چترال کی پسماندگی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟

پاکستان کے شمال میں واقع خوبصورت مگر پسماندہ ضلع چترال آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ 2025 تک بھی یہاں صرف 20 کلومیٹر پکی سڑکیں موجود نہیں جو حکومت کی عشروں پر محیط غفلت کی کھلی عکاسی ہے۔ مقامی افراد سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “ہم صرف تصویروں میں ترقی دیکھتے ہیں، زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔” چترال جیسے سیاحتی، ثقافتی اور قدرتی اہمیت کے حامل علاقے میں سڑکوں کی کمی نہ صرف مقامی زندگی کو متاثر کرتی ہے بلکہ سیاحت اور معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کی اس خصوصی ویڈیو میں سینئر صحافی اسرار احمد اور بانی سی ڈی ایم، چیئرمین تورکھو تریچ روڈ فورم وقاص احمد ایڈووکیٹ نے چترال کے مسائل، بنیادی انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی اور عوامی احتجاج سمیت دیگر پہلوؤ پر گفتگو کی۔ اس ویڈیو رپورٹ میں چترال کے عوام کی آواز، ان کے مطالبات اور اس سوال کا جواب ہے کہ آخر چترال کی پسماندگی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
پاک افغان تعلقات میں تناؤ اور چین کا خاموش کردار

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ سرحدی صورتحال، تجارتی رکاوٹوں اور سیکیورٹی خدشات کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات نازک موڑ پر ہیں۔ ایسے میں چین ایک خاموش ثالث کے طور پر سامنے آیا ہے جو پس پردہ کشیدگی کم کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کے اس خصوصی ایپی سوڈ میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان نے بتایا کہ چین کس طرح پاک افغان سرحدی تنازعات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد اور کابل کے درمیان حالیہ سفارتی روابط، موجودہ چیلنجز، اور عوامی رویوں میں آتی تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈالی۔ کیا چین واقعی ان دو تاریخی حریف ہمسایہ ممالک کے درمیان فاصلے کم کر سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو اس کے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ سب جاننے کے لیے ویڈیو ملاخطہ کریں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ رات ایک نئے صدارتی حکم نامے پر دستخط کرتے ہوئے 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، جبکہ مزید سات ممالک کے شہریوں کو جزوی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں تارکین وطن کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات، سیاسی بحث و مباحثے اور نفرت انگیز حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق “کولوراڈو کے شہر بولڈر میں اسرائیلی یرغمالیوں کے حق میں نکالی گئی ایک ریلی پر حملے کے نتیجے میں 12 افراد زخمی ہوئے، اس واقع نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے غیر ملکی افراد جو مناسب طریقے سے ویریفائی نہیں کیے گئے، یا جو ویزا پر آ کر مدت ختم ہونے کے بعد واپس نہیں جاتے وہ امریکہ کے لیے شدید خطرہ ہیں۔” ٹرمپ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ “ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں۔ امریکہ کو ان ممالک سے آزادانہ ہجرت کی اجازت نہیں دینی چاہیے جہاں سے آنے والے افراد کی حفاظت اور جانچ پڑتال یقینی بنانا ممکن نہ ہو۔” ٹرمپ کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق 9 جون سے جن 12 ممالک کے شہریوں پر مکمل پابندی عائد ہو گی، ان میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سات ممالک کے شہریوں کو جزوی پابندیوں کا سامنا ہو گا جن میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔ اگرچہ پابندیاں سخت ہیں مگر چند مخصوص افراد کو ان سے استثنیٰ حاصل ہوگا۔ ان میں بین الاقوامی کھیلوں میں شرکت کرنے والے کھلاڑی، دوہری شہریت رکھنے والے افراد اور اسپیشل امیگرنٹ ویزا (SIV) رکھنے والے افغان شہری بھی شامل ہیں۔ مزید برآں امریکی وزیر خارجہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ “کیس ٹو کیس” بنیاد پر استثنیٰ دے سکتے ہیں، یعنی اگر کوئی فرد خاص حالات میں ہو تو اس کے لیے داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ فیصلہ میانمار کے تناظر میں سب سے زیادہ متنازع بن جاتا ہے۔ میانمار ایک ایسا ملک ہے جو اس وقت فوجی جبر، سیاسی بدامنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ وہاں سے بڑی تعداد میں شہری پناہ گزین بن کر امریکہ سمیت دنیا بھر میں پناہ لے چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں تقریباً اڑھائی لاکھ برمی شہری پہلے سے آباد ہیں، جن میں بڑی تعداد اُن افراد کی ہے جو فوجی حکومت کے ظلم و ستم سے جان بچا کر امریکہ پہنچے ہیں۔ نئی پابندیاں ایسے ہی مظلوم افراد کو نشانہ بنائیں گی، جو اپنے ملک میں جمہوریت کے لیے لڑ رہے ہیں یا ہمسایہ ممالک میں غیر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک ماہر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ “میانمار سے آنے والے افراد نے کبھی امریکہ میں دہشتگرد حملے نہیں کیے۔ یہ لوگ تو خود فوجی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ان پر پابندی عائد کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔” یہ فیصلہ امریکی معاشرے میں بھی شدید ردعمل کا باعث بنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، تارکین وطن کی حمایت کرنے والے اداروں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے اس فیصلے کو “غیر انسانی، غیر ضروری اور سیاسی مقاصد کے تحت” قرار دیا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اس فیصلے کے ذریعے اپنی انتخابی مہم کو تقویت دینا چاہتے ہیں تاکہ قدامت پسند ووٹروں کو خوش کیا جا سکے جو امیگریشن کو امریکہ کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک سابق سفارتکار نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “یہ صرف قومی سلامتی کا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی بیانیہ ہے جو خوف، شکوک اور نفرت کو ہوا دیتا ہے۔” نئی پالیسی سے نہ صرف متاثرہ ممالک کے عام شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلہ ناممکن ہو جائے گا بلکہ وہ ہزاروں افراد بھی متاثر ہوں گے جو پہلے سے امریکہ میں پناہ گزین حیثیت اختیار کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ واقعی عالمی انسانی حقوق کے محافظ ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یا یہ پالیسی صرف وقتی سیاسی فائدے کے لیے انسانی المیوں کو نظرانداز کر رہی ہے؟ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فہرست “مستقل نہیں” اور اگر کسی ملک کی حکومت شہریوں کی جانچ پڑتال کے نظام کو بہتر بنا لے تو اس پر سے پابندی ہٹائی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ ایک طویل اور غیر یقینی عمل ہے، جس کا خمیازہ ان لاکھوں افراد کو بھگتنا پڑے گا جو پہلے ہی مصیبت زدہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انڈیا سے مذاکرات کے لیے تیار لیکن بھیک نہیں مانگ رہے، اسحاق ڈار

