Haq do balochistan

📢 تازہ ترین اپ ڈیٹس

وفاقی حکومت کی قائم کمیٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات کل دوپہر دو بجے اسلام آباد میں ہوں گے، جماعت اسلامی کا مذاکراتی وفد کل صبح آٹھ بجے لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ روانہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کا مذاکراتی وفد گجرانوالہ ، گجرات میں استقبالیہ جلسوں سے خطاب بھی کرے گا۔ حکومت کی جانب سے چھ رکنی کمیٹی کی سربراہی معاون خصوصی برائے وزیر اعظم رانا ثناء اللہ کریں گے۔کمیٹی مذاکرات کی پیش رفت سے وزیر اعظم کو آگاہ کرے گی۔

امیر جماعتِ اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ حق دو بلوچستان مارچ کے مطالبات پر مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کا نوٹیفیکیشن فی الفور نہ کیا گیا تو خود اس لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد جاؤں گا۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے کہا ہے کہ ہم سیاسی کارکن ہیں اور مذاکرات کے قائل ہیں، ہم جنگ کرنا نہیں بلکہ مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہم اسلام آباد کسی سے لڑنے نہیں جارہے۔ گزشتہ تین چار دنوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ ہمارے آٹھ مطالبات ہیں، جو ہم نے وفاقی حکومت کو بھی دیے ہیں اور پنجاب حکومت کو بھی دیے ہیں۔ ہم اول و آخر مذاکرات کے قائل ہیں۔ ہمیں طاقت، بندوق یا پولیس دکھا کر کوئی نہیں ڈرا سکتا۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے کہا ہے کہ ہم سیاسی کارکن ہیں اور مذاکرات کے قائل ہیں، ہم جنگ کرنا نہیں بلکہ مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہم اسلام آباد کسی سے لڑنے نہیں جارہے۔ گزشتہ تین چار دنوں سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ ہمارے آٹھ مطالبات ہیں، جو ہم نے وفاقی حکومت کو بھی دیے ہیں اور پنجاب حکومت کو بھی دیے ہیں۔ہم اول و آخر مذاکرات کے قائل ہیں۔ ہمیں طاقت، بندوق یا پولیس دکھا کر کوئی نہیں ڈرا سکتا۔

امیر جماعتِ اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ ایران سے گیس کی پائپ لائن کیوں نہیں مکمل کی گئی؟ امریکا سے ڈرتے ہو؟ گیس بلوچستان سے نکلتی ہے، لیکن وہاں کے لوگ محروم ہیں۔ بجلی پہاڑوں میں بنتی ہے، مگر حق سب کا ہے۔ حکمران مافیا خود متحد، عوام کو تقسیم کرتے ہیں۔ اب عوام متحد ہوں گے، مافیا تقسیم ہو گی۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ1971 میں فوج نے ہتھیار ڈالے، جماعت اسلامی نے نہیں ڈالے، اگر لاپتا افراد پہاڑوں میں ہیں تو تصاویر اور ثبوت کیوں نہیں؟ جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل ناقابل قبول ہیں۔ بلوچوں، پشتونوں کو عزت دو، یہی مطالبہ ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان کو قومی دھارے میں لا چکی ہے، اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو لانگ مارچ کا آغاز دوبارہ ہو گا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، سب بلوچستان کے ساتھ ہیں۔ ایف سی افسران کی کرپشن کا احتساب کرو، صرف سمگلنگ بند نہ کرو۔

لاہور پریس کلب کے سامنے حق دو بلوچستان لانگ مارچ کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں کا راستہ روکنا شرمناک ہے، مظفرگڑھ میں رکاوٹیں ڈالیں، مگر ہم نے تصادم کے بجائے بات چیت کو ترجیح دی، پوری قوم بلوچستان کے ساتھ کھڑی ہے، یہ سازشیں حکمران طبقہ کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی بلوچوں، پنجابیوں، سندھیوں، مہاجروں سب کے لیے آواز بلند کرتی ہے، پاکستان کسی زمین کا ٹکڑا نہیں، ایک نظریے کا نام ہے، حکمران طبقے کا اتحاد، عوام کے حقوق کا دشمن ہے، فارم 47 کی حکومت جمہوریت کا جنازہ ہے۔

امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ 1971 میں فوج نے ہتھیار ڈالے تھے، جماعتِ اسلامی نے تب بھی نہیں ڈالے تھے۔ پاکستان کسی زمین کا ٹکڑا نہیں ایک نظریے کا نام ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد والوں سے ہمارا صرف ایک سوال ہے کہ ہمیں کلاشنکوف کی نہیں، پیناڈول کی گولی چاہیے، ہمیں تعلیم چاہیے، روزگار چاہیے، عزت چاہیے اور امن چاہیے۔ ہمارے بچوں کی لاشیں جنگلوں سے ملتی ہیں، اسکول بیگ کندھوں پر ہوتے ہیں، کفن ملتا ہے۔ بلوچستان کی ماں، بہن اور بیٹی بھی پاکستانی ہے، ان کی عزت کی بھی حفاظت ہونی چاہیے، آپ نے 1971 میں بنگالیوں کو بھی یہی کہا تھا، اب بلوچوں کو الگ کر رہے ہیں، ہم کسی علیحدگی پسند تنظیم کے حمایتی نہیں، ہم جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، بلوچستان ہمارا ہے، کسی جرنیل یا سردار کی جاگیر نہیں۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان سے لاہور تک مارچ کیا، شدید گرمی میں کئی کارکن بے ہوش بھی ہوگئے اور ہمارا راستہ بھی روکا گیا، ہمیں اسلام آباد جانے سے روکا گیا، کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں؟ لاہور میں منصورہ کے اندر ہمیں قید رکھا گیا، کہا گیا اسلام آباد نہیں جا سکتے، بلوچ نوجوانوں کو جمہوری جدوجہد کا راستہ دکھاتے ہیں، مگر راستے بند کیے جا رہے ہیں۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے دھرنے میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا، بنگالیوں کو بے عزت کیا گیا تھا، ان کو گالیاں دیں گئی اور ان کے رنگ کا مذاق بنایا گیا۔ آج میں کہتا ہوں کہ بلوچستان کو بلوچ علیحدہ نہیں کرنا چاہتے اسے بنگلہ دیش نہ بنایا جائے۔

’حق دو بلوچستان‘ دھرنا لاہور پریس کلب کے سامنے ساتویں روز بھی جاری ہے، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان بھی دھرنے میں شریک ہیں، جب کہ دھرنے کی قیادت امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں۔

امیرجماعتِ اسلامی بلوچستان نے کہا ہے کہ حکومت پریس ریلیز جاری کرے کہ بلوچستان والے اسلام آباد نہ آئیں، ان کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں ہے، میں اپنے لوگوں کو لےکر چلا جاؤں گا اور دوبارہ ادھر کا رخ نہیں کروں گا۔

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ لاہور پولیس کے 2000 اہلکار منصورہ کے باہر پڑے تھے، ایسا معلوم ہوا کہ لاہور میں ہرطرف امن ہی امن ہوگیا ہے، اسٹریٹ کرائمز ختم ہوگئے ہیں، موٹرسائیکل چوریاں ختم ہوگئی ہیں اور صرف منصورہ کا گیٹ باقی ہے، اس لیے منصورہ کے گیٹ کو آکر گھیرلیا۔

مولانا ہدایت الرحمان نے لاہور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئےکہا ہےکہ ہم کوئی دہشتگرد نہیں ہیں، ہم بلوچستان کے مظلوم لوگ ہیں، جو اسلام آباد اپنا حق لینے جارہے ہیں، مگر ہر جگہ روکا گیا، لاہور میں دو دن پنجاب حکومت ہمیں یہی کہتی رہی کہ بڑے لوگ آپ کو اسلام آباد نہیں جانے دیں گے۔

حق دو بلوچستان لانگ مارچ کے شرکاء منصورہ سے تقریباً ساڑھے چار بجے پریس کلب کے لیے روانہ ہوئے۔

لیاقت بلوچ نے ’پاکستان میٹرز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے تو پولیس کا محاصرہ توڑ سکتے تھے، لاہور پریس کلب پر احتجاج ہوگا، مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوتی تو مارچ کے شرکاء اسلام آباد جانے کے لیے آزاد ہوں گے۔ لاہور پریس کلب کا دھرنا غیر معینہ مدت تک جاری رہے گا اس کا کوئی ٹائم فریم طے نہیں۔

حق دو بلوچستان تحریک کی قیادت کرنے والے ہدایت الرحمان بلوچ پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ ہوگئے، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ماؤں، بہنوں اور اساتذہ کی عزت چاہتے ہیں۔

مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ دونوں سطح کے وفود مزاکرات کریں گے امید کرتی ہوں وہاں بھی مسائل کا حل نکالا جائے گا۔

مولانا ہدایت الرحمان کی قیادت میں وفد اسلام ِآباد میں جاٰے گا، وفاقی کمیٹی کے ممبران کا تعین ہوگیاہے۔ جس میں محسن نقوی، رانا ثنااللہ، عطا تارڑ، طلال چوہدری، جام کمال، سیکرٹری داخلہ بھی کمیٹی کا حصہ یونگے۔

مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعلٰی کی ہدایت کی تھی مولانا ہدائت الرحمن صاحب اور بلوچ بھائیوں کا پورا خیال رکھا جائے، شرکاء کے مطالبات ہمارے دل کے قریب ہیں ہم انکے ساتھ ہیں۔

حق دو بلوچستان مارچ لاہورپریس کلب جائے گا، مزید مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوگیا، مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کے وفاق سے مذاکرات کروانے میں پنجاب پوری طرح سہولت فراہم کرے گا۔

لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ کل سے لانگ مارچ کے شرکاء لاہور میں رکے ہوئے ہیں، بلوچستان سے آئے مہمانوں کو پنجاب میں مختلف جگہوں پر رکنا پڑا، یہ سب پرامن ہیں۔

حکومت اور جماعت اسلامی کے درمیان مذاکرات ختم ہوگئے ہیں، نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ، سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، ہدایت الرحمان بلوچ پریس کانفرنس کررہے ہیں۔

بلوچستان سے آئے مارچ کے شرکاء کی منصورہ مرکزی گیٹ پر نعرہ بازی جاری ہے۔

جماعت اسلامی اور پنجاب حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں وقفہ کردیا گیا، دونوں اطراف سے قائدین میں باہمی مشاورت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔

جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جبکہ شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بلوچستان حق دو لانگ مارچ کے شرکاء پرامن ہیں ،انہیں اسلام آباد جانے کا حق ہے۔


مکمل تفصیلات:

’حق دو بلوچستان‘ دھرنا لاہور پریس کلب کے سامنے ساتویں روز بھی جاری ہے، امیر جماعتِ اسلامی حافظ نعیم الرحمان بھی دھرنے میں شریک ہیں، جب کہ دھرنے کی قیادت امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے دھرنے میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 16 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا، بنگالیوں کو بے عزت کیا گیا تھا، ان کو گالیاں دیں گئی اور ان کے رنگ کا مذاق بنایا گیا۔ آج میں کہتا ہوں کہ بلوچستان کو بلوچ علیحدہ نہیں کرنا چاہتے اسے بنگلہ دیش نہ بنایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے لاہور تک مارچ کیا، شدید گرمی میں کئی کارکن بے ہوش بھی ہوگئے اور ہمارا راستہ بھی روکا گیا، ہمیں اسلام آباد جانے سے روکا گیا، کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں؟

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ لاہور میں منصورہ کے اندر ہمیں قید رکھا گیا، کہا گیا اسلام آباد نہیں جا سکتے، بلوچ نوجوانوں کو جمہوری جدوجہد کا راستہ دکھاتے ہیں، مگر راستے بند کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد والوں سے ہمارا صرف ایک سوال ہے کہ ہمیں کلاشنکوف کی نہیں، پیناڈول کی گولی چاہیے، ہمیں تعلیم چاہیے، روزگار چاہیے، عزت چاہیے اور امن چاہیے۔ ہمارے بچوں کی لاشیں جنگلوں سے ملتی ہیں، اسکول بیگ کندھوں پر ہوتے ہیں، کفن ملتا ہے۔

امیر جماعتِ اسلامی بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان کی ماں، بہن اور بیٹی بھی پاکستانی ہے، ان کی عزت کی بھی حفاظت ہونی چاہیے، آپ نے 1971 میں بنگالیوں کو بھی یہی کہا تھا، اب بلوچوں کو الگ کر رہے ہیں، ہم کسی علیحدگی پسند تنظیم کے حمایتی نہیں، ہم جماعت اسلامی کے کارکن ہیں، بلوچستان ہمارا ہے، کسی جرنیل یا سردار کی جاگیر نہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے مظالم کے خلاف جمہوری مزاحمت کریں گے، کور کمانڈر نے معافی مانگی، مگر ماں کو دی گئی گالی کبھی معاف نہیں ہو سکتی، ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، تشدد کیا گیا، لیکن ماں کی توہین پر کبھی خاموش نہیں ہوں گے۔

Mansora
اس مارچ کی قیادت امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان کر رہے ہیں۔ (تصویر: پاکستان میٹرز)

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ ہماری جدوجہد سیاسی ہے، جمہوری ہے، آئینی ہے لیکن ثابت قدم ہے۔ اسلام آباد کی پولیس ہمیں دہشتگرد سمجھتی ہے، مذاکرات سے پہلے ہمارا انسان مانا جائے۔ ہماری مائیں، بہنیں اور بچے سڑکوں پر بیٹھے ہیں، کیا یہ انسان نہیں؟

انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر آج رات تک مذاکرات شروع نہ ہوئے، تو امیر جماعت کی قیادت میں اسلام آباد مارچ ہو گا۔ پنجاب کے عوام، اساتذہ، نوجوان ہمارے ساتھ ہیں، ہم تنہا نہیں۔ بلوچستان کے ہر گاؤں، ہر محلے میں اب کلمے والا جھنڈا لہرایا جائے گا۔ ہم اسٹیبلشمنٹ، نوابوں، وڈیروں اور مظالم کے ہر نمائندے کا سیاسی و اخلاقی مقابلہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت اور جماعت اسلامی کے مذاکرات ختم: ’بلوچستان لانگ مارچ کل پلان کے مطابق اسلام آباد جائے گا

یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے تحت بلوچستان کے عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے شروع کیے گئے “حق دو بلوچستان” مارچ کا قافلہ سات روز قبل کوئٹہ سے روانہ ہوا، جہاں راستے میں مظفرگڑھ اور ڈی جی خان کے مقام پر انہیں روکا گیا، مظفرگڑھ پولیس کی جانب سے مارچ کے شرکاء کو 24 گھنٹوں کے لیے چناب پل پر روک دیا گیا، جس کے بعد یہ مارچ جی ٹی روڈ کے ذریعے ملتان سے ہوتا ہوا 28 جولائی کی رات کو لاہور پہنچا، جہاں اس کا مارچ کا خوشگوار استقبال کیا گیا۔

29 جولائی کی صبح کو اس مارچ نے اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کرنا تھی، مگر لاہور پولیس کی جانب سے جماعتِ اسلامی کے ہیڈکوارٹر کا گھیراؤ کیا گیا اور انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا گیا۔ صوبائی وزیرمریم اورنگزیب کی قیادت میں ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی، مگر ناکام ہوئے پھر اگلے روز مذاکرات ہوئے جو کہ کامیاب ہوئے اور لاہور پریس کلب کے سامنے دھرنا دے دینے کی اجازت دے دی گئی۔

لانگ مارچ کے شرکاء کو روکنے کے لیے دوسرے روز بھی پولیس کی بھاری نفری منصورہ کے باہر تعینات رہی۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کے مطابق شرکاء پرامن طور پر اسلام آباد کی جانب روانہ ہوں گے اور ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں۔

اس مارچ کی قیادت امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمان کر رہے ہیں اور اسے بلوچستان کے عوام کے حقوق کی جدوجہد کا ایک اہم حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