بنگلا دیش نے جماعت اسلامی سے پابندی ہٹالی، الیکشن لڑنے کی اجازت

بنگلا دیش اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے لیے سازگار بننے لگا، بنگلا دیشی سپریم کورٹ سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی سے پابندی ہٹالی۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق بنگلادیش کی سپریم کورٹ نے اتوار کے روز فیصلہ سنایا، جماعت اسلامی کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی۔ کمیشن کے وکیل توحید الاسلام نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس پارٹی کی رجسٹریشن کو قانون کے مطابق بحال کرے، جماعت اسلامی کے وکیل ششیر منیر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے 170 ملین آبادی والے مسلم اکثریتی ملک میں جمہوری، جامع اور کثیر الجماعتی نظام بحال ہو گیا۔ وکیل منیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ہمیں امید ہے کہ بنگلادیشی، اپنی نسلی یا مذہبی شناخت سے قطع نظر، جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے، اور پارلیمان تعمیری مباحثوں سے روشن ہوگی۔‘‘ یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں شیخ حسینہ کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے 2013 کے ہائی کورٹ کے حکم پر نظر ثانی کی اپیل کی تھی۔ 27 مئی کو جماعت کو بھی سپریم کورٹ نے جماعت کے ایک اہم رہنما اے ٹی ایم اظہر الاسلام کی سزا کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اظہر الاسلام کو 2014 میں بنگلادیش کی 1971 کی پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران عصمت دری، قتل اور نسل کشی کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
عمران خان کا ’جنرل عاصم کو عہدے سے ہٹانے‘ کے بیان پر یوٹرن

سابق وزیر اعظم نے 31 مئی کو جیل میں وکلا اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بطور وزیراعظم جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا۔ یہ بیان ان کے آفیشل ایکس (سابقہ ٹویٹر) اکاؤنٹ سے بھی پوسٹ کیا گیا۔ اس بیان سے پہلے انہوں نے 21 مئی 2023 کو کہا تھا کہ یہ دعویٰ بالکل غلط ہے، جنرل عاصم نے مجھے میری اہلیہ کی کرپشن کے کوئی شواہد دکھائے نہ ہی میں نے انہیں اس بنیاد پر مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ ان بیانات کے بعد سوشل میڈیا صارفین عمران خان کو تنقید کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ کچھ صارفین نے 31 مئی کے ٹویٹ کے ریپلائی میں 21 مئی 2023 کا ٹویٹ پوسٹ کیا اور ساتھ سوال کیا کہ ’یہ کیا ہے خان صاحب؟‘ راجہ عاصم نامی ایک صارف نے لکھا کہ یہ پوسٹ بتا رہی ہے کہ کون حق پر کھڑا ہے۔ آپ کو ذاتی بغض عناد یے۔ بشریٰ پنکی کی کرپشن دراصل آپ کی کرپشن تھی۔ دونوں مل کر پاکستان کو لوٹ رہے تھے اب عدالتوں سے سزا یافتہ چور ہو ان شاءاللہ جلد انجام کو پہنچ جاؤ گے۔ آصف چوہدری نامی ایک صارف نے لکھا کہ 2023 میں کہتا ہے کہ میں نے عاصم منیر کو نہیں مجبور کیا مستعفی ہونے کو۔ جو یہ کہتا ہے وہ جھوٹ بولتا ہے اور 2025 میں کہتا ہے میں نے ہٹایا۔ اور اس کے کارکنان کہتے ہیں ابھی ماسٹر سٹروک کھیلا ہے نیازی نے۔
مودی سرکار اپنی سیاسی ناکامیوں کا بوجھ سندور پہ نہ ڈالے، کانگریس رہنما

انڈین اپوزیشن جماعت کی مرکزی ترجمان ڈاکٹر راگنی نائیک نے مودی سرکار پر طنز کیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ’’ مودی سرکاراپنی سیاسی ناکامیوں کا بوجھ سندور پر نہ ڈالے‘‘۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی (اے آئی سی سی) کی ترجمان ڈاکٹر راگنی نائیک نے کہا کہ سندور کا رنگ اور انداز مختلف ریاستوں میں مختلف ہو سکتا ہے لیکن ہر سناتنی ہندو شادی شدہ عورت کے لئے اس کی اہمیت ایک جیسی ہوتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لوگوں کو سندور کی یہ روحانی اور ثقافتی اہمیت سمجھ ہی نہیں آتی کیوں کہ نریندرا بابو کو ایک چٹکی سندور کی اہمیت اور قیمت معلوم ہی نہیں ہے۔ راگنی نائیک نے کہا کہ سندور صرف ایک آرائش نہیں بلکہ سہاگ، عزت، محبت، اعتماد اور سات جنموں کے بندھن کی مقدس علامت ہے۔ یہی سندور جو عورت کی مانگ کو سجاتا ہے آج اسے نریندرا مودی اپنی سیاست کی سطحی مہمات میں استعمال کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے ’آپریشن سندور‘ کا باقاعدہ اعلان کیا۔ راگنی نائیک نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر بی جے پی واقعی خواتین کی فکر کرتی ہے تو وہ ان عورتوں کے گھروں میں کیوں نہیں جاتی جن کے شوہر نوٹ بندی، کورونا، کسان تحریک یا معاشی دباؤ میں جان گنوا بیٹھے ہیں؟ ان کی بیویاں آج بھی مانگ میں سندور نہیں بھر سکتیں، کیا بی جے پی ان کے گھر جائے گی؟ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ جب کسی سناتنی خاتون کی مانگ میں سندور اس کا شوہر بھرتا ہے یا اسے سسرال یا کسی مندر سے آشیرواد کے طور پر ملتا ہے تو پھر حکومت کی طرف سے ’اجنبی مردوں‘ کے ہاتھوں دیا گیا سرکاری سیندور کس لئے اور کس کے لیے ہوگا؟ راگنی نائیک نے فوج کے وقار کو سیاسی مہمات میں گھسیٹے جانے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ مودی حکومت فوج کی قربانیوں کا فائدہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اٹھانا چاہتی ہے۔ آپریشن سندور سے قبل ہی پاکستان کواطلاع دے دی گئی تھی جس کی وجہ سے نقصانات ہوئے لیکن کسی نے اس کی ذمہ داری نہیں لی۔ انڈین نیشنل کانگریس کے چیئرمین برائے میڈیا اینڈ پبلکسٹی ڈپارٹمنٹ پون کھیرا نے انڈین وزیراعظم نریندرا مودی کی پالیسیوں پر سوال اٹھادیے، کہتے ہیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی کہاں ہے؟ پاکستان تو عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ پون کھیرا کا کہنا تھا کہ کویت نے پاکستان پر ویزا پابندیاں ختم کر دیں، کولمبیا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے، پون کھیرا نے مودی سے سوال کیا کہ بتائیں کون سا ملک آج بھارت کے ساتھ کھڑا ہے؟ انڈیا کیلئے یہ افسوسناک لمحہ ہے کہ روس بھی اب پاکستان کے ساتھ معاہدے طے کر رہا ہے، انڈیا کے قریبی دوست روس نے پاکستان کے ساتھ 2.6 بلین کے معاہدے پر دستخط کیے، آپریشن سندور کے بعد کویت، ایران اور دیگر گلف ممالک بھی پاکستان کے ساتھ معاہدے طے کررہے ہیں۔ چین اور روس، پاکستان کی ساتھ کھڑے ہیں اور امریکا بھی انڈیا کو دھمکا رہا ہے، یہ حقیقت ہے مودی کی خارجہ پالیسی کی، مودی کی خارجہ پالیسی یا ملکی سیکیورٹی پر سوال اٹھاؤ تو غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ا دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا کی سفارتی اور خارجہ پالیسی پر سوال اٹھ رہے ہیں، جو کہ اٹھنے چاہیے، آپریشن سندور کے بعد پاکستان کی سفارتی فتح، ہر ملک پاکستان سے معاہدے کر رہا ہے اور بھارت تنہائی کا شکار ہے، مودی اپنی ہر کوشش کے باوجود پاکستان کے ہاتھوں اپنی بدترین شکست کو چھپا نہیں سکتا۔
’سفارت کاری کے میدان میں جنگ‘، بلاول بھٹو کی سربراہی میں پاکستانی وفد امریکا پہنچ گیا

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ کی قیادت میں پاکستان کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد امریکا پہنچ گیا ہے، جہاں وہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرے گا۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق یہ سفارتی اقدام انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے پس منظر میں پاکستان کا مؤقف عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ پاکستانی وفد مختلف دارالحکومتوں میں بھجوایا جائے گا جہاں وہ انڈیا کے ساتھ حالیہ فوجی تصادم کے بعد اسلام آباد کا موقف پیش کرے گا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ اے پی پی کے مطابق نو ارکان پر مشتمل وفد کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں جو مختلف حکام سے ملاقاتوں میں انڈیا کے ساتھ فوجی تصادم اور موجودہ تناؤ سے متعلق پاکستان کا نقطہ نظر پیش کرے گا اور ’نئی دہلی کی جانب سے غلط معلومات کی فراہمی کی مہم کی راہ بھی روکے گا۔