انڈین ریاست منی پور میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان دو سال سے جاری جھڑپیں، اب تک 250 افراد ہلاک

انڈیا کی ریاست منی پور میں مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد انٹرنیٹ بند اور کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ جھڑپیں ایک شدت پسند گروپ کے کچھ افراد کی گرفتاری پر ہوئیں۔ انڈیا کے شمال مشرق میں واقع ریاست منی پور میں گزشتہ دو سال سے وقفے وقفے سے جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ یہاں کی اکثریتی ہندو میتئی کمیونٹی اور زیادہ تر عیسائیوں پر مشتمل کوکی برادری کے درمیان تصادم میں اب تک 250 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تازہ جھڑپیں ہفتے کے روز اس وقت شروع ہوئیں جب ارمبائی ٹینگول نامی شدت پسند میتئی گروپ کے پانچ افراد، جن میں ایک کمانڈر بھی شامل تھا، کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی۔ گرفتاریوں پر مشتعل ہجوم نے ان کی رہائی کے مطالبے پر ایک پولیس چوکی پر دھاوا بول دیا، ایک بس کو آگ لگا دی اور ریاستی دارالحکومت امپھال کے مختلف علاقوں میں سڑکیں بند کر دیں۔ منی پور پولیس نے امپھال ویسٹ اور بشنوپور سمیت پانچ اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق، “ضلعی مجسٹریٹس نے دفعہ 144 کے تحت احکامات جاری کیے ہیں، عوام سے گزارش ہے کہ ان پر عمل کریں۔” ارمبائی ٹینگول، جس پر کوکی برادری کے خلاف تشدد میں ملوث ہونے کا الزام ہے، نے وادی کے اضلاع میں 10 دن کی ہڑتال کا اعلان بھی کیا ہے۔ ریاست کے ہوم منسٹری نے کشیدہ اضلاع میں پانچ دن کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل ڈیٹا سروسز بند کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ حالات پر قابو پایا جا سکے۔ یاد رہے کہ 2023 میں جب منی پور میں پہلی بار پرتشدد فسادات پھوٹے تھے، تو انٹرنیٹ کئی ماہ تک بند رہا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اُس وقت تقریباً 60 ہزار افراد اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے تھے۔ ابھی تک ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو مسلسل کشیدگی کی وجہ سے واپس اپنے گھروں کو نہیں جا سکے۔ میتئی اور کوکی برادری کے درمیان زمین اور سرکاری نوکریوں کے لیے مقابلے کی بنیاد پر کشیدگی موجود ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بعض مقامی سیاسی رہنما ان نسلی تقسیموں کو سیاسی فائدے کے لیے مزید بڑھاوا دے رہے ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں پرتشدد ہنگامے، کب کیا ہوا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف ریاست کیلیفورنیا میں احتجاجی مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے، جب کہ لاس اینجلس میں صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ مشتعل مظاہرین کی جانب سے متعدد گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، جس کے بعد حکام نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے نیشنل گارڈز کو تعینات کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ، لاس اینجلس میں جاری مظاہروں کا آغاز غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کیے گئے چھاپوں کے بعد ہوا۔ ان چھاپوں پر ردعمل کے طور پر شہری سڑکوں پر نکل آئے اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہروں کے دوران امیگریشن حکام اور پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں متعدد افراد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق، پرامن احتجاج کے دوران کچھ مظاہرین مشتعل ہو گئے اور انہوں نے سڑکوں پر کھڑی کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ شہر کے مختلف علاقوں میں ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی، جب کہ دکانوں اور تجارتی مراکز کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان دستوں کو لاس اینجلس میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اشتعال انگیزی پھیلانے والے افراد قانون کے شکنجے سے بچ نہیں پائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں پرتشدد مظاہروں کی کوئی گنجائش نہیں، اور ایسے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ مشیر اور ٹیسلا کے سی ای او نے ایکس پر احتجاج کی ایک تصویر پوسٹ کی اور ساتھ لکھا کہ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مظاہرین پر تشدد اور گرفتاریوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، جسے دبانا جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کو امریکہ بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن کے تحت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ کیلیفورنیا، جو تارکین وطن کی بڑی آبادی رکھنے والی ریاست ہے، وہاں ان پالیسیوں کے خلاف مسلسل آوازیں بلند کی جا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں لاس اینجلس پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پرامن رہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں تاکہ شہر میں معمولات زندگی بحال کیے جا سکیں۔

