پاکستان معاشی ترقی کے قابل نہیں رہا، موٹر سائیکل سواروں پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے، سابق وزیرِ خزانہ

Muftah ismael

سابق وزیرِ خزانہ و سیکرٹری پاکستان پارٹی مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ پاکستان مزید قرضوں میں دھنستا جارہا ہے اور معاشی ترقی کے قابل نہیں رہا، موٹر سائیکل رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے۔ نجی نشریاتی ادارے ‘اے آر وائی نیوز’ کے مطابق مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئندہ پانچ سالوں میں ہرسال20ارب ڈالرز واپس کرناہوں گے، انڈیا سے جنگ میں اللہ نے ہمیں فتح دی لیکن آئی ایم ایف کی شرائط ماننا اب مجبوری بن چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایساکوئی شخص نہیں جوکسی نہ کسی صورت ٹیکس نہ دیتا ہو، 60 فیصد بجٹ صوبوں کو چلا جاتا ہے مگر صوبوں کی کارکردگی صفر ہے۔ سابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبے اپنا ٹیکس جمع نہیں کرتے مرکز پر بوجھ بڑھ رہا ہے، اربوں کی جائیدادوں والے ٹیکس سے بچ رہے ہیں، غریب پس رہے ہیں، غریب عوام کو ہرطرف سے ٹیکس کی مار پڑرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اب ٹیکس کا نام بھی بدل دیا ہے، موٹرسائیکل والوں پر بھی ٹیکس لگایا جارہا ہے، ایسے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، جو معیشت کو نقصان دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: کوئٹہ: نواں کلی میں دھماکہ، دوافراد جاں بحق اور متعدد زخمی مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پاکستان کے 40 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں، تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں 60 فیصد پانچویں جماعت کے طلبہ دوسری جماعت کا سوال نہیں حل کرسکتے، ہمیں تعلیم، روزگار اور صحت کے میدان میں بھی کامیابی حاصل کرنا ہوگی، صوبے بجٹ کا درست استعمال نہیں کریں گے تو نئے صوبے بنانے کی ضرورت پڑے گی۔

پی ٹی آئی چھوڑ دو، دباؤ برداشت نہیں کر سکتے، عمران خان کا پارٹی کے رہنماؤں کو پیغام

Pti lawyers

پی ٹی آئی کے قانونی ترجمان نعیم حیدر پنجوٹھا کے مطابق پی ٹی آئی کے قید بانی عمران خان نے اپنی پارٹی کی قیادت کو ایک واضح پیغام دیا ہےکہ یا تو بڑھتے ہوئے دباؤ کو برداشت کریں یا پارٹی سے الگ ہو جائیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نعیم حیدرپنجوتھا نے الزام لگایا کہ عدلیہ مکمل طور پر حکومت کی تابع ہو گئی ہے اور 26ویں آئینی ترمیم کے پیچھے مقاصد واضح ہو چکے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور حامیوں کو سزا اور نااہل قرار دیا جا رہا ہے۔ توشہ خانہ کے دو کیس کی کارروائی کے بارے میں پنجوتھا کا کہنا تھا کہ سماعت اڈیالہ جیل کے اندر ہونی تھی لیکن منصوبہ بندی کے مطابق آگے نہیں بڑھ سکی۔ انہوں نے کہا کہ صرف کچھ قانونی نمائندوں کو رسائی دی گئی، جب کہ دیگر کو شرکت سے روک دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے احتجاجاً سماعت کا بائیکاٹ کیا۔ انہوں نے ایم این اے لطیف چترالی کی سزا کو اس بات کے ثبوت کے طور پر اشارہ کیا، جسے انہوں نے پی ٹی آئی کے منتخب قانون سازوں کو نااہل قرار دینے کی ایک وسیع مہم کے طور پر بیان کیا۔  انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر یاسمین راشدہ اور شاہ محمود قریشی جیسے سینئر رہنما آج پارٹی چھوڑ دیتے ہیں تو امکان ہے کہ انہیں رہا کردیا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں:توشہ خانہ ٹو کیس: بشریٰ بی بی نے سماعت کے لیے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیوں کیا؟ ماضی کے عدالتی تنازعات سے مماثلت رکھتے ہوئے پنجوتھا نے الزام لگایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی آزادی کو نقصان پہنچانے میں جسٹس منیر جیسا کردار ادا کیا تھا۔  انہوں نے انتخابی اپیلوں کے عمل پر مزید تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کی نگرانی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وہی اہلکار کررہے ہیں، جو مبینہ طور پر انتخابی بدانتظامی میں ملوث ہیں۔ مزید پڑھیں:شہباز شریف کا گرینڈ جرگہ سے خطاب: ‘بلوچستان کو اگر کوئی گلہ ہے تو بھائیوں کے ساتھ بھائی بن کر طے کرے’ پنجوتھا کے مطابق عمران نے پارٹی کو مزید تصادم یا تشدد کو مسترد کرتے ہوئے پرامن مزاحمت کی حکمت عملی اپنانے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین نے واضح کر دیا ہے کہ مزید گولیاں نہیں چلیں گی، ہمارا احتجاج اب پرامن ہو گا۔ وہ ذاتی طور پر سلاخوں کے پیچھے سے تحریک کی قیادت کریں گے، کیونکہ دیگر تمام جمہوری راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

