قومی اسمبلی اجلاس میں شیڈول کی منظوری، وفاقی بجٹ 10 جون کو پیش کیا جائے گا

Ayaz sadiq

اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے آئندہ مالی سال 2025-2024 کے وفاقی بجٹ کے لیے قومی اسمبلی اجلاس کے شیڈول کی منظوری دے دی ہے۔ بجٹ 10 جون 2025 کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد ایوان میں بجٹ پر بحث، کٹوتی کی تحاریک اور ووٹنگ سمیت تمام آئینی تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اجلاس کے شیڈول کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ وفاقی بجٹ کی باقاعدہ پیشکش دس جون کو کی جائے گی، جبکہ تیرہ جون سے بجٹ پر باقاعدہ بحث کا آغاز ہوگا۔ اسپیکر کے مطابق بجٹ پر بحث کے لیے قومی اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتوں کو قواعد و ضوابط کے مطابق وقت فراہم کیا جائے گا، تاکہ ہر جماعت اپنے نقطہ نظر کا بھرپور اظہار کرسکے۔ ایاز صادق نے مزید کہا کہ بجٹ پر عمومی بحث کا سلسلہ 21 جون کو مکمل کر لیا جائے گا۔ شیڈول کے مطابق، 24 اور 25 جون کو ایوان میں مختلف وزارتوں کی ڈیمانڈز، گرانٹس اور کٹوتی کی تحاریک پر بحث کی جائے گی اور ان پر ووٹنگ ہوگی۔ اس کے بعد 26 جون کو مالی سال 2025-2024 کے لیے فنانس بل کی منظوری دی جائے گی، جو بجٹ کا بنیادی قانونی دستاویز ہوتا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے مزید بتایا کہ 27 جون کو ضمنی گرانٹس سمیت دیگر اہم امور پر بحث اور ووٹنگ کی جائے گی۔ اس طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری کا تمام عمل 27 جون تک مکمل کیے جانے کا امکان ہے۔ ایوان کے شیڈول کے مطابق، اجلاس کے دوران تمام مراحل آئینی تقاضوں اور پارلیمانی روایات کے تحت انجام دیے جائیں گے۔ ایاز صادق نے کہا کہ اسمبلی اجلاس کی منظوری دیتے وقت تمام پارلیمانی تقاضوں اور سیاسی ہم آہنگی کو مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ بجٹ کی منظوری کا عمل شفاف اور موثر انداز میں مکمل کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ سے متعلق تمام سرگرمیاں قومی اسمبلی کے طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوں گی، اور بجٹ اجلاس کے دوران پارلیمانی سرگرمیوں میں شفافیت اور قواعد و ضوابط پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔

انڈیا میں 80 ارب ڈالر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے پانی کی قلت کا شکار

