Follw Us on:

2014 دھرنا کیس:ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع

حسیب احمد
حسیب احمد
ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع (تصویر، گوگل)

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی جانب سے 2014 میں دھرنوں کے کیس میں ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کر دی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی جانب سے 2014 میں دھرنوں سے متعلق کیس کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ شہزاد خان نے کی۔

دوران سماعت غیر حاضری پر عدالت نے ایم این اے خرم شہزاد، علامہ راجہ ناصر عباس سمیت دیگر کارکنوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

عدالت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے کیسز کی مزید سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔

عمران خان متعلقہ مقدمات میں حاضری سے مستقل استنیٰ پر ہیں، بانی پی ٹی آئی و دیگر کے خلاف تھانہ سیکرٹریٹ میں 2 مقدمات درج ہیں۔

ایم این اے خرم شہزاد، علامہ راجہ ناصر عباس سمیت دیگر کارکنوں کے (تصویر، گوگل)وارنٹ گرفتاری جاری

یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جو کئی ماہ جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک اسکول حملے کے تناظر میں ختم کردیا گیا تھا۔

دھرنے کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کردیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئیں تھیں۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام پر انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔

پولیس نے دھرنے کے دوران تشدد کو ہوا دینے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور رہنماؤں ڈاکٹر عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، اعجاز چوہدری اور دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ لاگو کیا تھا۔

عمران خان متعلقہ مقدمات میں حاضری سے مستقل استنیٰ پر ہیں(تصویر، گوگل)

 

اس معاملے پر استغاثہ کے پرانے مؤقف کے مطابق 3 افراد ہلاک اور 26 دیگر زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ استغاثہ نے اپنے کیس کو قائم کرنے کے لیے 65 تصاویر، لاٹھی، کٹر اور دیگر اشیا کو ثبوت کے طور پر عدالت میں پیش کیا تھا۔

11 ستمبر 2018 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے دھرنے کے دوران بننے والے 3 مقدمات میں وزیراعظم عمران خان کی مستقل حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی تھی۔

بعدازاں جج نے پی ٹی وی حملہ کیس سے عمران خان کی بریت کا کیس الگ کردیا تھا اور پی ٹی وی حملہ کیس کی ایک سماعت میں وزیراعظم کے وکیل کو 12 نومبر تک دلائل سمیٹنے کی ہدایت کی تھی۔

جس کے بعد اے ٹی سی نے پارلیمنٹ حملہ کیس سے وزیراعظم عمران خان کو بری کردیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو فرد جرم عائد کرنے کے لیے طلب کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان اس مقدمے میں اشتہاری رہ چکے ہیں اور بریت کے فیصلے سے قبل ضمانت پر تھے جبکہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری مقدمے میں بدستور اشتہاری ہیں۔

 

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس