آرام دہ ماحول، خواتین کو ہراسانی کا خوف نہ دھکم پیل کا ڈر، معذور افراد کے لیے خصوصی پروٹوکول سے مزین بسوں کا لاہورمیں آغاز کردیا گیا، یہ بسیں کوئی عام بسیں نہیں بلکہ یہ بجلی پر چلنے والی ’گرین بسیں‘ ہیں جس کا افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل کیا ہے۔
یہ بسیں گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے چلتی ہوئی مختلف سٹاپس پر رکتے ہوئے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچتی ہیں اور پھر وہاں سے واپس گرین ٹاؤن ڈپو سٹیشن جاتی ہیں۔
الیکٹرک بس کے آپریشن مینیجر محمد عثمان کے مطابق ’یہ بس مکمل طور پر الیکٹرک ہے۔ اس میں سفر کرنے کے لیے مسافر کو ایک کارڈ کی ضرورت پڑے گی جسے وہ بس کے دونوں داخلی و خارجی راستوں پر لگے ویلی ڈیٹرز پر سکین کریں گے۔‘
فی الحال اس بس کا کرایہ 20 روپے ہے اور ایک روٹ پر یہ چلتی نظر آئے گی،لاہور شہر میں چلنے والی ان بسوں کا گرین ٹاؤن ڈپو سٹاپ سے لاہور ریلوے سٹیشن تک کا یک طرفہ روٹ 27 کلومیٹر ہے۔
اس بس کی خاص بات یہ ہے کہ معذور افراد کے لیے بس میں چڑھنے کے لیے ریمپ کے علاوہ بس کے اندر بزرگ اور معذور افراد کے لیے دو نشستیں بھی مختص کی گئیں ہیں جنہیں بیٹھنے کے لیے کھولنا پڑتا ہے۔
ان سیٹوں کے ساتھ ہی وہیل چیئر یا بے بی کارٹ کو کھڑا کرنے کے لیے ایک بیلٹ بھی لگی ہے جس کٓے ساتھ آپ بے بی کارٹ یا وہیل چیئر باندھ سکتے ہیں تاکہ وہ چلتی بس میں ساکت رہ سکیں۔
بس میں خواتین کے لیے نارنجی رنگ کی مخصوص نشستیں تھیں جبکہ مردوں کے لیے مختص نشستوں کا رنگ ہرا تھا۔ بس میں 80 لوگوں کے سوار ہونے کی جگہ ہے جبکہ بس کی نشستیں صرف 30 ہیں۔
یہ بسیں حکومت کی نئی پالیسی کے تحت چلائی جارہی ہیں جس کو ماحول دوست پالیسی کا نام دیا جاتا ہے۔

پاکستان حکومت نے نئی پانچ سالہ الیکٹرک وہیکلز پالیسی 2025-30 کا مسودہ تمام شراکت داروں کی مشاورت سے تیار کر لیا ہے، ای وی پالیسی میں سرمایہ داروں کے لئے پرکشش مراعات کو مدِنظر رکھا گیا ہے، پاکستان میں 2025ء تک 30 فیصد الیکٹرک گاڑیاں چلانے جبکہ 2030ء تک 100 فیصد الیکٹرک گاڑیوں کے چلائے جانے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 2019ء میں بھی حکومتِ پاکستان نے الیکٹرک گاڑیوں کے اپنانے کو فروغ دینے کے لئے ایک پالیسی متعارف کرائی تھی، جسے ای وی پالیسی کا نام دیا گیا تھا، پالیسی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کرنے والوں کو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
پنجاب حکومت سموگ اورمہنگے ایندھن سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ اقدامات کررہی ہے، سب سے پہلے یہ کام لاہور سے شروع کیا گیا ہے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں نے مقامی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی ٹیکنالوجیز تیار کرنے پر کام شروع کردیا ہے، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی نے الیکٹرک گاڑی کا پروٹو ٹائپ تیار کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے بلکہ کمی ہے تو فقط وسائل کی۔
پاکستان میں اس وقت انتہائی کم تعداد میں الیکٹرک گاڑیاں موجود ہیں، آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ کرنے کےلئے اقدامات کی جارہی ہیں، پاکستان میں ہونری وی نام کی ایک لوکل چھوٹی الیکٹرک گاڑی موجود ہے جس کی قیمت 40 سے 50 لاکھ کے درمیان ہے، اس کے علاوہ آیڈی ای ٹرون بھی پاکستان میں پائی جاتی ہے جس کی موجودہ قیمت لگ بھگ 8 کروڑ ہے، بہت سی چھوٹی گاڑیاں اور رکشے بھی موجود ہیں۔
صرف الیکٹرک بسوں اور گاڑیوں کو ہی نہیں بڑھایا جارہا بلکہ اب تو الیکٹرک بائیکس بھی سڑکوں پردوڑتی نظرآتی ہیں۔

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز(لمز) میں ای وہیکلز پراجیکٹ کے ڈائریکٹرعمرآفاق کا کہنا ہے کہ ای بائیکس کی آفادیت کے بارے میں جہاں آگاہی پھیلانے کی بے حد ضرورت ہے وہیں ان بائیکس کی پائیداری سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں ای بائیکس کی خریداری میں اضافہ تب ہو گا جب حکومت ان کی خریداری اور رجسٹریشن پر مراعات دینے کی پالیسی اپنائے گی۔
ماحول کا صاف رکھنا یا پھر توانائی کو بچانا ہے تو ای ویز کا استعمال ضروری ہے، ای ویز سے ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی اور ساتھ ساتھ پیسہ بھی بچے گا۔
لاہور میں بجلی پر چلنے والی بائیکس کا کاروبارکرنے والے تاجرسمیع طارق اعوان کہتے ہیں کہ ای ویز لانا حکومت کا بہت اچھا اقدام ہے، ای ویز سے سموگ میں کمی آئے گی، ماحول صاف ہوگا، لوگوں کے اخراجات بچیں گے، الیکٹرک بائیک استعمال کرنے سے ماہانہ بیس ہزار روپے بچائے جاسکتے ہیں۔
حکومت کس حد تک تیار ہے؟ تاجر کہتے ہیں کہ حکومت پنجاب نوجوانوں کو سستی بائیکس اور آسان اقساط پر فراہم کررہی ہے، بڑے شہروں میں بڑی گاڑیاں بھی چلائی جارہی ہیں۔
اس سے قبل مسلم لیگ ن کی حکومت نے پنجاب میں ’میٹروبس‘ شروع کی پھراس بس کوسرخ بسوں سے لنک کیا گیا جو شہریوں کو بہترین سروس فراہم کررہی تھی۔ اب سرخ بسوں کا سفر ہری بسوں کی جانب بڑھ چکا ہے، شہری اسے’سبزانقلاب‘ سے جوڑ رہے ہیں ۔