انڈیا میں 2031 تک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے لیے تقریباً 80 ارب ڈالر کی لاگت سے نئے منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر منصوبے ایسے علاقوں میں واقع ہیں جہاں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے۔ یہ صورتحال مستقبل میں صنعتی سرگرمیوں اور مقامی آبادی کے درمیان پانی کے تنازعے کو جنم دے سکتی ہے۔ ریاست مہاراشٹرا کے ضلع سولاپور میں، جو ممبئی سے تقریباً 400 کلومیٹر دور ہے، اپریل کے مہینے میں گرمی کی شدت اپنے عروج پر پہنچتی ہے اور پانی کی فراہمی کم ہوتی جاتی ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ کچھ سال قبل ہر دوسرے دن پانی مل جاتا تھا، لیکن اب بعض اوقات ہفتے بھر تک نلکے خشک رہتے ہیں۔ اس تبدیلی کی ایک بڑی وجہ 2017 میں نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن (این ٹی پی سی) کی جانب سے قائم کیا گیا 1,320 میگاواٹ کا کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ ہے، جو سولاپور کو بجلی فراہم کرتا ہے لیکن اسی ذخیرۂ آب سے پانی لیتا ہے جس سے مقامی آبادی اور دیگر کاروباروں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ انڈیا، جو دنیا کی کل آبادی کا 17 فیصد رکھتا ہے لیکن اس کے پاس دنیا کے صرف 4 فیصد پانی کے ذخائر ہیں، صنعتی ترقی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی کے بھاری استعمال والے کوئلے کے پاور پلانٹس پر انحصار کر رہا ہے۔ خاص طور پر ڈیٹا سینٹرز جیسی صنعتوں کو بجلی فراہم کرنے کے لیے یہ پلانٹس اہم سمجھے جا رہے ہیں۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق، حکومت کی جانب سے مختصر کیے گئے 44 نئے منصوبوں میں سے 37 منصوبے ایسے علاقوں میں واقع ہیں جنہیں حکومت پانی کی قلت یا دباؤ کا شکار قرار دے چکی ہے۔ ان میں سے نو منصوبوں میں این ٹی پی سی براہ راست شریک ہے، جو اپنی پانی کی 98.5 فیصد ضروریات ایسے ہی متاثرہ علاقوں سے پوری کر رہا ہے۔ این ٹی پی سی نے رائٹرز نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ پانی کے تحفظ کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے، جن میں استعمال شدہ پانی کو صاف کر کے دوبارہ استعمال کرنا شامل ہے، تاہم کمپنی نے اپنے توسیعی منصوبوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انڈیا وزارتِ توانائی کا کہنا ہے کہ کوئلے کے پاور پلانٹس کی جگہ کا تعین زمین اور پانی کی دستیابی کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے، جبکہ پانی کی فراہمی ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق زمین کی دستیابی کو سب سے اہم عامل سمجھا جاتا ہے۔ قومی انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز، بنگلور کے پروفیسر رودرودیپ مجمدار کے مطابق بھارت میں پیچیدہ اور پرانے زمین سے متعلق قوانین کی وجہ سے کئی تجارتی اور ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے رہے ہیں، اس لیے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ایسے مقامات کا انتخاب کرتی ہیں جہاں زمین حاصل کرنے میں رکاوٹ کم ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو مستقبل میں پانی پر بڑھتے ہوئے صنعتی انحصار کے باعث مقامی آبادی کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں پانی پہلے ہی محدود ہے۔

اب ہم وفاق کو بھی قرضہ دے سکتے ہیں، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا

Ali amin speech

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبے کے ریونیو میں اضافے کے باعث اب خیبر پختونخوا کی مالی حیثیت اتنی مستحکم ہو چکی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو قرضہ دینے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے آمدنی کے ذرائع کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے مالیاتی خود مختاری کی جانب اہم قدم بڑھایا ہے۔ اپنے ایک بیان میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور موجودہ حکومت نے مالی نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے اپنے وسائل کو درست طریقے سے بروئے کار لایا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم وفاق کو بھی قرضہ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔‘‘ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ صوبے کی مالیاتی پالیسی میں شفافیت، کے دیانتداری اور پیشہ ورانہ حکمت عملی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اب معاشی طور پر دیگر اکائیوں کے مقابلے میں بہتر مقام پر کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی خود کفالت صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور حکومت اس سمت میں مسلسل اقدامات کر رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور نے اپنے بیان میں وفاقی حکومت کی جانب سے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کا بھی خیر مقدم کیا۔ تاہم، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان مذاکرات میں خیبر پختونخوا کے جرگہ ممبران کو بھی شامل کیا جائے تاکہ سرحدی معاملات پر مقامی نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا افغانستان کے ساتھ جغرافیائی، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے قریب ترین صوبہ ہے، اس لیے یہاں کے عوام اور نمائندوں کی شرکت ان مذاکرات کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اعتماد سازی کے اقدامات کرتے ہوئے مقامی قیادت کو بھی اس عمل کا حصہ بنائے۔‘‘ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت نہ صرف مالیات بلکہ داخلی سلامتی، تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خیبر پختونخوا میں ترقی کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے اور حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج عوام تک پہنچ رہے ہیں۔

