بلوچستان میں شدت پسندوں کی لاشوں کا تنازع شدت اختیار کر گیا، لواحقین کا تدفین کی اجازت نہ ملنے پر احتجاج

بلوچستان کے ضلع کیچ میں ریاستی اداروں اور علیحدگی پسند تنظیموں کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں اب ایک نیا حساس تنازع سامنے آیا ہے، جس کا تعلق مبینہ شدت پسندوں کی لاشوں کی حوالگی سے ہے۔ تربت کے قریب ڈننک کے مقام پر (29 اپریل) کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے جانے والے تین افراد کی لاشیں (17 مئی) کو سکیورٹی فورسز نے کیمپ کے قریب واقع قبرستان میں دفنا دیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے لواحقین نے کہا کہ انھیں لاشیں حوالے کرنے سے انکار کیا گیا، جس کے باعث انھوں نے علامتی قبریں بنا کر اپنے پیاروں کی یادگار قائم کر دی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق متوفیوں میں سے ایک کی بہن، فضیلہ بلوچ نے تصدیق کی کہ ان کا بھائی علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ “وہ جو بھی تھا، اب مر چکا ہے، ہمیں صرف اس کی لاش دی جائے تاکہ ہم اس کی مناسب تدفین کر سکیں۔” رپورٹ کے مطابق لواحقین کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے لاشوں کی حوالگی کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ احتجاج کے دوران مظاہرین نے سی پیک روڈ بند کیا، جسے سکیورٹی اداروں کی مداخلت کے بعد ختم کرنا پڑا۔ لواحقین نے یہ بھی کہا کہ انھیں دھمکیاں دی گئیں اور بالآخر انہوں نے تین علامتی قبریں بنوا کر اس میں مرنے والوں کی ذاتی اشیاء دفن کر دیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ “اگر لواحقین آئیں، ضابطے کی کارروائی مکمل کریں اور مانیں کہ مرنے والا دہشت گرد تھا تو حکومت کو لاشوں کی حوالگی سے کوئی مسئلہ نہیں۔” تاہم ان کا کہنا ہے کہ لاشیں اس لیے نہیں دی جاتیں تاکہ شدت پسندوں کو “گلوریفائی” نہ کیا جائے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن اور ماہر قانون رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق ریاست کو قانون اور بین الاقوامی کنونشنز کے تحت لواحقین کو لاشیں دینے کے حق کا احترام کرنا چاہیے، کیونکہ ایسا نہ کرنا اشتعال، غم و غصے اور بداعتمادی کو بڑھا سکتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے “مکران ریجن” کے کوآرڈینیٹر پروفیسر غنی پرواز کا کہنا ہے کہ “جنیوا کنوینشن سمیت بین الاقوامی قوانین کے مطابق لاشوں کے ساتھ عزت اور احترام کا سلوک کیا جانا چاہیے۔”
’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘ نے غزہ کے لیے امداد بند کر دی، آخر وجہ کیا بنی؟

امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ ‘غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن’ کی جانب سے غزہ میں امدادی کارروئیوں کو بند کر دیا گیا۔ ابتک کی اطلاعات کے مطابق فیصلہ گزشتہ روز امدادی کیمپ پر ہونے والی فائرنگ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ‘غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن’ نے آج سے غزہ میں امداد کی تقسیم بند کر دی ہے۔ گزشتہ روز (منگل) اسرائیلی فوج نے امدادی مرکز کے قریب خوارک کے حصول کے لیے آئے معصوم اور نہتے شہریوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں کم از کم 27 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس سنگین صورتحال کے پیش نظر فاؤنڈیشن کی جانب سے امداد کو بند کیا گیا۔ فاؤنڈیشن نے اسرائیلی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پیدل آنے والے شہریوں کے لیے راستوں کی بہتر رہنمائی فراہم کریں تاکہ وہ فوجی حدود کے قریب جانے سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، شہریوں کی حفاظت کے لیے تربیت میں اضافہ کرنے اور تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، منیٰ میں عازمین کی آمد جاری ترجمان غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے مطابق ان کی اولین ترجیح امداد کے منتظر شہریوں کی حفاظت اور وقار کو یقینی بنانا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے ان افراد پر گولی چلائی جنہیں وہ خطرہ سمجھتے تھے، اگرچہ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ واقعہ ان کی تقسیم کی جگہ سے کافی دور پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق امداد لینے والوں میں بھوک کی شدت اس قدر تھی کہ لوگ بغیر کسی نگرانی یا ترتیب کے امدادی ڈبوں پر ٹوٹ پڑے، اور وہاں شناخت یا کنٹرول کا کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے اس واقعے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ عام شہری خوراک حاصل کرنے کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں، امریکا اور اسرائیل کی حمایت سے چلنے والا یہ ماڈل امداد کی تقسیم کا غیر مؤثر اور خطرناک طریقہ بن چکا ہے۔ واضح رہے کہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن نے صرف ایک ہفتہ پہلے کام شروع کیا تھا اور اب تک 70 لاکھ سے زائد کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ تاہم موجودہ صورت حال کے پیش نظر امداد کا سلسلہ عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔ فاؤنڈیشن کے عبوری ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ وہ ہر اس فریق کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو یہ چاہتا ہے کہ امداد ان لوگوں تک پہنچے جو اس پر انحصار کر رہے ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پر ووٹنگ ہونے جا رہی ہے جس میں جنگ بندی اور غزہ میں بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ غزہ اس وقت شدید قحط اور افراتفری کی لپیٹ میں ہے، جہاں امداد حاصل کرنا خود ایک خطرناک عمل بن چکا ہے۔
شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی خفیہ اطلاع پر کارروائی، ’14 بھارتی اسپانسرڈ’ خوارج ہلاک

سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں خفیہ اطلاع پر ایک اہم اور فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے بھارتی سرپرستی میں سرگرم 14 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، (دو اور تین جون 2025) کو شمالی وزیرستان کے حساس علاقے دتہ خیل میں دہشتگردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملنے پر سیکیورٹی فورسز نے بروقت اور بھرپور ایکشن لیا۔ کارروائی کے دوران دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں چودہ دہشتگرد مارے گئے۔ یہ تمام دہشتگرد بھارتی ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کی کوششوں میں ملوث تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ہلاک ہونے والے خوارج علاقے میں تخریبی کارروائیوں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانے میں ملوث تھے۔ ان دہشتگردوں کو بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی اور یہ ملک دشمن عناصر پاکستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں مصروف تھے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ علاقے میں کلیئرنس اور سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے تاکہ ممکنہ طور پر چھپے ہوئے دیگر دہشتگردوں کا بھی خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر ہر زاویے سے مکمل سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے تاکہ امن و امان کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز مادرِ وطن سے دہشتگردی کے ناسور کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہیں اور ایسے تمام عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں جاری رہیں گی جو پاکستان کے خلاف بیرونی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارتی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دشمن قوتیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں، تاہم پاکستانی فورسز ہر سازش کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ملک کی سلامتی کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والی یہ کامیاب کارروائی اس بات کی غماز ہے کہ پاکستانی فورسز نہ صرف چوکنا ہیں بلکہ دشمن کے کسی بھی ناپاک عزائم کو بروقت اور بھرپور جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ شمالی وزیرستان میں ہونے والی اس کارروائی پر صدر مملکت آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ صدر مملکت نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ انسانیت کے دشمن دہشت گردوں کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیں گے اور دہشت گردی کی عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے 14 دہشت گردوں کی ہلاکت کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ قوم سیکیورٹی فورسز کیصدر مملکت نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ ان کارروائیوں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں خارجیوں کو چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی اور ملک کی سرزمین سے ایک ایک خارجی کا مکمل صفایا کیا جائے گا۔
ایرانی شہر سرباز میں دو پاکستانیوں کا قتل، وجہ بھی سامنے آگئی

ایران کے سرحدی شہر سرباز میں گزشتہ روز دو پاکستانی شہریوں کو قتل کیا گیا جس کی وجہ بھی سامنے آ گئی ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ملزمان نے پاکستانی شہریوں کو ویڈیو بھیج کر تاوان طلب کیا اور پاکستانیوں کے انکار کرنے پر قتل کر دیا گیا۔ ڈان نیوز کے مطابق مقتولین کا تعلق پاکستان کے دو مختلف شہروں، احمد پور شرقیہ اور کراچی سے تھا اور دونوں ایران میں حجام کی دکان پر کام کرتے تھے۔ یہ بھی پڑھیں: مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، منیٰ میں عازمین کی آمد جاری قتل ہونے والے مجاہد کے بھائی نے بتایا کہ وہ کئی سال سے ایران میں محنت مزدوری کر رہا تھا اور گزشتہ رات اس کے قتل کی ویڈیو ملزمان کی طرف سے بھجوائی گئی۔ دوسرے مقتول محمد فہیم کے بھائی فاروق کے مطابق ملزمان نے بھائی کو اغوا کرکے تاوان طلب کیا تھا، حکومت سے مطالبہ ہے بھائی کی لاش لانےکا انتظام کیا جائے۔ یاد رہے کہ دو ماہ قبل بھی ضلع بہاولپور سے تعلق رکھنے والے 8 مزدوروں کو ایران میں قتل کردیا گیا تھا۔ ان افراد کو مبینہ طور پر 12 اپریل کو ایران کے ضلع مہرستان میں ایک ورکشاپ میں نامعلوم مسلح افراد نے ہاتھ پاؤں باندھ کر گولی مار کر قتل کر دیا تھا، وہ تقریباً 5 سال سے اس علاقے میں موٹر مکینک کے طور پر کام کر رہے تھے۔ واضح رہے کہ قانونی طریقہ کار اور ضروری دستاویزات مکمل کرنے کے بعد مرنے والوں کی میتیں زاہدان میں پاکستان کے قونصل جنرل کے حوالے کردی گئی تھیں۔
امریکہ کا اسٹیل و ایلومینیم پر درآمدی ٹیکس 50 فیصد کرنے کا اعلان، برطانیہ کو عارضی استثنیٰ حاصل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر عائد محصولات کو دوگنا کرتے ہوئے (25) فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ فوری نافذ العمل ہو گا جس کا مقصد امریکی اسٹیل صنعت کو تحفظ فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے رواں سال مارچ میں پہلے ہی ان دھاتوں پر ٹیکس لگایا جا چکا تھا جس کے بعد اب یہ دوسرا اضافہ ہے۔ ان دھاتوں کا استعمال گاڑیوں سے لے کر خوراک کے ڈبوں تک میں ہوتا ہے، جس سے صارفین اور صنعتوں پر براہِ راست اثر پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے ایک ریلی کے دوران کہا: ’’ہم ٹیکس کو اتنا بلند کر رہے ہیں کہ کوئی بھی درآمدی متبادل باقی نہ رہے۔ 25 فیصد پر کمپنیاں گزر سکتی ہیں، مگر 50 فیصد پر وہ اس رکاوٹ کو عبور نہیں کر سکیں گی۔‘‘ انھوں نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی سے متعلق قوانین کے تحت کیا گیا ہے، تاہم بہت سی درآمدات کو اس سے استثنیٰ بھی دیا گیا تھا، جنہیں اب ختم کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب، برطانیہ کو اس فیصلے سے جزوی استثنیٰ حاصل ہے اور اس پر سابقہ 25 فیصد ڈیوٹی ہی لاگو رہے گی۔ برطانوی وزیر تجارت جوناتھن رینالڈز نے اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ اس تجارتی معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔ امریکی اسٹیل انڈسٹری انسٹیٹیوٹ کے مطابق، مئی تک امریکہ میں خام اسٹیل کی پیداوار اور درآمدات میں نمایاں فرق نہیں آیا، تاہم اپریل میں اسٹیل کی درآمدات میں 17 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ کاروباری اداروں کا کہنا ہے کہ 50 فیصد ٹیکس کے بعد یہ کمی مزید بڑھے گی۔ یورپی کمیشن کے ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ساتھ سخت مذاکرات جاری ہیں اور امید ہے کہ واشنگٹن اپنی حالیہ تجارتی پالیسی پر نظر ثانی کرے گا۔ یوکے اسٹیل کے ڈائریکٹر جنرل گیریتھ اسٹیس نے کہا کہ نئے ٹیکس کی وجہ سے ان کے اراکین کی برآمدی آرڈرز منسوخ ہو رہے ہیں، اور اگر (50) فیصد ڈیوٹی لاگو کی گئی تو یہ “تباہ کن” ثابت ہوگی۔ ٹیکس فاؤنڈیشن کی نائب صدر ایریکا یورک نے خبردار کیا کہ ماضی کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے محصولات سے روزگار کے مواقع میں کمی آتی ہے، خاص طور پر ان صنعتوں میں جو اسٹیل اور ایلومینیم کو خام مال کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ ایلینوئے میں واقع ایک چھوٹے کاروبار ’’ڈرل راڈ اینڈ ٹول اسٹیلز‘‘ کے سپلائی چین ڈائریکٹر چَیڈ بارٹوسیک کا کہنا تھا کہ اب انہیں اپنی اسٹیل درآمدات پر تقریباً (145,000) ڈالر اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ “یہ ایک کے بعد ایک دھچکا ہے۔ امید ہے یہ صورتحال جلد معمول پر آجائے گی۔”
’بھاؤ تاؤ کرتے، صحیح قیمت نہیں دیتے‘، مویشی منڈیوں میں بیوپاریوں کا گاہکوں سے شکوہ

عیدالاضحی کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں چہل پہل بڑھ گئی ہے۔ لیکن ان سب کے بیچ ایک کشمکش بھی جاری ہے۔ خریدار شکایت کرتے ہیں کہ جانور بہت مہنگے ہیں جبکہ بیوپاری شکوہ کرتے ہیں کہ جانور انہیں مل ہی مہنگے داموں رہے ہیں تو وہ سستا کیسے بیچیں؟ منڈی میں دونوں طرف سے بولیاں لگتی ہیں لیکن سودا کم ہی طے ہوتا ہے۔ بیوپاری کہتے ہیں کہ جس جانور کی قیمت وہ 4 لاکھ بتاتے ہیں خریدار صرف 2 لاکھ دینے کو تیار ہوتے ہیں، اسی وجہ سے معاملہ آگے نہیں بڑھتا۔
مارشل لا کے نفاذ کے بعد ’لی جے میونگ‘ جنوبی کوریا کے نئے صدر منتحب ہوگئے

لی جے میونگ جنوبی کوریا کے انتخابات جیت کر ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے غربت میں بچپن گزارا اور عدم مساوات و بدعنوانی کے خلاف لڑتے ہوئے ایک نمایاں لبرل سیاست دان کے طور پر شہرت حاصل کی۔ انتخابات سے پہلے ملک سیاسی طور پر ایک شدید غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا تھا، جس کا آغاز یون سک یول کی برطرفی سے ہوا۔ یون ایک قدامت پسند صدر تھے، دسمبر میں مارشل لا کے مختصر اور متنازع نفاذ کے بعد اقتدار سے ہٹا دیے گئے تھے۔ 60 سالہ لی ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار تھے اور اب پانچ سالہ مدت کے لیے ملک کی قیادت سنبھالیں گے۔ ان کی جیت کو قدامت پسندوں کے خلاف عوامی ردعمل کا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر مارشل لا کے واقعات کے بعد سے ملک میں غم و غصے کی لہر موجود تھی۔ یہ بھی پڑھیں: مناسکِ حج کا آغاز ہوگیا، منیٰ میں عازمین کی آمد جاری اگرچہ لی کے بارے میں یہ خدشات پائے جاتے رہے ہیں کہ وہ چین اور شمالی کوریا کے ساتھ نرم رویہ رکھتے ہیں اور امریکا و جاپان سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار اس بات پر زور دیا کہ جنوبی کوریا اور امریکا کا اتحاد ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ لی کو عالمی سطح پر چند بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا، جن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت ٹیرف پالیسیوں کا دباؤ اور شمالی کوریا کا مسلسل ابھرتا ہوا جوہری پروگرام شامل ہیں۔ لیکن مبصرین کا ماننا ہے کہ خواہ کوئی بھی صدر بنتا، ان مسائل میں نمایاں بہتری کی توقع کم ہی تھی۔ منگل کے روز ہونے والے انتخابات میں 99 فیصد سے زائد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر یہ واضح ہو چکا تھا کہ لی کو 49.3 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں، جبکہ ان کے حریف کم مون سو صرف 41.3 فیصد ووٹ لے پائے۔ اس واضح فرق کے بعد کم نے عوامی طور پر شکست تسلیم کر لی اور لی کو مبارکباد دی، یہ کہتے ہوئے کہ وہ عوام کے فیصلے کو عاجزی سے قبول کرتے ہیں۔ فتح کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی، لی سیول کی سڑکوں پر اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے نمودار ہوئے۔ انہوں نے اگرچہ باضابطہ جیت کا اعلان نہیں کیا، لیکن اپنی ترجیحات واضح کیں، جن میں معیشت کو بحال کرنا، شمالی کوریا کے ساتھ امن کی کوششوں کو بڑھانا، اور اندرونی سیاسی و سماجی تقسیم کو کم کرنا شامل ہے۔ لی نے اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب اختلافات کے باوجود سب کو ایک ساتھ چلنا ہو گا، کیونکہ تمام شہری جمہوریہ کوریا کے برابر کے حصے دار ہیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس موقع کو ایک نئی شروعات کے طور پر لیں اور امید کے ساتھ مستقبل کی طرف بڑھیں۔
مناسک حج کا آغاز، لاکھوں عازمین حج میدان عرفات میں جمع

مکہ مکرمہ میں لاکھوں حجاج کرام موجود ہیں جو پوری دنیا سے یہاں پہنچے ہیں۔ ہر سال حج کے موقع پرمسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ اس سال تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار پاکستانی عازمین بھی مشاعر کی ٹرینوں اور بسوں کے ذریعے میدان عرفات پہنچ چکے ہیں۔ عازمین حج نے مسجد نمرہ میں خطبہ حج سنا جو مسجد الحرام کے امام، شیخ صالح بن عبداللہ نے دیا، خطبہ حج کو 35 زبانوں میں ترجمہ کر کے نشرکیا گیا۔ اذان مغرب کے بعد نماز پڑھے بغیر حجاج کرام میدان عرفات سے مزدلفہ روانہ ہوں گے۔ مزدلفہ میں حجاج کرام مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر پڑھیں گے۔ مزدلفہ میں حجاج کرام شیطان کو مارنے کیلئے کنکریاں جمع کریں گے اور پھر حجاج مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے رات گزاریں گے اور 10 ذوالحجہ کو وقوف مزدلفہ کے بعد رمی کیلئے روانہ ہوں گے۔ پھر حجاج بڑے شیطان کو 7 عدد کنکریاں ماریں گے اور قربانی کریں گے۔ حجاج کرام حلق کرانے کے بعد احرام کھول دیں گے۔ 11 ذوالحجہ کو حجاج کرام چھوٹے ،درمیانے اور بڑے شیطان کو سات سات کنکریاں ماریں گے۔ رمی جمرات کے بعد حجاج کرام طواف زیارت کیلئے خانہ کعبہ روانہ ہوں گے، طواف زیارت کے بعد حجاج کرام صفا مروہ کی سعی کریں گے۔ 12 ذوالحجہ کو زوال آفتاب کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جائیں گی۔ 13 ذوالحجہ کو حجاج کرام رمی جمرات کے بعد منی سے اپنی رہائش گاہ روانہ ہوجائیں گے۔ ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق پاکستانی عازمین کو سعودی سرکاری کمپنی سے 442 بسیں ملی ہیں، پاکستان حج مشن نے نجی کمپنی سے 510 اضافی بسیں حاصل کی ہیں۔ ترجمان وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ مشاعر کے دوران 25 ہزار 861 عازمین بسوں سے روانہ ہوں گے۔ 62 ہزار پاکستانی عازمین ٹرین کے ذریعے مشاعر کا سفر کریں گے۔ ترجمان وزارت مذہبی امور کے مطابق جمعرات سے حرم کیلئے سرنگوں کے ذریعے 4 کلومیٹر راستہ پیدل طے ہوگا، پاکستانی عازمین جمعرات سے حرم کیلئے سعودی شٹل سروس بھی استعمال کرسکیں گے۔
’تحریک انصاف جماعت نہیں ایک ’کیفیت‘ ہے‘