‘ دو اور تین جون کو یہ وفد نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، جنرل اسمبلی کے صدر اور سلامتی کونسل کے مستقل اور غیر مستقل ارکان سے ملاقاتیں کرے گا۔ اس کے علاوہ وفد اقوام متحدہ میں او آئی سی کے رہنماؤں کو بھی صورتحال سے آگاہ کرے گا۔ اے پی پی کے مطابق، وفد کا مقصد انڈیا کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی اور نئی دہلی کی جانب سے مبینہ غلط معلومات کی مہم کا توڑ کرنا ہے۔ یہ تمام پیشرفت ان واقعات کے بعد ہوئی جب 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر سیاحوں پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا، جس کی پاکستان نے سختی سے تردید کی۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھی تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا اس کے بعد انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا، جو دونوں ممالک کے درمیان آبی اشتراک کا اہم معاہدہ تھا۔ سات اور دس مئی کو دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے علاقوں پر حملے کیے، جس کے بعد جنگ بندی کا اعلان ہوا، لیکن اس معاہدے کو تاحال مکمل بحال نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ اگر انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کیا یا پانی کی روانی کو روکا، تو اسے “جنگی اقدام” سمجھا جائے گا۔ وفد کی موجودہ سفارتی سرگرمیاں اسی ممکنہ خطرے کے پیش نظر عالمی برادری کو متحرک کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔
’جیل سے قیادت کروں گا‘, عمران خان کا ملک گیر احتجاج کا اعلان

سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ میں خود جیل سے بطور پارٹی سربراہ احتجاج کی قیادت کروں گا۔ میں نے پوری پارٹی کو پیغام بھیج دیا ہے کہ ملک گیر عوامی احتجاج کی تیاری کریں۔ ہمارے پرامن احتجاج پر گولیاں چلائی جاتی ہیں اب ہم گولیاں نہیں کھائیں گے۔ انہوں نے جیل میں وکلأ اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کے تمام عہدیداران کو پیغام ہے کہ جس میں بھی دباؤ برداشت کرنے کی قوت نہیں ہے وہ عہدے سے الگ ہو جائے اور اپنی جگہ انہیں موقع دے جو پریشر برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ لہذا کم حوصلہ عہدیداران براہ مہربانی خود ہی پیچھے ہٹ جائیں تاکہ انکی جگہ ہم دلیر اور نظریاتی ورکرز کو آگے لائیں جو قانون اور آئین کی بالادستی اور حقیقی آزادی کیلئے ڈٹ کر کھڑے ہوسکیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اس قدر ظلم نہیں ہوا جو تحریکِ انصاف کے ساتھ ہوا۔ ایسے میں ہمارے پاس ملک گیر احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم اور اوورسیز پاکستانیوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پرامن احتجاج کے لیے کمر کس لیں۔ میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی آئین کی بحالی کے لیے اس ملک گیر احتجاج میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ سپیکر قومی اسمبلی جس طرح ایوان کو چلا رہا ہے ہم اس کے خلاف عدم اعتماد لائیں گے۔ اس کے ہوتے ہوئے ایوان سے اراکین قومی اسمبلی کو اغوا کیا گیا، ہمارے ایم این ایز کی تقاریر سینسر کر دی جاتی ہیں۔ اڈیالہ جیل کے باہر پارلیمنٹیرینز پر تشدد ہوتا ہے مگر یہ ہر معاملے میں ممبران قومی اسمبلی کی نمائندگی میں ناکام رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حیران کن طور پر الیکشن دھاندلی کی اپیل چیف الیکشن کمشنر ہی کے پاس جارہی ہے جو اس دھاندلی کا سہولت کار اور مینڈیٹ چوروں کی ٹیم “بی” ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کا مقصد ہی یہ تھا کہ 8 فروری کے الیکشن فراڈ کو تحفظ فراہم کیا جائے اور تحریک انصاف کو victimize کیا جائے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ محض حکومتی عدلیہ بن کر رہ گئی ہے۔ ہم سے مخصوص نشستیں چھیننے کی پوری تیاری ہے مگر آپ سب نے حوصلہ نہیں ہارنا اور جم کر کھڑے رہنا ہے-“ اڈیالہ جیل میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو حق پر کھڑا ہوتا ہے وہ ہارتا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی کا قرآن پاک میں فرمان ہے کہ: “میں کسی ایسی قوم کو تباہ نہیں کرتا جو حق سچ پر کھڑی ہوتی ہے۔” حضرت علیؓ کا قول ہے کہ: “کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں-” جھوٹا اور دھوکے باز خود بخود بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ۹ مئی درحقیقت لندن پلان کا حصہ تھا جس کا مقصد ہی ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت تحریکِ انصاف کو ختم کرنا تھا۔ جس میں مجھے اور دیگر پارٹی اراکین اور کارکنان کو پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت جیل میں ڈالا گیا۔ ہمارا مینڈیٹ لوٹ کر چوروں کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ ہم پر ہر طرح کی فسطائیت کے پہاڑ توڑے گئے۔ ہمارے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں اور ہمیں پر جھوٹے کیسز بنائے گئے۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھی تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بطور وزیراعظم جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا تو عاصم منیر نے اپنے ذرائع سے بشریٰ بی بی تک رسائی کی کوشش کی کہ میں اس حوالے سے آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر بشریٰ بی بی نے صاف انکار کر دیا کہ میرا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا میں آپ سے ملاقات نہیں کرونگی۔ بشریٰ بی بی کی گزشتہ 14 ماہ کی ناحق قید اور جیل میں ناروا سلوک کے پیچھے جنرل عاصم منیر کا یہ انتقامی رویہ ہی کارفرما ہے۔ مجھے زیر کرنے کیلئے جس طرح میری اہلیہ بشریٰ بی بی کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے اس طرح پاکستان کی تاریخ میں آمریت کے دور میں بھی کبھی نہیں ہوا۔ ان پر اعانت کا الزام تھا جو کہ ثابت بھی نہیں ہوا۔ لہذا ایک کیس سے دوسرے میں گرفتاری ڈال دی جاتی ہے۔ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں جنکا سیاست سے کوئی تعلق نہیں- چار ہفتوں سے میری اپنی اہلیہ سے ملاقات بھی نہیں کروائی جارہی۔ جیل ضابطے کے مطابق کل میری اپنی اہلیہ سے ملاقات کا دن طے تھا مگر عدالتی حکم کے باوجود طے شدہ شیڈول کے مطابق ہماری ملاقات نہیں کروائی گئی۔ نو مئی کے مقدمات پر فیصلے کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کل ہمارے ایک ایم این اے عبدالطیف چترالی کو ۹ مئی کے جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے، کس ثبوت کی بنیاد پر؟ اسی طرح ڈاکٹر یاسمین کو جیل میں رکھا گیا ہے اور شاہ محمود قریشی اگر مطلوبہ بیان دے دیں تو انہیں قید سے خلاصی مل جائے۔ انسدادِ دہشتگردی عدالت اور تمام ججز سب ملے ہوئے ہیں کیونکہ ۹ مئی کی جو سی سی ٹی وی فوٹیجز چوری ہوئی ہیں ججز ان کو پیش کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ کسی جج نے ہمت نہیں کی کہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج منگوائے اور ثبوتوں کی روشنی میں فیصلہ سنائے۔ ہم بے قصور ہیں اور ہمارے لوگوں کو ثبوتوں کی عدم موجودگی اور بغیر فئیر ٹرائل کے سزائیں سنائی گئی ہیں۔ ہم تمام عدالتوں میں ۹ مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیج منگوانے کیلئے درخواست دیں گے۔ میں نے ۹ مئی اور 26 نومبر کے قتل عام کی منصفانہ تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ پاکستان میں عدلیہ اتنی disgraceful کبھی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ پہلے ایک جسٹس منیر تھا جسے اسکے ناجائز فیصلے کے باعث دنیا جانتی تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بھی وہی روش اختیار کی۔ اب سارے ججز ملے
