📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس
امریکی صدر تھوڑی قطر کے محل میں سرکاری عشائیہ کے لیے پہنچے ہیں۔الجزیرہ کی کمبرلی ہالکٹ نے کہا کہ صدر کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ زیادہ غیر رسمی انداز میں بات کریں، ڈونلڈ ٹرمپ کاروبار کرنا کبھی نہیں روکتے، چاہے وہ رسمی ہو یا غیر رسمی۔
اس کے ساتھ ہی قطر نے جنرل ایٹامکس سے MQ-9B جدید ترین ڈرونز حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے، جس کی مالیت 2 ارب ڈالر ہے۔ یہ ڈرونز انٹیلی جنس، نگرانی اور دفاعی کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
قطر نے امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون سے کاؤنٹر ڈرون (Counter-Drone) ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جس کی مالیت 1 ارب ڈالر ہے۔ یہ نظام ڈرون حملوں سے بچاؤ میں مدد فراہم کرے گا اور خطے میں دفاعی خودمختاری کو مضبوط بنائے گا۔
الجزیرہ کے مطابق قطر ایئرویز نے امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ اور انجن ساز ادارے جی ای ایرو اسپیس کے ساتھ 210 امریکی ساختہ طیارے حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جن میں بوئنگ 787 ڈریم لائنر اور 777X ماڈلز شامل ہیں۔ ان طیاروں کو GE کے جدید انجنز سے لیس کیا جائے گا۔ اس معاہدے کی کل مالیت 96 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
عالمی نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کے مطابق وائٹ ہاؤس نے قطر کے ساتھ طے پانے والے اہم دفاعی و تجارتی معاہدوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، جن کے تحت دونوں ممالک کے درمیان 99 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔ یہ معاہدے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ خلیجی دورے کے دوران طے پائے۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر ایران نے درست فیصلہ نہ کیا تو آئندہ حالات ساز گار نہیں ہونگے، امید ہے ایران ڈیل کے لئے صحیح فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ اسرائیل کافی عرصہ سے جنگ لڑ رہا ہے ، ہماری کوششوں کی وجہ سے یر غمالی زندہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مجھے معلوم ہے روسی صدر چاہتے ہیں کہ میں ترکیہ بھی آوں، روسی صدر ترکیہ میں ہوں گے تو ممکن ہے کہ میں بھی ترکیے جاؤں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے اسرائیل کو آگاہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا تر کیہ جانا ممکن ہے اور میں اس بارے میں سوچوں گا۔
صدر ٹرمپ نے شام کے صدر سے ہونے والی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری بات چیت مثبت رہی اور کئی اہم معاملات پر پیش رفت ہوئی ہے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے اپنے دورے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک سے ہمارے تعلقات جتنے بہتر ہوں گے، اتنا ہی اسرائیل کے لیے بھی یہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ خطے میں استحکام کے لیے باہمی شراکت داری ناگزیر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خلیجی دورے کے دوران قطر کے شاہی محل پہنچے، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا، شاہی محل آمد پر قطری افواج کی جانب سے صدر ٹرمپ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج تعاون کونسل (GCC) سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "خلیجی ممالک نے ہمیشہ امن کے لیے کام کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ممالک کے درمیان پراکسی وارز (بالواسطہ جنگوں) کا خاتمہ ہو۔ ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھائی جائیں گی، تاہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم ایران سے نئے معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "یرغمالیوں کی رہائی غزہ میں امن کی بنیادی شرط ہے۔ ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ شام پر سے پابندیاں ایک نئی شروعات کے لیے اٹھائی گئی ہیں۔ ہمیں خطے کو شرپسند عناصر سے پاک کرنا ہے۔ شام کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ "امریکا مشرقِ وسطیٰ میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج سعودی عرب کے دورے کے دوسرے دن امریکہ اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) کے ارکان کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
صدر ٹرمپ کی سعودی دارالحکومت ریاض میں اس سربراہ اجلاس کے موقع پر شامی صدر احمد الشراع سے ملاقات متوقع ہے۔
امریکی صدر نے منگل کے روز شام پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد دمشق میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
مکمل تفصیلات:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز اپنے خلیجی دورے کا آغاز ایک غیر متوقع اور تاریخی فیصلے کے ساتھ کیا، جس میں انہوں نے شام پر کئی دہائیوں سے عائد امریکی پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا۔
