غزہ: بھوک سے نڈھال افراد کا خوراک کے گودام پر دھاوا، دوجاں بحق 

Gaza help

ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) کے مطابق غزہ کے وسطی علاقے میں ایک خوراک کے گودام پر “بھوک سے نڈھال لوگوں کے ہجوم” نے دھاوا بول دیا، جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ عالمی ادارے کے مطابق یہ واقعہ دیر البلح میں واقع الاقفاری گودام میں پیش آیا، جہاں ویڈیو مناظر میں لوگوں کو آٹے کے تھیلے اور خوراک کے ڈبے اٹھاتے دیکھا گیا جبکہ پس منظر میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ فائرنگ کا ماخذ فوری طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔ڈبلو ایف پی کا کہنا ہے کہ متاثرہ گودام میں خوراک کا ذخیرہ پہلے سے تقسیم کے لیے رکھا گیا تھا۔ ادارے نے بیان میں کہا “غزہ میں انسانی ضروریات مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکی ہیں۔ لوگوں کو یقین دلانے کا واحد راستہ خوراک کی فوری اور وسیع پیمانے پر ترسیل ہے تاکہ وہ بھوک سے مرنے کے خوف میں مبتلا نہ ہوں۔” اسی بیان میں کہا گیا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے مسلسل زمین پر خراب ہوتے حالات اور انسانی امداد کی محدود ترسیل کے خطرات سے خبردار کیا تھا۔ ادارے کے مطابق تقریباً تین ماہ سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد گزشتہ ہفتے امداد کی محدود فراہمی شروع ہوئی، تاہم یہ ناکافی ہے۔اسرائیلی حکام کے مطابق بدھ کے روز 121 امدادی ٹرک، جن میں آٹا اور دیگر غذائی اشیاء شامل تھیں، غزہ میں داخل کیے گئے۔ اقوام متحدہ کی مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی سیگریڈ کاگ نے سیکیورٹی کونسل کو بتایا کہ یہ امداد “ایسے ہے جیسے جہاز ڈوبنے کے بعد لائف بوٹ بھیجی جائے” جبکہ پورا غزہ قحط کے خطرے سے دوچار ہے۔دوسری جانب امریکہ اور اسرائیل کی حمایت سے قائم ایک متنازعہ گروپ “غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن” نے چار تقسیم مراکز قائم کیے ہیں، جو اقوام متحدہ کے دائرہ اختیار سے ہٹ کر کام کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس اقدام کو غیر عملی اور غیر اخلاقی قرار دیا ہے۔( جی ایچ ایف) کے ایک مرکز پر رفح میں منگل کے روز لوگوں کے ہجوم نے دھاوا بول دیا تھا، جس میں اقوام متحدہ کے مطابق 47 افراد زخمی ہوئے۔ ادارے کے مطابق ایک دن قبل ہی یہ مرکز کام کرنا شروع ہوا تھا۔اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے کے سربراہ جوناتھن وائٹل نے بتایا کہ امدادی ٹرکوں سے سامان لوٹے جانے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم ان کے بقول ایسی کوئی شہادت موجود نہیں کہ حماس اقوام متحدہ کے ذریعے فراہم کی جانے والی امداد میں مداخلت کر رہی ہو۔ مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیلی بمباری، صحافی سمیت درجنوں فلسطینی شہید ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حقیقی چوری وہ مجرمانہ گروہ کر رہے ہیں جنہیں اسرائیلی فوج نے کیرم شالوم کراسنگ کے قریب کام کرنے کی اجازت دی ہے۔اقوام متحدہ کا مؤقف ہے کہ اگر امداد کی فراہمی اسی طرح بڑھائی جائے جیسے حالیہ جنگ بندی کے دوران کی گئی تھی، تو اس سے بھوکے عوام کی جانب سے لوٹ مار کا خطرہ کم ہو جائے گا اور امداد کی منظم تقسیم ممکن ہو سکے گی۔

پہلا بِٹ کوائن ریزرو قائم کرنے کا اعلان: ’پاکستان اب ماضی کی شناخت سے نہیں پہچانا جائے گا‘