انڈین ائیر چیف کے بعد کانگریس لیڈر بھی بول پڑے: ’دھند صاف ہورہی ہے‘

انڈین ائیر چیف کے انٹرویو کے بعد اپوزیشن جماعت انڈین کانگریس کے لیڈر کا بیان بھی سامنے آیا ہے، کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے اپنے سوشل میڈیا ہینڈل پر بلومبرگ ٹی وی کودی گئی سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان کی یہ ویڈیو شیئر کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ 29 جولائی 1999 کواس وقت کی واجپائی حکومت نے موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے والد اور سٹریٹجک امور کے ماہر کے سبرامنیم کی صدارت میں کارگل ریویو کمیٹی تشکیل دی تھی۔ India’s military confirmed for the first time that it lost an unspecified number of fighter jets in clashes with Pakistan in May. Anil Chauhan, chief of defense staff of the Indian Armed Forces, spoke to Bloomberg TV on Saturday, while attending the Shangri-La Dialogue in… pic.twitter.com/9y3GW6WJfn — Bloomberg TV (@BloombergTV) May 31, 2025 انہوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ یہ کمیٹی کارگل جنگ ختم ہونے کے تین دن بعد بنائی گئی تھی اور اس نے پانچ ماہ میں اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ ضروری ترامیم کے بعد یہ رپورٹ ’حیرت سے حساب تک‘ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کی گئی تھی۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ کیا سنگاپور میں چیف آف ڈیفنس سٹاف کی طرف سے دی گئی معلومات کے بعد مودی حکومت اب ایسا کوئی قدم اٹھائے گی؟ ادھر کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے بھی اپنے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ مودی حکومت نے ملک کو گمراہ کیا تھا، لیکن اب دھند صاف ہو رہی ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ مزید پڑھیں: انڈیا نے پاکستانی حملوں میں طیاروں کی تباہی تسلیم کرلی کانگریس صدر نے یہ بھی لکھا کہ کانگریس کا مطالبہ ہے کہ کارگل ریویو کمیٹی کی طرز پر ایک آزاد ماہر کمیٹی ملک کی دفاعی تیاریوں کا جائزہ لے۔ وزیر اتم کمار ریڈی نے بھی مودی سرکار کی سفارتی کمزوریوں اور غیر شفاف پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا، وزیر اتم کمار نے کہا ہے کہ انڈین رافال طیارے آپریشن سندور میں مار گرائے گئے۔ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے بھی رافال طیاروں کے گرنے کی تصدیق کی ہے۔ اُتم کمار نے مودی کو جھوٹا کہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت سچائی چھپانا بند کرے، حکومت کی طرف سے مسلسل انکار دراصل اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش ہے، جب امریکی صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا، تو بھارت کے ڈی جی ایم او کو کیوں خاموش رکھا گیا؟۔ تلنگانہ کے وزیر اُتم کمار نے انڈین عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومتی پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں اور اصل حقائق کو جاننے کی کوشش کریں۔
پاکستانی تنخواہ دار طبقے کو کن مسائل کا سامنا ہے، حل کیا ہوسکتا ہے؟