سعودی عرب اور قطر کا شام کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان

Sahudi forgne minister

سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا ہے کہ مملکت شام میں سرکاری ملازمین کی مالی معاونت کے لیے قطر کے ساتھ مل کر امداد فراہم کریں گے۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق دمشق میں اپنے شامی ہم منصب اسد الشیبانی کے ہمراہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ سعودی عرب اور قطر شام کے سرکاری اداروں کو مستحکم کرنے میں مشترکہ کردار ادا کریں گے۔ انہوں  نے کہا کہ سعودی عرب شام کی تعمیر نو اور اقتصادی بحالی کے لیے کلیدی کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی اقتصادی وفد بھی دمشق آیا ہے، جو مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے امکانات پر شامی حکام سے بات چیت کرے گا۔ شہزادہ فیصل نے یہ بھی اعلان کیا کہ آنے والے دنوں میں سعودی تاجروں کے وفود شام کا دورہ کریں گے تاکہ توانائی، زراعت، انفراسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بات چیت کی جا سکے۔ دوسری جانب شامی خبر ارساں ادارے ثنا نے اطلاع دی ہے کہ شامی قیادت اب عرب اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ خلیجی ممالک سے امداد اور سرمایہ کاری حاصل کر کے جنگ سے تباہ حال ریاست کی تعمیر نو ممکن بنائی جا سکے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ ثنا کے مطابق شامی صدر کے دفتر کے ایک ذرائع نے بتایا کہ شام کے سربراہ احمد الشارع کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الصباح کی دعوت پر اتوار کو کویت کا دورہ کریں گے۔ دورے کے دوران وہ اقتصادی اور سیاسی تعاون کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت کریں گے۔

ملی یکجہتی کونسل کا کم عمری شادی سے متعلق قانون سازی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان

Protest

ملی یکجہتی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ کم عمری سے متعلق غیر آئینی اور غیر شرعی قانون سازی کے خلاف ملک گیر احتجاج کیا جائے گا، جس کے لیے تمام دینی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی۔ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے صدر ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ سمیت مرکزی رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بلوغت کے شرعی پہلوؤں اور قرآن و سنت کے احکامات کو نظرانداز کر کے کی گئی قانون سازی اور صدر پاکستان کی جانب سے اس بل پر دستخط غیر آئینی اور آئین پاکستان کی روح کے صریحاً خلاف ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ آئینی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ کم عمری کی شادی کے بل کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ یہ بل قرآن و سنت کی تعلیمات اور آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ اس کے باوجود حکومت اور ایوان صدر نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کو کوئی اہمیت نہ دی، جو کہ باعث تشویش اور قوم کے لیے باعث تعجب ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ ایک طرف حکومت فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے خطرات کے خلاف اقدامات کرتی ہے اور پوری قوم اس میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ یہ اقدامات آئین اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب حکومت خود قرآن و سنت اور آئین سے متصادم قانون سازی کر کے آئین سے بغاوت کر رہی ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ یہ بھی پڑھی:انڈیا نے پاکستانی حملوں میں طیاروں کی تباہی تسلیم کرلی بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سماجی و معاشرتی مسائل کا حل تلاش کرے، منصوبہ بندی کرے، لیکن اسے یہ اختیار نہیں کہ وہ آئین اور شریعت کی رہنمائی کو نظرانداز کرے۔ ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان مرکزی کابینہ میں اس سنگین غلطی کا ازالہ کریں، غیر شرعی بل کو واپس لیا جائے، اور صدر پاکستان اپنے غیر آئینی اقدام سے رجوع کریں۔ وفاقی حکومت صوبوں کو بھی ہدایت دے کہ اس بل کی روشنی میں مزید قانون سازی سے گریز کریں۔ مزید پڑھیں:توشہ خانہ ٹو کیس: بشریٰ بی بی نے سماعت کے لیے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیوں کیا؟ رہنماؤں نے اعلان کیا کہ منبر و محراب سے قرآن و سنت کے احکامات اور آئین پاکستان کی حفاظت کے لیے آواز بلند ہوتی رہے گی اور دینی جماعتیں اس معاملے پر خاموش نہیں رہیں گی۔

جنگی طیارے یا جذبہ ایمانی، پاکستان کی اصل طاقت کیا ہے؟

Whatsapp image 2025 05 31 at 6.12.44 pm

موجودہ علاقائی کشیدگی کے تناظر میں پاکستانی قوم کا جذبہ ایک بار پھر عروج پر ہے۔ قومی سطح پر عوام اور ریاستی ادارے اس عزم کے ساتھ متحد نظر آ رہے ہیں کہ ملک کی بقا، سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ سینیئر صحافی سلمان غنی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب بھی قوم اپنی فوج کے پیچھے کھڑی ہوئی، تاریخ نے دیکھا کہ وہ قوم سرخرو ہوئی۔ آج بھی یہی جذبہ پاکستان کی افواج اور ایئر فورس کے ساتھ کھڑے 24 کروڑ عوام میں نظر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین وزیرِاعظم نریندرا مودی کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔ مغربی میڈیا انہیں “گجرات کا قصائی” قرار دے چکا ہے اور انہی الزامات کے تحت ماضی میں کئی سال تک مغربی ممالک نے ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی تھیں۔ سلمان غنی کا کہنا ہے کہ نریندرا مودی ایک فاشسٹ ذہنیت کا حامل شخص ہے، جو پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔ پلوامہ حملے جیسے واقعات کے اصل محرکات آج بھی سوالیہ نشان ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ عوامی حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ ہمیں صرف بیرونی خطرات ہی نہیں، بلکہ اندرونی تضادات کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔ بطور پاکستانی، ایک متحد اور ذمہ دار قوم بننے کی ضرورت ہے۔ سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ مودی حکومت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گی کیونکہ اس کی بنیادیں نفرت، جبر اور ظلم پر قائم ہیں، جو تاریخ کے کسی بھی دور میں پائیدار نہیں رہیں۔

کوئٹہ: نواں کلی میں دھماکہ، دوافراد جاں بحق اور متعدد زخمی

Rescue 1122

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے نواں کلی سرہ غڑگئی میں ہونے والے ایک زور دار دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق، جب کہ 7 افراد زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے نواں کلی سرہ غڑگئی میں دھماکا اُس وقت ہوا، جب متاثرہ افراد ایک گاڑی میں کوئلہ کان کی جانب جا رہے تھے۔زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں بعض کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق دھماکے کے فوری بعد علاقے کو سیل کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے، جب کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بھی موقع پر طلب کر لیا گیا ہے تاکہ دھماکے کی نوعیت اور مواد کا تعین کیا جا سکے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دھماکے کی اصل وجہ اور مواد کے بارے میں حتمی معلومات بم ڈسپوزل ٹیم کی رپورٹ کے بعد فراہم کی جا سکیں گی۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ انتہائی شدید نوعیت کا تھا، جس سے آس پاس کی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور پورا علاقہ دھواں دھواں ہو گیا۔ دھماکے کے بعد فضا میں خوف و ہراس پھیل گیا، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر علاقے کا محاصرہ کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق زخمیوں میں جانان، سیف الرحمان، سمیع اللہ، زبیع اللہ، محمد آصف، نصیب اللہ اور جمیل احمد شامل ہیں، جنہیں فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض زخمیوں کی حالت نازک ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سیکیورٹی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے حکام واقعے کی تفتیش میں مصروف ہیں اور دھماکے کے محرکات اور ذمہ دار عناصر کا سراغ لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ نوٹ: مزید تفصیلات جلد شامل کی جائیں گی۔

توشہ خانہ ٹو کیس: بشریٰ بی بی نے سماعت کے لیے کمرہ عدالت آنے سے انکار کیوں کیا؟

Bushra bibi

بانی پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتجاجاً کمرہ عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیا۔ نجی نشریاتی ادارے ‘اے آر وائی’ نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت ہوئی، جہاں اسپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے مقدمے کی کارروائی کی نگرانی کی۔ جیل حکام نے سابق وزیراعظم عمران خان کو عدالت میں پیش کیا،مگر ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے احتجاجاً کمرہ عدالت آنے سے انکار کر دیا۔ جیل انتظامیہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمہ کا مؤقف ہے کہ انہیں منگل کے روز عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، جس پر انہوں نے سماعت میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے بشریٰ بی بی کے انکار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ انہیں ایک موقع دیا جا رہا ہے، اگر آئندہ سماعت پر پیش نہ ہوئیں تو ان کی ضمانت منسوخ کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں گے۔ پراسیکیوشن کی جانب سے بھی بشریٰ بی بی کی مسلسل غیر حاضری پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کی گئی کہ عدالت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ملزمہ کے بغیر کیس کی کارروائی آگے بڑھائے۔ عدالت نے فریقین کا مؤقف سننے کے بعد کیس کی سماعت 3 جون 2025 تک ملتوی کرتے ہوئے بشریٰ بی بی کو آخری موقع فراہم کیا ہے۔ توشہ خانہ ٹو کیس ہے کیا؟ نیب ریفرنس کے مطابق توشہ خانہ ٹو کیس کا تعلق سعودی ولی عہد کی جانب سے دی گئی قیمتی بلغاری جیولری سیٹ سے ہے، جو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے مئی 2021 میں اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران حاصل کی تھی۔ جیولری سیٹ میں ایک انگوٹھی، بریسلٹ، نیکلس اور بالیوں کا ایک جوڑا شامل تھا۔ ریفرنس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے یہ تحائف توشہ خانہ میں جمع کرانے کے بجائے غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھ لیے۔ دستاویزات کے مطابق جیولری سیٹ کی مجموعی مالیت 7 کروڑ 56 لاکھ 61 ہزار 600 روپے ہے، جس میں صرف ہار کی قیمت 5 کروڑ 64 لاکھ 96 ہزار روپے اور بالیوں کی قیمت 1 کروڑ 50 لاکھ 65 ہزار 600 روپے ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ نیب کا مؤقف ہے کہ توشہ خانہ رولز کے تحت اگر 50 فیصد قیمت ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھا جاتا تو قانونی طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا تھا۔ مگر نہ صرف کم قیمت لگوائی گئی بلکہ قومی خزانے کو 3 کروڑ 28 لاکھ 51 ہزار 300 روپے کا نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ریفرنس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے دوران 108 تحائف میں سے 58 تحفے اپنے پاس رکھے اور نیب آرڈیننس 1999 کی دفعات 9 (3، 4، 6) اور دفعہ 12 کی خلاف ورزی کی۔

چوراہے کی سلطنت: پاکستان نے کہانی کیسے پلٹی؟

Pakistan

جیسے جیسے نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں، انڈیا کے لیے اپنی شرمندگی چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو واقعہ ابتدا میں ایک معمولی سرحدی جھڑپ سمجھا گیا تھا، اب ایک انتہائی منظم اور درست کارروائی دکھائی دیتا ہے۔ ادھر انڈیا خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور ادھر پاکستان نے اس صورتحال سے قیمتی فوائد سمیٹے ہیں جیساکہ اپنی اندرونی خوداعتمادی کو نئی توانائی دی، عالمی توجہ حاصل کی اور ایسا اثر و رسوخ پیدا کیا، جو کسی پریس ریلیز سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ پاکستان کو چین، ترکی، خلیجی ممالک اور نیٹو ریاستوں سے مضبوط حمایت حاصل ہوئی۔ ترکی کی طرف سے ڈرونز اور ریڈار سسٹمز پر مشتمل ایک فوری امدادی پیکج دیا گیا، جسے جی ایچ کیو کے حلقوں میں بروقت اور قابلِ اعتماد قرار دیا گیا۔ دنیا نے بھی اس تعاون کو محسوس کیا۔ عالمی طاقتیں پاکستان کے استحکام میں دلچسپی رکھتی ہیں، چاہے وہ اقتصادی ہو یا سفارتی۔ اس وجہ سے پاکستان کو اب ایک ایسی اسٹریٹجک مارکیٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس میں ترقی کے کئی امکانات موجود ہیں۔ عالمی سطح پر مختلف ممالک کی ہم آہنگی اور پاکستان کے تیز ردِعمل نے دنیا کو حیران کر دیا ہے کہ کس طرح اس نے فوجی اور سفارتی دونوں محاذوں پر کہانی کا رخ یکسر بدل دیا۔ آج پاکستان ایک نایاب مقام پر کھڑا ہے، جہاں وہ بیک وقت چین کے بلاک میں ایک اہم ملک ہے، اور ساتھ ہی امریکی اثر و رسوخ والے عالمی نظام کا بھی ایک پیچیدہ مگر اہم پارٹنر ہے۔ پاکستان میں چین کا اقتصادی راہداری منصوبہ جاری ہے، ترکی کے ڈرونز اور خلیجی فنڈز بھی اسے حاصل ہو رہے ہیں، اور ساتھ ہی وہ آئی ایم ایف جیسے اداروں سے بھی مدد حاصل کرتا ہے، جو واشنگٹن کے زیرِ اثر ہیں۔ یہ کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک نازک توازن ہے۔ اگر دانشمندی سے اسے سنبھالا جائے تو پاکستان دونوں طرف سے تجارت، امداد اور اثر و رسوخ حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر غلطی ہوئی تو وہ دونوں اطراف سے محروم ہو سکتا ہے اور غیر اہم ہو کر رہ جائے گا۔ دنیا کے چند ہی ممالک ایسے مقام پر ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہی مقام پاکستان کی نئی شناخت کی بنیاد بنے۔ پاکستان کی مالیاتی منڈیوں نے شاندار نتائج دکھائے ہیں۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج نے دو سال پہلے 3.8 کے منافع کے تناسب سے بڑھ کر اب 6 کے قریب پہنچ چکی ہے، اور یہ رواں مالی سال کے اختتام تک 125,000 کی سطح عبور کرنے والی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر، جو دو سال پہلے 10 ارب ڈالر سے کم تھے، اب 16 ارب ڈالر سے اوپر جا چکے ہیں۔ وہ خودمختار یوروبانڈز، جو 2023 میں 40 سینٹس سے بھی کم پر تجارت ہو رہے تھے، اب دگنی قیمت پر پہنچ چکے ہیں۔ روپے کی قدر بھی پچھلے دو سالوں سے صرف تین فیصد کے اندر رہی ہے، جو کسی بھی معیار سے زبردست استحکام کا مظاہرہ ہے۔ اس سب کے باوجود، اسٹاک مارکیٹ اب بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں سستے داموں پر دستیاب ہے۔ بانڈ مارکیٹس کی کارکردگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شرح سود میں مزید کمی کی توقع ہے۔ چھ ماہ اور دس سالہ بانڈز کی شرحِ منافع میں بالترتیب 75 اور 25 بیسس پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ مارکیٹ 50 سے 100 بیسس پوائنٹس کی شرح سود میں کمی کو ممکن سمجھ رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان کا بیرونی شعبہ اب بھی ایک کمزور پہلو ہے، لیکن روپے کے 282 روپے فی ڈالر کے آس پاس مستحکم رہنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کا امکان غالب ہے۔ مہنگائی کی معمولی اضافی توقعات کو بھی اس میں شامل سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے روپے کی قدر میں بھی استحکام رہا۔ ادائیگیوں کا دباؤ کم ہونے کے بعد، مارکیٹ میں افواہوں کے باوجود کہ روپیہ گرے گا، ایسا کوئی معاشی جواز نہیں دیکھا گیا۔ اوپن مارکیٹ میں بھی قیمتیں مستحکم ہو چکی ہیں۔ پاکستانی روپے کی قیمت ایک ہفتے میں 282، ایک ماہ میں 283، اور ایک سہ ماہی میں 285 ہے۔ یورو کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت ایک ہفتے میں 1.1346 رہی جو کہ غیر جانبدار رجحان کو ظاہر کرتی ہے، ایک ماہ میں 1.1240 ہے جو منفی رجحان کا اشارہ دیتی ہے، اور ایک سہ ماہی میں 1.1356 جو کہ دوبارہ غیر جانبدار دکھائی دیتی ہے۔ برطانوی پاؤنڈ کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت ایک ہفتے میں 1.3474، ایک ماہ میں 1.3276، اور سہ ماہی میں 1.3344 رہی—تینوں کے تینوں منفی رجحان کے اشارے ہیں۔ جاپانی ین کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ایک ہفتے میں 143.02 رہی جو منفی رجحان ہے، ایک ماہ میں 144.34 رہی جو غیر یقینی ہے، اور سہ ماہی میں 141.57 جو دوبارہ منفی رجحان ظاہر کرتا ہے۔ خام تیل کی قیمت ایک ہفتے میں 61.62، ایک ماہ میں 64.60، اور سہ ماہی میں 64.12 رہی، تینوں اعداد و شمار تیل کی قیمت میں اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سونے کی قیمت ایک ہفتے میں 3305، ایک ماہ میں 3206.71، اور سہ ماہی میں 3284.29 رہی۔ ان میں ایک مہینے کا رجحان منفی ہے، جبکہ باقی دو مدتوں میں قیمتیں مستحکم یا بڑھنے کے امکانات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

ایپسوس سروے: 58 فیصد پاکستانیوں کا ملک کی معاشی و سماجی صورتحال پر تشویش کا اظہار

Apsoos survey

عالمی تحقیقی ادارے ایپسوس کے تازہ ترین سروے میں پاکستانی عوام کی اکثریت نے ملک کی معاشی اور سماجی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایپسوس کے تازہ ترین سروے کے مطابق 58 فیصد پاکستانیوں نے ملک کی موجودہ سمت کو غلط قرار دیا ہے، جب کہ 62 فیصد شہریوں نے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا۔ اسی طرح 57 فیصد افراد کے نزدیک بیروزگاری اس وقت ملک کو درپیش اہم ترین چیلنج ہے۔ رپورٹ کے مطابق 48 فیصد پاکستانیوں نے ملکی معاشی صورتحال کو کمزور قرار دیا، جب کہ 81 فیصد شہریوں نے اعتراف کیا کہ انہیں روزمرہ گھریلو اشیاء کی خریداری میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ مزید پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ 38 فیصد عوام آئندہ چھ ماہ میں معیشت کو مزید کمزور ہوتا دیکھ رہے ہیں، جب کہ 44 فیصد پاکستانیوں نے اپنی ذاتی معاشی حالت کو انتہائی کمزور قرار دیا ہے۔ ایپسوس کی رپورٹ کے مطابق 83 فیصد شہریوں نے بتایا کہ پچھلے سال کی نسبت اس سال کپڑے، گاڑی اور جائیداد خریدنا ان کے لیے نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ 70 فیصد افراد اپنی ملازمت یا کاروبار کے حوالے سے بھی غیریقینی اور عدم اعتماد کا شکار نظر آتے ہیں۔

انڈیا نے پاکستانی حملوں میں طیاروں کی تباہی تسلیم کرلی

Chef

پاکستانی فضائیہ نے مئی 2025 میں انڈیا کے چھ جنگی طیارے مار گرائے، جن میں تین جدید فرانسیسی ساختہ رافیل طیارے شامل تھے۔ یہ کارروائی انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مختلف مقامات پر رات کے وقت کیے گئے میزائل حملوں کے جواب میں کی گئی۔ ان حملوں میں سبحان مسجد بہاولپور، بلال مسجد مظفرآباد، عباس مسجد کوٹلی، املکورا مسجد مریدکے، کوٹکی لوہارا گاؤں سیالکوٹ اور شکرگڑھ شامل تھے۔ پاکستانی حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کے طیاروں نے انڈین طیاروں کو فضاء میں ہی نشانہ بنایا، جبکہ انڈین حکام نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔ انڈین چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے اس بات کی تصدیق کی کہ انڈین طیارے پاکستانی فضائیہ کے حملے میں تباہ ہوئے، تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ واقعہ جنگ کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے اہم ہے، نہ کہ صرف طیاروں کی تباہی کو۔ یہ بھی پڑھیں: زمین کا سب سے قحط زدہ علاقہ: غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا امریکی اور فرانسیسی حکام نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان نے انڈین طیارے مار گرائے اور اس میں چین سے حاصل کردہ طیاروں کا استعمال کیا گیا۔ سی این این اور رائٹرز کی رپورٹس کے مطابق امریکی حکام نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ نے انڈین طیاروں کو نشانہ بنایا جبکہ ایک فرانسیسی انٹیلی جنس افسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ واشنگٹن پوسٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کم از کم دو انڈین طیارے، جن میں رافیل اور مرج 2000 شامل ہیں جو کہ پاکستانی فضائیہ کے حملوں میں تباہ ہوئے۔ ان طیاروں کے ملبے کی تصاویر اور ویڈیوز کی تصدیق کی گئی، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ طیارے پاکستانی فضائیہ کے حملوں میں تباہ ہوئے۔ اس دوران انڈیا نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور پاکستان کے اندر گہرائی میں جا کر فضائی حملے کیے، جن میں اہم فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں انڈیا نے پاکستانی فضائی دفاع کو کامیابی سے عبور کیا اور اہم اہداف کو نشانہ بنایا۔ تاہم، دونوں ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کبھی زیر غور نہیں آیا۔ لازمی پڑھیں: ہماری ترکیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت جاری ہے، کرد کمانڈر مظلوم عبدی 10 مئی کو امریکی ثالثی سے دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی معاہدہ طے پایا جس میں سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ نے بھی مدد فراہم کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ امریکا نے تجارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے دونوں ممالک پر دباؤ ڈالا تاکہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوں۔ دوسری جانب انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کو انڈیا کی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے امریکی ثالثی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور پاکستان کے اندر گہرائی میں جا کر حملے کیے۔ اس تنازعے نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو متاثر کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