Bilal bin saqib

وزیراعظم کے معاون خصوصی بلال بن ثاقب نے پاکستان کے پہلے حکومتی سطح پر بنائے گئے بٹ کوائن ریزرو کا اعلان کیا ہے۔ بلال بن ثاقب کو حال ہی میں وزیر مملکت کے عہدے کے ساتھ بلاک چین اور کرپٹو کرنسی پر وزیراعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ان دنوں امریکا کے دورے پر ہیں تاکہ پاکستان میں کرپٹو سرمایہ کاری کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے یہ اعلان لاس ویگاس میں ہونے والی ایک بڑی کانفرنس “بٹ کوائن ویگاس 2025” میں کیا، جہاں امریکی نائب صدر، ایرک ٹرمپ اور ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر سمیت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ بلال بن ثاقب نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان اب ماضی کی شناخت سے نہیں پہچانا جائے گا بلکہ ایک جدید ڈیجیٹل ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، جس کی قیادت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی پڑھیں: زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟  انہوں نے کہا کہ وہ صرف ایک وزیر کے طور پر نہیں آئے بلکہ ایک ایسی نسل کی آواز بن کر آئے ہیں جو آن لائن ہے، بلاک چین پر موجود ہے اور رُکنے والی نہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان ایک قومی بٹ کوائن والِٹ قائم کر رہا ہے، جو ریاستی تحویل میں ہوگا اور اسے فروخت یا قیاس آرائی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک خودمختار ریزرو کے طور پر رکھا جائے گا جو ڈیجیٹل مالیات پر اعتماد کی علامت ہوگا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں امن قائم کرنے کا کردار ادا کیا اور کرپٹو کرنسی کو فروغ دینے کی حمایت کی۔ بلال بن ثاقب نے بتایا کہ حکومت نے بٹ کوائن مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے دو ہزار میگاواٹ اضافی بجلی مختص کی ہے، تاکہ دنیا بھر کے ٹیکنالوجی کے ماہرین، سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو پاکستان میں کام کرنے کے لیے سہولت دی جا سکے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت چالیس ملین سے زیادہ کرپٹو اکاؤٹ موجود ہیں اور یہ دنیا کی سب سے بڑی فری لانس معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بلال بن ثاقب پاکستان ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے قیام کی بھی قیادت کر رہے ہیں، جو ایک ایسا ادارہ ہوگا جو سرمایہ کاروں کو تحفظ دے گا، قانون سازی کرے گا اور کرپٹو فنانس کے شعبے کو باقاعدہ اصول بنائے گا۔ انہوں نے دنیا بھر کے کرپٹو بنانے والوں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں، یہاں سرمایہ کاری کریں، ٹیکنالوجی متعارف کروائیں اور نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بٹ کوائن دونوں کو دنیا میں منفی خبروں کے ذریعے بدنام کیا گیا ہے، لیکن حقیقت میں یہاں بے پناہ صلاحیت، ہمت اور وژن موجود ہے۔ حکومت نے اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں دو ہزار میگاواٹ بجلی بٹ کوائن مائننگ اور مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کے لیے مخصوص کی ہے، جس کا مقصد ملک میں نئی نوکریاں پیدا کرنا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لانا اور حکومت کے لیے اربوں ڈالر کی آمدن پیدا کرنا ہے۔ بلال بن ثاقب ان تمام منصوبوں کی نگرانی کریں گے، جن میں کرپٹو قوانین، بٹ کوائن کان کنی، اور بلاک چین کو سرکاری نظام میں شامل کرنا شامل ہے۔ دوسری جانب سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ وزیرعظم نے کرپٹو کونسل بنائی ہے جس کے سربراہ وزیرخزانہ ہیں۔ ابھی کرپٹو کے متعلق ابتدائی بات چیت جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی میں کرپٹو پر ابھی تک پابندی برقرار ہے۔ جب حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تب ہی ریگولیٹری فریم ورک ہوگا۔ لیگل سٹیٹس یہ ہے کہ کرپٹو پر ابھی بھی بین موجود ہے ابھی تک کرپٹو پاکستان میں لیگٹینڈر نہیں ہے۔

’آپریشن شیلڈ‘، مودی سرکار کی پاکستانی سرحد کے ساتھ سول ڈیفینس مشقیں، انتظامیہ نے بلیک آؤٹ کا الرٹ جاری کر دیا

Indian drill

انڈیا نے پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں جمعرات کے روز پاکستان سے متصل چار ریاستوں میں بڑی سطح کی سول ڈیفنس کی مشقوں کا اعلان کیا ہے۔ ان مشقوں کا مقصد کسی بھی ممکنہ ہنگامی صورتحال میں تیاری کو جانچنا اور قومی سلامتی کے خطرات کے پیش نظر ردعمل کو مؤثر بنانا ہے۔ یہ مشقیں انڈین غیرقانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کے علاوہ پنجاب، گجرات اور ہریانہ میں کی جائیں گی۔ ہریانہ میں “آپریشن شیلڈ” کے عنوان سے ریاست گیر مشق شام پانچ بجے سے تمام 22 اضلاع میں شروع ہوگی۔ ان مشقوں میں فضائی حملوں، ڈرون حملوں اور دیگر جنگی حالات کی فرضی صورت حال پیدا کی جائے گی۔ مزید پڑھیں: پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان 29 مئی کو جاری ہونے والی ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ یہ فرضی مشق 31 مئی کو شام 5 بجے سے پاکستان کی سرحد سے متصل اضلاع میں منعقد کی جائے گی۔ سیکورٹی ڈرل پنجاب، جموں و کشمیر، گجرات، ہریانہ اور راجستھان میں ہوگی۔ اس کا مقصد لائن آف کنٹرول کے قریب واقع علاقوں میں تیاری اور آگاہی کو بڑھانا ہے، جو سرحد پار سے خطرات کا سب سے زیادہ خطرہ ہیں۔ انڈین ریاست ہریانہ کے محکمہ داخلہ کی ایڈیشنل چیف سیکریٹری ڈاکٹر سمیتا مسرا نے کہا ہے کہ “یہ مشقیں موجودہ ہنگامی نظام کی جانچ، سول انتظامیہ، دفاعی اداروں اور مقامی آبادی کے درمیان ہم آہنگی کو بہتر بنانے، اور کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کے لیے کی جا رہی ہیں تاکہ کسی بھی بحران کی صورت میں فوری اور مؤثر ردعمل یقینی بنایا جا سکے۔” یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ ہفتوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل مارچ 7 کو انڈیا کی جانب سے پاکستان میں فضائی حملے کیے گئے تھے جن میں عام شہریوں کی اموات ہوئی تھیں، جن میں مسجدیں بھی نشانہ بنی تھیں اور 26 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ مبصرین کے مطابق انڈیا کی ان مشقوں سے سرحدی کشیدگی میں مزید اضافے کا اندیشہ ہے اور یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان امن کی حالیہ کوششوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے تاحال اس پیش رفت پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

’معمولی سی تاخیر پر پریشان ہوجاتی ہوں‘، بنگلادیشی سیاست میں دوبارہ ہلچل، انتخابات کا مطالبہ