معروف اقتصادی تجزیہ کار مہتاب حیدر نے کہا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر اس مرتبہ بھاری ٹیکس مسلط کیے گئے ہیں اور یہ محض شکایت نہیں بلکہ ایک سنگین معاشی خطرے کی طرف اشارہ بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس کٹوتی تو براہ راست ہو جاتی ہے، لیکن ان کے حصے میں نہ سہولت آتی ہے نہ اعتراف، اگر ٹیکس کا یہ دباؤ برقرار رہا تو لوگ تنخواہیں نقد لینا شروع کر دیں گے، ٹیکس نیٹ سے نکل جائیں گے، یا پھر ملک چھوڑ کر باہر نوکریاں تلاش کریں گے۔ خاص طور پر وہ افراد جو پرائیویٹ سیکٹر کو چلا رہے ہیں، اور پالیسی سازی میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں، وہ خود کو حکومتی ملازم محسوس کرنے لگے ہیں، کیونکہ ٹیکس، سپر ٹیکس، اور سرچارچ ملا کر ان کی تنخواہ کا بڑا حصہ چھن جاتا ہے۔ مہتاب حیدر نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ چھ لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر جو ابتدائی ٹیکس لگتا ہے، اسے 1 فیصد تک کم کیا جائے، اور دیگر سلیبز میں بھی مڈل انکم طبقے کے لیے 2.5 فیصد کی نرمی کی جائے۔ اس کا بوجھ تقریباً 56 ارب روپے بنتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت یہ رقم کہاں سے پورا کرے گی؟ اگر ریلیف دینا ہے تو متبادل ذرائع آمدن بھی بنانے ہوں گے۔
آئی ایم ایف تنخواہ دار طبقے کوریلیف دینے پر رضامند، بجٹ میں کتنا ٹیکس لگے گا؟

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے پاکستان کے بجٹ کے حوالے سے ٹیکسوں کی شرح میں کمی بیشی کا عندیہ دیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل’جیو نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق اگلے بجٹ میں 214.2 ٹریلین روپے کے ہدف کے حصول کے لیے بجٹ سازوں کے لیے چیلنج ہوگا کیونکہ اگلے مالی سال کے ہدف کی بنیاد غیر مستحکم حالات پر رکھی جائے گی، خاص طور پر جب کہ 12.33 ٹریلین روپے کے کم کیے گئے ٹیکس وصولی کے ہدف کو پورا کرنے میں ٹیکس کی کمی بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے درمیان مذاکرات ہوئے، بات چیت میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کے معاملات زیر بحث آئے۔ آئی ایم ایف کے عملے نے اصولی طور پر تنخواہ دار طبقے کے مختلف سلیبز میں ٹیکس کی شرحوں کو کم کرنے کی وسیع اجازت دے دی ہے۔ آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اس کمی سے آئندہ مالی سال میں 56-60 ارب روپے کا ریلیف ملے گا، لہٰذا ایف بی آر کو اس خلا کو پر کرنے کے لیے انکم ٹیکس میں ٹیکس کے اقدامات تجویز کرنے ہوں گے۔ مذاکراتی ٹیم کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے تصدیق سامنے آئی ہے کہ ’ہم نے 10 جون کو پیش کیے جانے والے آئندہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ ٹیکس اقدامات تجویز کیے ہیں‘۔ اعلیٰ حکام نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے کی تجویز کردہ ٹیکس سلیبز میں کمی کا مکمل تعین ابھی تک نہیں ہوا ہے لیکن ایف بی آر نے پہلے سلیب یعنی سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک آمدنی والے افراد پر صرف ایک فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جو موجودہ 5 فیصد کی شرح سے کم ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان کا ایران سے تجارت بڑھانے کا اعلان، کتنا ہدف مقرر کیا گیا ہے؟ آئی ایم ایف پہلے سلیب سے 1.5 فیصد ٹیکس کی وصولی پر زور دے رہا ہے، لہٰذا اگر 1.5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تو افراد کو قومی خزانے میں 9000 روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ باقی سلیبز کے لیے تنخواہ دار طبقے کی ہر آمدنی کی سلیب میں ڈھائی فیصد کمی کی تجویز ہے، اور زیادہ سے زیادہ سلیب کی شرح کو 35 فیصد سے کم کرکے 32.5 فیصد کیا جائے گا تاہم، ابھی تک آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام کے درمیان مکمل لاگت کا درست حساب کتاب نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی اس پر اتفاق رائے ہوا ہے۔
اسرائیلی ٹینکوں نے امدادی مرکز پر گولے برسادیے، 31 نہتے افراد شہید، 150 زخمی