صدر ٹرمپ نے سعودی دارالحکومت ریاض میں سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی درخواست پر شام سے اقتصادی پابندیاں اٹھا رہے ہیں کیونکہ یہ وقت نئے باب کے آغاز کا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اس موقع پر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان 142 ارب ڈالر کے دفاعی سازوسامان کی فروخت پر رضامندی ہوئی ہے، جب کہ سعودی عرب نے امریکا میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ اس معاہدے کو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی تعاون قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ شام پر پابندیاں 1979 میں لگائی گئی تھیں، جنہیں بعد ازاں 2004 اور 2011 میں مزید سخت کیا گیا۔ مگر خانہ جنگی کے بعد شام نے نئی قیادت کے تحت استحکام کی راہ پر قدم رکھا ہے اور صدر احمد الشراع کی حکومت کے ساتھ امریکا اب نئے تعلقات قائم کرنے کو تیار ہے۔
شام کے وزیر خارجہ اسد الشیبانی نے اس فیصلے کو ‘تعمیر نو کی سمت ایک تاریخی شروعات’ قرار دیا ہے۔
خلیجی دورے کے دوران صدر ٹرمپ کی شامی صدر احمد الشراع سے بھی ملاقات کی، جسے علامتی طور پر ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اگر ایران نے درست فیصلہ نہ کیا تو آئندہ حالات اس کے لیے سازگار نہیں ہوں گے۔ ہم ایران پر عائد تمام پابندیاں اٹھانے کے لیے تیار ہیں، لیکن جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا امیگریشن کے ’ٹوٹے ہوئے نظام‘ کو درست کرنے کا فیصلہ، کیا اصلاحات ہوں گی؟
انہوں نے مزید کہا کہ روسی صدر کی خواہش ہے کہ وہ ترکیہ بھی آئیں اور اگر روسی صدر وہاں موجود ہوئے تو وہ اپنے دورے پر غور کریں گے۔
صدر ٹرمپ نے قطر کے شاہی محل کا بھی دورہ کیا، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور قطری افواج نے انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر نے خلیج تعاون کونسل (GCC) کے ارکان سے پراکسی وارز کے خاتمے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ”ہم مشرق وسطیٰ کو شرپسند عناصر سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ شام سے پابندیاں اٹھانا ایک علامتی اور عملی اقدام ہے، جو استحکام کی جانب ایک نئی پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔”
صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے اسرائیل، سعودی عرب، قطر اور شام کے ساتھ جامع تعاون ناگزیر ہے اور ایران کے ساتھ معاہدے کے لیے دروازے کھلے ہیں بشرطیکہ وہ عالمی اصولوں کی پاسداری کرے۔
امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر ایران نے درست فیصلہ نہ کیا تو آئندہ حالات ساز گار نہیں ہونگے، امید ہے ایران ڈیل کے لئے صحیح فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ اسرائیل کافی عرصہ سے جنگ لڑ رہا ہے ، ہماری کوششوں کی وجہ سے یر غمالی زندہ ہیں۔
انہوں نے اپنے دورے کو نہایت اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ممالک سے ہمارے تعلقات جتنے بہتر ہوں گے، اتنا ہی اسرائیل کے لیے بھی یہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔ خطے میں استحکام کے لیے باہمی شراکت داری ناگزیر ہے۔
یہ دورہ نہ صرف امریکا کی خارجہ پالیسی میں ایک نئی جہت کا عکاس ہے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے سفارتی توازن میں بھی نمایاں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس اور قطر کے درمیان طے ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات:-
غیر ملکی نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے قطر کے ساتھ طے پانے والے اہم دفاعی و تجارتی معاہدوں کی تفصیلات جاری کر دی ہیں، جن کے تحت دونوں ممالک کے درمیان 99 ارب ڈالر سے زائد کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔ یہ معاہدے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ خلیجی دورے کے دوران طے پائے۔
الجزیرہ کے مطابق قطر ایئرویز نے امریکی طیارہ ساز کمپنی بوئنگ اور انجن ساز ادارے جی ای ایرو اسپیس کے ساتھ 210 امریکی ساختہ طیارے حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جن میں بوئنگ 787 ڈریم لائنر اور 777X ماڈلز شامل ہیں۔ ان طیاروں کو GE کے جدید انجنز سے لیس کیا جائے گا۔ اس معاہدے کی کل مالیت 96 ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
قطر نے امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون سے کاؤنٹر ڈرون (Counter-Drone) ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جس کی مالیت 1 ارب ڈالر ہے۔ یہ نظام ڈرون حملوں سے بچاؤ میں مدد فراہم کرے گا اور خطے میں دفاعی خودمختاری کو مضبوط بنائے گا۔
اس کے ساتھ ہی قطر نے جنرل ایٹامکس سے MQ-9B جدید ترین ڈرونز حاصل کرنے کا معاہدہ بھی کیا ہے، جس کی مالیت 2 ارب ڈالر ہے۔ یہ ڈرونز انٹیلی جنس، نگرانی اور دفاعی کارروائیوں میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
الجزیرہ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹرمپ اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کے درمیان آج ہونے والے معاہدوں سے “کم از کم 1.2 ٹریلین ڈالر کا معاشی تبادلہ ہوگا”۔
بیان میں 243.5 بلین ڈالر کے اقتصادی سودوں کی طرف اشارہ کیا گیا، جن میں قطر ایئرویز کی جانب سے بوئنگ طیاروں کی خریداری، ہتھیاروں کے حصول اور قدرتی گیس اور کوانٹم ٹیکنالوجیز سے متعلق سودے شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس بیان میں کہا گیا کہ امریکہ اور قطر نے ممکنہ سرمایہ کاری میں 38 بلین ڈالر سے زیادہ کے ارادے کے بیان پر دستخط کیے ہیں، جس میں العدید ایئر بیس پر بوجھ کی تقسیم کے لیے تعاون کے ساتھ ساتھ فضائی دفاع اور میری ٹائم سیکیورٹی سے متعلق مستقبل کی دفاعی صلاحیتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