یورپین نیشنز لیگ کے فائنل میچ کے دوران چھت سے گر کر ایک شخص ہلاک ہوگیا

یورپین نیشنز لیگ کے فائنل میچ کے دوران ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب اتوار کے روز اسپین اور پرتگال کے درمیان میچ دیکھنے آیا ایک فٹبال شائق گر کر جان کی بازی ہار گیا۔ یوئیفا کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ ایک شخص اوپر کی سطح سے نیچے میڈیا ایریا پر گرنے سے ہلاک ہو گیا۔ یہ واقعہ میونخ کے اسٹیڈیم میں اُس وقت پیش آیا جب میچ اضافی وقت کے پہلے ہاف میں داخل ہو چکا تھا، کھلاڑیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ چکی تھی اور شائقین بھی جذباتی ہو رہے تھے۔ حادثے کے فوراً بعد طبی عملہ، سیکیورٹی اہلکار اور پولیس موقع پر پہنچی اور متاثرہ جگہ کو گھیرے میں لے لیا۔ میچ کے اختتام پر پرتگال نے پنالٹی شوٹ آؤٹ میں فتح حاصل کی، لیکن میدان کی اس جیت پر افسردگی کی چادر چھا گئی۔ اسپین کے کوچ لویس دے لا فوئنٹے نے پریس کانفرنس کے آغاز میں واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا “سوالات شروع کرنے سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آج ایک شائق اسٹیڈیم میں جاں بحق ہو گیا۔ میں اس کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔”

ن لیگ عوام کو نہیں بلکہ خود کو بیوقوف بنا رہی ہے، پرویز الٰہی

پاکستان تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویز الٰہی نے مسلم لیگ (ن) پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ والے عوام کو نہیں بلکہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں، جبکہ اب عوام باشعور اور بیدار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز کے موقع پر قوم اور فوج کو جب بھی ضرورت پڑی، سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور انہوں نے خود بیان دیا کہ ہم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے قربانیاں دے کر امن قائم کیا ہے، اور پوری قوم ان کی قربانیوں کو سلام پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہماری فوج نے شہادتیں دے کر فتح حاصل کی، پوری قوم پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔” انہوں نے مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن آج کا پاکستانی ووٹر اب ماضی کی طرح نہیں رہا۔ ان کے بقول، “ن لیگ والے عوام کو نہیں بلکہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں، کیونکہ آج کا ووٹر باشعور ہو چکا ہے۔” چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے حالیہ بیانات میں دعویٰ کیا ہے کہ جنگ کا منصوبہ بھی میاں نواز شریف نے تیار کیا تھا۔ اس پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “شکر ہے ن لیگ والوں نے یہ نہیں کہا کہ علامہ اقبال والا خواب بھی نواز شریف نے ہی دیکھا تھا۔” پی ٹی آئی کے صدر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست ماضی کی طرح اب قابلِ قبول نہیں رہی، اور عوام اب جذباتی نعروں کے بجائے حقیقی کارکردگی اور قومی بیانیے کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ (پی ٹی آئی) ہمیشہ ملکی مفادات اور اداروں کے استحکام کے لیے کھڑی رہی ہے اور آئندہ بھی اپنا کردار اسی جذبے کے تحت ادا کرے گی۔ پرویز الٰہی نے اس موقع پر یہ بھی واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت ہر مشکل وقت میں قوم کے ساتھ کھڑی رہی ہے، اور ریاستی اداروں کے خلاف کوئی مہم جوئی یا بیانیہ ان کی جماعت کا حصہ نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی، قومی سلامتی، اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو سنجیدہ اور باوقار طرزِ سیاست اختیار کرنی چاہیے، تاکہ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل نکالا جا سکے۔

انڈین ریاست منی پور میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان دو سال سے جاری جھڑپیں، اب تک 250 افراد ہلاک