Ban protest

بنگلہ دیش میں گزشتہ برس طلبہ تحریک کے ذریعے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے پندرہ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا، جس کے بعد ملک میں احتجاجی مظاہرے ایک معمول بن چکے ہیں۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں مظاہرین کی گرفتاریاں بھی مسلسل جاری ہیں۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کے روز دارالحکومت ڈھاکہ میں کم از کم چھ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو حسینہ واجد کے حق اور مخالفت میں مظاہرے کر رہے تھے، بعض نے مزدوروں کی ہڑتال میں حصہ لیا، اور کچھ جماعت اسلامی کے ایک رہنما کی رہائی کی خوشی میں منعقدہ ریلی میں شریک تھے۔ ایجنسی کے مطابق ڈھاکا میں سابق بنگلادیشی وزیراعظم خالدہ ضیاء کی بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی نے ایک بڑی ریلی نکالی جس میں ہزاروں افراد شریک تھے۔ یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کا اہم ایشیائی ریاستوں کا دورہ: کیا پاکستان خارجہ پالیسی کا نیا باب کھول رہا ہے؟  بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی نے عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس سے رواں سال دسمبر میں الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا۔ جماعت اسلامی کے رہنما اظہر السلام کو جنگی جرائم کے مقدمے سے سپریم کورٹ نے بری کرتے ہوئے ان کی سزائے موت ختم کر دی، جس کے بعد وہ چودہ سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد انہوں نے ہزاروں حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں انصاف کا کوئی تصور نہیں تھا، مگر اب وہ امید رکھتے ہیں کہ عدلیہ مستقبل میں انصاف کرے گی۔ ان کی رہائی کے خلاف بائیں بازو کی جماعتوں نے احتجاج کی کال دی ہے۔ نگران حکومت نے اعلان کیا ہے کہ عام انتخابات جون 2026 میں منعقد ہوں گے، جس کی تیاری میں مختلف سیاسی جماعتیں ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے مصروف ہیں۔ ان مظاہروں کی وجہ سے شہری زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ٹریفک جام روزمرہ کی بات بن چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پاکستان، انڈیا جنگ کا اثر یا کچھ اور، ایشیائی ممالک کیسے دفاعی اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں؟ گوشت فروخت کرنے والے ایک دکاندار نے کہا کہ شہر کی تمام بڑی سڑکیں بند ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اسے اپنا کام آدھی رات کو شروع کرنا پڑتا ہے۔ ایک 45 سالہ خاتون نے کہا کہ اب وہ اپنے شوہر کے دفتر سے واپس آنے میں معمولی سی تاخیر پر بھی پریشان ہو جاتی ہیں، کیونکہ مظاہروں کا پرتشدد ہو جانا کسی وقت بھی ممکن ہوتا ہے۔ ملک کے عبوری رہنما ڈاکٹر محمد یونس اس وقت نگران حکومت کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اتحاد کی راہ اپنائیں اور طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر احتجاجی مظاہروں میں غیر ضروری مطالبات اور رکاوٹیں شامل رہیں تو یہ انتظامی امور میں مسلسل خلل ڈالتی رہیں گی۔ ڈاکٹر یونس نے یہ بھی کہا ہے کہ انتخابات دسمبر کے اوائل میں کرائے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ان میں تاخیر کی گئی تو اس سے حکومت کو اصلاحات پر کام کرنے کا مزید وقت ملے گا۔

’مجھے لگتا ہے کافی کام کر لیا‘، ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ کے مشیر کا عہدہ چھوڑ دیا

Trump musk

ٹیسلا کے ارب پتی سربراہ ایلون مسک ٹرمپ انتظامیہ کو چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ایک ایسی مہم کی قیادت کر رہے تھے جس کا مقصد امریکی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانا تھا، لیکن وہ اس مشن میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ان کی سبکدوشی کا عمل بدھ کی رات سے شروع ہو گیا ہے۔ بدھ کے ہی روز مسک نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، کیونکہ وہ حکومت کے ساتھ ایک خاص ملازم کے طور پر اپنی خدمات ختم کر رہے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: مودی گولی چلاؤ گے تو جواب میں غوری چلے گا, حافظ نعیم الرحمان ان کا استعفیٰ اچانک اور غیر رسمی انداز میں ہوا۔ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق انہوں نے صدر ٹرمپ سے اس بارے میں کوئی باضابطہ بات چیت نہیں کی، بلکہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ سطحی عملے نے کیا۔ ان کے استعفے کی اصل وجوہات فوری طور پر سامنے نہیں آ سکیں، مگر ایک دن پہلے ہی انہوں نے ٹرمپ کے ٹیکس بل پر تنقید کی تھی، جسے انہوں نے مہنگا اور نقصان دہ قرار دیا تھا، خاص طور پر DOGE سروس کے لیے۔ مسک نے حالیہ ہفتوں میں کچھ اعلیٰ حکومتی شخصیات سے نجی ملاقاتیں کی تھیں، جبکہ انہوں نے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ناوارو نے ان کے “زیرہ ٹیرف” کے مطالبے کو بے بنیاد طریقے سے رد کیا۔ منگل کو مسک نے ریپبلکن پارٹی کی ٹیکس اور بجٹ پالیسیوں پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں خسارہ بڑھا رہی ہیں اور ان کی ٹیم کے کام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کچھ سرمایہ کاروں نے ان سے کہا کہ وہ مشیر کے طور پر کام چھوڑ کر ٹیسلا پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ کمپنی کی فروخت اور اسٹاک کی قیمت میں کمی آ رہی تھی۔ مسک، جو دنیا کے امیر ترین شخص سمجھے جاتے ہیں، نے امریکی حکومت کے کچھ حصوں کو ختم کرنے کے غیر معمولی اختیار کو درست قرار دیا۔ تاہم، انہوں نے حال ہی میں یہ عندیہ دیا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں پر اب زیادہ رقم خرچ نہیں کریں گے، حالانکہ پچھلے سال انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم پر تقریباً 300 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ قطر میں ایک اقتصادی فورم میں بات کرتے ہوئے مسک نے کہا، “مجھے لگتا ہے کہ میں نے کافی کام کر لیا ہے۔”