دانشوروں کی محفل میں یہ جملہ سنا تو میں چونک گیا،یہ اس وقت کی بات ہے جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کیلئے رواں دواں تھے تو وفاق اور پنجاب ان کو روکنے کی کوشش کررہا تھا،علی امین گنڈاپور اپنے مقاصد میں تو کامیاب نہ رہے اور خوساختہ’اغواء‘کے بعد کے پی اسمبلی میں خوب گرجے اور گرجتے رہے۔ اب دانش بھی سیاست کی دھول میں کہیں کھو گئی ہے مگر جو نیوٹرل ہیں وہ ریاست کو مقدم رکھتے ہیں اور سیاست ان کیلئے ثانوی چیز ہے،پی ٹی آئی کے حامی اس بات پر بضد تھے کہ انقلاب آرہا ہے اور مخالف دانشور قائل کرنے کی کوشش کررہے تھےکہ یہ محض ہوا کا بگولہ ہے۔ وہی ہوا جس کا ڈرتھا۔ سڑکوں پر جوش و جوش کم ہوا تو نعرے بھی ماند پڑ گئے،سوشل میڈیا پر چلے’انقلاب انقلاب‘ کے ٹرینڈز ختم ہوتے گئے،اب تو ’ہم کوئی غلام ہیں‘ کا نعرہ بھی بدل چکا اور Absolutely Not بھی کہیں کھوگیا ہے۔اب تو ہر جگہ ایک ہی نعرہ ہے’ٹرمپ زندہ باد‘۔امریکا مردہ بادکے نعرے لگانے والے اب اسی امریکا سے امیدیں باندھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ ہی مرشد کو واپس لائیں گے‘۔ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کو بہترین دوست قرار دیتے رہے ہیں،عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ سے اِس قدر متاثر تھے کہ وہ اپنے دور حکومت میں دورہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد وطن لوٹے تو اِن کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ میں امریکہ سے ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں ۔پھر اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اورعمران خان کی شخصیات کی بات کریں تو دونوں میں بہت سی مماثلت پائی جاتی ہے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کو دیکھیں تو اُن کی شخصیت میں خود پسندی اور انا اور جارحانہ پن پایا جاتا ہے ۔ٹھیک ویسے ہی بانی پی ٹی آئی کے بارے میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ انا پرست اور جارحانہ انداز کے مالک ہیں جو اپنے مخالفین کیخلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں، پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عمران خان کو بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں قیمتی گھڑی سمیت خطیر مالیت کے غیر ملکی تحائف ظاہر نہ کرنے پر 5 سال کیلئے الیکشن میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا جاچکا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی دور ِصدارت میں ملنے والے غیر ملکی تحائف ظاہر نہ کرنے کے مقدمے کا سامنا رہا ہے، عمران خان 9 مئی کو اپنے حامیوں کو عسکری تنصیبات پر حملے پر اُکسانے جیسے سنگین مقدمات کا بھی عدالتوں میں سامنا کررہے ہیں۔ مزید پڑھیں: کھیت اجڑ گئے، کسان رو رہے ہیں، مریم سرکار کہاں ہے؟ بانی پی ٹی آئی جی ایچ کیو سمیت دیگر عسکری تنصیبات پر حملوں ، بغاوت کی منصوبہ بندی کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے ہیں اور عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔ اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کو 6 جنوری سنہ 2021 کو یو ایس کیپیٹل ہل پر حملے کے لیے لوگوں کو اکسانے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔اِسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان یوٹرن لینے کی مماثلت بھی پائی جاتی ہے جبکہ دونوں کی نجی زندگی خواتین کے حوالے سے اسکینڈلز اور تنازعات کا شکار رہی ہے۔پھر ٹرمپ پر انتخابی مہم چلانے کے دوران دو بار قاتلانہ حملہ ہوا۔ پھر اِسی طرح بانی پی ٹی آئی پر ایک ریلی کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا ۔لیکن اِن قاتلانہ حملوں میں دونوں رہنما صرف زخمی ہوئے اور اُن کی جان محفوظ رہی، صدارتی انتخابات کی جیت پر بات کی جائے تو سوشل میڈیا نے ٹرمپ کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ،اسی طرح عمران خان بھی مقبولیت اور جیت کا کریڈٹ سوشل میڈیا کو دیتے رہے ہیں،عمران خان جو نعرہ اور سمت دیتے ہیں سوشل میڈیا پر ان کے فالورز اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کے فالوورز ’بلائنڈ لورز‘ ہیں جو اپنے قائد کےجھوٹ کو بھی سچ مانتے ہیں،یہی وہ چیز جو ’تحریک انصاف ایک فرقہ ہے‘جیسے جملوں کو تقویت دیتی ہے مگر میں اس کو نہیں مانتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بارامریکی صدربن کرشاید اپنے ’دوست‘ کو بھول گئے ہیں کیونکہ وہ اس وقت حکومت پاکستان کے گن گاتے پائے جاتے ہیں، ٹرمپ کی اس ’بھول‘ پر عمران خان کے فالوورز کچھ بولتے نہیں مگر مزید غلط فہمیوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ اس وقت ایک اور تھیوری زیر گردش ہے کہ عصرحاضر کے حکمرانوں پر’غداری‘ کا مقدمہ ہوگا، یہ سب جیل جائیں گے اور خان صاحب باہر آئیں گے۔ اس کے پیچھے یہ منطق بتائی جاتی ہے کہ انڈیا کے خلاف پاکستان نے جو کیا وہ محض ’سوشل میڈیا‘ مہم تھی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان صاحب اپنی پارٹی کے چیئرمین تو رہے نہیں ، اب انہوں نے اپنے آپ کو ’پیٹرن انچیف‘ قرار دے دیا ہے، جس کی سوشل میڈیا پر خوب بھد اڑائی جارہی ہے ۔ انہی پیٹرن انچیف نے جیل سے اپنی ’رہائی‘ کی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، یہ احتجاج پہلے سے مختلف ہوگا، اب اسلام آباد آنے کے بجائے شہر شہر میں مظاہرے کیے جائیں گے، کارکنوں کو فعال کیا جائے گا۔ اب یہ احتجاج تحریک بنے گا یا پھرآخری سانسیں لیتی پی ٹی آئی کی سیاسی موت بنے گا؟۔ اس کا فیصلہ وقت کرے گا کیونکہ نہ تو وقت عمران خان کے ساتھ ہے اور نہ حالات۔ اب مقبولیت بھی وہ نہیں رہی جو کبھی ’سہولتکاروں‘ کے ذریعے مہیا تھی۔ مبین خیرآبادی نے شاید خان صاحب کے فالوورز کی ہی کیفیت کی بات کی تھی جس میں وہ مبتلا ہیں کیفیت ہی کیفیت میں ہم کہاں تک آ گئے بے خودی وہ تھی کہ ان کے آستاں تک آ گئے وقت کی رو میں بہے تھے جانے کس انداز میں یہ خبر بھی ہو نہ پائی ہم کہاں تک آ گئے
دفاعی اخراجات، غیرملکی قرضوں کا بوجھ: آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ عام پاکستانی کے لیے کیسا ہوگا؟

آئی ایم ایف کے تیار کردہ بجٹ پر بات کرتے ہوئے اسلام آباد کی ایک چھوٹی سی ورکشاپ میں کام کرنے والے عامر حسین کا چہرہ مایوسی کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے، تب سے سنتا آ رہا ہوں کہ ملک کا بجٹ خسارے میں جا رہا ہے، لیکن مہنگائی کی شکل میں ہم عوام ہی کیوں قیمت چکائیں؟ ان کی آواز میں وہ درد اورلہجے میں غصہ تھا جو آج کل تقریباً ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ 2025 کے وفاقی بجٹ کے خدوخال پر مبنی جو ابتدائی معلومات سامنے آئی ہیں، ان سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ اس بار کا بجٹ بھی عام پاکستانی کے لیے سہارا نہیں بلکہ ایک نیا بوجھ ہوگا۔ آئی ایم ایف کے مطالبات کے تحت بننے والا یہ بجٹ نہ صرف ٹیکسوں میں اضافے کی نوید لا رہا ہے بلکہ سبسڈی میں واضح کمی، توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ اور دفاعی اخراجات میں نمایاں بڑھوتری جیسے عناصر بھی شامل ہیں۔ اس بجٹ میں جہاں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے، وہیں متوسط اور نچلے طبقے کے لیے کوئی ریلیف دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی ہیں۔ رواں برس کی معاشی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ264 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جس میں سے ایک بڑی رقم صرف سود کی ادائیگی میں جا رہی ہے۔ اس وقت ملک کا ہر شہری تقریباً تین لاکھ روپے کا مقروض ہے، چاہے وہ مزدور ہو یا طالب علم۔ دفاعی اخراجات کے حوالے سے بھی بجٹ میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال میں دفاعی بجٹ 20 فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے، جو کہ تقریباً 2.2 ٹریلین روپے کے قریب ہو جائے گا۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک کے تعلیمی، صحت اور سوشل ویلفیئر کے شعبے مسلسل زوال پذیر ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بجٹ کی ترجیحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے “پاکستان میٹرز” نے لاہور یونیورسٹی کے ایک ٹیکنالوجی ریسرچر، ڈاکٹر آصف محمود سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ “حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف جا رہی ہے اور ہم ابھی تک اپنے اسکولوں میں کمپیوٹر لیبز مکمل نہیں کر سکے۔ بجٹ میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے بہت کم فنڈز مختص کیے جاتے ہیں اور جو کیے جاتے ہیں وہ بھی شفافیت کے بغیر خرچ ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور گرین انرجی کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر بجٹ میں ان شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے، تو ہم صرف خود کفیل نہیں بلکہ برآمدات میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس، بجٹ کا رخ ہمیشہ روایتی شعبوں کی طرف ہی ہوتا ہے۔ اسلام آباد کی ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنے والی شمائلہ قریشی کا”پاکستان میٹرز” سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم آئی ٹی کے شعبے میں عالمی مارکیٹ کا صرف ایک فیصد بھی حاصل نہیں کر سکے، حالانکہ پاکستان میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ اگر بجٹ میں فری لانسنگ اور اسٹارٹ اپس کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور ان کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں، تو ہم نہ صرف نوجوانوں کو روزگار دے سکتے ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی مستحکم بنا سکتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیک بزنس اونرکراچی، کامران جاوید کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ہمیشہ دفاع، قرضوں کی ادائیگی اور بیوروکریسی کی مراعات کو اولین ترجیح دی جاتی ہے اور اصل ترقیاتی کام پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی کمپنی کے لیے درآمدی مشینری خریدنے کی کوشش کی، لیکن کسٹم ڈیوٹی اتنی زیادہ ہے کہ کاروبار کا آغاز ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے نظام کا نتیجہ ہے جو عام شہری کے بجائے اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ 2025 کے بجٹ میں جہاں عام آدمی کے لیے روزمرہ کی ضروریات مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے، وہیں موبائل فونز، لیپ ٹاپس اور دیگر الیکٹرانک اشیاء پر ٹیکسز میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تعلیم، آن لائن کام اور ڈیجیٹل کاروبار جیسے شعبے مزید متاثر ہوں گے۔ تنازعہ یہ ہے کہ ایک طرف آئی ایم ایف کا دباؤ ہے، جو چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے خسارے کو کم کرے اور ٹیکس نیٹ کو بڑھائے، تو دوسری طرف عوام پہلے ہی معاشی دباؤ سے نڈھال ہیں۔ حکومت کے لیے اب ایک نیا چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح ان دونوں قوتوں کے درمیان توازن قائم کرتی ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس بحران میں ہی پاکستان کے پاس اصلاحات کا ایک موقع بھی موجود ہے۔ اگر بجٹ کو محض رقم کے لین دین کا دستاویز سمجھنے کے بجائے اسے ایک وژنری پلان کے طور پر ترتیب دیا جائے، تو یہ معیشت کی سمت بدل سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت لائی جائے، امیروں سے ٹیکس وصول کیا جائے اور سرکاری اداروں کی فضول خرچیوں پر قدغن لگائی جائے۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ایک بار پھر ایک سخت امتحان بن کر سامنے آ رہا ہے۔ یہ بجٹ صرف اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ پاکستان کے عام آدمی کی زندگی پر براہ راست اثر انداز ہونے والا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ عوام کے اندر بےچینی بڑھ رہی ہے اور اگر بجٹ نے انہیں مزید پس ماندگی کی طرف دھکیل دیا، تو اس کے اثرات صرف معیشت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سماجی و سیاسی سطح پر بھی دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ واضح رہے کہ وقت آ گیا ہے کہ حکومتی حلقے اور پالیسی ساز طبقہ اس بجٹ کو عوام دوست بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ کیونکہ اگر عام پاکستانی ہی نظام سے مایوس ہو گیا، تو معیشت کے کسی بھی ماڈل یا منصوبے کی کامیابی محض ایک خواب ہی رہے گی۔