متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں برسوں سے جاری خشکی کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک نیا اور انوکھا طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
عالمی سطح پر ماہرین کا ایک گروپ ابوظہبی میں اس بات پر غور کر رہا ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت (AI) کو استعمال کر کے اس خشک ملک میں مزید بارش لائی جا سکتی ہے جہاں زمین کا بیشتر حصہ صحرا ہے اور بارش ایک نایاب نعمت ہے۔
یو اے ای، جو اپنی تیل کی دولت کے لیے جانا جاتا ہے، اس نے دہائیوں کی محنت اور لاکھوں ڈالر اس مسئلے پر خرچ کیے ہیں، لیکن پھر بھی یہاں بارش معمول کی بات نہیں۔ تاہم، حالیہ “انٹرنیشنل رین اینہانسمنٹ فورم” کے دوران، حکام نے ایک نیا اُمید کا پیغام دیا ہے انکا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے بادلوں سے زیادہ پانی نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس فورم میں اس جدید منصوبے پر بات چیت کی گئی جس میں مصنوعی ذہانت کو بادلوں کی سیڈنگ (cloud seeding) کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یہ عمل طیاروں کے ذریعے نمک یا دیگر کیمیائی مادے بادلوں میں پھینک کر بارش بڑھانے کی کوشش ہے۔ سکرپٹس انسٹی ٹیوٹ آف اوشینو گرافی کے “سن ڈیاگو یونیورسٹی” کے ڈپٹی ڈائریکٹر، لوکا ڈیلے موناکے نے بتایا، “ہم اس منصوبے کے آخری مراحل میں ہیں اور یہ تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔”
لازمی پڑھیں:افغانستان میں ژالہ باری اور بارشوں کا تباہ کن اثر، 29 افراد جاں بحق
اگرچہ ڈیلے موناکے نے مصنوعی ذہانت کو اس مسئلے کا آخری حل نہیں قرار دیا، مگر اس کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی یو اے ای جیسے ممالک کے لیے ایک اہم قدم ہو سکتی ہے۔
سیڈنگ کا عمل صرف مخصوص بادلوں کے ساتھ موثر ہوتا ہے، اور غلط وقت پر کی جانے والی سیڈنگ بارش کو روک بھی سکتی ہے۔ اس لیے مصنوعی ذہانت کی مدد سے صحیح وقت اور جگہ کا تعین کیا جائے گا تاکہ اس عمل کی کامیابی کو بڑھایا جا سکے۔
اس منصوبے کو تین سال کی مدت میں 1.5 ملین ڈالر کی فنڈنگ سے تیار کیا گیا ہے جو یو اے ای کے “رین اینہانسمنٹ پروگرام” کے تحت شروع کیا گیا ہے۔
اس میں سیٹلائٹ، ریڈار، اور موسمی ڈیٹا کو ایک الگورڈم میں شامل کیا جاتا ہے جو اگلے چھ گھنٹوں میں بارش کے لیے موزوں بادلوں کی پیش گوئی کرتا ہے۔
یو اے ای میں بارش کی مقدار سالانہ صرف 100 ملی میٹر (3.9 انچ) ہے، جس کے باعث ملک کی 90 فیصد آبادی پانی کی کمی کا شکار ہے اور زیادہ تر پانی کو سمندر سے صاف کر کے استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیو یارک سٹی نے PIA کے روزویلٹ ہوٹل کے ساتھ 220 ملین ڈالر کا معاہدہ منسوخ کر دیا
اس ملک کی آبادی کی اکثریت غیر ملکیوں پر مشتمل ہے اور یہ آبادی 1971 میں یو اے ای کے قیام کے بعد 30 گنا بڑھ چکی ہے۔
یو اے ای میں اگر بارش ہو جائے تو یہ ایک انتہائی نایاب منظر ہوتا ہے، اور اسکولوں کے بچے بارش ہوتے ہی کھڑکیوں کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ علاقوں میں بارش کے ایکسپیرینس کو تفریح کا حصہ بنا لیا گیا ہے، جیسے دبئی کی “ریننگ اسٹریٹ” جہاں 300 درہم کے عوض لوگ مصنوعی بارش میں چلنے کا مزہ لیتے ہیں۔
یواے ای میں “رین اینہانسمنٹ فورم” 2017 میں شروع ہوا تھا اور اب تک اس میں سات ایڈیشن ہو چکے ہیں۔ اس پروگرام نے گزشتہ دہائی میں 22.5 ملین ڈالر کی گرانٹس تقسیم کی ہیں۔
اس فورم میں ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے مختلف استعمالات پر بھی گفتگو کی۔ ماروان تیمیمی، اسٹیونز انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر نے ایک ایسا سسٹم متعارف کرایا جو مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے طوفانوں کی حقیقت کو ٹریک کرتا ہے۔
تاہم، اس جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے احتیاطی تدابیر بھی تجویز کی گئیں۔ Loïc Fauchon، صدر ورلڈ واٹر کونسل نے اس موقع پر خبردار کیا کہ ہمیں مصنوعی ذہانت اور انسانی ذہانت کے درمیان توازن قائم کرنا ضروری ہے۔
متحدہ عرب امارات کے اس نئے اقدام سے بارش کے مسئلے کا مستقل حل ممکن نہ ہو، مگر اس کا استعمال ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے جو خشک اور گرمی سے بھرے اس ملک کے لیے ایک نیا سمت دکھا سکتا ہے۔