رفح میں ایک امدادی مرکز کے قریب اسرائیلی ٹینکوں کی شدید گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 31 فلسطینی شہید اور 150 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ مقامی صحافی محمد غریب نے بتایا کہ یہ واقعہ علی الصبح العالم گول چکر کے قریب پیش آیا، جہاں غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کا امدادی مرکز واقع ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق، اسرائیلی ٹینک اچانک نمودار ہوئے اور ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی۔ زخمیوں کو فوری طبی امداد کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی، کیونکہ جائے وقوعہ اسرائیلی کنٹرول والے علاقے میں تھا، جس کی وجہ سے امدادی ٹیمیں موقع پر نہیں پہنچ سکیں۔ اس صورتحال میں مقامی رہائشیوں نے لاشوں اور زخمیوں کو گدھا گاڑیوں پر لاد کر المواسی کے علاقے میں قائم ریڈ کراس فیلڈ ہسپتال پہنچایا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ ریڈ کراس نے تصدیق کی ہے کہ 31 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہوئے ہیں، جب کہ زخمیوں کو مزید طبی سہولیات کے لیے خان یونس کے ناصر ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ شہری دفاع کے ترجمان محمود بسال کے مطابق، “ہزاروں شہریوں پر اسرائیلی ٹینکوں کی گولہ باری” کے نتیجے میں یہ جانی نقصان ہوا۔ امدادی مرکز پر یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا جب رفح شدید انسانی بحران سے دوچار ہے۔ اسرائیلی کارروائیوں کے سبب علاقے میں خوراک، طبی سہولیات اور امدادی رسائی سخت متاثر ہوئی ہے۔ ہفتے کے روز بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئے جب سینکڑوں شہری امدادی ٹرکوں کی طرف دوڑے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق، غزہ میں بھوک اور مایوسی کی شدت نے انارکی جیسی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ جی ایچ ایف نے رواں ہفتے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دو ملین کھانے تقسیم کیے، مگر نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ وہ اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب امریکا اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے امریکی تجویز پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ متعدد فلسطینی قیدیوں کے بدلے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو زندہ اور 18 کو مردہ حالت میں رہا کرنے کو تیار ہے۔ تاہم، اس نے مستقل جنگ بندی، غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلاء اور امدادی سامان کے بلا تعطل بہاؤ کی شرط بھی دہرائی ہے، جو فی الحال مجوزہ معاہدے میں شامل نہیں ہے۔ امریکی ایلچی اسٹیو وٹ کوف نے حماس کے موقف کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ صرف امریکی تجویز ہی 60 دن کی جنگ بندی کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
خریدار پریشان، بیوپاری بے بس: اسلام آباد کی مویشی منڈی میں سناٹا کیوں ہے؟

عیدالاضحی قریب آتے ہی ملک بھر میں مویشی منڈیوں کی رونقیں بڑھ گئی ہیں، لیکن اس بار خوشی کے اس تہوار کے رنگ کچھ دھندلے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک طرف خریدار ہیں، جو محدود بجٹ کے ساتھ قربانی کی سنت ادا کرنے کی خواہش لیے منڈی کا رخ کر رہے ہیں، تو دوسری جانب بیوپاری ہیں، جو مہنگی خوراک، کرایوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہر طرف ایک ہی جملہ سنائی دیتا ہے: “جانور مہنگے ہیں!” معاشی دباؤ نے اس بار منڈی کے ماحول کو بدل دیا ہے۔ نہ پہلے جیسا جوش، نہ ہی قیمتوں میں وہ گنجائش جس پر سودے طے پاتے تھے۔ خریدار شکایت کرتے ہیں کہ عام سی قربانی کے جانور کی قیمت بھی ان کے بس سے باہر ہے، جبکہ بیوپاری اپنی مجبوریوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ نقصان میں بیچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یوں خریدار اور بیچنے والا دونوں پریشان، اور منڈی کا کاروبار تذبذب کا شکار ہے۔