جہاز ہی پلٹ آیا

Blog

سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک روح کو جھنجھوڑ دینے والی ویڈیو وائرل ہے، جس میں حرم مکی کے امام، شیخ یاسر الدوسری، ایک ناقابلِ یقین واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ واقعہ محض ایک مسافر کی تاخیر کا نہیں، بلکہ کامل ایمان اور سچے توکل کی زندہ مثال ہے۔ شیخ یاسر الدوسری نے فرمایا کہ “اگر تمہیں لیبیا کا وہ نیک و صالح حاجی نظر آ جائے، تو اس سے اپنے لیے دعا ضرور کروانا، کیونکہ وہ وہی شخص ہے جس کے یقین کے باعث اللہ تعالیٰ نے تین بار جہاز کا رُخ موڑ دیا۔” جی ہاں!یہ وہی حاجی تھا جو مسلسل کہتا رہا”میں حج کے لیے جاؤں گا ایئرپورٹ پر لوگ اُس کی بات کو محض ضد یا جذباتی جملہ سمجھتے ہوں گے،لیکن پروردگارِ عالم نے اُس یقین کو قبولیت کے مقام پر پہنچایا۔ تین بار جہاز واپس آیا، یہاں تک کہ وہ حاجی سوار ہوا، تب جا کر پرواز مکمل ہوئی، یہ ہے کامل ایمان کی اصل پہچان! قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”وَعَلَى اللّٰہِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ”(المائدہ: 23)”اور اللہ ہی پر توکل کرو اگر تم سچے مومن ہو!” اس آیت میں توکل کو ایمان کی شرط قرار دیا گیا۔ یعنی اگر توکل نہیں، تو ایمان مکمل نہیں۔ یہ توکل کا معیار ہے۔اللّٰہ اکبر کبیرا رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:”اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا توکل کرنے کا حق ہے، تو اللہ تمہیں ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس آتےہیں۔”(ترمذی) پرندے نہ کسی کمپنی سے وابستہ ہوتے ہیں، نہ اُن کے پاس پلاننگ یا بینک بیلنس ہوتا ہے،وہ صرف نکلتے ہیں اور رب ان کی واپسی کا سامان کرتا ہے۔ ایسا کامل ایمان، جو نظامِ کائنات کو بھی موڑ دے! اللّٰہ اکبر لیبیا کا یہ حاجی کوئی بادشاہ، وزیر، یا بڑے عہدے دار نہ تھا،وہ تو بس ایک عاجز انسان تھا، جسے رب پر پورا یقین تھا،اُس کے توکل اور صدقِ نیت نے آسمان کی وسعتوں کو ہلا دیا۔ یہ یقین تھا یا کوئی دعایہ بندگی تھی یا کوئی راز؟ یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑتا ہے، ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ ہم اپنا ایمان، اپنی نیت، اور اپنے رب سے تعلق پر دوبارہ غور کریں۔ اور ہم تو معمولی پریشانی پر ٹوٹ جاتے ہیں۔ ایک انٹرویو میں تاخیر ہو جائے، ایک دعا فوراً قبول نہ ہو، ایک کام رک جائے تو ہم شکوے پر اُتر آتے ہیں،جبکہ اللہ بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے:”اَللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظًا وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ”(یوسف: 64)اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والاہے۔ اے ربِ ذوالجلال ہمیں بھی لیبیا کے اُس حاجی جیسا یقین عطا فرما،ہماری زبانوں پر وہ صدق دے، جس پر تیری مہرِ قبولیت لگے،ہمارے دلوں میں ایسا توکل رکھ، کہ دنیا حیران رہ جائےاور ہماری دعائیں تیری رضا سے ہمکنار ہو جائیں۔ آمین یا رب العالمین! یہ واقعہ صرف خبر نہیں،یہ ایمان کی تجدید ہے۔ اگر یہ تحریر دل میں اُترے، تو اسے ضرور دوسروں تک پہنچائیں،شاید کسی کی دعا بن جائے

شہباز شریف کا اہم ایشیائی ریاستوں کا دورہ: کیا پاکستان خارجہ پالیسی کا نیا باب کھول رہا ہے؟

Shahbaz sharif

پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اور اس بار اس کی توجہ مشرقِ وسطیٰ یا مغرب پر نہیں، بلکہ وسطی ایشیا کی طرف ہے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی جہت دینے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ دورے کو پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان جیسے ممالک سے باہمی تعاون اور علاقائی رابطوں کے فروغ پر تبادلہ خیال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان محض ایک جنوبی ایشیائی ریاست نہیں بلکہ ایک علاقائی پل کے طور پر اپنی حیثیت منوانا چاہتا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور گوادر بندرگاہ کی افادیت کے تناظر میں یہ دورہ نہ صرف اقتصادی مفادات کا حامل ہے بلکہ اس سے سفارتی توازن قائم کرنے کی کوشش بھی جھلکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ دورہ پاکستان کو وسطی ایشیا کے دروازے کھولنے میں مدد دے گا یا صرف رسمی بیانات تک ہی محدود رہے گا؟ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے کہا کہ “یہ دورہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ وسطی ایشیا میں پاکستان کا کردار ایک ‘گیٹ وے’ کے طور کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم مسلسل اور عملی روابط قائم رکھ سکیں۔” اگرچہ پاکستان نے 1990 کی دہائی میں وسطی ایشیائی ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد ان سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے تھے، تاہم ان تعلقات میں عملی پیش رفت ہمیشہ سست روی کا شکار رہی۔ مگر حالیہ برسوں میں سی پیک، گوادر بندرگاہ اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے وسطی ایشیا کے ساتھ اقتصادی ربط کی نئی امیدیں پیدا کی ہیں۔ ماہر عالمی امور پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی فانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے  کہا کہ “وسطی ایشیا کے ساتھ بجلی کے تبادلے کے منصوبے پاکستان کی توانائی کی ضروریات کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اگر ان ممالک سے طے شدہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو بہت سے بحرانوں میں واضح کمی آ سکتی ہے۔” گوادر بندرگاہ اور سی پیک کا انفراسٹرکچر وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے گرم پانیوں تک رسائی کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ اگر پاکستان اس راستے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرے تو وہ خود کو ایک علاقائی تجارتی مرکز کے طور پر منوا سکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے مزید کہا کہ “اگرچہ امکانات بہت ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہماری بیوروکریسی ان مواقع کو حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ پالیسی سطح پر ہم متحرک ہیں۔ لیکن زمینی سطح پر عملدرآمد کی رفتار اب بھی سست ہے۔” پاکستان کے اس دورے کو بھارت، ایران، روس اور چین جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ ان تمام ممالک کی وسطی ایشیا میں دلچسپی ہے اور ہر ملک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہ بھی پڑھیں :شہباز شریف کی آذربائیجانی صدر سے ملاقات: ‘تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کا اظہار’ پروفیسر ڈاکٹر عرفان علی فانی کے نزدیک “یہ ایک حساس توازن ہے۔ پاکستان کو یہ تعلقات بناتے ہوئے محتاط رہنا ہوگا کہ وہ کسی ایک بلاک یا طاقت کے بہت زیادہ قریب نہ ہو، ورنہ اس کے اثرات سفارتی توازن پر پڑ سکتے ہیں۔” وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت اور رابطے کی سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان کی غیر مستحکم سیکیورٹی صورتحال ہے۔ زمینی رابطوں اور ٹرانزٹ کے لیے افغانستان ایک مرکزی راستہ ہے۔ لیکن مسلسل سیاسی عدم استحکام اور دہشتگردی کے خطرات ان منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ پروفیسر ابوالحسن کا ماننا ہے کہ “جب تک افغانستان میں قابلِ بھروسہ نظام اور امن قائم نہیں ہوتا، علاقائی روابط خواب ہی رہیں گے۔ پاکستان کو یہ مسئلہ سفارتی اور سیکیورٹی سطح پر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔” پاکستان کا نجی شعبہ وسطی ایشیائی ریاستوں میں سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی رکھتا ہے، لیکن انہیں سرکاری سطح پر سہولتوں اور واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ پروفیسر عرفان علی فانی کا کہنا ہے کہ “اگر حکومت کاروباری وفود کے لیے مستقل سہولیات اور فالو اپ میکانزم مہیا کرے تو وسطی ایشیا ایک زبردست مارکیٹ ثابت ہو سکتی ہے۔” مزید پڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدرایردووان سے ملاقات: ’ترکیہ کی حمایت سے پاکستان کو فتح ملی‘ وزیراعظم شہباز شریف کا وسطی ایشیائی ممالک کا دورہ محض ایک روایتی سفارتی سرگرمی نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک پالیسی شفٹ کی علامت ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم تعلقات بڑھا رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم ان تعلقات کو عملی تعاون، دیرپا معاہدوں اور علاقائی ربط میں بدل پائیں گے؟ اگر پاکستان مستقل مزاجی سے ان سفارتی، اقتصادی اور توانائی معاہدوں پر عملدرآمد کرے، تو یہ دورہ خارجہ پالیسی میں ایک نیا باب ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔

کیا پاکستان نے 3 رافال طیارے مار گرائے؟ فرانسیسی فوج کا پہلی بار ردعمل سامنے آگیا

France

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کے دوران، پاکستانی فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو نشانہ بنایا تھا۔ تاہم انڈیا نے عالمی میڈیا میں اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان نے کوئی طیارہ تباہ نہیں کیا جس پر فرانسیسی فوج کے ترجمان کا پہلی بار باضابطہ طور پر ردِعمل  سامنے آیا ہے۔ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق، پاکستان نے پاک انڈیا کشیدگی کے دوران بھارتی فضائیہ کے سات طیارے مار گرائے تھے، جن میں تین رافال طیارے بھی شامل تھے۔ اسی وجہ سے عالمی میڈیا نے انڈین فضائیہ کو ہونے والے اس نقصان کو ایک ذلت آمیز شکست قرار دیا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق پاکستان نے پہلی بار  رافال جیسے جدید طیاروں کو گرا کر  انڈیا پر اپنی فضائی برتری ثابت کردی ہے۔ اس حوالے سے فرانسیسی فوج کے ترجمان نے پیرس میں معمول کی پریس بریفنگ کے دوران صحافی کے پاک انڈیا جنگ میں رافال کی تباہی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پرانہوں نے کہا کہ واقعےکی تفصیلات ابھی غیر یقینی ہیں اور بہت سے پہلو تصدیق طلب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رافال کی کارکردگی کے حوالے سے فرانس صورتحال کو بغور دیکھ رہا ہے اور اپنے شراکت دار انڈیا کے ساتھ براہ راست معلومات حاصل کرنے کے لیے رابطے میں ہے۔  ترجمان کا کہنا تھا کہ رپورٹس کے مطابق اس لڑائی میں سیکڑوں طیاروں نے حصہ لیا، فرانس  اس لڑائی کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا خواہاں ہے۔ اگر رافال کے مار گرائے جانے کی رپورٹس درست ثابت ہوئیں تو یہ اس  جہاز کے دو دہائیوں کی آپریشنل سروس کے دوران پہلا واقعہ ہوگا۔ مزید پڑھیں:پاکستان نے پہلی بار  رافیل جیسے جدید طیاروں کو گرا کر  انڈیا پر اپنی فضائی برتری ثابت کردی ہے خیال رہےکہ پاک فضائیہ کی جانب سے 7 طیارے گرانے پر بھارت نے انکار کیا ہے تاہم 9 مئی کو ایک بریفنگ میں رافال طیارے کے نقصان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بھارتی ائیر مارشل اے کے بھارتی نے کہا تھا کہ نقصانات لڑائی کا حصہ ہوتے ہیں اور میں اس سے زیادہ تفصیل نہيں بتاسکتا، اس سے فریق مخالف کو فائدہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت نے 2019 میں پاکستان کے ہاتھوں اپنے 2 طیاروں کی تباہی کے بعد  فرانس سے 36 رافال طیارے خریدے تھے جن میں سے 3 پاکستان نے حالیہ کشیدگی میں تباہ کردیے ہیں۔