غیرقانونی افغان باشندے، دو برسوں میں پانچ لاکھ 50 ہزار سے زائد مہاجرین وطن واپس گئے

پاکستان میں مقیم غیرقانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی وطن واپسی کا عمل تسلسل سے جاری ہے، جس کے تحت اب تک مجموعی طور پر پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ان کے وطن افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔ محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں غیر قانونی افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا رہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افغان شہریوں کو طورخم اور دیگر سرحدی راستوں کے ذریعے افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ یہ عمل (یکم اپریل 2025) سے باقاعدہ انداز میں جاری ہے، اور اب تک صرف خیبر پختونخوا سے 1500 افغان مہاجرین کو وطن واپس روانہ کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک بھر سے غیر قانونی افغان تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری رہا، جس کے تحت طورخم سرحد کے ذریعے پانچ لاکھ چالیس ہزار افغان شہری واپس افغانستان گئے، جبکہ جنوبی وزیرستان کے انگور اڈا بارڈر کے راستے سات ہزار افغان مہاجرین کو ان کے وطن بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے تین ہزار، پنجاب سے گیارہ ہزار اور آزاد جموں و کشمیر سے چھے سو غیر قانونی افغان باشندوں کو واپس افغانستان منتقل کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے یہ اقدام سرحدی علاقوں میں امن و امان کے قیام اور غیر قانونی مقیم افراد کی موجودگی کے باعث درپیش سیکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل باوقار اور منظم انداز میں مکمل کیا جا رہا ہے، جس کے دوران واپس جانے والوں کو بنیادی ضروریات جیسے خوراک اور صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ حکام کے مطابق، یہ پالیسی نہ صرف پاکستان کی داخلی سیکیورٹی کے لیے اہم ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ریاست کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی نشاندہی اور ان کی واپسی کو یقینی بنائے۔ محکمہ داخلہ کے حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل کسی قسم کے جبر یا بدسلوکی پر مبنی نہیں بلکہ مکمل انسانی ہمدردی اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ افغان حکومت سے بھی اس سلسلے میں مسلسل رابطہ رکھا جا رہا ہے تاکہ واپسی کے عمل کو مزید منظم اور مربوط بنایا جا سکے۔ واضح رہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز بھی اس واپسی کے عمل کا حصہ ہیں، جنہیں ماضی میں عارضی قیام کے لیے رجسٹر کیا گیا تھا، تاہم اب حکومت کی پالیسی کے تحت ان کی وطن واپسی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
بجٹ کی زد میں رئیل سٹیٹ انڈسٹری،معاشی بحالی یا سرمایہ کشی؟

بجٹ 2025-26 کی آمد آمد ہے اور حسبِ روایت ملک بھر کے مختلف شعبہ جات اس بات پر نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں کہ آنے والا بجٹ ان کے لیے ریلیف لائے گا یا مزید بوجھ؟۔ ان ہی طبقات میں سے ایک اہم طبقہ رئیل سٹیٹ سے وابستہ افراد کا ہے،جن میں پلاٹ مالکان،تعمیراتی کمپنیاں،ایجنٹس،سرمایہ کار اور اوورسیز پاکستانی شامل ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس بزنس سے وابستہ افراد اور تنظیموں نے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے براہ راست اپیل کی ہے کہ رئیل سٹیٹ پر عائد مجوزہ ٹیکسوں پر نظرثانی کی جائے۔ یہ اپیل نہ صرف بروقت بلکہ ایک گہرے معاشی اور سماجی پس منظر کی حامل بھی ہے،جسے نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے خطرناک نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ 2025-26 میں رئیل سٹیٹ سیکٹر پر مختلف اقسام کے ٹیکسز عائد کیے جا رہے ہیں،جن میں سیکشن 7E کا نفاذ،فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی(FED)،ود ہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ،سلیب سسٹم،درمیانے طبقے پر 5 فیصد ٹیکس کی تجویز،اوورسیز پاکستانیوں کی پراپرٹی پر لاگت کی بنیاد پر ٹیکس اور ٹیکس وصولی کا پیچیدہ نظام شامل ہیں۔ ان تمام تجاویز کا بغور جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی و سیاسی نتائج بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں سیکشن 7E کی،جو کہ اس وقت رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے لیے سب سے زیادہ باعث اضطراب ہے،اس قانون کے تحت ایک غیر حقیقی اور تصوراتی کرایہ کو بنیاد بنا کر ایک مخصوص شرح سے ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے، جو کہ بنیادی طور پر انصاف کے اصولوں سے متصادم ہے۔ ایک ایسا شخص جو کسی پلاٹ یا جائیداد کو صرف اپنی ذاتی رہائش یا مستقبل کی سرمایہ کاری کے طور پر رکھتا ہے اور اس سے کوئی آمدن حاصل نہیں کر رہا،اس پر بھی فرضی آمدن کی بنیاد پر ٹیکس لاگو کر دینا معاشی ظلم سے کم نہیں۔ دنیا کے کسی مہذب ملک میں اس طرح کا قانون موجود نہیں،جہاں فرضی آمدن پر حقیقی ٹیکس وصول کیا جائے،اس قانون سے نہ صرف کاروبار میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے بلکہ لوگوں نے جائیداد کی خرید و فروخت روک دی ہے،جس کا براہِ راست اثر معیشت کے دیگر شعبہ جات پر بھی پڑا ہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) کا اطلاق بھی رئیل اسٹیٹ پر ایک غیر روایتی اور ناعادلانہ قدم ہے،یہ ٹیکس عام طور پر تمباکو،مشروبات اور لگژری آئٹمز پر عائد کیا جاتا ہے تاکہ ان کے استعمال کو روکا جا سکے یا ریونیو بڑھایا جا سکے مگر جائیداد پر اس ٹیکس کا نفاذ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کو ریونیو بڑھانے کا کوئی اور ذریعہ نظر نہیں آ رہا،یہ اقدام نہ صرف معاشی منطق کے خلاف ہے بلکہ قانون سازی کے اصولوں سے بھی متصادم ہے۔ ود ہولڈنگ ٹیکس کا معاملہ بھی توجہ طلب ہے،بجٹ 2025-26 میں تجویز دی گئی ہے کہ سیکشن 236C سے 236K کے تحت ٹرانزیکشنز پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کو 1 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کر دیا جائے۔ اس اقدام سے نہ صرف جائیداد کی خرید و فروخت مہنگی ہو جائے گی بلکہ خریدار و فروخت کنندہ دونوں کو اضافی مالی بوجھ کا سامنا کرنا پڑے اٹیکس کا سب سے زیادہ اثر درمیانے طبقے پر پڑے گا،جو پہلے ہی مہنگائی،بجلی و گیس کے بلز اور بنیادی ضروریات کی قلت سے دوچار ہے۔ سلیب سسٹم کی تجاویز بھی سوالیہ نشان ہیں۔۔۔اگر سلیب سسٹم کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے تو یہ ایک بہتر قدم ہو سکتا ہے،بشرطیکہ اس میں آمدن اور خریداری کی گنجائش کو سامنے رکھا جائے مگر اگر یہ نظام بھی اس طرح بنایا گیا کہ ہر شخص کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے تو اس سے رئیل سٹیٹ مارکیٹ مزید سکڑ جائے گی اور سرمایہ کاری کا بہاو بند ہو جائے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کم آمدن اور درمیانے طبقے کو بھی 5 فیصد ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی جا رہی ہے۔۔۔ایسے طبقے جو سالوں کی محنت کے بعد کوئی پلاٹ خرید پاتے ہیں یا اپنے بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا مکان بنانے کا خواب دیکھتے ہیں،ان پر اس طرح کا بوجھ ڈالنا ایک غیر انسانی فعل ہو گا۔ ایسے اقدامات نہ صرف معاشی طور پر تباہ کن ہیں بلکہ یہ عوامی بے چینی اور حکومت سے بد اعتمادی کو بڑھا سکتے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پراپرٹی خریداری پر لاگت کی بنیاد پر ٹیکس کی تجویز ایک اور افسوسناک پہلو ہے۔ وہ پاکستانی جو ملک سے باہر رہ کر سخت محنت سے پیسہ کماتے ہیں اور پھر اسے پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے لاتے ہیں،ان پر اس طرح کا ٹیکس لگانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ان کی حب الوطنی پر طمانچہ ہے،اوورسیز پاکستانی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے اربوں ڈالرز کی ترسیلات زر ہر سال آتی ہیں،اگر ان کے لیے سرمایہ کاری کو مشکل بنا دیا جائے گا تو وہ دوسرے ممالک کا رخ کر لیں گے اور پاکستان اس قیمتی زرِ مبادلہ سے محروم ہو جائے گا،سب سے اہم نکتہ ٹیکس نظام کی پیچیدگی اور غیر منطقی ساخت ہے،پاکستان کا ٹیکس سسٹم پہلے ہی عام آدمی کے لیے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ متعدد فارم،اقسام،ٹریشولڈز اور ریٹز کے باعث بیشتر لوگ یا تو ٹیکس فائلنگ سے گھبراتے ہیں یا اسے چھوڑ دیتے ہیں،اگر اس نظام کو مزید پیچیدہ بنا دیا گیا تو نہ صرف کرپشن میں اضافہ ہو گا بلکہ لوگ قانونی ذرائع سے کترانے لگیں گے۔ رئیل اسٹیٹ جیسے شعبے کو ترقی دینے کے لیے سادہ،شفاف اور جامع نظام کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسے قوانین جو سرمایہ کار کو خوفزدہ کر دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت آخر اس شعبے سے اتنا ریونیو کیوں حاصل کرنا چاہتی ہے؟بلاشبہ،رئیل سٹیٹ ایک بڑا اور منافع بخش شعبہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس شعبے کی ترقی سے درجنوں دیگر صنعتیں بھی جڑی ہوئی ہیں جیسے کہ سیمنٹ،سریا،لکڑی،فرنیچر،الیکٹریکل،پلمبنگ،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی ساز و سامان،اگر رئیل سٹیٹ کی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں تو اس کا براہِ راست اثر ان صنعتوں پر
آئی ایم ایف کی ‘شرائط’، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں محدود اضافہ متوقع

مالی مشکلات اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں صرف 5 سے 7.5 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی ہے، جس پر حتمی فیصلہ آئندہ بجٹ اجلاس میں متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق، حکومت کی جانب سے تنخواہوں اور پنشن میں مجوزہ اضافے کی لاگت کا تخمینہ بھی لگا لیا گیا ہے، جو 10 جون کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ دوسری جانب حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اس تجویز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کم از کم 10 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ مسلح افواج کے لیے اضافی مراعات پر بھی غور جاری ہے، جن میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ، اور رسک الاؤنس کو پنشن ایبل الاؤنس میں تبدیل کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ مزید برآں، (یکم جولائی 2025) سے افواج کو ڈیفائنڈ کنٹری بیوٹری پنشن (ڈی سی پی) نظام میں شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے، تاہم اس پر تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ گریڈ ایک سے سولہ تک کے سول ملازمین کے لیے (30) فیصد ڈسپیئرٹی الاؤنس کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ان کے موجودہ دو ایڈہاک الاؤنسز میں سے ایک کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے مختلف تجاویز پر مبنی خاکے تیار کر لیے ہیں، جن کا جائزہ وفاقی کابینہ لے گی۔ مجوزہ بجٹ کا حجم 17.5 ٹریلین روپے رکھا گیا ہے، جو رواں مالی سال کے 18.87 ٹریلین روپے سے کم ہے۔ آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا محصولات کا ہدف 14.14 ٹریلین روپے تجویز کیا گیا ہے، جو کہ موجودہ مالی سال کے نظرثانی شدہ ہدف 12.33 ٹریلین روپے سے کہیں زیادہ ہے۔ تاہم غیرمحصول آمدن میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جو کہ 4.85 ٹریلین روپے سے کم ہو کر 3 سے 3.5 ٹریلین روپے تک محدود ہو سکتی ہے۔ ادائیگیوں کے حوالے سے قرضوں کی واپسی سب سے بڑی مد رہے گی۔ رواں مالی سال کے لیے اس مد میں 8.7 ٹریلین روپے خرچ ہونے کا امکان ہے، جبکہ آئندہ بجٹ میں اس رقم کو کم کر کے 8.1 ٹریلین روپے تک لایا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، حکومت کی جانب سے بیرون ملک سے حاصل کردہ فری لانس اور ڈیجیٹل سروسز کی آمدن کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے، جس کے لیے اسٹیٹ بینک سے فری لانسرز کے اکاؤنٹس کی شناخت میں معاونت لی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق مقامی طور پر تیار شدہ گاڑیوں پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، جب کہ درآمدی اشیاء پر ٹیرف میں رد و بدل سے 150 سے 200 ارب روپے کی کمی متوقع ہے، جس سے اسٹیل، آٹو پارٹس، اور ٹائلز جیسی صنعتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
پاکستان میٹرز کی جانب سے آپ سب کو مادری زبانوں میں عید مبارک

پاکستان سمیت دنیا بھر میں عید الضحی کی خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ پاکستان میٹرز کی جانب سے ملک کی مادری زبانوں میں تمام مسلمانوں کو عید مبارک۔
پاکستان میں بسنے والی مختلف ثقافتیں کیسے عید کی خوشیاں مناتی ہیں؟

عید! ایک ایسا تہوار جو ہر سال نہ صرف ایمان کی تجدید کرتا ہے بلکہ گھروں میں خوشیوں، دسترخوانوں پر مہمان نوازی اور دلوں میں اپنائیت بھر دیتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان جیسے کثیرالثقافتی ملک میں عید ہر جگہ ایک ہی طرح نہیں منائی جاتی؟نہیں! یہاں ہر وادی، ہر میدان، ہر پہاڑ اور ہر بستی کی عید ایک الگ انداز میں سانس لیتی ہے۔یہ صرف ایک دن نہیں، بلکہ ان گنت کہانیوں، رسموں، نغموں، رنگوں اور جذبات کا امتزاج ہے۔ آئیے! پاکستان کی گلیوں سے ہٹ کر اُن پہچانوں کی طرف سفر کو چلتے ہیں، جہاں عید روایتی انداز سے کچھ مختلف مگر بہت ہی خاص طریقے سے منائی جاتی ہے۔ کوہِ ہندوکش کے دامن میں چھپی وادی کیلاش میں عید کا مفہوم صرف مذہبی فریضہ نہیں، بلکہ ثقافتی ورثے کی جھلک ہے۔ یہاں خواتین اپنے سروں پر رنگین، سیپیوں اور موتیوں سے سجے ہوئے تاج یا شوشوٹ پہنتی ہیں۔ عید کے قریب یہاں بہار کی آمد کے ساتھ ساتھ چلم جوشی کا تہوار بھی منایا جاتا ہے۔ یہ وادی موسیقی، رقص اور دعاؤں سے گونج اٹھتی ہے۔ خوشحالی، نئی زندگی اور مویشیوں کی حفاظت کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں رقص کرتے ہیں اور بعض اوقات یہی میل ملاقات محبت میں بدل جاتی ہے۔کیلاش کی یہ عید فطرت اور روحانیت کا حسین امتزاج ہے۔ سندھ میں عید صرف نماز اور کھانے کا دن نہیں بلکہ ایک روحانی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں عید کی راتوں میں بیٹھکیں سجتی ہیں، جہاں یکتارو کی آواز، چپّر کی تھاپ اور صوفی کلام کی نرمی روح کو چھو لیتی ہے۔لوک گیت، شاہ لطیف اور سچل سرمست کی شاعری دل کو ایسا چھوتی ہے کہ عید کا ہر لمحہ ایک روحانی محفل میں ڈھل جاتا ہے۔ لوگ گاؤں کی بیٹھکوں، آنگنوں اور صحنوں میں جمع ہو کر اجتماعی ذکر کرتے ہیں اور رشتوں کو محبت کی زبان میں تازہ کرتے ہیں۔پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد رضا نے کہا ہے کہ سندھ میں عید کے دن الگ سماں بندھ جاتا ہے، بچے بوڑھے اور جوان سب اپنے اپنے طریقے سے پرجوش انداز میں عید کو مناتے ہیں۔ بلوچستان میں عید کا استقبال کئی ہفتے پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین رنگین دھاگوں سے وہ روایتی لباس تیار کرتی ہیں جن پر کڑھائی کی ہر سلائی میں دعائیں چھپی ہوتی ہیں۔یہ بلوچی کڑھائی صرف خوبصورتی نہیں، بلکہ خواتین کی خودمختاری، پہچان اور وراثت کی ایک علامت ہے۔ عید کے دن یہ خواتین ان رنگین لباسوں میں جب نکلتی ہیں تو جیسے ہر دھاگہ اُن کے خوابوں اور ثقافت کی داستان سناتا ہے۔ شمالی پاکستان کی حسین وادی، ہنزہ میں عید ایک شکر گزاری کی علامت ہے۔ یہاں کے لوگ فطرت کے قریب ہیں اور عید کے موقع پر جب خوبانی کے درخت کھلتے ہیں تو پورا علاقہ خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔عید کی صبح خاندان جمع ہوتے ہیں، روایتی پکوان جیسے خوبانی کا شوربہ، مقامی نان اور گوشت کے کھانے تیار ہوتے ہیں۔کھانے کے بعد بزرگ کہانیاں سناتے ہیں، بچے کھیلتے ہیں اور پوری برادری ایک اجتماعی تجربہ جیتی ہے جو نہایت سادہ لیکن روح کو چھو لینے والا ہوتا ہے۔ عید کے دن پوٹھوہار کے میدانوں میں آسمان رنگین پتنگوں سے بھر جاتا ہے۔ پتنگ بازی یہاں ایک روایت ہے جو عید کی خوشیوں کا لازمی جزو سمجھی جاتی ہے۔گھروں میں حلوہ پوری، نہاری، سری پائے اور دیگر دیسی پکوانوں کی خوشبو پھیلتی ہے۔دوستانہ پتنگ بازی کے مقابلے، ہنسی مذاق اور دسترخوانوں پر بیٹھے مہمان، یہ سب پوٹھوہاری عید کا خوبصورت عکس ہیں۔ جنوبی پنجاب یعنی سرائیکی وسیب میں عید کی رات ایک روحانی منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں کاغذ کے بنے چراغوں میں شمعیں جلا کر انہیں دریا کی لہروں کے سپرد کیا جاتا ہے۔یہ چراغ ماضی کی رنجشوں کو بہا کر لے جانے اور نئے آغاز کی علامت ہوتے ہیں۔ دریا کی سطح پر جھلملاتے چراغ جیسے دعا بن کر روشنی دیتے ہیں، ایک خوبصورت روایت جو آج بھی خاموشی سے زندہ ہے۔ چترال کی برفیلی ہواؤں میں جب عید آتی ہے تو مقامی لوگ روایتی لباس پہن کر جلوس کی شکل میں گھروں کے باہر نکلتے ہیں۔یاک جو اس خطے کا روایتی جانور ہے، اُس کی گردن میں بندھی گھنٹیوں کی آواز پورے علاقے میں گونجتی ہے۔یہ جلوس گھر گھر جا کر مبارکباد دیتا ہے، مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، بچے تحفے اور عیدی لیتے ہیں۔ عید کی یہ سادگی چترال میں محبت، سادگی اور اخلاص کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ قارئین یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ وہ پاکستان ہے جو شاید خبروں، کتابوں یا سوشل میڈیا پر کم نظر آتا ہے۔ کالاش کی تاج پوشی سے لے کر سرائیکی خطے کے چراغ، چترال کی یاک کی گھنٹیاں اور سندھ کے صوفی نغمے، ہر ایک روایت پاکستان کی تہذیبی روح کو ظاہر کرتی ہے۔یہ چھوٹے چھوٹے دھاگے مل کر عید کے اس خوبصورت قالین کو بُنتے ہیں جو ہماری شناخت ہے۔ لیکن افسوس! ان میں سے کئی روایات غیر دستاویزی ہیں اور وقت کے ساتھ کھو جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جب ہم عید مناتے ہیں تو صرف نئے کپڑے اور مٹھائیاں ہی کافی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان چھپی ہوئی روایات کو پہچانیں، محفوظ کریں اور آگے بڑھائی کیونکہ ہر روایت ایک دعا، ہر کمیونٹی ایک کہانی ہے اور یہی پاکستان کی اصل طاقت ہے۔
پاکستان میں گدھوں کی تعداد 60 لاکھ 47 ہزار ہوگئی

پاکستان میں رواں سال مال مویشیوں کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گدھوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال کے دوران گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ 9 ہزار کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ان کی مجموعی تعداد 59 لاکھ 38 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 47 ہزار ہو گئی ہے۔گدھے دیہی علاقوں میں اب بھی سامان ڈھونے اور ٹرانسپورٹ کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ شہروں میں ان کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے مطابق 2025 میں ملک میں مال مویشیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 22 کروڑ 50 لاکھ ہو گئی ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ ان جانوروں میں سب سے زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، جن کی تعداد 8 کروڑ 70 لاکھ 35 ہزار سے بڑھ کر 8 کروڑ 93 لاکھ 93 ہزار ہو گئی ہے۔ بکریاں دیہی علاقوں میں دودھ، گوشت اور کھال کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اور ان کی افزائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بھینسوں کی تعداد میں بھی 13 لاکھ 78 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اب ملک میں بھینسوں کی تعداد 4 کروڑ 63 لاکھ 10 ہزار سے بڑھ کر 4 کروڑ 76 لاکھ 88 ہزار ہو گئی ہے۔ بھینسیں دیہی علاقوں میں دودھ کی اہم ترین ذریعہ ہیں اور ڈیری انڈسٹری میں ان کا اہم کردار ہے۔ بھیڑوں کی تعداد میں بھی تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ تعداد 3 کروڑ 31 لاکھ 19 ہزار ہے، جو پہلے 3 کروڑ 27 لاکھ 31 ہزار تھی۔ یہ جانور زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں، اور ان کا گوشت اور اون وہاں کے لوگوں کی آمدن کا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں گایوں کی تعداد بھی تقریباً 5 کروڑ 75 لاکھ کے قریب ہے۔ گائے دودھ اور گوشت کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور دیہات میں روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ اونٹوں کی تعداد تقریباً 12 لاکھ بتائی گئی ہے، جو خاص طور پر صحرائی علاقوں میں سواری، بوجھ اٹھانے، قربانی اور ثقافتی تقریبات میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہ تمام مال مویشی ملک کی زرعی معیشت کا اہم حصہ ہیں۔ دیہی علاقوں کے تقریباً 80 لاکھ گھرانے اپنی آمدن کا 35 سے 40 فیصد انہی جانوروں سے کماتے ہیں۔ لائیو سٹاک کا شعبہ دودھ، گوشت، کھال، روزگار اور زراعت کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس وقت اس کی مجموعی مالیت 55 کھرب روپے سے بڑھ چکی ہے، جو ملک کی معیشت میں بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جانوروں کی نسلیں بہتر بنانے، ویکسین، چارہ اور مارکیٹ تک رسائی جیسے مسائل پر بروقت کام کیا جائے تو یہ شعبہ دیہی غربت کم کرنے اور زرمبادلہ کمانے کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