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ دنیا نے پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی بالادستی کے دعوؤں کو ہوا میں اڑتے دیکھا۔ پاکستان نے اس کشیدگی میں انڈیا کے چھ لڑاکا طیارے اور ایک بغیر پائلٹ طیارہ (یو اے وی) مار گرایا۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان کے دفاعی اقدامات کو جہاں عالمی سطح پر سراہا گیا، وہیں سفارتی محاذ پر بھی پاکستان کی کوششوں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔ خود بھارت کے اندر بھی پاکستان کی کامیاب سفارتی سرگرمیوں پر تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس وقت جنگ بندی برقرار ہے، تاہم انڈیا کی طرف سے سیاسی بیان بازی جاری ہے، جس کا مقصد بھارتی انتخابات میں عوامی حمایت حاصل کرنا ہے۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن مذاکرات کی بھیک نہیں مانگ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جامع مذاکرات چاہتا ہے، جن میں دہشتگردی سمیت سندھ طاس معاہدے جیسے دیگر اہم امور شامل ہوں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر انڈیا نے پانی کی روانی میں رکاوٹ ڈالی یا روکنے کی کوشش کی تو یہ جنگ کے مترادف ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی قانون کے مطابق سندھ طاس معاہدے کو نہ معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اسحاق ڈار نے وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ چار ملکی دورے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم نے ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کا دورہ کیا تاکہ ان ممالک کی جانب سے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران پاکستان سے اظہار یکجہتی پر شکریہ ادا کیا جا سکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کل سعودی عرب روانہ ہوں گے تاکہ سعودی عرب کی حمایت اور یکجہتی پر اظہار تشکر کیا جا سکے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور اس کی توجہ معاشی ترقی پر مرکوز ہے۔ پاکستان آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا، جہاں اجلاس کے دوران “بین الاقوامی امن و سلامتی کے فروغ میں کثیرالجہتی تعاون اور تنازعات کے پرامن حل” کے عنوان پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی حکمت عملی واضح ہے، دفاع مضبوط، سفارت کاری فعال، اور امن ترجیح ہے۔
بچوں کے حقوق کا تحفظ صرف اداروں کی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے، سارہ احمد

چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور رکن صوبائی اسمبلی پنجاب سارہ احمد نے جارحیت کا شکار معصوم بچوں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب حکومت کی ہدایات کے مطابق ہر ممکن اقدام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن ان معصوم بچوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جا رہا ہے جو جسمانی و ذہنی تشدد، جارحیت یا کسی بھی قسم کے استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ سارہ احمد کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے وژن کے تحت چائلڈ پروٹیکشن بیورو جارحیت کا شکار بچوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ چیئرپرسن سارہ احمد نے کہا کہ بچے ہمارا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کا اثاثہ ہیں۔ ان کی حفاظت ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جسمانی و ذہنی جارحیت سے بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے مربوط حکمت عملی اپنائی گئی ہے، اور اس پر موثر انداز میں عملدرآمد جاری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو نہ صرف استحصال کا شکار بچوں کو فوری تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ ان کی ذہنی و جسمانی بحالی کے لیے بھی مربوط اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سارہ احمد نے والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے تمام طبقات سے اپیل کی کہ وہ ایسے بچوں کی نشاندہی کریں جو کسی بھی قسم کے تشدد یا استحصال کا شکار ہوں تاکہ ان کی بروقت مدد کی جا سکے۔ چیئرپرسن نے کہا کہ اگر کسی بھی بچے کے ساتھ جسمانی یا ذہنی جارحیت یا استحصال کا واقعہ پیش آئے تو فوری طور پر چائلڈ ہیلپ لائن (1121) پر اطلاع دی جائے تاکہ قانونی و فلاحی کارروائی کی جا سکے۔انہوں نے کہا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ پنجاب میں کوئی بچہ تشدد، استحصال یا غفلت کا شکار نہ ہو۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ صرف اداروں کی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ بچوں کو پرامن، محفوظ اور خوشحال ماحول فراہم کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے، تاکہ وہ ایک باشعور اور صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکیں۔ سارہ احمد نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پنجاب حکومت اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
عمر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی سے نااہلی ریفرنس کی تفصیلات طلب کر لیں

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے اپنے خلاف دائر نااہلی ریفرنس کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے تفصیلی معلومات اور قانونی دستاویزات طلب کر لیے ہیں۔ عمر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ نااہلی ریفرنس کی قانونی اور آئینی بنیادوں کی مکمل مصدقہ نقل، ریفرنس کی کارروائی کا تفصیلی ریکارڈ، اور تمام متعلقہ شواہد فراہم کریں ۔رہنما پی ٹی آئی نے اسپیکر سے نااہلی ریفرنس پر فیصلے کے دوران کی اندرونی کارروائی اور فائل نوٹنگز بھی طلب کی ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ فیصلہ کس بنیاد پر اور کن دستاویزات کی روشنی میں کیا گیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انہیں نوٹسز، وضاحت کا موقع، اور دیگر قانونی تقاضوں کی تفصیل بھی فراہم کی جائے، جس سے قانونی عمل میں مکمل شفافیت کا اظہار ہو۔عمر ایوب نے کہا کہ آرٹیکل 63 (2) کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی کو دی گئی صوابدیدی نظیریں بھی ان کے ساتھ شیئر کی جائیں تاکہ قانونی عمل کی تفہیم ہو سکے عمر ایوب کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت الیکشن کمیشن میں (4 جون 2025) کو ہوگی جس کیلیے رکن قومی اسمبلی کو نوٹس بھی جاری کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما بابر نواز خان نے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی رہنما کے خلاف نااہلی کی درخواست دائر کی تھی۔ عمر ایوب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 18 ہری پور سے کامیاب ہوئے تھے۔ 19 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 18 ہری پور میں دھاندلی کی تحقیقات کے خلاف جولائی 2024 سے جاری حکم امتناع ختم کرتے ہوئے عمر ایوب کی درخواست کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔ قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے 8 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس مین کہا گیا کہ عمر ایوب کی درخواست اس عدالت کے سامنے قابل سماعت نہیں، کیس کے میرٹ پر کوئی فائنڈنگ نہیں دے رہے۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ اسپیکر نے انہیں ریفرنس کے بارے میں آگاہ تک نہیں کیا، جو قانونی اور اخلاقی نقطہ نظر سے قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ریفرنس کی بنیاد کمزور ہے اور اس کا مقصد سیاسی طور پر نقصان پہنچانا ہے۔عمر ایوب نے یہ بھی کہا کہ میرے مدمقابل ایبٹ آباد ہائیکورٹ بھی گئے لیکن ان کا مؤقف مسترد کر دیا گیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ کیس کمزور ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسپیکر نے بدنیتی کی بنیاد پر ریفرنس الیکشن کمیشن بھجوایا۔