کے لیے لائیو سیشنز، ریکارڈ شدہ لیکچرز اور پریکٹس ٹیسٹس دستیاب ہیں۔ یہ ایپلیکیشنز اُن طلباء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں یا مہنگی یونیورسٹیز کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان پلیٹ فارمز نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی، جامع اور دلچسپ بنایا ہے خاص طور پر ان بچیوں کے لیے جو ثقافتی یا نقل و حرکت سے متعلقہ رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہیں۔ مالیاتی شعبے میں فِن ٹیک کمپنیوں اور ڈیجیٹل بینکاری نے نمایاں ترقی کی ہے۔ پاکستان میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جن کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں اور روایتی بینکنگ ان تک رسائی میں ناکام رہی ہے۔ ڈیجیٹل بینک اور موبائل والٹ کمپنیاں اس خلا کو پُر کر رہی ہیں جہاں صارفین ایپلیکیشنز کے ذریعے اکاؤنٹ کھولنے، رقم منتقل کرنے اور بلز کی ادائیگی جیسے کام کر سکتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی بینک کا رخ کیے۔ یہ ایپلیکیشنز طلباء، چھوٹے کاروباری افراد اور فری لانسرز کے لیے روزمرہ کے مالیاتی کاموں کو تیز اور آسان بنا رہی ہیں۔ کئی نئے کاروبار ایسے سسٹمز بھی متعارف کرا رہے ہیں جو چھوٹے کاروباروں کو اکاؤنٹس، اخراجات اور تنخواہوں کے انتظام میں مدد دیتے ہیں جس سے معیشت کے غیر رسمی حصے کو رسمی بنانے میں مدد مل رہی ہے۔ ریٹیل اور سپلائی چین کے شعبے میں بھی خاطر خواہ تبدیلیاں آئی ہیں۔ پاکستان کا ریٹیل سسٹم زیادہ تر چھوٹے دکانداروں اور کریانہ اسٹور مالکان پر مشتمل ہے جو اب نئی کمپنیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ یہ کمپنیاں ایسے موبائل ایپلیکیشنز فراہم کر رہی ہیں جن کے ذریعے دکاندار براہ راست آرڈر کر سکتے ہیں، ڈلیوری کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بہتر نرخوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف کاروبار کی کارکردگی میں بہتری آ رہی ہے بلکہ ملک بھر میں سپلائی چین بھی مضبوط ہو رہی ہے۔ کرونا وبا کے دوران ڈلیوری سروسز اور رائیڈ-ہیلنگ ایپس کے ذریعے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا۔ جب بہت سے افراد نے اپنی ملازمتیں کھو دیں تو انہوں نے ان پلیٹ فارمز کے ذریعے بطور ڈلیوری رائیڈر یا ڈرائیور کام کرنا شروع کیا۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو اسٹارٹ اپ کلچر صرف ٹیکنالوجی یا ایپس نہیں بلکہ روزگار، لچک اور زمینی سطح پر اثرات کے بارے میں ہے۔ یہ تمام جدت صرف اس وقت ممکن ہوئی جب اس کے پیچھے ایک معاون ماحول موجود تھا، یعنی انوویشن ہبز۔ پاکستانی حکومت نے اسٹارٹ اپ ایکو سسٹم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کئی اقدامات کیے ہیں۔ بڑے شہروں جیسے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں قائم کیے جانے والے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز (NICs) ان اقدامات میں شامل ہیں۔ یہ مراکز اسٹارٹ اپس کو وسائل، رہنمائی اور نیٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ سرمایہ حاصل کر سکیں اور ترقی کر سکیں۔ کچھ مراکز کو حکومت کی حمایت حاصل ہے جبکہ دیگر کو نجی یا بین الاقوامی اداروں کی۔ ان سب کی مشترکہ سوچ یہی ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں میں ملک کو بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تحقیق اور کاروبار کو یکجا کرنے والے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارکس کا قیام ایسی ہی کامیاب کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہ پارکس اُن کاروباروں کا مرکز ہیں جو جدید ٹیکنالوجیز جیسے روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، ایگریکلچر ٹیک، ہیلتھ ٹیکنالوجی وغیرہ پر کام کر رہے ہیں۔ یہاں ماہرین، محققین اور طلباء مل کر ایسے حل تیار کر رہے ہیں جو عالمی سطح پر مقابلہ کر سکیں۔ مقصد ہے کہ پاکستان کو ایسی معیشت میں تبدیل کیا جائے جو صرف مصنوعات نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی اور خدمات بھی برآمد کرے۔ ہوائی اور دفاعی ٹیکنالوجی میں بھی پاکستان نے قابلِ ذکر ترقی کی ہے۔ جہاں انوویشن ہبز مقامی ٹیلنٹ کو سائبر سیکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی اور ایوی ایشن جیسے شعبوں میں تربیت دے رہے ہیں۔ ان شعبوں میں پیش رفت نہ صرف قومی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے بلکہ عالمی سرمایہ کاری کو بھی متوجہ کرتی ہے۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ ان جدید منصوبوں سے نوجوانوں کو سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم میں دلچسپی بڑھے گی اور ہزاروں ہائی ٹیک ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ تاہم، ترقی کی اس راہ میں کچھ چیلنجز بھی درپیش ہیں۔ مالی وسائل کا حصول پاکستانی اسٹارٹ اپس کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگرچہ مقامی سرمایہ کاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، پھر بھی زیادہ تر کمپنیاں غیر ملکی سرمایہ پر انحصار کرتی ہیں جو بعض اوقات مقامی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ مزید برآں، کچھ علاقوں میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی، پالیسیوں میں عدم تسلسل اور ریگولیٹری مسائل بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔ خاص طور پر ڈیٹا سائنس، پروڈکٹ مینجمنٹ اور
کریبین جزیرے میں 11 لاشیں لیے کشتی نمودار، مسافروں کا تعلق کہاں سے تھا؟

سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز میں کینوان جزیرے کے ساحل پر ایک کشتی ملی ہے، جس میں مالی سے تعلق رکھنے والے 11 افراد کی لاشیں موجود تھیں۔ پولیس کے مطابق لاشیں اس قدر گل چکی تھیں کہ ان کی شناخت فی الحال ممکن نہیں، مگر جائے وقوعہ سے ملنے والے پاسپورٹس جمہوریہ مالی کے لگتے ہیں۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ جونیئر سیمنز کے مطابق یہ کشتی پیر کی صبح تقریباً 10:45 بجے ساحل پر بہہ کر آئی۔ یہ 45 فٹ لمبا جہاز تھا جو ملک کے جنوبی علاقے لٹل بے میں کنارے لگا۔ انسانی باقیات کو مزید تحقیق اور فرانزک تجزیے کے لیے مین لینڈ سینٹ ونسنٹ منتقل کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: جماعت اسلامی کے رہنما اظہرالاسلام کی سزائے موت کالعدم، رہائی کا حکم جاری یہ واقعہ اس علاقے میں پہلی بار نہیں ہوا۔ جنوری میں قریبی ریاست سینٹ کٹس اینڈ نیوس میں بھی ایک ایسی ہی کشتی ملی تھی، جس میں 19 لاشیں موجود تھیں۔ ان افراد کا تعلق بھی ممکنہ طور پر مالی سے تھا، اور ان کی باقیات بھی گلنے کی آخری حالت میں تھیں۔ سینٹ ونسنٹ اینڈ دی گریناڈینز بحیرہ کیریبین میں واقع ایک خوبصورت جزائر پر مشتمل ملک ہے، جو مشرقی کیریبین میں ونڈورڈ جزائر کا حصہ ہے۔ یہ ملک ایک مرکزی جزیرے سینٹ ونسنٹ اور اس کے ساتھ کئی چھوٹے جزائر، جنہیں گریناڈینز کہا جاتا ہے، پر مشتمل ہے۔ بحر اوقیانوس کا مغربی راستہ، خاص طور پر مغربی افریقی ساحل سے، دنیا کے خطرناک ترین سمندری راستوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی تیز ہوائیں اور مغربی طوفان چھوٹی کشتیوں کو ہزاروں کلومیٹر دور بہا لے جاتی ہیں اور اکثر مسافروں کو ان کا انجام معلوم نہیں ہوتا۔ یہ انسانی المیہ افریقہ سے نقل مکانی کے اس بحران کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے، جہاں لوگ غربت، تشدد، یا بہتر مستقبل کی تلاش میں جان لیوا راستے اختیار کرتے ہیں۔ عالمی برادری کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ ان وجوہات پر توجہ دے جو لوگوں کو ایسے پرخطر سفر پر مجبور کرتی ہیں، اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط اقدامات کرے۔
“انڈیا نے ایٹمی دھماکے کر کے پیغام دیا کہ ہم تیار ہیں” پاکستان نے کیسے جوابی طاقت دکھائی؟

آج 28 مئی کو پاکستان بھر میں یومِ تکبیر منایا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ یاد کرنا ہے کہ کس طرح مختلف پابندیوں اور مجبوریوں میں جکڑے ہونے کے باوجود پاکستان نے عالمی ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ حالیہ دنوں میں پاکستان-انڈیا کشیدگی کے بعد انڈیا کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان نے کشیدگی کے دوران کھلے عام یہ دھمکیاں دیں کہ اگر پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے ایٹمی طاقت کا سہارا لینا پڑا تو وہ بے دریغ استعمال کرے گا، اس بیان نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا ایٹم بم کا استعمال واقعی ضرفوری تھا یا یہ محض تنبیہ تھی؟ ماہرین کے مطابق پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا جنوبی ایشیاء میں طاقت کے بدلتے توازن میں اہم کردار کا حامل ہے، جنوبی ایشیاء میں امن کی ضمانت پاکستان کا ایٹمی طاقت ہونا ہے کہ کیونکہ اس طرح دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرسکتیں اور مسائل کا حل ٹیبم پر مذاکرات کے ذریعے نکلتا ہے۔ 28 مئی 1998 کا دن پاکستانی تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل ہے، جس نے نہ صرف ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنایا بلکہ مسلم امہ کی پہلی جوہری ریاست ہونے کا اعزاز بھی بخشا۔ بلوچستان کے علاقے چاغی میں کیے گئے کامیاب ایٹمی تجربات نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان اب اپنے دفاع میں خودکفیل ہے اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سفر، جو چاغی کے پہاڑوں پر دھماکوں سے دنیا کے سامنے آیا، دراصل کئی دہائیوں پر محیط ایک خفیہ مگر پُرعزم جدوجہد کی کہانی ہے۔ یہ کہانی انڈیا کے 1974 میں کیے گئے ایٹمی تجربے “سمائلنگ بدھا” سے شروع ہوتی ہے، جب پاکستان کے لیے جوہری پروگرام کی اہمیت ناگزیر ہو گئی۔ اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی سلامتی کے لیے جوہری پروگرام کا آغاز کیا۔ بھٹو کا وہ مشہور جملہ آج بھی قومی حافظے میں زندہ ہے کہ”ہم گھاس کھا لیں گے، لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔” یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں تھا، بلکہ ایک پختہ عزم تھا جس نے پوری قوم کو متحرک کر دیا۔ جوہری پروگرام کے آغاز میں قاضی حسین احمد سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ انڈیا کی طرف سے مسلسل بڑھتے ہوئے خطرات کے پیشِ نظر عوام، طلبہ، حتیٰ کہ بچے بھی سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کرنے لگے کہ”فیڈر نہیں، ایٹمی دھماکہ چاہیے!” ایٹمی پروگرام کی روح رواں شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے، جنہیں ذوالفقار علی بھٹو ہالینڈ سے وطن واپس لائے۔ ڈاکٹر خان نے یورینیم افزودگی کی وہ ٹیکنالوجی پاکستان منتقل کی جو کسی بھی ایٹمی طاقت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی زیر نگرانی کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری (KRL) قائم کی گئی، جہاں انتہائی خفیہ انداز میں ایٹمی پروگرام پر کام شروع ہوا۔ بعد ازاں اسی لیبارٹری کو ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی و تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا ہےکہ ہم نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فراموش کردیا ہے، اس شخص کو جس نے پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر کیا تھا۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی نظریں اس منصوبے پر مسلسل جمی رہیں۔ جیسے ہی 1979 میں امریکی انٹیلی جنس کو KRL کے بارے میں معلومات ملیں، امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی۔ پابندیوں، عالمی دباؤ اور سازشوں کے باوجود پاکستانی سائنسدانوں نے محدود وسائل میں وہ کارنامہ سرانجام دیا، جو ترقی یافتہ ممالک کے لیے بھی ایک چیلنج تھا۔ بلیک مارکیٹ، ذاتی تعلقات اور خفیہ اسمگلنگ کے ذریعے وہ پرزے حاصل کیے گئے جن کی فروخت عالمی سطح پر ممنوع تھی۔ سعید غنی نے کہا ہے کہ انڈیا نے راجستھان میں ایٹمی دھماکے کرکے یہ پیغام دیا تھا کہ ہم تیار ہیں، اسی دن پاکستان کی قیادت و عوام نے فیصلہ کیا تھا کہ ایٹمی طاقت بننا اب بقا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کے عوام دیگر ممالک کی نسبت انڈیا کو لے کر زیادہ حساس ہیں اور یہی وجہ ہےکہ کوئی بھی مسئلہ ہو تو وہ متحد ہوجاتے ہیں اور یہ اسی وقت بھی ہوا تھا۔پاکستان نےایٹمی دھماکے کرکے انڈیا کو واضح جواب دیا تھا۔ 1984 تک پاکستان کے پاس ہائیلی اینرچڈ یورینیم تیار ہو چکا تھا۔ لیکن وقت نے فیصلہ کن موڑ 1998 میں لیا، جب انڈیا نے دوبارہ پوکھران میں پانچ کامیاب ایٹمی تجربے کیے۔ پاکستان نے صرف 17 دن بعد چاغی اور خاران میں 6 ایٹمی دھماکوں کے ذریعے ایسا جواب دیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اعلان کیا کہ یہ قوم کی بقاء کا سوال تھا، ہم نے اپنا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا لیا ہے۔” ان دھماکوں کے فوراً بعد مغربی ممالک نے پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن پاکستانی قوم نے اسے قومی غیرت اور خودداری کی علامت قرار دیا۔ ہر طرف جشن کا سماں تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قومی ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اور کہ 2004 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں انہوں نے قوم سے معافی بھی مانگی، لیکن سوالات آج بھی زندہ ہیں کہ کیا وہ اکیلے تھے؟ کیا ریاستی ادارے اس عمل میں ملوث تھے؟ اس باب کی مکمل تفصیلات تاحال منظر عام پر نہیں آ سکیں۔ آج پاکستان اورانڈیا دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، لیکن خوش قسمتی سے ان ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کبھی نہیں ہوا۔ ماہرین کے مطابق دونوں ممالک Mutual Assured Destruction یعنی باہمی یقینی تباہی کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کارگل جنگ ہو، پلوامہ حملہ ہو یا حالیہ آپریشن “بنیان مرصوص”، ہر بحران کے بعد دونوں ممالک کو بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑا۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے کہا ہے کہ پہلگام واقعے کا بےبنیاد الزام مودی نے پاکستان پر تو لگایا مگر کبھی مذمت نہیں کی، مودی نے کہا کہ اگر میرے پاس رافال ہوتے تو میں پاکستان