Follw Us on:

’اپنی دنیا آپ پیدا کر‘ شیخوپورہ میں بھی’بنوقابل‘ پروگرام کا آغاز

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

امیر جماعتِ اسلامی کا کہنا ہے کہ” پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔

انہوں نے شیخوپورہ میں ہونے والے بنو قابل پروگرام کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ اس پروگرام کا حصہ بنے۔ یہ “بنو قابل” پروگرام پورے پاکستان میں نوجوانوں کے لیے سب سے کامیاب تعلیمی پروگرام بن چکا ہے، اور یہ محض ایک پروگرام نہیں بلکہ ان شاء اللہ ایک انقلاب ثابت ہوگا، ایک ریولوشن بنے گا، اور آپ سب اس کا حصہ ہوں گے۔

میں رضاکاروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے پیپرز تیار رکھیں، اور جیسے ہی بات مکمل ہو، یہاں سے اعلان کیا جائے اور پیپرز تقسیم کر دیے جائیں۔”

اب میں دو تین اہم نکات پر بات کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ جو موقع آپ کو ملا ہے، وہ ایک اہم فیصلہ ہے جو ہم نے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت کیا تاکہ ایک ایسا پروگرام متعارف کرایا جا سکے جو ہمارے نوجوانوں کو مثبت سمت میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے اور انہیں ایسی مہارتیں حاصل کرنے کا موقع فراہم کرے جو انہیں اپنے قدموں پر کھڑا کر سکیں۔

پاکستان میں تعلیم کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے۔ المیہ یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے تعلیم حاصل کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، وہ بڑی قربانیوں  سے،” پیٹ کاٹ کر، محنت مزدوری کر کے انہیں تعلیم دلا رہے ہیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی 25 کروڑ آبادی میں سے 10 کروڑ 50 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ 75 لاکھ بچے، جن کی عمر 5 سے 16 سال کے درمیان ہے، اسکول سے باہر ہیں۔

ہمارے ملک میں ایسا نظام مسلط کر دیا گیا ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں، جہاں کے بارے میں ہر روز اشتہارات میں ترقی اور نوجوانوں کی پذیرائی کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، عملی طور پر حالات یہ ہیں کہ تقریباً 1 کروڑ 25 لاکھ (12 ملین) بچے، جن کی عمریں 5 سے 16 سال کے درمیان ہیں، اسکول نہیں جا رہے۔

اس کے برعکس، اس مسئلے پر کام کرنے اور اسکولوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے، پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں سے بھی جان چھڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں مختلف این جی اوز کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، سرکاری تعلیمی نظام کا معیار اس قدر گرا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معیاری تعلیم حاصل کریں، تو وہ انہیں نجی تعلیمی اداروں میں داخل کرواتے ہیں، جبکہ سرکاری ادارے محض مجبوری کا انتخاب بن چکے ہیں۔

جو بچے اسکول سے باہر ہیں یا معیاری تعلیم سے محروم ہیں، ان کے لیے آپ آواز بلند کریں گے۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز)

یہ صورتحال ہمارے لیے لمحہِ فکریہ ہے، اور ہمیں اس کے سدباب کے لیے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔

جبکہ آئینِ پاکستان یہ کہتا ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو معیاری اور مفت تعلیم فراہم کرنی ہے، جو کہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کتنے عرصے تک اس بوجھ کو اٹھا سکتا ہے؟ تعلیم کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، کیونکہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، یہاں تک کہ موبائل کے استعمال پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ ہمارا حق ہے کہ ہمیں معیاری اور مفت تعلیم ملے۔

میں آپ سب سے یہ عہد لینا چاہتا ہوں کہ جو بچے اسکول سے باہر ہیں یا معیاری تعلیم سے محروم ہیں، ان کے لیے آپ آواز بلند کریں گے اور اپنے اس حق کو حکمرانوں سے منوا کر رہیں گے۔ پاکستان کے ہر بچے کو معیاری تعلیم ملنی چاہیے۔ تعلیم کو دولت کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر فراہم کیا جانا چاہیے۔

تمام انسان برابر ہیں، کوئی بھی پیدائشی طور پر ذہین نہیں ہوتا۔ یہ ماحول اور مواقع ہوتے ہیں جو کسی شخص کی صلاحیتوں کو نکھارتے اور اسے آگے بڑھنے کا موقع دیتے ہیں۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ سب کے لیے برابر” کے مواقع فراہم کرے تاکہ ہر فرد اپنی اہلیت کے مطابق ترقی کر سکے۔

پاکستان ایک نوجوانوں کا ملک ہے، جہاں 30 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 60 فیصد سے زائد ہے، جبکہ 40 سال تک کی عمر کے افراد کی تعداد 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے انہیں معیاری تعلیم کے مواقع میسر نہیں۔