انڈیا کی ریاست منی پور میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد انٹرنیٹ بند اور کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ جھڑپیں ایک شدت پسند گروپ کے کچھ افراد کی گرفتاری پر ہوئیں۔ انڈیا کے شمال مشرق میں واقع ریاست منی پور میں گزشتہ دو سال سے وقفے وقفے سے جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ یہاں کی اکثریتی ہندو میتئی کمیونٹی اور زیادہ تر عیسائیوں پر مشتمل کوکی برادری کے درمیان تصادم میں اب تک 250 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تازہ جھڑپیں ہفتے کے روز اس وقت شروع ہوئیں جب ارمبائی ٹینگول نامی شدت پسند میتئی گروپ کے پانچ افراد، جن میں ایک کمانڈر بھی شامل تھا، کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی۔ گرفتاریوں پر مشتعل ہجوم نے ان کی رہائی کے مطالبے پر ایک پولیس چوکی پر دھاوا بول دیا، ایک بس کو آگ لگا دی اور ریاستی دارالحکومت امپھال کے مختلف علاقوں میں سڑکیں بند کر دیں۔ منی پور پولیس نے امپھال ویسٹ اور بشنوپور سمیت پانچ اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق، “ضلعی مجسٹریٹس نے دفعہ 144 کے تحت احکامات جاری کیے ہیں، عوام سے گزارش ہے کہ ان پر عمل کریں۔” ارمبائی ٹینگول، جس پر کوکی برادری کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کا الزام ہے، نے وادی کے اضلاع میں 10 دن کی ہڑتال کا اعلان بھی کیا ہے۔ ریاست کے ہوم منسٹری نے کشیدہ اضلاع میں پانچ دن کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز بند کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ حالات پر قابو پایا جا سکے۔ یاد رہے کہ 2023 میں جب منی پور میں پہلی بار پرتشدد فسادات پھوٹے تھے، تو انٹرنیٹ کئی ماہ تک بند رہا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اُس وقت تقریباً 60 ہزار افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے تھے۔ ابھی تک ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو مسلسل کشیدگی کی وجہ سے واپس اپنے گھروں کو نہیں جا سکے۔ میتئی اور کوکی برادری کے درمیان زمین اور سرکاری نوکریوں کے لیے مقابلے کی بنیاد پر کشیدگی موجود ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بعض مقامی سیاسی رہنما ان نسلی تقسیموں کو سیاسی فائدے کے لیے مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں پرتشدد ہنگامے، کب کیا ہوا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ریاست کیلیفورنیا میں احتجاجی مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے، جب کہ لاس اینجلس میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ مشتعل مظاہرین کی جانب سے متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، جس کے بعد حکام نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ، لاس اینجلس میں جاری مظاہروں کا آغاز غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کیے گئے چھاپوں کے بعد ہوا۔ ان چھاپوں پر ردعمل کے طور پر شہری سڑکوں پر نکل آئے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہروں کے دوران امیگریشن حکام اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں متعدد افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق، پرامن احتجاج کے دوران کچھ مظاہرین مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سڑکوں پر کھڑی کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، جب کہ دکانوں اور تجارتی مراکز کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دستوں کو لاس اینجلس میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اشتعال انگیزی پھیلانے والے افراد قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں پرتشدد مظاہروں کی کوئی گنجائش نہیں، اور ایسے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرین پر تشدد اور گرفتاریوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، جسے دبانا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کو امریکہ بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کیلیفورنیا، جو تارکین وطن کی بڑی آبادی رکھنے والی ریاست ہے، وہاں ان پالیسیوں کے خلاف مسلسل آوازیں بلند کی جا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں لاس اینجلس پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن رہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں تاکہ شہر میں معمولات زندگی بحال کیے جا سکیں۔

