سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے، جس کا مقصد امریکی صحت عامہ کے نظام میں قیمتوں کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔
یہ اقدام مریضوں کو طبی خدمات کی اصل قیمتوں سے آگاہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ بہتر اور سستی سہولیات کا انتخاب کر سکیں۔
صحت عامہ میں قیمتوں کی خفیہ پالیسی ختم کرنے کا فیصلہ
ٹرمپ طویل عرصے سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ انشورنس کمپنیاں اور اسپتال مریضوں کو علاج معالجے کے اخراجات واضح طور پر بتائیں تاکہ قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔
امریکی صحت عامہ کا نظام اب تک نجی معاہدوں اور خفیہ مذاکرات کے ذریعے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسپتال، ڈاکٹروں اور انشورنس کمپنیوں کے درمیان طبی سہولیات کی قیمتوں کو پوشیدہ رکھا جاتا تھا۔
نئی پالیسی کے فوائد اور ممکنہ اثرات
ٹرمپ انتظامیہ کے سابق مشیر اینڈریو برمبرگ نے کہا کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی عوام کے لیے ایک انقلابی قدم ہے، جو ٹرمپ کی صحت عامہ کی پالیسی کا اہم ستون ثابت ہوگا۔
تاہم، انشورنس کمپنیوں اور اسپتالوں کی تنظیموں نے اس اقدام پر اعتراض کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ پالیسی طبی اخراجات میں اضافے اور انشورنس کے پریمیم بڑھنے کا باعث بن سکتی ہے۔
نئے احکامات: اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے لیے سخت قوانین
وائٹ ہاؤس کے مطابق، اس حکم کے تحت محکمہ خزانہ، محکمہ محنت اور محکمہ صحت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اس قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
- اسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اصل قیمتیں ظاہر کریں، نہ کہ صرف اندازے۔
- طبی سہولیات کی قیمتوں کا موازنہ کرنے کے لیے ایک نیا نظام بنایا جائے گا۔
- قوانین پر عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ٹرمپ کی سابقہ پالیسی اور اس کی ناکامی
ٹرمپ نے 2019 میں بھی اسی طرح کا ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد کمزور رہا، اور 2022 میں صرف 14 فیصد اسپتال ہی اس قانون کی مکمل پاسداری کر رہے تھے۔
اس وقت حکومت نے خلاف ورزی پر روزانہ 300 ڈالر کا جرمانہ مقرر کیا تھا، لیکن یہ اقدام اسپتالوں کو قانون کی پابندی پر مجبور کرنے میں ناکام رہا۔
ماہرین کا ردعمل
پیٹینٹ رائٹس ایڈووکیٹ ڈاٹ آرگ کی بانی سنتھیا فشر نے کہا کہ یہ قانون امریکی صحت عامہ کے نظام میں انقلابی تبدیلی لائے گا۔ ان کے مطابق، اگر مریضوں کو قیمتوں کی صحیح معلومات ملیں تو وہ مہنگی سہولیات کی جگہ سستی اور معیاری سہولیات کا انتخاب کر سکیں گے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا، “اگر کوئی ایم آر آئی 3,000 ڈالر میں کروا رہا ہے جبکہ وہی معیار 300 ڈالر میں دستیاب ہو، تو مریض بہتر انتخاب کر سکیں گے۔ اسی طرح، 12,000 ڈالر کی کولونواسکوپی کی جگہ وہ 1,000 ڈالر کی معیاری سروس کو چُن سکتے ہیں۔”
ٹرمپ کا یہ فیصلہ صحت عامہ کے شعبے میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی عملی طور پر کیسے نافذ ہو گی، اس کا انحصار مستقبل میں ہونے والے اقدامات اور انشورنس کمپنیوں کے ردعمل پر ہوگا۔