پاکستانی عوام بجٹ سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟

ہر سال کی طرح اس سال بھی جب وفاقی بجٹ کی آمد قریب ہے، تو عوام کی نظریں ایک بار پھر حکومت کی جانب مرکوز ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور معاشی بے یقینی کے سائے میں جکڑی ہوئی قوم بجٹ کو امید کی ایک کرن سمجھتی ہے۔ہر طبقہ، چاہے وہ متوسط ہو یا کم آمدنی والا، تاجر ہو یا طالب علم، یہ جاننا چاہتا ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو کس حد تک سمجھتی ہے اور کیا کوئی عملی ریلیف فراہم کیا جائے گا۔ایسے میں یہ جاننا نہایت اہم ہے کہ پاکستانی عوام بجٹ سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور وہ کس قسم کی معاشی پالیسیوں کے منتظر ہیں جو ان کی زندگیوں میں بہتری لا سکیں۔

انڈیا کے شدت پسندانہ ہندوتوا نظریے سے پورے خطے کو خطرات لاحق ہیں، صدر پاکستان

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انڈیا میں ابھرتا ہوا شدت پسندانہ ہندوتوا نظریہ نہ صرف انڈیا کے اندر اقلیتوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی شدید خطرات پیدا کر رہا ہے۔ ایوانِ صدر اسلام آباد میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان سے ملاقات کے دوران صدر مملکت نے مختلف قومی اور علاقائی امور پر اظہار خیال کیا۔ وفد نے صدر آصف علی زرداری کو عیدالاضحیٰ کی مبارک باد پیش کی، جس پر انہوں نے کارکنان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ انڈیا میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ نہایت تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ انڈین حکومت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا ہندوتوا نظریہ مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دے رہا ہے، جس کے باعث انڈیا میں اقلیتوں کو شدید عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، لیکن انڈیا کی پالیسیوں نے جنوبی ایشیا کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ انڈیا میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا نوٹس لیا جائے۔ ملکی صورتحال پر بات کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک سے وفاداری کا عملی ثبوت دینا ہوگا اور معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ترقی کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے، خصوصاً زراعت کے شعبے کو فعال بنا کر ہم اپنی معیشت کو خود کفالت کی طرف گامزن کر سکتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے کسانوں کو بھرپور سہولیات فراہم کی جائیں۔ صدر کا کہنا تھا کہ کسان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کی فلاح و بہبود سے ملک میں خوشحالی لائی جا سکتی ہے۔ صدر مملکت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام سیاسی قوتوں کو باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کے لیے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کو ایک مضبوط، خوشحال اور خود کفیل ملک بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی صدر مملکت کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا اور ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے مؤقف کی تائید کی۔

’واپس آجائیں، کچھ نہیں کہا جائے گا‘، طالبان کا ملک چھوڑنے والے شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان

Afghan talibann

افغانستان کے قائم مقام وزیراعظم ‘ملا محمد حسن اخوند’ نے ملک چھوڑنے والے افغان شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام افغان جو حکومت کی تبدیلی کے دوران ملک سے چلے گئے تھے، وطن واپس آئیں، انہیں کسی قسم کی سزا یا پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تفصیلات کے مطابق عید الاضحیٰ کے موقع پر اپنے ایک خطاب میں طالبان حکومت کے سربراہ ملا حسن اخوند نے افغان عوام، خصوصاً بیرونِ ملک مقیم افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان جنہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر افغانستان چھوڑا اور اب بیرونِ ملک پریشان زندگی گزار رہے ہیں، وہ واپس آئیں، حکومت ان کے لیے مکمل تحفظ کی ضمانت دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “وہ افغان بھی وطن واپس آسکتے ہیں جنہوں نے ماضی میں امریکی مقاصد کے تحت اسلامی نظام کو نقصان پہنچایا، ہم سب کے لیے عام معافی کا اعلان کر چکے ہیں، اور اب بھی ہمارا مؤقف وہی ہے۔” طالبان رہنما نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ افغانستان سب کا ملک ہے اور اس کی ترقی و استحکام میں ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کے ساتھ کام کرنے والے یا وہاں پناہ حاصل کرنے والے افراد اب افغانستان آ کر معمول کی زندگی بسر کر سکتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی انتقامی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ اگست 2021 میں جب امریکی افواج نے افغانستان سے انخلاء کیا تو طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس سیاسی تبدیلی کے دوران ہزاروں افغان شہری، جن میں سابق حکومت کے اہلکار، مغربی ممالک کے ساتھ کام کرنے والے افراد اور انسانی حقوق کے کارکن شامل تھے، افغانستان چھوڑ گئے تھے۔ بہت سے افراد امریکا، یورپی ممالک اور دیگر ہمسایہ ریاستوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ طالبان کی جانب سے ماضی میں بھی عام معافی کا اعلان کیا جا چکا ہے، تاہم انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق کچھ علاقوں میں ایسے افراد کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس تناظر میں ملا حسن اخوند کی جانب سے ایک بار پھر یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ واپسی اختیار کرنے والے شہریوں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی جانب سے یہ بیان عالمی سطح پر اپنے تاثر کو بہتر بنانے اور افغانستان میں ہنر مند افرادی قوت کی واپسی کو ممکن بنانے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

’تجارتی جنگ‘، امریکا اور چین کے درمیان آج لندن میں مذاکرات ہوں گے

China hits back at us

امریکا اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک نیا دور پیر کے روز لندن میں شروع ہو گا، جس میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی حکام شرکت کریں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز اعلان کیا کہ ایک اعلیٰ سطحی امریکی وفد چینی نمائندوں سے لندن میں ملاقات کرے گا۔ چینی وزارتِ خارجہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ چین کے نائب وزیراعظم ہی لی فینگ آٹھ سے تیرہ جون تک برطانیہ میں موجود ہوں گے اور اس دوران امریکا-چین اقتصادی و تجارتی میکانزم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ یہ اعلان صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان گزشتہ ہفتے ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے بعد سامنے آیا ہے، جسے ٹرمپ نے “انتہائی مثبت بات چیت” قرار دیا تھا۔ یہ دونوں رہنماؤں کے درمیان رواں سال فروری میں تجارتی کشیدگی کے آغاز کے بعد پہلی گفتگو تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا کہ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر تجارت ہاورڈ لٹ نک، اور تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر پیر کو چینی حکام سے لندن میں ملاقات کریں گے۔ یاد رہے کہ مئی میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والے مذاکرات میں امریکا اور چین کے درمیان ایک عارضی تجارتی جنگ بندی ہوئی تھی، جس کے تحت دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کی۔ امریکا نے چینی مصنوعات پر ڈیوٹیز 145 فیصد سے کم کر کے 30 فیصد کر دیں جبکہ چین نے امریکی درآمدات پر محصولات 10 فیصد تک محدود کر دیے اور اہم معدنیات کی برآمدات پر عائد پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم گزشتہ مہینے سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین نے “معاہدے کی مکمل خلاف ورزی” کی ہے، جبکہ بیجنگ نے امریکا پر “سنگین خلاف ورزی” کا الزام عائد کیا۔ چینی سرکاری خبر رساں ادارے ’شِنہوا‘ کے مطابق، صدر شی جن پنگ نے اپنی گفتگو میں امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ چین کے خلاف عائد کی گئی منفی اقدامات کو واپس لے۔ اس کے جواب میں صدر ٹرمپ نے بتایا کہ گفتگو کا مرکزی موضوع تجارت تھا اور اس کے نتائج دونوں ممالک کے لیے مثبت ثابت ہوئے۔ دوسری جانب، حالیہ چینی وزارتِ تجارت کے بیان کے مطابق بعض ممالک کے لیے نایاب زمینی معدنیات کی برآمدات کی منظوری دے دی گئی ہے، تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کن ممالک کو اجازت دی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے جمعہ کو کہا تھا کہ شی جن پنگ نے ان اہم معدنیات کی تجارت دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اتوار کو امریکی وائٹ ہاؤس کے اقتصادی مشیر کیون ہیسیٹ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگرچہ معدنیات کی برآمدات کی رفتار بڑھی ہے، لیکن یہ اب بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکیں جس پر جنیوا میں اتفاق ہوا تھا۔

اسرائیلی فوج کا غزہ میں امداد لے جانے والی کشتی پر ڈرون حملہ، میڈلین کو قبضے میں لے لیا

اسرائیلی بحری فوج نے غزہ کی پٹی کی جانب امداد لے جانے والی کشتی ’میڈلین‘ کو عالمی پانیوں میں نشانہ بنا کر اس کا محاصرہ کر لیا اور اسے قبضے میں لے لیا۔ کشتی فریڈم فلوٹیلا کولیشن کا حصہ تھی، جس پر مختلف ممالک کے بارہ امدادی کارکن سوار تھے۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی فوج نے عالمی پانیوں میں کشتی ’میڈلین‘ کو گھیرے میں لے کر اس پر ڈرونز کے ذریعے حملہ کیا۔ حملے کے دوران کشتی پر موجود افراد پر ایک سفید اسپرے کیا گیا، جس سے ان کی جلد متاثر ہوئی۔ حملے کے فوری بعد اسرائیلی اہلکاروں نے کشتی کا کنٹرول سنبھال لیا اور اس پر سوار تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق، اسرائیلی فوج نے کارروائی کے دوران کشتی کی کمیونیکیشن سسٹم کو جام کر دیا اور تمام افراد سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے موبائل فون بند کر دیں۔ اس کے بعد کشتی سے جاری لائیو نشریات اچانک منقطع ہو گئیں اور عملے کا بیرونی دنیا سے رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشتی کو اشدود بندرگاہ منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کسی ایسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا جو اس کی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف ہو۔ واضح رہے کہ کشتی ’میڈلین‘ 6 جون کو اٹلی کے جزیرے سسلی سے روانہ ہوئی تھی، جس کا مقصد غزہ کے محصور شہریوں کے لیے انسانی امداد پہنچانا تھا۔ کشتی میں معروف ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، یورپی پارلیمان کی رکن ریما حسن اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنان سوار تھے۔ عالمی سطح پر اس واقعے پر شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی فوج کی اس کارروائی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی پانیوں میں انسانی امداد لے جانے والے مشن کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور اس پر فوری عالمی سطح پر نوٹس لیا جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن ماضی میں بھی غزہ کے لیے امداد لے جانے کی کوششیں کر چکی ہے، تاہم اسرائیل کی جانب سے ان پر بارہا کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔ غزہ کی پٹی 2007 سے اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہے، جہاں لاکھوں فلسطینی شہری بنیادی ضروریات زندگی کے لیے بھی ترس رہے ہیں۔

بجٹ 2025: عوام کے لیے ریلیف یا معاشی بوجھ؟

Market

پاکستان میں بجٹ ہمیشہ ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب عوام کو امید ہوتی ہے کہ شاید اب کی بار کچھ ریلیف مل جائے گا، لیکن جیسے جیسے مالی سال 2025-26 کا بجٹ سامنے آنے لگا ہے، عوام کی یہ امیدیں ایک بار پھر مایوسی میں بدلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے بجٹ میں تقریباً 19 کھرب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے، لیکن یہ بڑی رقم عوام کے لیے خوش خبری کی علامت نہیں بلکہ ایک بڑے معاشی بوجھ کی طرف اشارہ ہے۔ حکومت نے بجٹ کی ترجیحات کا رخ جس سمت میں رکھا ہے، وہ صاف بتاتا ہے کہ اس بار بھی عام آدمی کے لیے کوئی خاص ریلیف نہیں ہے۔ سب سے بڑا حصہ، یعنی آدھے سے زیادہ بجٹ، تقریباً 9 کھرب روپے، صرف سود کی ادائیگیوں میں صرف ہو جائے گا۔ یہ وہ قرضے ہیں جو پاکستان نے گزشتہ برسوں میں مختلف ذرائع سے حاصل کیے، جن میں سب سے اہم کردار عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا ہے۔ بجٹ کا دوسرا بڑا حصہ، یعنی 2.5 کھرب روپے، دفاعی اخراجات کے لیے مختص کیا گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 0.4 کھرب روپے زیادہ ہے۔ جہاں ایک طرف قرضوں اور دفاع پر بھاری رقوم رکھی گئی ہیں، وہیں تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ میں نمایاں کٹوتیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے صرف 1 کھرب روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو گزشتہ سال 1.4 کھرب روپے تھا۔ وفاقی تعلیم کے شعبے میں 27 فیصد جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 32 فیصد بجٹ کٹوتی کی گئی ہے۔ ان فیصلوں پر ماہرین شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر احسن خان نے کہا، “ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ جب آپ ان پر انحصار کرتے ہیں تو اپنی پالیسیوں کی خودمختاری کھو بیٹھتے ہیں۔ شرح سود کو بڑھانے کا حکم بھی وہی دیتے ہیں، جو اس وقت تقریباً 11 فیصد ہے۔ اس شرح پر جب ہم قرضے لیتے ہیں تو سود کی ادائیگی خود بجٹ کا سب سے بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو آئی ایم ایف کے محتاج نہیں ہیں، وہاں یہ شرح 5 فیصد سے بھی کم ہے۔” بجلی اور پانی کے شعبے کو بھی اس بجٹ میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ بجلی اور پانی کے منصوبوں کے بجٹ میں 41 فیصد کمی تجویز کی گئی ہے، جس سے دیامر بھاشا ڈیم جیسے بڑے منصوبے متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے خود اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حالات میں دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل میں بیس سال بھی لگ سکتے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ملک کے کئی علاقوں میں پانی کی قلت اور بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے، یہ منصوبے ہی واحد حل ہو سکتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے سستی بجلی صرف پانی سے پیدا کی جاتی ہے، لیکن ترقیاتی ترجیحات میں یہ بات نظرانداز کی جا رہی ہے۔ مزید برآں، حکومت نے پارلیمنٹری اسکیموں کے لیے پچاس ارب روپے رکھنے کی تجویز دی ہے، جسے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت برقرار رکھا گیا ہے۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان میٹرز سے گفتگو میں ماہرِ پبلک پالیسی ندیم الحق نے کہا، “یہ بجٹ عوام کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے بنایا جاتا ہے۔ یہاں ترقیاتی منصوبے بھی اس نیت سے نہیں بنتے کہ عوام کو فائدہ ہو، بلکہ مقصد ووٹرز کو خوش کرنا ہوتا ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ “عوام اب بیوروکریٹس کی عیاشیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ حکومت سب کچھ کرتی ہے سوائے اس کے کہ ان سرکاری بابوؤں کے غیر ضروری اخراجات میں کمی کرے۔” بجلی کے شعبے میں حکومت نے گردشی قرض کو ختم کرنے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن کے مطابق بینکوں سے 1252 ارب روپے قرض لیا جائے گا، اور یہ رقم اگلے 6 سال میں عوام سے وصول کی جائے گی۔ بجلی کے بلوں میں 10 فیصد ڈیبیٹ سروس سرچارج شامل کیا جائے گا، اور حکومت کو اس چارج میں اضافے کا اختیار بھی ہوگا۔ مزید برآں، بجلی کی سبسڈی میں کمی اور گیس کی قیمت میں اضافہ بھی اس بجٹ کا حصہ ہوگا، جس کا بوجھ بالآخر عوام پر ہی پڑے گا۔ سماجی تجزیہ کار سعدیہ قریشی نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، “بجٹ میں اگر تعلیم، صحت، پانی اور بجلی جیسے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی تو عوام کی زندگی مزید مشکل ہی ہوگی۔ غریب اور متوسط طبقے کی حالت پہلے ہی خراب ہے۔ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور تنخواہیں ویسی کی ویسی ہیں۔ ایسے میں بجٹ سے کوئی امید رکھنا بے وقوفی ہے۔” حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کے لیے کچھ مراعات، جیسے پراپرٹی سیکٹر میں ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کی تجاویز دی جا رہی ہیں، لیکن ان سے صرف مخصوص طبقات کو فائدہ ہوگا، عوام کی اکثریت کو نہیں۔ مہنگائی میں کمی اور معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بیروزگاری میں اضافہ، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا قابو سے باہر ہونا اور عوام کا بجٹ سے مایوس ہونا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پالیسیوں میں توازن کی کمی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بجٹ عوام کی زندگی آسان بنانے کے بجائے مزید مشکلات کا باعث بنے گا۔ جہاں ایک طرف قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے، وہیں تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور ترقیاتی منصوبوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کی بے چینی میں اضافہ فطری ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدہ اصلاحات نہ کیں اور معاشی حکمت عملی کو شفاف، عوام دوست اور طویل المدتی نہ بنایا، تو یہ بجٹ سیاسی و معاشی استحکام کے بجائے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