پاکستانی عوام بجٹ سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

ہر سال کی طرح اس سال بھی جب وفاقی بجٹ کی آمد قریب ہے، تو عوام کی نظریں ایک بار پھر حکومت کی جانب مرکوز ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور معاشی بے یقینی کے سائے میں جکڑی ہوئی قوم بجٹ کو امید کی ایک کرن سمجھتی ہے۔ہر طبقہ، چاہے وہ متوسط ہو یا کم آمدنی والا، تاجر ہو یا طالب علم، یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو کس حد تک سمجھتی ہے اور کیا کوئی عملی ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ایسے میں یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ پاکستانی عوام بجٹ سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور وہ کس قسم کی معاشی پالیسیوں کے منتظر ہیں جو ان کی زندگیوں میں بہتری لا سکیں۔

انڈیا کے شدت پسندانہ ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، صدر پاکستان

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انڈیا میں ابھرتا ہوا شدت پسندانہ ہندوتوا نظریہ نہ صرف انڈیا کے اندر اقلیتوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی شدید خطرات پیدا کر رہا ہے۔ ایوانِ صدر اسلام آباد میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان سے ملاقات کے دوران صدر مملکت نے مختلف قومی اور علاقائی امور پر اظہار خیال کیا۔ وفد نے صدر آصف علی زرداری کو عیدالاضحیٰ کی مبارک باد پیش کی، جس پر انہوں نے کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ انڈیا میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ نہایت تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا ہندوتوا نظریہ مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے، جس کے باعث انڈیا میں اقلیتوں کو شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، لیکن انڈیا کی پالیسیوں نے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ انڈیا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نوٹس لیا جائے۔ ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک سے وفاداری کا عملی ثبوت دینا ہوگا اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، خصوصاً زراعت کے شعبے کو فعال بنا کر ہم اپنی معیشت کو خود کفالت کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کسانوں کو بھرپور سہولیات فراہم کی جائیں۔ صدر کا کہنا تھا کہ کسان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کی فلاح و بہبود سے ملک میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ صدر مملکت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام سیاسی قوتوں کو باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کو ایک مضبوط، خوشحال اور خود کفیل ملک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی صدر مملکت کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے مؤقف کی تائید کی۔

’واپس آجائیں، کچھ نہیں کہا جائے گا‘، طالبان کا ملک چھوڑنے والے شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان

Afghan talibann

افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم ‘ملا محمد حسن اخوند’ نے ملک چھوڑنے والے افغان شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام افغان جو حکومت کی تبدیلی کے دوران ملک سے چلے گئے تھے، وطن واپس آئیں، انہیں کسی قسم کی سزا یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تفصیلات کے مطابق عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے ایک خطاب میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا حسن اخوند نے افغان عوام، خصوصاً بیرونِ ملک مقیم افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر افغانستان چھوڑا اور اب بیرونِ ملک پریشان زندگی گزار رہے ہیں، وہ واپس آئیں، حکومت ان کے لیے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “وہ افغان بھی وطن واپس آسکتے ہیں جنہوں نے ماضی میں امریکی مقاصد کے تحت اسلامی نظام کو نقصان پہنچایا، ہم سب کے لیے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں، اور اب بھی ہمارا مؤقف وہی ہے۔” طالبان رہنما نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ افغانستان سب کا ملک ہے اور اس کی ترقی و استحکام میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کے ساتھ کام کرنے والے یا وہاں پناہ حاصل کرنے والے افراد اب افغانستان آ کر معمول کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ اگست 2021 میں جب امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کیا تو طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس سیاسی تبدیلی کے دوران ہزاروں افغان شہری، جن میں سابق حکومت کے اہلکار، مغربی ممالک کے ساتھ کام کرنے والے افراد اور انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے، افغانستان چھوڑ گئے تھے۔ بہت سے افراد امریکا، یورپی ممالک اور دیگر ہمسایہ ریاستوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ طالبان کی جانب سے ماضی میں بھی عام معافی کا اعلان کیا جا چکا ہے، تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق کچھ علاقوں میں ایسے افراد کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس تناظر میں ملا حسن اخوند کی جانب سے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ واپسی اختیار کرنے والے شہریوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ بیان عالمی سطح پر اپنے تاثر کو بہتر بنانے اور افغانستان میں ہنر مند افرادی قوت کی واپسی کو ممکن بنانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