📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس
دونوں رہنماؤں نے امریکہ کے بڑے کاروباری ایگزیکٹوز کی ایک طویل فہرست سے بھی ملاقات کی ہے جو سعودی امریکہ سرمایہ کاری فورم کے لیے ریاض میں بھی ہیں
ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت کے دوران کہا کہ ’’ہم ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے ہیں
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک نے 600 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کے وعدے کے تحت 142 بلین ڈالر کے دفاعی فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں
ٹرمپ کے ہمراہ امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام بھی سعودی عرب پہنچے ہیں۔
امریکی صدر سعردی عرب کے دارالحکومت ریاض میں چکے ہیں جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا جا رہا ہے۔
نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آج اور کل کے دوران ایک مصروف شیڈول کا سامنا کریں گے، جس میں کئی اہم علاقائی اور معاشی معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔ ملاقاتوں کا ایجنڈا شام، غزہ اور ایران جیسے حساس موضوعات کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری، توانائی اور علاقائی سلامتی کے امور پر بھی مرکوز ہوگا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے غیر ملکی دورے کے دوران سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔ سعودی حکام امریکی صدر کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ پر موجود ہیں۔
مکمل تفصیلات:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے پہلے بڑے سفارتی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر کا استقبال کیا۔ ٹرمپ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے چار روزہ دورے میں امریکا میں اہم نئی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔
اسرائیلی حکام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر بظاہر اطمینان کا اظہار کیا ہے، لیکن اندرونی طور پر واشنگٹن کی ترجیحات پر شک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ تازہ صورتحال نے اسرائیل کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید وہ اب امریکا کی اولین ترجیح نہیں رہا۔
یہ تاثر اس وقت مزید گہرا ہوا جب اسرائیل کو امریکی نژاد اسرائیلی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کی اطلاع ملی، جو واشنگٹن اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں ممکن ہوئی، اور اسرائیل ان بات چیت میں شامل ہی نہیں تھا۔
اس کے علاوہ امریکا نے سعودی عرب پر اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا جو دباؤ ڈالا تھا، وہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کا اشارہ ہے کہ فلسطینیوں سے متعلق کوئی پیش رفت نہ ہونے پر عالمی سطح پر اسرائیل کو نقصان ہو رہا ہے، اور سعودی عرب بھی اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے سے پہلے فلسطینی مسئلے پر پیش رفت کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
ٹرمپ کے اس اعلان نے بھی اسرائیل میں بے چینی پیدا کی کہ امریکا اب یمن میں حوثیوں پر حملے بند کرے گا۔ کچھ دن بعد ہی ایک حوثی میزائل نے اسرائیل کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا، جسے خطے کے لیے ایک سخت پیغام سمجھا گیا۔
اسرائیلی میڈیا ’وائی نیٹ‘ نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کو اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ امریکا کی اولین ترجیح نہیں رہا۔ کچھ اسرائیلی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ٹرمپ کی حالیہ فیصلے ان کے لیے غیر متوقع تھے، خاص طور پر حوثیوں سے متعلق فیصلے جن میں اسرائیل کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ ہونے والی بات چیت بھی اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ امریکی لچک اس کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے اور اس کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی غیر مؤثر ہو جائے گی۔
ایک اور مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب یہ اطلاعات آئیں کہ امریکا اب سعودی عرب سے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا مطالبہ نہیں کر رہا، جو کہ پہلے سول نیوکلیئر تعاون کے لیے ایک شرط تھی۔
ادھر امریکی ایلچی ایڈم بوہلر نے مارچ میں حماس سے ملاقاتیں کیں، جنہیں حماس نے “مددگار” قرار دیا۔ اس دوران امریکا نے ایڈن الیگزینڈر کی رہائی پر کام کیا اور اسرائیل کو اس سے باہر رکھا گیا، جس سے ظاہر ہوا کہ واشنگٹن اسرائیل کے بغیر بھی فیصلے کر رہا ہے۔
پیر کے دن اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ عوام کو یہ لگا کہ ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کے وقت اسرائیل کا کوئی کردار نہیں تھا۔ عوامی تاثر تھا کہ امریکا اور اسرائیل کے مفادات اب الگ ہو چکے ہیں۔
ایک شہری جیک گٹلیب نے کہا کہ اب کوئی واضح قیادت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ امریکا نے یہ معاہدہ نیتن یاہو کی مرضی کے بغیر کیا، اور ہر ملک اب اپنے مفادات کے مطابق فیصلے کر رہا ہے۔
حوثیوں سے متعلق امریکی فیصلے کو بھی اسرائیل نے ناچاہتے ہوئے قبول کر لیا، کیونکہ حوثیوں کی طرف سے مزید میزائل حملوں کی دھمکیاں جاری ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی امریکی صدر کے فیصلوں پر اسرائیلی حکومت ناراض ہوئی ہو۔ ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کو بھی اسرائیلی قدامت پسندوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے غزہ میں استعمال ہونے والے بھاری ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی لگائی تھی اور مقبوضہ مغربی کنارے میں پرتشدد یہودی آبادکاروں پر سختیاں کی تھیں۔