اگر آج کی دنیا میں کسی چیز کے ذریعے ایک ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے تو وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کون سا سرکاری ادارہ ایسا ہے جو ایک لاکھ روپے سے کم فیس میں ڈگری پروگرام فراہم کر رہا ہو؟ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ غریب طبقہ تو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے، اور متوسط طبقہ بھی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں، جبکہ نجی اداروں میں تعلیم مزید مہنگی ہے۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کی منصورہ لاہور آمد، امیر جماعت اسلامی سے ملاقات

اس صورتحال میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی آواز بلند کریں اور اس تحریک کا حصہ بنیں، کیونکہ تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں۔ ہم فری ایجوکیشن، معیاری ایجوکیشن اور آئی ٹی ایجوکیشن کا مطالبہ کرتے ہیں اور حکومت سے اپنا حق چھین کر لیں گے۔ یہ صرف زبانی مطالبہ نہیں، بلکہ ہم نے دنیا کو عملی طور پر دکھا دیا ہے کہ اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے تو ایک ادارہ اور ایک تنظیم لاکھوں نوجوانوں کو انقلاب کا حصہ بنا سکتی ہے۔

ہمارے اس سفر کا آغاز کراچی سے ہوا، اور دو سال کے اندر چار لاکھ نوجوان ہمارے پروگرام میں رجسٹر ہو چکے ہیں، جن میں سے 50 ہزار سے زائد طلبہ کورس مکمل کر کے سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یا تو ملازمت حاصل کر چکے ہیں یا فری لانسنگ کر رہے ہیں، جو اس پروگرام کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اس وقت بھی ہمارے جاری بیچ میں تقریباً 40 سے 50 ہزار طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم نے لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں بھی اس پروگرام کا آغاز کیا، اور اب ہم اس کے اگلے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔

گزشتہ چند دنوں میں، 13 تاریخ کو لاہور میں ہونے والے اسٹیٹیوڈ ٹیسٹ کے دوران پورا اسٹیڈیم طلبہ سے بھر گیا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ میں جگہ کم پڑ گئی، اور آج، ایک وسیع و عریض اسٹیڈیم میں بھی نوجوانوں کا جم غفیر موجود ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا نوجوان سیکھنا اور آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ ہمیں اگر مواقع فراہم کیے جائیں تو ہم پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا سکتے ہیں۔

صرف آئی ٹی کی فیلڈ ایسی ہے جس میں، اگر ہم صحیح مواقع فراہم کریں، تو پاکستان کی مجموعی برآمدات دگنی ہو سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی کل آئی ٹی ایکسپورٹ صرف تین بلین ڈالر ہے، جبکہ موجودہ مواقع کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر ہم پالیسی کو تھوڑا بہتر کریں اور لوگوں کو بااختیار بنائیں، تو ہم محض دو سے تین سال میں اس برآمد کو کم از کم 10 بلین ڈالر تک لے جا سکتے ہیں، اور اگلے پانچ سال میں 20 بلین ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹ ممکن ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف ہمارے مالی مسائل حل ہو سکتے ہیں بلکہ قرضوں کی ادائیگی بھی ممکن ہو گی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔

بدقسمتی سے، اس شعبے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی، لیکن ہم نہ صرف اس حوالے سے آواز بلند کریں گے بلکہ اپنے حصے کا کام بھی کریں گے۔ آپ سب ہمارے ایمبیسیڈر ہیں، آپ یہاں صرف ٹیکس دینے نہیں آئے بلکہ اس بڑے “قابل” پروگرام کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ کیا آپ تیار ہیں اس کے ایمبیسیڈر بننے کے لیے؟ اگر ہاں، تو ہاتھ اٹھا کر اور تالیاں بجا کر جواب دیجیے۔

آپ سب ہمارے سفیر ہیں، اور جب آپ اس چراغ سے دوسروں کے چراغ جلائیں گے، تو یہ روشنی مزید پھیلے گی، ان شاء اللہ۔ اس “قابل” پروگرام کے تحت یہاں موجود تمام نوجوانوں کو تعلیم دی جائے گی۔ اگر آپ میں سے ساڑھے پانچ ہزار افراد رجسٹر ہو جائیں، تو ان شاء اللہ زاہد بھائی ہم سب کو 100 فیصد تعلیم دیں گے۔

یہ تعلیم بالکل مفت ہوگی، اور اس میں کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مفت تعلیم صرف غریبوں کے لیے ہوتی ہے، لیکن ہمارا نظریہ مختلف ہے۔ یہاں ہر فرد کو یکساں معیار کی معیاری تعلیم دی جائے گی، چاہے وہ ارب پتی ہو، کروڑ پتی ہو، یا انتہائی غریب ہو۔

تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی طبقاتی تقسیم کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس ماڈل کو پورے ملک کے تعلیمی نظام میں نافذ کرنے کے لیے بھی کام کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ تعلیم کا یہ پورا نظام طبقاتی تفریق سے آزاد ہو۔

یہاں ہر فرد کو یکساں معیار کی معیاری تعلیم دی جائے گی۔ (فوٹو: پاکستان میٹرز))

اگر میں آپ سے صرف یہ کہوں کہ پاکستان میں پچھلے ایک مالی سال میں حکومت نے چند سو افراد کو دو ہزار ارب روپے دیے—اس کام کے بدلے جو انہوں نے کیا ہی نہیں، اس بجلی کے بدلے جو انہوں نے بنائی ہی نہیں، تو کیا یہ ظلم نہیں؟ دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو ادا کیے گئے، جبکہ یہی رقم چاروں صوبوں اور وفاق کے مجموعی تعلیمی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔

اگر یہی دو ہزار ارب روپے نوجوانوں کی تعلیم پر خرچ کیے جاتے تو کیا ہوتا؟ پاکستان میں میٹرک کے بعد تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تمام طلبہ کی سو فیصد فیس اسکالرشپ کے تحت ادا کی جا سکتی تھی۔ اور سنیں! اس پر محض 570 ارب روپے خرچ ہوتے، یعنی وہ رقم جو چند لوگوں کی جیب میں ڈال دی گئی، اس کا صرف ایک چوتھائی حصہ قوم کے مستقبل کو سنوار سکتا تھا۔ مگر نہیں! ہمارے حکمرانوں کو چند طاقتور افراد کو نوازنا زیادہ ضروری لگتا ہے، اس لیے وہ ان آئی پی پیز کی جیبیں بھرتے ہیں جنہوں نے بجلی پیدا ہی نہیں کی، لیکن انہیں اربوں روپے دے دیے گئے۔

مگر وہ قومیں جو اپنی عوام کو ترقی دینا چاہتی ہیں، وہ ایسے منصوبے شروع کرتی ہیں جن سے عام آدمی کا مستقبل روشن ہو۔ میں آج آپ سب کے توسط سے جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شیخوپورہ میں کوئی یونیورسٹی نہیں ہے۔ لہٰذا، میں آپ سب کی آواز میں آواز ملا کر مطالبہ کرتا ہوں کہ فوری طور پر شیخوپورہ میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے۔

یہ مطالبہ آپ سب کے دل و دماغ میں رچ بس جانا چاہیے کہ تعلیم حق ہے، خیرات نہیں! ہمیں ہمارا حق دیا جائے! ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں گے، اور ان شاء اللہ، اپنے حصے کا کام بھی جاری رکھیں گے۔

ہماری کئی منصوبے ہیں۔ ہم آئی ٹی یونیورسٹی بھی بنا رہے ہیں، وکیشنل سینٹرز بھی قائم کر رہے ہیں، اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے بھی ایک بڑا پروگرام لا رہے ہیں۔ انہیں صرف ہاؤس وائف کہہ کر ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے گھروں میں رہ کر بھی معاشرے کا ایک اہم ستون ہیں۔ انہیں وراثت میں حق ملنا چاہیے، تحفظ ملنا چاہیے، اور ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جانے چاہئیں۔

اسی طرح، ہم اساتذہ کے لیے بھی ایک منفرد تربیتی پروگرام متعارف کروا رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں سرکاری اور نجی اساتذہ کو ایک معیاری نصاب کے مطابق تربیت دی جائے گی تاکہ چھٹی جماعت سے ہی طلبہ کو آئی ٹی کی تعلیم دی جا سکے۔ اس سے ہماری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گی۔ ان شاء اللہ، یہ منصوبے جلد لانچ ہوں گے، اور ایک دن یونیورسٹیاں بھی قائم ہوں گی۔

اب آخر میں، میں آپ سب سے تین باتیں کہنا چاہتا ہوں:

اپنے دین پر فخر کریں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اللہ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں۔ قرآن کا مطالعہ کریں، نماز قائم کریں، اور اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزاریں۔

پاکستان اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ یہ نہ جرنیلوں کا پاکستان ہے، نہ بیوروکریٹس کا، اور نہ ہی سیاستدانوں کا۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے، ان شہداء کا ہے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ لہٰذا، مایوسی کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔ مایوسی کفر ہے، شیطان کا ہتھیار ہے، جو قوموں کو تباہ کر دیتا ہے۔ حوصلہ رکھیں اور اپنے ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔

اپنے والدین کی عزت کریں۔ انہوں نے اپنی زندگی کی محنت آپ پر لگا دی ہے۔ ان کی عزت کریں گے تو دنیا میں آپ کی عزت ہوگی۔

۔اللہ آپ سب کو کامیاب کرے، خوش رکھے، اور ترقی عطا فرمائے۔ بہت شکریہ!

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس